اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے ماچس کی تیلی جلا کر سگریٹ
سلگائی اور بے چینی سے کش لیا گاڑھے دھوئیں کو پھیپھڑوں میں اُتار کر اسکی
بے چینی اور کپکپاہٹ کو گویا قرار آگیا۔چند کش لینےکے بعد وہ پرسکون ہو گیا
۔نصف سگریٹ پینے کے بعد اسے بجھا کر میلی سی قمیض کی جیب سے مڑی تڑی سگریٹ
کی ڈبیا نکالی اور بچی ہوئی سگریٹ اس میں ڈال کرمتاع حیات کی طرح اسے
سنبھال کر جیب میں ڈال کر تھپتھپایا۔کچرا کنڈی سے نکل کر سڑک پہ آیا تو
ٹھنڈی ہوا نے اس کا استقبال کیا۔ کپکپکی نے اسے اپنے ہاتھ بغل میں دابنے پہ
مجبور کر دیا۔جنوری کے اوائلی دن تھے ۔سڑک پہ اکا دکا ٹریفک تھی ۔فٹ پاتھ
پہ اس سے آگے چند منچلے قہقہے لگاتے جا رہے تھے ۔پھر وہ یخنی فروش کے پاس
رک گئے اور یخنی فروش ان کا آرڈر تیار کرنے لگا ۔یخنی کے پتیلے کے نیچے
ہلکی سی آگ جل رہی تھی۔پتیلے کے اوپر ایک مرغ لٹکا ہوا تھا۔پتیلے سے اشتہا
آمیز گرم بھاپ اُٹھ رہی تھی ۔لڑکے جانے کس بات پہ بحث کر رہے تھے ان کے گرم
لباس ان کو امیر گھرانے کا فرد ثابت کر رہے تھے۔ اسی اثنا میں وہ ان کے
قریب پہنچ گیا یخنی کی خوشبو نے اس کو احساس دلایا کہ وہ صبح سے بھوکا
ہے۔اس کی نظر لڑکوں کے ہاتھوں میں تھمے پیالوں پہ تھی بے اختیار اس نے
اپنےہونٹوں پہ زبان پھیری ۔ریڑھی والے کی نظر اس پہ پڑی۔یخنی پینی؟ اس نے
گاہک سمجھتے ہوئے اس سے پوچھا ۔اس نے سر ہلا دیا ۔آن واحد میں گرم یخنی کا
پیالہ اس کے ہاتھ میں تھما دیا گیا۔اس نے فورأ پیالے کو منھ لگا لیا۔
حرارت بخش محلول نے سردی کو کافی حد تک کم کردیا۔لڑکے ابھی بھی وہیں کھڑے
تھے۔وہ یخنی پی چکا تو پیالا ریڑھی پہ رکھ کر آگے بڑھا ہی تھا کہ ریڑھی
والے نے آواز لگائی او بابو پیسے تو دے جاؤ۔ پپ پیسے تو نہیں میرے پاس وہ
منمنایا۔کیا پیسے نہیں تو یخنی کیوں پی تیری تو ۔ریڑھی والے نے ایک گھونسا
اسے جڑ دیا۔وہ تیورا کر نیچے گرا ۔او کیا ہوا؟ لڑکے ان کی طرف متوجہ
ہوئے۔سر جی مفت خورا ہے یخنی پی لی اب کہتا پیسے نہیں ۔ریڑھی والے کا بس
نہیں چل رہا تھا کہ اسے مار ہی ڈالے۔او بھائی یہ تو ہل نہیں رہا پار کر دیا
تم نے ۔۔لڑکے اس پہ جھکے ہوئے تھے۔وہ ساکت پڑا تھا۔ابے پھوٹ لے یہاں سے یہ
تو گیا۔ایک لڑکا چلایا۔اور سب اسے چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔ریڑھی والے نےبھی
سامان سمیٹا اور اڑن چھو ہو گیا۔وہ کافی دیر پڑا رہا پھر کراہتے ہوئے اٹھ
بیٹھا۔اردگرد کوئی نہ تھا۔بھا گ گئے سالے وہ بڑبڑایا۔اور لنگڑاتے ہوئے آگے
بڑھا۔
گھر کے سامنے پہنچ کر لکڑی کے دروازے کو بجایا ۔غریب کی قسمت کی طرح گھر
بھی تاریکی میں ڈوبا ہوا واپڈا کی کرم فرمائی کو ظاہر کر رہا تھا ۔اس نے
ایک بار پھر دروازہ بجایا مگر کوئی آواز نہ پا کر اس پہ ایک لات رسید کی
۔دروازے کے دونوں پٹ کھل گئے تب اسے علم ہوا کہ دروازہ پہلے سے ہی کھلا تھا
۔بہنوں کو مغلظات بکتا ہوا اندر داخل ہوا کچے صحن میں پڑے لوٹے سے ٹھوکر
کھائی اور لڑکھڑا کر خود کو گرنے سے بچایا۔اس کے غصے میں دیوانگی در آئی
۔کمرا اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔دو تین گالیاں دینے کے بعد اس نے بڑبڑا تے
ہوئے جیب سے ماچس نکالی اور سامنے طاق میں پڑے چراغ کو جلایا۔ملگجی سی
روشنی نے اندھیرے کو نگل لیا اس کی نظر کونے میں دبکی اپنی بہنوں پہ پڑی
۔روٹی ایک بہن کے منہ سے نکلا۔دوسری نے بھی سوالیہ نظروں سے اس کے خالی
ہاتھوں کو دیکھا۔وہ دھپ سے ادھڑی چارپائی پہ بیٹھ گیا اس سر جھکائے کچھ
سوچا اور پھر باہر نکل گیا ۔گلی کے نکڑ والی دکان پہ پہنچ کر اس نے جیب میں
ہاتھ مارا ۔پھر دوسری جیب سے پچاس کا نوٹ نکالا حسرت سے اسے دیکھا اور
دکاندار کے حوالے کر دیا ۔آٹے والا شاپر اٹھا کر گھر لوٹا کنڈی چڑھائی اور
ایک کونے میں بنے تین اینٹوں کے بنے چولھے کے پاس آ بیٹھا۔دونوں بہنیں بھی
باہر آگئی تھیں بجلی کے آنے سے کم وولٹج والا زردی مائل بلب جل رہا تھا اس
نے جگ ایک بہن کو پکڑاتے ہوئے پانی لانے کا آرڈر دیا وہ سر کھجاتے ہوئے صحن
میں لگے نلکے کی طرف بڑھ گئی ۔اس نے آٹا گوندھ کر روٹی پکائی اور دونوں کے
آگے رکھی۔پانی کے ساتھ نوالے نگل کر دونوں اس کے ساتھ کمرے میں آگئیں اور
جھلنگا سی چارپائیوں پہ لیٹ گئیں ۔وہ بھی اپنی چارپائی پہ لیٹ گیا ۔دونوں
بازوؤں کا تکیہ بنائے سوچوں میں گم ہوگیا۔اس کی آنکھوں کے گوشے نم ہو گئے۔
دس برس پہلے اس کی زندگی بھی خوشگوار تھی امی ابو دادا دادی سب اس کے گرد
موجود تھے۔اس سے دو بڑی بہنیں ابنارمل تھیں بڑی منتوں مرادوں کے بعد وہ
پیدا ہوا ۔وہ صحت مند اور نارمل تھا ۔خوشیاں منائی گئیں ۔مٹھائی بانٹی گئی
۔لاڈ پیار سے اس کی پرورش ہونے لگی۔ وہ آٹھویں جماعت میں تھا کہ اس کے والد
کو اچانک ہارٹ اٹیک ہوا اور چل بسے۔اس کے والد بھی اکلوتی اولاد تھے۔ماں
باپ کی دنیا اندھیر ہو گئی۔دو سال بیتے تو دادا بھی چل بسے ۔باپ کی پنشن سے
گھر چلتا رہا ۔ایک سال بیتا تو دادی بھی چل بسی۔میٹرک کے بعد اس نے تعلیم
کو خیر باد کہہ دیا نہ وسائل تھے نہ سکت۔ماں کسی نہ کسی طرح سسٹم چلاتی رہی
۔وہ کبھی ورکشاپ پہ بیٹھا تو کبھی کسی دکان پہ۔مگر ٹک کر کچھ نہ کر سکا موت
کے مہیب سائے اسےڈراتے رہتے ۔وہ سب سےکٹ کر رہ گیا رشتہ دار اس کی ماں کی
مدد کر دیا کرتے تھے ۔مگر کب تک۔پھر ایک سیاہ رات اس کی ماں بھی دل کے اٹیک
سے چل بسی۔اب وہ تھا اور دو ابنارمل بہنیں ۔اسے کچھ سمجھ نہ آتی کہ آخر یہ
کیسی آزمائش ہے۔اس کے دادا کہا کرتے تھے اللہ اپنے پیاروں کی آزمائش
کرتا۔کیسا پیار سب چھین لیا ۔وہ یہ گورکھ دھندا سمجھ نہیں پایا۔کیا کرے
کہاں جائے۔رشتہ داروں نےایک مستری سے کہہ سن کر کام پہ لگوایا کہ دال روٹی
تو چلے کپڑے لتے کوئی نہ کوئی دے دیتا۔مگر روز روٹی کون دیتا۔ وہ سارا دن
خاموشی سے سر نیہوڑے کام کرتا اورشام کو سالن روٹی پکڑتا اور گھر کی راہ
لیا ۔ابھی تو گھر ذاتی تھا دو کمرے ایک نلکا ایک باتھ اور ایک چولھا جس کو
بغیر چھت کا کچن سمجھا جاتا ماں تھی تو لیپ کے رکھتی اب کون رہا جو چولھا
چوکی سنبھا لتا۔بس یہ زندگی تھی ۔مزدوروں نے نشے کی لت بھی لگا دی تھی اور
وہ بھی سب بھلا دینا چاہتا تھا ۔نہ اسے رب کی سمجھ آتی نہ اس کی تقسیم کی
۔اسے لگتا رب نے اس کے لیے تقدیر میں ایک ہی لفظ لکھا ہے۔یتیم ۔وہ خود کو
ایسا ہی سمجھتا ۔عمر کے تیس سال بیت جانے کے بعد بھی وہ وہیں کھڑا ہے۔جہاں
وہ ماں کی وفات پہ کھڑا تھا۔اور خاموش لبوں پہ ایک ہی سوال میرے ساتھ ہی یہ
سب کیوں؟؟۔۔ |