چنانچہ الله تبارک و تعالیٰ کا
ارشاد ہے : ”ولا تقتلوا اولادکم خشیة املاق، نحن نرزقھم وایاکم، ان قتلھم
کان خطاً کبیرا“ ( بنی اسرائیل :۳۱)
ترجمہ:” اپنی اولاد کو افلاس کے خدشے سے قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیں
گے اور تم کو بھی، بیشک ان کا قتل ایک بڑی خطا ہے“۔ چنانچہ اسلام نے آکر
ایک عورت کو زندہ رہنے کا حق عطا کیا۔ یہی نہیں بلکہ ان بچیوں کی صحیح
تعلیم و تربیت اچھے انداز میں کرنے کی تعلیم دی اور اس پر اجر مقرر کیا۔
چنانچہ رحمة للعالمین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے : ”جس شخص
نے اپنی دو بیٹیوں کی اچھی طرح پرورش کی اور ان کا خیال رکھا اور محبت کے
ساتھ انہیں پالا وہ شخص جنت میں داخل ہوگا“
اسی طرح اسلام نے عورت کو بحیثیت بیوی، ماں، بہن ان تمام رشتوں کو حقیقی
معنوں میں ایک مقام عطا کیا ،ان سب کے الگ الگ حقوق بیان کیے، الغرض یہ کہ
اسلام نے خواتین کو معاشرتی حقوق عطا کیے جن کی بدولت پاکیزہ رشتے وجود میں
آئے، اسلام نے ان کا احترام کرنے، ادب کرنے کا حکم دیا، اسلام میں جہاں
والد کے حقوق بیان کیے گئے، وہیں والدہ کے بھی بہت سے حقوق بیان کیے گئے۔
ماں کا حق تو یہاں تک بیان کیا کہ والدہ کے قدموں تلے جنت ہے، اس کی
نافرمانی کرنے کو گناہِ کبیرہ قرار دیا گیا۔
۴۔اسلام میں عورت کے تعلیمی حقوق
اسلام نے آج سے چودہ سو برس پہلے عورت کے حقوق کی بات اس وقت کی جب عورت کو
کسی بھی قسم کے حقوق حاصل نہیں تھے، ان کی ذاتی حیثیت املاک سے بڑھ کر نہیں
تھی، اسلام نے اس وقت خواتین کی تعلیم پر زور دیا، جس وقت تمام مذاہب کے
موجود ہوتے ہوئے بھی دنیا میں تعلیم نسواں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ سیرت
طیبہ اور صحابہ کے دور میں ہمیں ایسی کئی مثالیں ملیں گی، جن میں عورتوں کی
تعلیم کے لئے باقاعدہ جگہ اور اوقات مقرر تھے، جہاں ان کو باقاعدہ سے تعلیم
دی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد صحابیات عالمہ تھیں اور حضرات صحابہ کرام
رضوان الله علیہم اجمعین ان سے مختلف فیہ مسائل کے متعلق رجوع کیا کرتے تھے
،سب سے اہم مثال ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنھا کی
تھی۔ جن سے صحابہ کرام اور خلفاء راشدین تک ہدایت ورہنمائی حاصل کیا کرتے
تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ سے تقریباً ۱۲۱۰حادیث مروی ہیں۔ اسی طرح ایسی کئی
اور صحابیات کا تذکرہ تاریخ میں ملتا ہے جو اپنے زمانے کی عالمہ تھیں جن سے
مرد حضرات یعنی صحابہ کرام رہنمائی حاصل کیا کرتے تھے۔
۵۔اسلام میں عورت کے قانونی حقوق
اسلامی قانون کے مطابق مرد اور عورت بالکل برابر ہیں، اسلامی شریعت مرد اور
عورت کے جان و مال کو یکساں تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اگر کوئی مرد کسی عورت کو
قتل کردے تو اسے بھی سزائے موت دی جائے گی،ا سی طرح اگر کوئی عورت کسی مرد
کو قتل کردے تو اس کے لئے بھی وہی سزا مقرر ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد باری
تعالیٰ ہے : ”یٰا ایھا الذین اٰمنوا کتب علیکم القصاص فی القتلیٰ،
الحربالحر والعبد بالعبد والانثیٰ بالانثیٰ“ (البقرہ :۱۷۸)
ترجمہ:”اے لوگوں جو ایمان لائے ہو تمہارے لئے قتل کے مقدموں میں قصاص کا
حکم لکھ دیا گیا ہے۔ آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا
جائے، غلام قاتل ہو تو وہی غلام قتل کیا جائے اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو
تو اس عورت سے ہی قصاص لیا جائے“۔
اسی طرح دیگر جرائم کے اندر بھی عورت اور مرد میں کوئی تفریق نہیں رکھی
گئی، چنانچہ اگر کوئی مرد چوری کرتا ہوا پکڑا جائے اور اس پر چوری کا جرم
ثابت ہو جائے تو اس کے لئے قطع ید…یعنی ہاتھ کاٹنے …کا حکم ہے، اسی طرح اگر
کوئی عورت چوری کی مرتکب ہوتی ہے تو اس کے لئے بھی بلاتخصیص ہاتھ کے کاٹنے
کا حکم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :”والسارق والسارقة فاقطعوا ایدیھما جزآء
بماکسبا نکالا من الله والله عزیز حکیم“ (المائدہ:۳۸)
ترجمہ:”اور چور خواہ مرد ہو یا عورت، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو یہ ان کی کمائی
کا بدلہ ہے اور الله تعالیٰ کی طرف سے عبرتناک سزا۔ الله کی قدرت سب پر
غالب ہے اور وہ حکمت والا ہے “۔
اسی طرح اسلام نے عورت کو گواہی کا بھی حق دیا ہے جس کے بارے میں یہودی ربی
بیسویں صدی کے اندر غور و فکر کر رہے تھے کہ آیا عورت کو گواہی دینے کا حق
ہونا چاہیے یا نہیں۔ اسلام نے کسی عورت پر بہتان طرازی کے معاملے میں چار
گواہوں کی شہادت لازمی قرار دی ہے، گویا اسلام کی نظر میں کسی عورت کی عصمت
و عفت پر بلا تحقیق انگلی اٹھانا ایک بہت بڑا جرم قرار دے دیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :” والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوا باربعة شھداء
فاجلدوھم ثمانین جلدة ولا تقبلوا لھم شھادة ابدا“ (النور :۴)
ترجمہ:” اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں اور پھر چار گواہ لے کر
نہ آئیں، ان کو اسی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو اور وہ خود
ہی فاسق ہیں“۔
اس کے برعکس آج کے معاشرے میں جب جس شخص کا دل چاہتا ہے شریف عورتوں پر
الزام تراشی کرنے لگتا ہے۔ ان کے کردار اور اخلاق کے بارے میں جو منہ میں
آتا ہے، کہتا چلا جاتا ہے۔ یہی وہ سب سے بڑا فرق ہے اسلام کا اور دیگر
ادیان کا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں عورت کے عزت ووقار کو کس قدر
اہمیت دی گئی ہے۔
۶۔اسلام میں عورت کے سیاسی حقوق
اسلام نے عورتوں کو آزادی اظہارِ رائے کا بھی حق دیا ہے اور اس سلسلے میں
قانون سازی کے دوران عورتوں کی رائے کو اہمیت بھی دی گئی ہے، چنانچہ مشہور
روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر فاروق صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین
کے ساتھ حق مہر کے مسئلے پر گفتگو فرما رہے تھے اور حضرت عمر کی خواہش
تھی کہ حق مہر کی حد مقرر کردی جائے۔ کیونکہ نوجوانوں کے لیے نکاح کرنا
مشکل ہوتا جا رہا تھا، اسی اثناء میں پیچھے سے ایک بوڑھی عورت اٹھی اور اس
نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی :
”وان اردتم استبد ال زوج مکان زوج واٰتیتم احدٰلھن قنطارًافلا تاخذوامنہ
شیئا“ (النساء :۲۰)
ترجمہ :” اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانے کا ارادہ کرو تو خواہ تم
نے اسے ڈھیر سارا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا“۔
اس کے بعد اس عورت نے کہا کہ: جب قرآن یہ اجازت دیتا ہے کہ عورت کو حق مہر
میں مال کا ڈھیر بھی دیا جاسکتا ہے تو عمر کون ہوتا ہے حد مقرر کرنے والا؟
یہ سن کر حضرت عمر فاروق نے فوراً اپنی رائے سے رجوع کر لیا اور فرمایا
کہ” عمر غلط تھا اور یہ عورت درست کہہ رہی تھی “۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا
ہے کہ اسلام میں ایک عام عورت کو بھی یہ حق حاصل تھا کہ وہ خلیفہ وقت کے
ساتھ اختلاف کی جرأت کر سکے اور اس پر اعتراض کر سکے۔
آخری گزارش
سوچنے کی بات یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کے معاملے میں اسلام اور مسلمانوں کے
خلاف ہونے والے تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود ہر سال مغربی خواتین کی ایک
بڑی تعداد اسلام قبول کررہی ہے، مغرب کی یہ الزام تراشی کہ اسلام خواتین پر
پابندیاں عائد کرتا ہے اور عورت کو ذیلی حیثیت دیتا ہے، اسلام دشمنی کے سوا
اور کیا ہو سکتی ہے۔ وہ معاشرہ جو عورت کے مقابلے میں کتے کو زیادہ اہمیت
دیتا ہے، اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ عورتوں کے حقوق کا علمبردار ہے، سوائے
اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ سب کچھ جان کے بھی انجان رہنا، بی بی سی
کی جانب سے ۲۰۰۳ء میں کیے گئے سروے کے مطابق 78فیصد مردوں اور عورتوں نے
کہا کہ: اگر ان کے پڑوس میں کوئی شخص اپنے پالتو کتے کو پیٹ رہا ہوگا تو وہ
پولیس کو اطلاع دے کر اسے بچانے کی کوشش کریں گے، جب کہ اس کے برعکس کسی
گھر میں کسی مرد کی جانب سے اپنی بیوی یا دوست عورت پر تشدد کیے جانے کی
صورت میں پولیس کو اطلاع دینے پر صرف۵۳فیصد لوگوں نے آمادگی ظاہر کی۔ اس
میں کوئی شک نہیں کہ مغرب میں عورت آج بھی جدید جاہلیت کے عہدِ مظلومیت سے
گزر رہی ہے، ہدایت الٰہی سے محروم تہذیب نے عورت کو عملاً مردوں کا کھلونا
بنا دیا ہے، مغرب کے اہلِ دانش اس حقیقت کا برملا اعتراف کرتے ہیں، چنانچہ
ڈاکٹر ہنری میکاوٴ(Dr.Henry Makow)اپنے ایک معرکہ آراء تجزیے میں لکھتے
ہیں، جس کا نام ہے ”امریکی نسانیت کی درگت: بکنی بمقابلہ برقعہ“ (The
Debauchery of american Womanhood:Binkini vs Burka) ملا حظہ کیجیے : ”اپنے
کمرے کی دیوار پر میں نے ایک تصویر برقعے میں مکمل طور پر ڈھکی ہوئی ایک
مسلمان عورت کی اور اس کے ساتھ ہی ایک اور تصویر مقابلہ حسن میں شریک ایک
امریکی عورت کی لگا رکھی ہے، جس کے جسم پر سوائے ایک بکنی کے کچھ نہیں ہے۔
ان میں سے ایک عورت لوگوں کی نگاہوں سے پوری طرح چھپی ہوئی ہے، جب کہ دوسری
ان کے سامنے مکمل طور پر عریاں ہے۔ یہ دو انتہائی نام نہاد تہذیبوں کے
تصادم کے بارے میں بہت کچھ بتا رہی ہیں۔ عورت کا کردار کسی بھی ثقافت کا دل
ہے، مشرقی وسطیٰ پر مسلط کی گئی جنگ عربوں کا تیل چرانے کے علاوہ برقعے کو
بکنی سے بدل کر، ان کے بدن سے ان کے مذہب اور ثقافت کا لباس اتار دینے کے
لیے بھی ہے“۔ آگے چل کر ڈاکٹر میکاوٴ لکھتے ہیں :
”میری نگاہ میں برقعہ اپنے شوہر اور اپنے اہل خانہ کے لیے عورت کی تخصیص
اور تقدیس کی علامت ہے، صرف وہی اسے دیکھتے ہیں، برقعہ گھریلو زندگی کی
رازداری اور اہمیت کو مستحکم کرتا ہے، مسلمان عورت کی سرگرمیوں کا محور اس
کا گھر ہے، یہ وہ آشیانہ ہے جہاں اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں اور پروان چڑھتے
ہیں،وہ”گھر“ بنانے والی ہے۔ یہ گھر خاندان کی روحانی زندگی کو سیراب کرنے
والا سر چشمہ ہے، اس کے بچوں کی پرورش اور تربیت کا مرکز ہے اور اس کے شوہر
کی تقویت کا باعث اور پناہ گاہ ہے۔ اس کے برعکس بکنی پوش امریکن بیوٹی
کوئین ٹی وی پر عملاً عریاں حالت میں لاکھوں لوگوں کے سامنے اتراتی ہوئی
آتی ہے۔ اپنی حد تک تو وہ عورتوں کے حقوق کے علمبردار اور اپنی مالک آپ ہے
مگر عملاً وہ پبلک پراپرٹی ہے، وہ کسی کی نہیں اور سب کی ہے۔ وہ اپنے جسم
کو سب سے زیادہ بولی لگانے والے کے ہاتھ فروخت کرتی ہے، وہ خود کو ہمہ وقت
نیلام کرتی رہتی ہے۔ امریکا میں عورت کی سماجی وثقافتی حیثیت کا پیمانہ اس
کی صنفی کشش ہے ۔“… (خاتونِ مغرب کا حالِ زار اور اسلام ،ثروت جمال اصمعی
،روزنامہ جنگ۸ نومبر ۲۰۰۸ء)
یہ تجزیہ کسی مسلمان شدت پسند کا نہیں بلکہ ایک انگریز دانشور کا ہے، جو
اسی معاشرے کا رہنا والا ہے۔ اس تجزیے کے مطابق امریکی معاشرے میں عورت کے
جنسی کھلونا بن جانے اور اس کے نتیجے میں خاندانی نظام کے بکھر جانے، بچوں
کا ممتا کی محبت سے محروم ہو جانے اور بالخصوص معاشرے کا تباہی کے راستے پر
گامزن ہوجانے کا ذکر بڑی وضاحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اس تجزیے کو پڑھ کر یہ
بات عیاں ہو جاتی ہے کہ جو معاشرہ حقوق نسواں کا پرچار کر رہا ہے اور خود
کو اس کا علمبردار گردانتا ہے، اس معاشرے کی اپنی حالت کس قدر دگرگوں ہے،
مغربی معاشرے میں رہنے والی عورت مغرب کے تمام تر دعوؤں کے باوجود آج بھی
اپنا کوئی مقام حاصل نہیں کرپائی ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے تمام تر دعوؤں
کے باوجود خود انہی کے اپنے ملک سے شائع ہونے والی رپورٹیں اور سروے ان کے
اپنے منہ پر طمانچہ ہیں۔ درحقیقت اسلام ہی وہ کامل مذہب ہے جو عورت کو ماں،
بہن، بیوی اور بیٹی کی حیثیت سے احترام، تقدس اور محبت کے بلند مدارج پر
فائز کرتا ہے، مغربی تہذیب میں اس کا کوئی تصور بھی نہیں پایا جاتا۔ لہٰذا
یہ کہنا اور سمجھنا کہ اسلام میں عورتوں کے حقوق کا سرے سے ہی کوئی تصور
نہیں، نہایت نادانی اور ناسمجھی کی بات ہے۔ یاد رکھئے! صحت مند معاشرے کے
قیام کے لئے عورت کا وجود اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ مرد کا۔ لیکن عورتوں کو
بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ الله تعالیٰ نے ان کے حقوق کے ساتھ کچھ
قیودات بھی مقرر کی ہیں جن کی پاسداری خود انہی کی بقاء ومفاد کی ضمانت ہے،
لہٰذا تمام مسلمانوں سے یہی گزارش ہے کہ اپنے مذہب کی قدر جانیں اور اسلام
کے ہر پہلو کو اپنی عملی زندگی میں شامل کریں، اسی میں ہماری بقاء ہے۔
غیروں کی چالبازیوں میں آکر اعتراض کرنا اور اپنے دین میں برائی نکالنا
نہایت آسان ہے، غیروں کی تہذیب اور ثقافت نے آج تک ہمیں نہ کچھ دیا ہے اور
نہ ہی آئندہ ان سے کسی اچھائی کی امید کی جاسکتی ہے۔ بقول شاعر:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدا ر ہوگا
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ جون ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ
5 |