الله سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد
گرامی ہے :
”ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف وللرجال علیھن درجة والله عزیز حکیم “ (
البقرہ: ۲۲۸)
ترجمہ” :عورتوں کے لئے بھی معروف طریقہ پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے
حقوق ان پر ہیں، البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے۔ اور الله
تعالیٰ سب پر غالب اختیار رکھنے والا اور حکیم ہے“۔
دوسری جگہ الله جل شانہ کا ارشاد گرامی ہے :
”الرجال قوامون علی النساء بما فضل الله بعضھم علیٰ بعض و بما أنفقوا من
اموالھم “ (النساء :۳۴)
ترجمہ ”: مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بناء پر الله تعالیٰ نے ان میں سے ایک
کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بناء پر کہ مرد اپنے مال میں سے خرچ کرتے
ہیں “۔
حقوق نسواں پر بحث وتمحیص صدیوں سے جاری ہے، لیکن کچھ عرصے سے اس میں کافی
شدت آگئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ وہ کون سے حقوق ہیں جن کے لیے خواتین یا ان کے خیر خواہ
کوشاں ہیں؟ مزید یہ کہ آج تک عورت کو بحیثیت عورت جو مقام و مرتبہ حاصل رہا
ہے، اس کے دلانے میں کس کا کیا کردار ہے؟
عموما ً غیرمسلم دنیا میں عورتوں کے متعلق دو نظریے ملتے ہیں، اور دونوں
افراط و تفریط کا شکار ہیں۔
پہلا نظریہ: کہ عورت اوصاف حمیدہ کا ایک حسین مرقع، فرشتہ صفت، پیکر حیاء،
ایثار و وفا کی مورت، عقیدت کا مجموعہ، سراپا شفقت اور زندگی کے تمام تر
مسائل کا حل ہے، لیکن اس نظریے کا وجود درحقیقت شاعرانہ تخیل تک ہی محدود
ہے۔
دوسرا نظریہ: اس کے برعکس ہے کہ: عورت ایک ناپاک وجود سے عبارت ہے، اور
دنیا میں پائی جانے والی تمام تر برائیوں اور مصیبتوں کا اصل سبب اور بنیاد
عورت کا وجود ہے، چنانچہ اس ضمن میں ایک یورپین مفکر کا قول ہے کہ: ”میں
مرد کو اس وجہ سے پسند نہیں کرتا کہ وہ مرد ہے بلکہ اس لئے پسند کرتا ہوں
کہ وہ عورت نہیں ہے “
اسی طرح مشہور یونانی فلاسفر سقراط کے خیال میں” عورت سے زیادہ فتنہ و فساد
کی کوئی اور چیز نہیں“
ایک اور شہرت یافتہ یونانی فلاسفرافلا طون کے بقول: ”سانپ کے ڈسنے کا تو
دنیا میں علاج موجود ہے، لیکن عورت کے شر کا کوئی علاج ممکن نہیں، اس لئے
اگر ممکن ہو تو اس مجسمہ شر کو ذلت کے آخری غار میں پھینک دو “۔
یونان کے ان قدیم فلاسفروں کے افکار اور نظریات کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں
عورت کو باعث ذلت گردانا گیا اور یونانی لوگ عورتوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح
بیچنے اور اسے ذاتی ملکیت کی طرح استعمال کرنے لگے۔ یہی نہیں بلکہ روم، مصر،
عراق، چین، عرب، ہندوستان، ایران ان تمام ممالک کے اندر صنف نازک کے ساتھ
ہر طرح کا ظلم روا رکھا گیا، بازاروں اور میلوں میں اس کی خریدوفرخت کی
جاتی رہی، ان سے حیوانوں سے بد تر سلوک کیا جاتا رہا، یونان میں تو ایک
عرصے تک یہاں تک بحث کی جاتی رہی کہ اس کے اندر روح موجود ہے بھی یا نہیں۔
اہلِ عرب اس کے وجود کو ہی موجب عار سمجھتے تھے، بعض شقی القلب اپنی لڑکیوں
کو زندہ درگور کردیتے تھے، ہندوستان کے بعض علاقوں میں آج بھی یہ حال ہے کہ
شوہر کی میت کے ساتھ عورتوں کو بھی زندہ جلا دیا جاتا ہے، راہبانہ مذاہب
اسے معصیت کا سر چشمہ، گناہ کا دورازہ سمجھتے تھے اور اس کے ساتھ تعلق
رکھنے کو روحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تصور کیا جاتا تھا، الغرض یہ کہ
دنیا کی بیشتر تہذیبوں میں اس عورت کی کوئی سماجی حیثیت نہیں تھی، وہ حقیر
اور ذلیل سمجھی جاتی تھی، اس کے معاشی اور سیاسی کوئی حقوق نہیں تھے، وہ
اپنی مرضی سے کسی قسم کا کوئی تصرف نہیں کر سکتی تھی، وہ ابتداء میں باپ کی
پھر شوہر کی اور اس کے بعد اپنی اولاد کے تابع و محکوم تھی، ان کے اقتدار
کو چیلنج کرنے کی اسے اجازت نہیں تھی، اس پر ہونے والے ظلم و ستم کی داد
رسی کرنے والا کوئی نہیں تھا اور نہ ہی اسے یہ حق اور آزادی حاصل تھی کہ وہ
اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر داد رسی کی طلبگار بنے۔
یہ تو قدیم تہذیبوں کا حال تھا جن میں عورت کو نہ تو کوئی مقام حاصل تھا
اور نہ ہی اس کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر صدائے
احتجاج بلند کر سکے، دورِ حاضر کی جدید تہذیب کے اندر بھی آزادی حقوق نسواں
کا جو ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے، اس کا حال بھی ان قدیم تہذیبوں سے کچھ مختلف
نہیں، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ صرف ظاہری لفاظی ہے، حقیقت حال
وہی ہے جو دورِقدیم میں تھی، اس لیے کہ دورِ قدیم میں عورت سے جو کام اسے
سامان عیش اور خادمِ بے مول کہہ کر لیے جاتے تھے، دورِ جدید میں وہی کام اس
سے حقوق نسواں کے خوبصورت نعروں کی آڑ میں لیے جارہے ہیں۔ آج عورت کو گھر
کی پاکیزہ اور محفوظ چار دیواری سے کھینچ کر اسے شاہراہِ عام پر لایا گیا
ہے۔ لیکن وہ عورت آج بھی اسی نوعیت کے مظالم اور مسائل کا شکار ہے جن مسائل
اور مظالم کا شکار دورِ قدیم کی عورت تھی۔ بحیثیتِ نوع، عورت کے حالات میں
کچھ زیادہ فرق نہیں آیا وہ مظلوم کی مظلوم ہی رہی، اس کے حقوق پر آج بھی
دست درازی کی جارہی ہے۔ آزادی نسواں کے نام پر گھر کی چار دیواری سے باہر
لائی جانے والی عورت پر آج بھی گھر کی ذمہ داریاں اسی طرح برقرار ہیں اور
اس کے ساتھ ہی اسے ایک اور فکر بھی لاحق ہو گئی ہے وہ فکر اپنے معاشی
انتظام کی ہے جس کے حصول کے لئے کوشاں یہ عورت جب معاشرے میں قدم رکھتی ہے
تو نا صرف یہ کہ اسے اپنی عزت کی بقاء بلکہ ذریعہ کفالت کے حصول کے لئے جو
جدوجہد کرنا پڑتی ہے اور آئے دن اسے اس کے لئے جس قسم کے تشویشناک مسائل کا
سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ مسائل کسی سے مخفی نہیں۔
مقام حیرت ہے کہ مغربی تہذیب کے دل دادہ خود عورت کے ساتھ جس قسم کا ناروا
سلوک روا رکھتے ہیں، اس کے سامنے دورِقدیم کے مظالم بھی محض فرسودہ لگتے
ہیں۔ مگر اس کے باوجود وہ اس کا الزام دوسروں کے سر ڈالنے پر تُلے ہوئے
ہیں۔
جہاں تک اسلام میں حقوق نسواں کا تعلق ہے، اگر ہم اس صورت حال کو اس طرح
دیکھیں، جس طرح اس کی عکاسی مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے کی جارہی ہے تو
لا محالہ ہمیں بھی اس بات سے اتفاق کرنا پڑے گا کہ اسلام نے جو حقوق خواتین
کو دیئے ہیں وہ واقعی فرسودہ اور ناکافی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب میں
خواتین کی آزادی کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ درحقیقت عورت کے احترام کی
نفی اور اس کی روح اور جسم کا استحصال ہے، جس پر آزادی نسواں کا خوش نما
پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ مغربی معاشرہ مسلمانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ خواتین
کو حقوق دیے جائیں، لیکن خود اس معاشرے نے خواتین کو کیا دیا ہے؟ یہی کہ
عملی طور پر اسے داشتہ اور طوائف کی سطح پر لے آیا ہے، اسے ایک ایسی شے بنا
ڈالا ہے جس سے مرد لطف اندوز ہوتے ہیں، آرٹ اور کلچر کے خوبصورت پردوں کے
پیچھے اس کا کس قدر استحصال کیا جاتا ہے کہ عملاً وہ جنس کے متلاشیوں اور
کاروباریوں کے ہاتھوں کھلونا بن کے رہ گئی ہے، جس کا اسے احساس بھی نہیں۔
جبکہ اس کے برعکس آج سے چودہ سو برس پہلے عہدِ جاہلیت میں، اسلام کی
انقلابی تعلیمات نے عورت کو اس کے حقیقی حقوق اور مرتبہ عزت عطا کیا، اسلام
کا مقصد ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ خواتین کے حوالے سے معاشرے کی سوچ، خیالات،
احساسات اور طرزِ زندگی میں بہتری لائی جائے، معاشرے میں خاتون کا مقام
بلند سے بلند تر کیا جائے۔
اس وقت دنیا کی آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے،
مسلمانوں کی یہ آبادی بہت سے معاشروں میں تقسیم ہے، ان معاشروں کا طرزِ
زندگی یکساں نہیں ہے، کچھ معاشروں میں اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جاتا ہے
اور کچھ معاشرے اسلامی تعلیمات سے دور ہیں۔ اسلام میں خواتین کے کیا حقوق
ہیں؟ اس بات کا فیصلہ ان مسلمان معاشروں کو دیکھ کر نہیں کیا جائے گا بلکہ
اس سلسلے میں شریعت اسلامی کے حقیقی مصادر سے رہنمائی لی جائے گی، اسلامی
تعلیمات کے مستند اور بنیادی مصادر قرآن و سنت اور اجماع صحابہ ہیں۔ اس بات
کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں اسلام میں عورتوں کے کیا حقوق ہیں؟
اسلام مرد اور عورتوں کو مساوی حقوق دیتا ہے، لیکن یہ حقوق مساوی ہیں،
یکساں نہیں ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تو مرد اور عورت ایک دوسرے کے
لیے تکمیل کا ذریعہ ہیں، ان کے درمیان باہمی شراکت کار ہوتی ہے، گویا اگر
دونوں اپنا اپنا کردار اسلامی احکام کے مطابق ادا کریں گے تو ان کے درمیان
نہ کبھی رقابت ہوگی اور نہ مخالفت۔ اسلام نے عورت کو وہ تمام حقوق عطا کیے
ہیں جو اس کا بنیادی حق ہیں، دیگر ادیان باطلہ کی طرح اسلام نے عورت کے
حقوق کی کبھی نفی نہیں کی، بلکہ عورت کو صحیح معنوں میں تمام شعبہائے زندگی
کے تمام مواقع پر عملاً وہ اختیار، وہ حقوق اور وہ مراتب عطا کیے جن کی
بدولت اسے اپنا جائز مقام حاصل ہوا بنیادی طور پر اسلام میں عورتوں کے حقوق
کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۱۔اسلام میں عورت کے روحانی حقوق
اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دیے ہیں، ان میں سب سے پہلے عورت کے روحانی
…یعنی مذہبی…حقوق ہیں۔ چنانچہ الله جل شانہ کا ارشاد ہے : ”ومن یعمل من
الصالحات من ذکر او انثیٰ وھو موٴمن فاو لٰئک یدخلون الجنة ولا یظلمون
نقیرا“ (النساء:۱۲۴)
ترجمہ :” اور جو کوئی نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت، بشرط یہ کہ وہ
مومن ہو تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کے حق میں ذرہ برابر
بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی “۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام میں جنت کے حصول کے لئے جنس کی کوئی شرط نہیں
بلکہ جو کوئی بھی مرد یا عورت ایمان کی حالت میں نیک عمل کرے گا، اسے الله
تبارک وتعالیٰ جنت عطا فرمائیں گے۔ آیت بالا سے مغرب کے ان لوگوں کے اشکال
کی بھی نفی ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں جنت کا تصور صرف مرد کے
لئے ہے عورت کے لئے نہیں۔
دوسری جگہ سورہ احقاف میں الله تبارک وتعالیٰ والدین کے حقوق کے حوالے سے
ارشاد فرماتے ہیں : ”ووصینا الانسان بوالدیہ احسٰناحملتہ امہ کرھاووصعتہ
کرھا وحملہ وفصٰلہ ثلٰثون شھرا“ (الاحقاف :۱۵)
ترجمہ :” اور ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا
معاملہ کریں۔(اس لیے کہ) اس کی والدہ نے مشقت اٹھا کر اس کو پیٹ میں رکھا
اور مشقت اٹھا کر اس کو پیدا کیا اور اس کے حمل اور دودھ کے چھڑانے میں تیس
مہینے لگ گئے “۔
اسلام ماں بننے کے عمل کی عظمت اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے عورت کو اس
حوالے سے انتہائی اعلیٰ اور ارفع مقام عطا کرتا ہے۔ چنانچہ یہ بات واضح ہے
کہ اسلام عورت اور مرد پر یکساں اخلاقی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے اور دونوں
کے لیے ایک جیسی حدود و قیود نافذ کرتا ہے۔
۲۔اسلام میں عورت کے معاشی حقوق
اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے عورت کو معاشی حقوق فراہم کیے، ان حقوق
میں بہت سی چیزیں شامل ہیں، مثال کے طور پر ایک عاقل و بالغ مسلمان عورت
جائداد کی خرید و فروخت کرسکتی ہے، اپنے پاس رکھ سکتی ہے، ضرورت کے وقت بیچ
سکتی ہے۔ وہ بغیر کسی پابندی کے اپنی مرضی سے وہ تمام فیصلے کر سکتی ہے جو
ایک مرد کرسکتا ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ جو حق اسلام نے عورت کو آج سے
چودہ سو سال پہلے دیا، برطانیہ نے یہی حق عورت کو۱۸۳۰ء میں آکر دیا۔ اسی
طرح اسلام نے ضرورت کے وقت عورت کے کام کرنے اور روزی کمانے کی بھی اجازت
دی ہے۔
الغرض یہ کہ اسلام نے تمام جائز کاموں کے کرنے کی عورت کو بھی اتنی ہی
آزادی دی ہے جتنی کہ مرد کو، خواہ وہ طب کا شعبہ ہو یا تعلیم کا یا کوئی
اور شعبہ۔
دوسری طرف اسلام تمام تر معاشی ذمہ داریاں مرد کو سونپتا ہے، عورت پر اس
قسم کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں کرتا، ہاں اگر ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ
عورت کو اپنی ذمہ داری خود اٹھانی پڑے تو اسلام اس سے بھی منع نہیں کرتا۔
اگر حقوقِ نسواں کی محافظ شرعی حدود کی پاسداری کرتے ہوئے کوئی کام کرنا
چاہتی ہے تو اسلام میں اس کی بھی اجازت ہے۔ اسلام عورتوں کو کاروبار کی بھی
اجازت دیتا ہے، اس سلسلے میں ام المومنین حضرت خدیجہ رضی الله عنھا کی مثال
ہمارے سامنے ہے جو تجارت کیا کرتی تھیں۔
۳۔اسلام میں عورت کے معاشرتی حقوق
اسلام نے عورت کو معاشرتی اور سماجی لحاظ سے بھی کئی حقوق عطا کیے ہیں، اسے
معاشرے میں ایک مہذب اور باوقار مقام عطا کیا۔ اسلام سے پہلے عہد مسیحی میں
جب شرک کا دور دورا تھا، اس وقت بچیوں کے زندہ درگور کیے جانے کا رواج عام
تھا، لوگ بیٹیوں کی پیدائش کو ذلت کا باعث گردانتے تھے اور بیٹیوں کے پیدا
ہونے پر انہیں زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ اس وقت اسلام نے ہی رحمت بن کر
عورت کو جان کی حفاظت فراہم کی اور بیٹیوں کے قتل کرنے کی قبیح روایت کا
خاتمہ کیا۔ (جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ, جلد 71, شمارہ 4 |