اردو کے معروف شاعرو ادیب پروفیسر آفاق احمدبھوپالی

اردو کے معروف شاعرو ادیب پروفیسر آفاق احمدبھوپالی
آج ان کی پہلی برسی ہے، انتقال مارچ 2016کو بھوپال میں ہوا تھا
*

بھارت کے شہر بھوپال سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ ادیب ،شاعر،محقق، ماہر غالبیات و اقبالیات پروفیسر آفاق احمد کا انتقال بھوپال میں 30مارچ 2016کو ہوا ۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔ پروفیسر آفاق احمد مرحوم کی شخصیت اور علمی و ادبی خدمات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ پروفیسر آفاق احمد کی تعلیم و تربیت بھوپال کے علمی و ادبی ماحول میں ہوئی انہوں نے ہندوستان کے اِسی شہر میں 30جولائی 1932ء کو آنکھ کھولی ،ان کی دنیاوی زندگی کا سفر 83 سال بعد30 مارچ 2016ء کو اختتام پذیر ہوا اور بھوپال کی مٹی کو ہی اپنے لیے دائمی آرام گاہ بنایا۔ بھول کی سرزمین کو لکھنؤ اور دلی کے بعد ادب اور زبان کے حوالے سے منفرد مقام حاصل ہے۔ بھوپال میں شاعروں اور ادیبوں کو عزت و احترام سے نوازا گیا، بھوپال تہذیب و ثقافت ، زبان ادب کے حوالے سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتاہے۔ پروفیسر آفاق احمد کو اسی علمی و ادبی ماحول میں پرورش پانے کا اعزاز حاصل ہوا، اسی جگہ وہ درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے۔وہ بھوپال کے ایم ایل بی کالج میں پروفیسر اور صدر شعبہ اردو رہے۔ نامور استاد ہونے کے ساتھ ساتھ وہ کئی حیثیتوں کے مالک تھے ، وہ شاعر، ادیب ، محقق، مفکر، صحافی، مترجم، افسانہ نگار، انشاپرداز ، کہانی نویس کی حیثیت رکھتے تھے۔ پروفیسر آفاق احمد کا’ مثنوی سحر البیان ‘کی ترتیب و مقدمہ بہت معروف ہے ۔ انہوں نے مزاح نگار ملا رموزی کی غیر مطبوعہ کہانیوں کا مجموعہ بھی ترتیب دیا، ہندو افسانہ نگار راج گوپال اچاریہ کی کہانیوں کا مجموعہ بھی ترتیب دیا،پریم چند شناسی اور اقبال ؔ پر بہت کام کیا۔غالب ؔ کے حوالے سے انہیں استاد تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کئی ادبی اداروں کے معتمد کی حیثیت سے بھی کام کیا اور ان اداروں کو بامِ عروج پر پہنچایا۔

پروفیسر آفاق احمد کے انتقال پر محبانِ بھوپال فورم کے زیر اہتمام 2 مئی2016 کو تعزیتی ریفرنس منعقد ہوا تھا جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر یونس حسنی کا کہنا تھا کہ پروفیسر آفاق احمد کے دو ہی دوست ایسے تھے جن سے ان کے تعلقات کبھی کشیدہ نہیں ہوئے ان میں سے ایک میں ہوں ۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے ان سے کبھی تعلقات خراب نہیں ہوئے ، اس لیے کہ پروفیسر آفاق احمد جو کام بھی کیا کرتے اس میں اپنے آپ کو فنا کردیا کرتے تھے، جس ادارے میں وہ شامل ہوتے اسے زمین سے آسمان پر لے جاتے لیکن اس دوران وہ اکثر نہیں بلکہ زیادہ تر لوگوں سے رنجش مول لے لیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر یونس حسنی کا کہنا تھا کہ ان کے اور پروفیسر آفاق احمد کے تعلقات نصف صدی پر محیط رہے ان میں سے نصف حصہ وہ ان کے ساتھ رہے اور نصف حصہ دور رہے ۔ آپ نے یہ بھی بتا یا کہ پروفیسر آفاق احمد در اصل افسانہ نگار ہی تھے لیکن بعد میں وہ تحقیق اور تنقید کی جانب چلے گئے۔ پروفیسر سحرؔ انصاری نے کہا کہ پروفیسر آفاق احمد ایک شریف النفس انسان تھے، غالب ؔ اور اقبال ؔ پر انہیں اتھارٹی سمجھا جاتا تھا۔

بلا شبہ پروفیسر آفاق احمد اپنی علمی و ادبی خدمات کے حوالے سے اردو دنیا میں انتہائی عزت و احترام سے دیکھے جاتے رہیں گے۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پروردگار مرحوم کے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ آمین۔ آخر میں احمدعلی برقیؔ اعظمی کے نذرانہ پروفیسر آفاق احمد پر اپنی بات ختم کرتا ہوں ۔
پروفیسر آفاق احمد کا نہیں کوئی جواب
شخصیت ہے جن کی اقصائے جہاں میں انتخاب
ہیں سپہرِ علم و دانش پر وہ مثلِ ماہتاب
اُن کے ہیں عصری ادب میں کارنامے بے حساب
اُن کے رشحاتِ قلم ہیں مرجعِ دانشوراں
جن سے اربابِ نظر ہوتے رہیں گے فیضیاب
کررہے ہیں ضوفشاں شمعِ ادب بھوپال میں
اُن کے فکرو فن کی کم ہوگی نہ ہرگز آب و تاب
اُن کے گُلہائے مضامیں سے معطر ہے فضا
ہیں وہ گلزارِ ادب میں سرخرو مثلِ گُلاب
اپنے قول و فعل سے اردو کے ہیں خدمتگذار
ہے دعا شرمندۂ تعبیر ہوں سب اُن کے خواب
عمر بھر رخشِ قلم کرتا رہے جولانیاں
مرجعِ اہلِ نظر ہو اُن کی برقیؔ ہر کتاب

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437399 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More