یہ حقیقت ہے کہ آج ہم جو دنیا میں در بدر بھٹک رہے، اور
ذلت و رسوائی، خواری و ناداری ہم پر مسلط ہے یہ اپنے قومی نصب العین اور
اسلاف کے نقش قدم سے ہٹ کر چلنے ہی کی سزاہے۔ کیونکہ مجموعی طور پر قوموں
کو گمراہی ، ضلالت اور راہ راست سے بھٹکنے کا حساب دنیا میں ہی دینا ہوتا
ہے۔ قوم اور امت کا معاملہ، سزاء و جزا دنیا ہی میں ہوا کرتی ہے۔امتِ مسلمہ
بحیثیتِ قوم یا امت کے آخرت میں نہیں پیش ہو گی۔وہاں تو سب کو انفرادی طور
سے حساب دینا ہے۔وہاں ہر انسان انفرادی طور اپنے کیے کی سزاء و جزاء پائے
گا۔ اجتماعی طور سے ہمارا حساب کتاب اسی دنیا میں ہی ہونا ہے اور قانونِ
قدرت ہے کہ کسی بھی امت یا قوم کے اجتماعی گناہوں کو کبھی معاف نہیں کیا
جاتا، ان کی سزا ضرور ملتی ہے اور وہ سزا اجتماعی طور پر ہم مسلمان صدیوں
سے بھگت رہے ہیں دنیا میں ذلیل و رسواء ہو کر اور در در کی ٹھوکریں کھا کر۔
ہمارے عظیم مفکر اقبال رحمہ اللہ اس کی تشریح یوں کرتے ہیں۔
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
نہیں کرتی کبھی ملت کے گناہوں کو معاف
جیسے قوموں اور امتوں کو سزا اجتماعی گناہوں پر ہے ، اسی طرح امتوں کی توبہ
بھی اجتماعی قبول ہوتی ہے انفرادی نہیں۔انفرادی تو ایک ایک شخص کی توبہ
ہوئی نا۔ جب ملت کے تمامی افراد مل کر اجتماعی توبہ کریں گے تو وہ امت کی
توبہ بنے گی،تو پھرکہیں جا کر امت کے دن بدلنا شروع ہوں گے، امت کی تقدیر
سنورے گی۔
اے مسلمانو! خدا کیلئے اپنے پیارے رسول ﷺ کی امت کا احساس کرو، اور مجموعی
طور پر تائب ہو کر خدائے حقیقی کے حضور معافی مانگو اور حضور ﷺ کی امت کو
سربلندیوں کی طرف لے جاؤ ورنہ تم رسول اللہ ﷺ کو کسی منہ دیکھانے کے قابل
نہیں رہو گے۔ ہمارے ایک ایک کے انفرادی گناہ اجتماعی بن گئے ہیں، جن کی سزا
دنیا میں اجتماعی طور رسول اللہ ﷺ کی امت بھگت رہی ہے دنیا میں رسواء ہو کر
اور در در کی ٹھوکریں کھا کر۔بظاہردنیا میں ہمیں انفرادی طور پر سزا ملتی
نظرنہیں آتی اور آخرت کے تصور سے بے نیاز ہو کر گناہوں پر گناہ کیے جا رہے
ہیں اور ہم بڑے بھولے منہ سے کہہ دیتے ہیں کہ ایک میں نہیں ساری دنیا کر
رہی ہے ، ایک میرے نہ کرنے سے کیا فرق پڑے گا۔ ہمیں انفرادی طور پر اس کی
سزا قبر اور حشر میں ملے گی، مگر اجتماعی طور پر جو شامت رسول اللہ ﷺ کی
امت پر طاری ہے دنیا میں ذلت و رسوائی کی ، یہ ہمارے ایک ایک کی انفرادی بد
اعمالیوں کا ہی نتیجہ ہے جو مل کر اجتماعی بنے اور ہم سب اس کے ذمہ دار
ہیں۔اگر ہم ایک ایک کرکے اپنی انفرادی اصلاح نہیں کریں گے تو اجتماعی اصلاح
کیسے ہو گی امت کی؟ اگر امت کا ایک ایک فرد انفرادی طور پر اپنی اصلاح کرے
اور اپنے اندر یہ سوچ اور جذبہ پیدا کر لے کہ کم از کم میری وجہ سے رسول
اللہ ﷺ کی امت پر سیاہی نہ پڑے،کم از کم میری وجہ سے حضور ﷺ کی امت بد نام
نہ ہو، میری وجہ سے حضور ﷺ کی امت پر قہر نازل نہ ہو تو امت کی اصلاح ہوتے
ذرا دیر نہیں لگے گی۔ امت کے ہر ہر فرد میں اس سوچ کا موجزن ہونا انتہائی
ضروری اور وقت کی ضرورت بھی ہے اگر یہ جذبہ بیدار نہیں ہوتا تو میرے خیال
میں اس سے بڑا بد بخت کوئی نہیں۔
ہماری بدنصیبی ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں نہ تو کوئی انفرادی اصلاح کی سوچ
پائی جاتی ہے اور نہ اجتماعی۔ بدخلقی، بے راہ روی ، فحاشی ،عریانی روز بروز
بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ معاشرہ میں شیطانیت کا دور دورہ ہے کوئی روکنے ٹوکنے
والا نہیں، کوئی معاشرتی برائیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کو تیار نہیں۔ دکھ
کی بات یہ ہے کہ آج نظام مصطفی ﷺ اور اصلاح امت کا نعرہ محراب و منبر سے
بھی لگانا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہم نے نظام باطل سے سمجھوتہ کر لیا، ہم اور
ہمارے بڑے کار پردازو رہنما موجودہ باطل نظام سے مطمئن ہو کر بیٹھ گئے،
ہماری قدو کاوش، سعی و حرکت ختم ہو گئی ، ہم نے جدو جہد کرنا ترک کر دی، نہ
نظام مصطفی لا سکتے مگر ہم ساری زندگی آواز تو لگاتے رہتے ، نوجوان نسل کا
جوش ابھار کے نظام مصطفی ﷺ کے مجاہد تو مہیا کرتے رہتے ملت کو، مگر افسوس
کہ یہ محراب و منبر والے اتنا بھی نہ کر سکے کہ وہ اس کا تسلسل ہی قائم
رکھتے۔وہ نظام باطل سے سمجھوتہ کر کے بڑے سکون سے اپنے اپنے ٹھیوں میں جا
بیٹھے۔یہاں مجھے سودا نامی ایک شاعر کی بات یاد آ رہی ہے جس نے کہا تھا
مجنوں لیلا سے بازی نہ لے سکا سر تو دے سکا
کس منہ سے کرتے ہو دعویٰ عشق سودا تم سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
اس سے بڑھ کر اور کم بختی کیا ہو سکتی ہے امت کی کہ آج دین کے اہم ستون بھی
تربیت کے مراکز نہیں رہے اور نہ علماء درستگی اخلاق، پختگی کردار کا درس دے
رہے ہیں۔ کیا علماء نبیوں کے وارث نہیں ہیں؟ کیا امت کی اصلاح ان کی بنیادی
ذمہ داری نہیں ہے؟ کیا امت کو حضور ﷺ کی شریعت و طریقت کے دائرہ میں نتھ
ڈال کے رکھنا ان کا فرض نہیں ہے؟ ان کے واعظ ، ان کے خطابات صرف فضائل و
کمالات، مقام و مرتبت، فیض و برکات تک محدود ہیں۔ یہ صرف خطابت کے جوش اور
زور دار گرجوں سے حضور اقدس ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب کی شان کے واعظ سنا کر آپ
ﷺ کی اور اصحاب کی شان بلند کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے آپ ﷺ کی شان بلند نہیں ہو
گی دنیا میں۔لوگوں کو آپ ﷺ کے اخلاق، اوصاف و کردار، آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ اور
صحابہ کے کردار کا عملی نمونہ بنانا ہوگا۔ جب لوگوں کے اخلاق و اوصاف آپ ﷺ
کے اسوہ اور صحابہ کے کردار کے عین مطابق ہوں گے تو دنیا پرخودبخود آپ ﷺ کی
شان واضح ہو جائے گی۔ صرف خطابات کے کھوکھلے جوش سے آپ ﷺ کی شان واضح نہیں
ہو گی دنیا پر، پہلے خود آپﷺ کے اخلاق اور اسوہ کا عملی نمونہ بننااورلوگوں
کو اس کا پابند کرنا ہوگا۔
ہم عملی طور پر آپ ﷺ کے کردار و اوصاف کو چھوڑ کر صرف شان بلند کرنے کے چکر
میں پڑے ہیں جبکہ ہماری بنیادی ذمہ داری آپ ﷺ کی اتباع کرنا ہے۔ حضور ﷺ کی
شا ن بلند کر نا اللہ کریم نے اپنے ذمہ کرم پہ لی ہے، اور اتنی بلند کر دی
ہے کہ ہماری سوچیں بھی اس بلندی تک نہیں پہنچ سکتیں۔ ہماری ذمہ داری آپ ﷺ
کے اسوہ حسنہ کو بلند کرنا ہے، آپ ﷺ کے کردار، آپ ﷺ کے اوصاف کو نمایاں
کرنا اور عملی طور پر اپنا کر دنیا کو دکھانا ہے کہ یہ ہیں ہمارے عظیم نبی
ﷺ کے عظیم اوصاف۔ اور پھر دیکھنا کہ کیسے دنیا اسلام کی طرف دوڑی اور
کھینچی چلی نہیں آتی۔تم عملی طور پر دنیا کو اسلام اور آپ ﷺ کے عظیم اوصاف
و کردار کا اصل چہرہ اور آئینہ دکھاؤ تو سہی اگر دنیا مشرق سے مغرب تک،
شمال سے جنوب تک اسلام پر جمع نہ ہوجائے تو دیکھنا۔
مگر افسوس کہ آج اصلاح امت علماء کا موضوع نہیں، امت کی اخلاقیات اور کردار
کی درستگی ان کا مشن نہیں، امت کی تربیت اور فلاح و سرفرازی سے ان کو غرض
نہیں۔ امت کو گمراہی و ضلالت کے اندھیروں سے نکالنا ، امت کو تہذیب سیکھانا
، امت کو سختی سے اسلامی اصول و روایات اور صحابہ کرام کے کردار کا پابند
کرنااور معاشرتی برائیوں کے سامنے ڈٹ جانا ان کی راہ شوق و منزل ہی نہیں۔
ان کی تحریریں، ان کی تقریریں، ان کے واعظ،ان کے جوش، ان کے ولولے ، ان کی
تمام تر توانائیاں اختلافی امور و مسائل کو ہوا دینے پر صرف ہورہی ہیں نہ
کہ امت کی بیداری، اور نہ ان میں محبت والفت و رواداری پیدا کرنے میں۔ان کے
مدرسوں، ان کی مساجد سے ایک دوسرے سے نفرت کی بو آتی ہے۔ انہوں نے مدرسوں
اور مسجدوں کوتعصب، عداوت، نفرت، تنگ نظری، شر اور شدت پسندی کی اماجگاہ
بنا دیا ہے ان میں ایک دوسرے سے نفرت کا درس ملتا ہے باہمی محبت و الفت اور
بھائی چارہ کا نہیں۔ حقیقت میں ہمارے علماء ہی امت کو رسوائی ، ذلت و پستی
اور تباہی و بربادی کے طرف لے جارہے ہیں۔
عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا
ان کے اندیشہ تاریخ میں قوموں کا مدار
چشم عالم سے چھپا تے ہیں مقامات بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار
امت کے رہبر، پیر و مشائخ اور خانقاہوں والے ہیں تو سو وہ مخدوم ہیں۔
(حقیقی رہبر و سادات اور پیران عظام سے معذرت کے ساتھ جو اپنی حقیقی ذمہ
داری پوری طرح نبھا رہے ہیں اور ان کے ارادتمندوں کی مہار ان کے ہاتھوں میں
ہے وہ انہیں اس پر فتن دورمیں کسی طرح بھی بہکنے نہیں دے رہے، خیر اتنا
کنٹرول تو اس وقت کہیں نظر نہیں آرہا بہرحال وہ ہمارے سر کا تاج ہیں وہ
گستاخی نہ سمجھیں اور اس پر غور کریں، میں یہاں جنرل بات کرنے لگا ہوں
اجتماعی طور پر جو اس وقت ہو رہا ہے معاشرہ میں) مخدوم ہیں یعنی صرف ان کی
خدمت کرنا جائز ہے، بس ان کی خدمت کرتے رہو اور دعائیں لیتے رہو۔اس خدمت نے
انہیں اتنا تن آسان بنا دیا ہے کہ بس نرم و نازک بستر ہو، تکیہ لگا
ہو،خادموں کی ایک جماعت موجود ہو خدمت گذاری کیلئے،یہ مسند پہ بیٹھے ہوں
لوگ آ رہے ہوں ، ہاتھ چومتے ، نذرانہ دیتے جا رہے ہوں بس ان کی ڈیوٹی ختم
۔یہ امت کی راہنمائی ہو رہی ہے اور فیض بانٹا جا رہا ہے امت میں بے عملی کا
کہ ہماری غلامی میں آ گئے ہو اب کوئی فکر نہیں تمہیں جنت کی وہ تو ہماری
خاندانی وراثت ہے۔ انہیں امت کی بدخلقی، گمراہی، ضلالت، فسق و فجور نظر ہی
نہیں آتے۔ انہیں امت کا زمانے میں پستی و رسوائی کا احساس ہی نہیں اور نہ
ان میں امت کو تاریکیوں سے نکالنے کی فکر و سوچ۔ان کے عشق و مستی کے دعوے
دیکھو تو عرش کو چھو رہے ہیں ایسے عشق کو خود رسول اللہ ﷺ تمہارے منہ پر دے
ماریں گے حشر میں یہ کہہ کر کہ میرے عشق کے کھوکھلے دعوے لے کر آگئے میری
امت کو گمراہی و ضلالت، فسق و فجور کے اندھیروں میں چھوڑ کر۔ تو نے دنیامیں
رہ کر میری امت کیلئے کیا کیا؟ میری امت کیلئے کیا سوچا،میری امت کی اصلاح
و کامرانی کیلئے کیا کارنامے سرانجام دئیے؟
کیا کوئی اللہ کریم سے عشق و محبت کا دعویٰ کرے رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر ،
تو کیا اللہ کریم اسے قبول فرما لیں گے؟ اس پر تو بڑی زور دار تقریریں آتی
ہیں علماء و مشائخ کو۔ مگر کیا کوئی رسول اللہ ﷺ سے تو عشق و جانثاری کا
دعویٰ کرے آپ ﷺ کی امت کو چھوڑ کر تو کیا رسول اللہ ﷺ اسے سینے سے لگا لیں
گے؟ یہ ان کی بھول ہے رسول اللہ ﷺ کو امت پہلے ہے یہ بعد میں۔ جو رسول اللہ
ﷺ کی امت کا نہیں سوچتا، جسے امت کا حال دیکھ کے رونا نہیں آتا، جسے امت کا
درد نہیں وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ان کے نزدیک خواہ کوئی پیر ہے یا مسجد
کا ملاں یاحکمران و سیاستدان۔رسول اللہ ﷺ کو ہمیشہ امت کی فکر رہی، غاروں
میں ، سجدوں میں، رات کی تاریکیوں میں، سفر و حضر میں، جنگ و جدل میں، غزوہ
و جہاد میں، وہ ہر جگہ امت کیلئے روئے اور یہ امت کی فکر سے مستثنیٰ۔ انہیں
عشق مصطفی ﷺ میں تو رونا آتا ہے پر امت کے حال پر نہیں۔ بد خلق، بے عمل قوم
انہیں نذرانے ہی اتنے پیش کر رہی ہے، مقبروں، خانقاہوں،مزارات پر چڑھاؤے ہی
اتنے چڑھا رہی ہے کہ ان کے سمیٹنے اور محفوظ کرنے اور کہاں تصرف کرنے سے ان
کی توجہ ہی نہیں ہٹتی۔ مجبور ہیں بیچارے! نذرانے سمیٹنے، مال و زر اکٹھا
کرنے سے ان کی توجہ ہٹے تو امت کی فکر کریں۔ انہیں مال و زر، عیش و عشرت،
برتنے کو ہر طرح کی دنیاوی آشائش وافر مقدار میں مل رہی ہے تو انہیں کیا
فکر امت کے اصلاح احوال کی؟ یہ نذرانے نہیں سود ہے پیرانِ حرم کا۔ دانائے
راز، ترجمان حقیت حضرت اقبال ؒ نے ایسے نذرانے سود سے تعبیر کیے ہیں ۔ آپ
فرماتے ہیں
قوم کو تو میسّر نہیں مٹّی کے دِیے بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
شہری ہو دیہاتی ہو مسلمان ہیں سادہ
مانندِ بُتاں پُجتے ہیں کعبے کے برہمن
نذرانہ نہیں، سُود ہے یہ پیرانِ حرم کا
ہر خرقِ سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انھیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصّرف میں عقابوں کے نشیمن
سیاستدان طبقہ ہے تو خود غرض۔ انہیں بس دنیا اور کرسی سے غرض ہے جس کیلئے
ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔ یہ سب دنیا چاہنے والے ہیں دین نہیں،
یہ دنیا کیلئے لڑتے ہیں، ہوس اقتدار، ہوس زرومال کیلئے لڑتے ہیں دین کیلئے
نہیں۔ یہ قرآن وسنت کے باغی ہیں اور لادین جمہوریت کے فدائی۔جھوٹ بولنا ان
کی عادت، بدخلقی ان کا وطیرہ۔ دین سے انحراف پر مبنی نظام جمہوریت پر یہ
اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں مگر دین کیلئے ان کی زبانیں فالج زدہ
ہیں کہ کچھ بول ہی نہیں سکتیں۔ دین کا پرچار ان کا مشن نہیں۔ دین کی
بالادستی اور دینی اصولوں کا رائج کرنا ان کا منشور نہیں۔ یہ خدا کو تو
مانتے ہیں کہ موجود ہے ، اس کے رسول ﷺ پر بھی ایمان رکھتے ہیں مگر جب خدا
کے دین اور رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے نفاذ کی بات آتی ہے تو یہ اس سے بیزار
اور اس کے سب سے بڑے مخالف ہیں، یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں قرآن و سنت کا
نفاذ ہو۔ ایسے کھوکھلے ایمان و یقین کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے کہ کوئی
کہے یا اللہ میں تجھے تو مانتا ہوں پر تیرے دین کا عملی نفاذ نہیں چاہتا،
تیرے اور تیرے رسول ﷺ کے سب احکامات کو تو مانتا ہوں کہ حق ہیں پر انہیں
عملی طور پر اپنے اوپر اور ملک میں نافذ کرنے اور کروانے سے معذرت خواہ ہوں
اور نہ اس کے لئے کوشش کر سکتا ہوں، نہ اس کے لئے لڑ سکتا ہوں نہ جان دے
سکتا ہوں۔ ایسا ایمان و یقین تو ظاہری و کھلی منافقت سے بھی بد تر ہے۔ خدا
کے دین سے انحراف پر مبنی کفر جمہوریت کیلئے ان کا سب کچھ حاضر اور اس پر
قربان ہے، یہ چاہتے ہیں کہ دین رہے نہ رہے پر جمہوریت رہے اور یہ اس پر فدا
ہو کر کفرِ جمہوریت کے شہید کہلاتے رہیں۔
یہ پہلے بھی دین کے نام پر اسلامیان بر صغیر سے غداری کر چکے ہیں۔ قیام
پاکستان کا مقصد کیا تھا؟ نظریہ پاکستان کی بنیاد کیا تھی کہ پاکستان میں
قرآن و سنت کے قوانین کا نفاذ ہو گا، قرآن پاکستان کا آئین ہو گا۔ یہ
حکمران و سیاستدان تو نظریہ پاکستان کے بھی غدار نکلے، قیام پاکستان کے
مقصد سے غداری کی۔ قرآن و سنت کے ساتھ غداری کی، قیام پاکستان کے وقت جو
لوگوں کا خون بہا انہوں نے اس خون سے بے وفائی کی، لوگوں نے اپنی جانیں ان
کی حکمرانی قائم کرنے کیلئے تو نہیں دی تھیں انہوں نے قرآن و سنت کے نفاذ
کے عظیم مقصد کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ اس وقت لوگوں نے
اپنی جانیں پاکستان میں قرآن و سنت کے نظام کی خاطر قربان کی تھیں اور
ہمارے محترم قائد محمد علی جناح کا وژن بھی یہی تھاکہ پاکستان میں قرآن و
سنت کے قوانین کا نفاذ ہو گا۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے 15نومبر 1942ء کو آل انڈیا مسلم
سٹوڈنٹ فیڈریشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔
’’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہو گا؟ پاکستان
کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت
آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔الحمد
للہ! قرآن کریم ہماری رہنمائی کیلئے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔‘‘
یہ لادین جمہوری مداری قیام پاکستان کا مقصد ہی بھول گئے اور اپنی خود غرضی
اور مفاد پرستی پر اتر آئے۔ آئین پاکستان قرآن کی بجائے اپنی غرض اور مفاد
کو مدنظر رکھتے ترتیب دیا۔ آج کے حکمران و سیاستدان بتائیں کتنی قرآن و سنت
سے راہنمائی لی گئی ریاست اسلامیہ پاکستان کے قوانین ترتیب دیتے ہوئے؟ یہ
سب دنیاوی تماشا کرنے والے مداری ہیں۔ ہر طرف تماشا بپا ہے معاشرہ میں کوئی
مداری کہیں لوگوں کو جمع کر کے اپنے نعرے لگوا رہا ہے تو کوئی کہیں۔ کوئی
نیا پاکستا ن بنا رہاہے تو کوئی لوٹنے کے نت نئے طریقہ ایجاد کر رہاہے ،
امت کو نیا رنگ دے کر صاحب اخلاق بنانے ، تقویٰ و پرہیزگاری کی راہ پر
ڈالنے اور دنیا میں عزت ووقار عطا کرنے کا کوئی نہیں سوچ رہا۔ امت کو دنیا
میں کامرانی و سرفرازی دلانا کسی کا نعرہ نہیں۔ کہیں جئے بھٹو اور زر خواری
کے نعرے ہیں تو کہیں شریف لٹیروں کے ، کہیں خان ہے تو کہیں فضول مولانا۔
اور ان کے سیاسی متوالے ان کے گرد بھنگڑے ڈالے ہیں سیاسی خاندانی قیدی و
غلام۔ کیا تم ان کی خاندانی غلامی کیلئے پیدا کیے گئے ہو؟ آج یہ ہیں کل ان
کی اولاد ہو گی تمہارے نعروں میں خواہ وہ عقل و فہم اورشعور سے خالی ہو اور
دین سے بیزار۔ حقیقت میں ان کی مت ہی ماری گئی ہے ، ان کی عقلیں کام ہی
نہیں کرتیں، بہرے، گونگے اندھے جانور۔
لَھُمْ قُلُوْبٌ لَا ےَفْقَھُوْن بِھَا وَلَھُمْ اَعْےُنٌ لَا ےُبْصِرُوْنَ
بِھَا وَ لَھُمْ اٰذَانٌ لَا ےَسْمَعُوْن بِھَا اُوْلٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ
بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَo
’’ان کے پاس دل ہیں مگر ان سے سمجھنے کا کام نہیں لیتے ، ان کے پاس آنکھیں
ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے ، ان کے پاس کان ہیں مگر ان سے سننے
کاکام نہیں لیتے، یہ تو نرے جانور ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر، یہی وہ لوگ ہیں
جو غفلت میں پڑے ہیں۔ (الاعراف179:7)
خدا نے عقل دی سوچنے اور سمجھنے کو، ایک نہیں دو آنکھیں دیں دیکھنے اور
پرکھنے کو، ایک نہیں دو کان دئیے سننے اور راہ کا تعین کرنے کو۔کیا خدا نے
تمہیں ان کے ہر الٹے سیدھے کاموں پر تالیاں بجانے اور بھنگڑا ڈالنے کے لئے
پیدا کیا ہے کہ سیاسی پیر جو مرضی کرتے پھیریں، خواہ جھوٹ بولیں، غیبت
کریں، قوم کی دولت لوٹیں، اخلاقیات کی پرکھیاں اڑائیں،دین کو نظر انداز
کریں تم نے اپنی آنکھیں اور کان بند کر کے ان کے نعرے ہی لگانے ہیں؟ ان کے
روحانی سیاسی پیروں کے مجمع میں اللہ و رسول ﷺ کا نعرہ ہی نہیں لگتا، صرف
ایک دوسرے پر طنز، غیبت، چغلیاں، بہتان، طعنہ و تشنیع اورقوم سے جھوٹے
وعدے، جھوٹی امیدیں، جھوٹی امنگیں کبھی نہ پورے ہونے والی۔اور لوگ بھی اللہ
و رسول ﷺ کو بھول کر ان کے ترانوں پر رشک و بھنگڑے ڈالنے میں مست ہوتے ہیں
تو خدا کا غضب اور قہر نازل نہ ہو امت پر۔کیا ان کی تخلیق کا مقصد یہ تھا؟
کیا ان کی تخلیق کا مقصد لادین، گھٹیا صفت، خائن لوگوں کے نعرے لگاناہے
اکٹھے ہو کر یا ا للہ اور اس کے رسول ﷺ کے دین کا پرچار کرنا؟
ہمارا چوتھا طبقہ امراء ،جاگیرداروں اور دولت مندوں کا ہے سو وہ دنیا دار
ہیں اور لادین حکمرانوں کے خوشامدی، بے دین خاندانی جمہوری نظام ، خاندانی
آمریت کے سہولت کار۔ یہ صرف دنیا داری اور کاروبار کی ترقی چاہتے ہیں،
انہیں ملت کی ترقی سے سروکار ہی نہیں۔دین کی ترقی کیلئے ان کی دولت پہ
زہریلا سانپ بیٹھا ہے جو دین کے نام پر اٹھانے سے ان کو ڈس لے گا اور یہ
دنیا سے بھی جائیں گے۔ عیش و عشرت اور حکمرانوں کی خوشامد پر جتنا اڑا ئیں
کوئی پروا نہیں مگر دین پر ایک سو لگانا بھی کروڑ نظر آتاہے۔ہم دیکھتے ہیں
کہ جب کوئی جمہوری مداری کسی شہر میںآتا ہے تو شہر بھر کی گلیاں ، محلے،
بازار اس کے پتلوں کے فلیکس و بینرز سے بھر دی جاتی ہیں اور شہر کا اس سے
منسلک ہر صاحب ثروت اس کار خیر میں حصہ دار ہوتا ہے۔ کیا کبھی کسی نے یہ
سوچا کہ ایک لادین جمہوری مداری کو خوش کرنے کیلئے کتنا فضول خرچ ہو رہا
ہے؟ اگر یہ سارا خرچ جمع کیا جائے جس کی مدت ہی دو چار روز ہے ، اس سے سال
بھر کیلئے پورے شہر کے غربا کو لباس مہیا کیا جا سکتا ہے مگر وہ انہیں
گوارا نہیں۔ شہر بھر کے غربا کو خوش دیکھنے سے زیادہ ان کو ایک جمہوری
مداری کی خوشی عزیز ہے۔
امت کے دولت مند عرب ہیں سو ان کی سوچ و فکر بس یہاں تک رہ گئی ہے۔ انا
ابغی امارہ جدید، سیارہ جدید، حرمہ احسن و جدید۔یعنی نت نئی امارت ہو، نت
نئی گاڑی ہو، نت نئی اورحسین و جمیل عورت ہو۔ یہ وہ عرب نہیں رہے جو خالی
ہاتھ اونٹوں کی ننگی پشتوں پر بیٹھ کر جہاد کے ترانے پڑھا کرتے تھے اور ملت
کے کسی ایک مظلوم کی پکار پر ظالم کی اینٹ سے اینٹ سے بجا دیا کرتے تھے۔ آج
ان کے پاس سب کچھ ہے مگر ان کے ترانے بدل گئے ہیں۔ان کی سوچ، ان کے جذبے زر
کے غلام بن گئے ہیں، دولت ان کا دین بن گیا ہے۔ آج عرب دولت کے پجاری ہیں
دین کے نہیں بشمول ہمارے سب عجموں کے۔ آج سب کا دین دولت ہے ، آج سب ایک
دوسرے سے بڑھ کر دولت سمیٹنے اور جائیدادیں بڑھانے کے چکر میں ہیں، دین اور
اس کے فروغ کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں، اور خدا و رسول ﷺ سے بے یقینی کی
سی کیفیت پورے عالم میں۔ آج ملت پر چار سو بے یقینی کی کیفیت طاری ہے کسی
میں خدا کی مدد پر یقین اور کامل بھروسہ نظر نہیں آتا۔میں یہاں بات زیادہ
لمبی نہیں حکیم الامت حضرت اقبالؒ کے ایک مصرعہ میں ملت کو پیغام دینا
چاہوں گا کہ
سن اے تہذیب حاضر کے غلام
غلامی سے بد تر ہے بے یقینی
یہی وہ چار طبقات تھے علماء، پیر و مشائخ، اور حکمران و سیاستدان اور ملت
کا مخیر طبقہ، جو معاشرہ پر اثرانداز ہو سکتے تھے اور امت کی ڈوبتی نیہا
کنارے لگا سکتے تھے سو چاروں غفلت اور بے یقینی کی تاریکیوں میں ڈوبے بہت
گہری نیند سو رہے ہیں۔اگر انہیں کچھ یقین ہوتا، ان کا ضمیر اگر زندہ ہوتا،
اگر انہیں کوئی احساس اور فکر ہوتی رسول اللہ ﷺ کی امت کی تو کچھ تو ہوتا
نظر آتا دنیا میں دین و ملت کی سر بلندی و سرفرازی کا، عزت و وقار کی بحالی
کا، دنیا میں عزت سے سر اٹھا کر جینے کا ۔کوئی رہروِ منزل ہی نہیں رہا۔ ہم
کمزور لوگ دین کا درد لے کر جائیں تو کہاں جائیں؟
پانچواں ! ہمارے پاس کچھ ایسے ذرائع اور مشینری تھی جن کو اگر اعلیٰ فلاحی
مقاصد کے حصول کیلئے کام میں لایا جاتا توبڑی حد تک معاشرہ کی اصلاح ممکن
تھی جیسے میڈیا، الیکٹرونک و پرنٹ ذرائع ابلاغ و نشر اشاعت۔ یہ ادارے اگر
اصلاح امت ، بیداری امت ، امت میں اتحاد و یگانگت، مساوات، رواداری اور امہ
میں غیرت و شعور اجاگر کرنے کا بیڑہ اٹھاتے تو پل بھر لاکھوں کروڑوں لوگوں
کی ہدایت و راہنمائی کا ذریعہ بن سکتے تھے اور امت کو سیدھی راہ نجات پر
ڈالنے میں ان کا کردار سب سے نمایاں رہتا۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے یہ ادارے
شیطان کے زر خرید غلام بن چکے ہیں اور شب و روز شیطانیت کو پھیلانے اور
دجالیت کو ہوا دینے میں مصرو ف عمل ہیں۔ ہمارے میڈیا میں دین کی اتنی فوقیت
و اہمیت نہیں جتنی سیاست اور کھیل تماشا کو ہے۔ ہمارے میڈیا میں دین سے
زیادہ اہمیت کھیل ، شوبز، ناچ راگ اور فیشن کو دی جاتی ہے۔ ہمارا میڈیا
کھیل کے میدان کی تو لائیو کوریج دیتا ہے ، موسیقی کی دھنوں ، ڈرامہ و فلم
سازی ، شوبز کی دنیا، فحاشی و عریانی اور فیشن کے شوز کو تو باقاعدہ ہر
گھنٹہ بعد کی نیوز ہیڈ لائنز بنا کے پیش کرتا ہے مگردین کی باتوں، دینی
محافل سے روگردانی کرتا، منہ پھیرتا، جی چراتا اور کنارہ کشی اختیار کرتا
ہے کہ کہیں کوئی دین کی بات ، اصلاح امت کا درس سن ہدایت نہ پا لے اور
سیدھی راہ اختیار نہ کر لے۔ ملک بھر میں ہزاروں بڑی بڑی دینی محافل، اصلاح
امت اور بیداری امت کانفرنسزکا انعقاد ہوتا ہے ، میڈیا اور نیوز چینلز اپنی
پوری تاریخ میں ثابت کریں کہ انہوں نے کسی دینی محفل اور اصلاح امت ،
بیداری امت کانفرنس کو اپنی نیوز ہیڈ لائن میں جگہ دی ہو اور لوگوں کوکثرت
سے شرکت پر آمادہ کیا ہو ، اور قوم کو لائیو دیکھا کر امت کی اصلاح کا
ذریعہ بنے ہوں، اور علماء کے اصلاح و ہدایت کے بیان پر تبصرے ہوئے ہوں۔
کھیل اور سیاست پر تبصرے تو ان کا شب و روز کا معمول ہیں۔
اگر کسی ٹی وی چینل یا اخبارو رسالہ پر کسی اصلاح امت کانفرنس کا اشتہار
دینا ہو تو لاکھوں روپے طلب کیے جاتے ہیں ۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ تمہیں
شوبز اور کھیل تماشا والے شیطان کے چیلے کتنے پیسے دے جاتے ہیں کہ تم شب و
روز دنیا بھر سے ان کی فحاش و عریاں شکلیں اکٹھی کر کے پوری قوم کو دکھاتے
ہو، اور اخبارات میں بھی ان کے پورے کے پورے صفحات پرنٹ ہوتے ہیں ان سے
تمہیں کتنا معاوضہ ملتا ہے؟ خبرناک، مذاق رات اور ایسے کئی پروگرام کیا
اخلاقی و اصلاحی درس دے رہے ہیں قوم کو؟یہ ادارے شب و روز فضولیات اور لغو
پروگرام پیش کر کے قوم کو خداو رسول ﷺ سے غافل و بے نیاز کر رہے ہیں۔ہر وقت
گمراہی و ضلالت کا درس دیا جارہا ہے، اسے فحاشی و عریانی ، بد اخلاقی ،
غنڈہ گردی ، ناچ راگ اور موسیقی وغیرہ کو فروغ دینے کیلئے استعمال کیا جا
رہا ہے۔ قوم کو اخلاقی طور پر تباہ کرنا آج باقاعدہ کاروبار بن چکا ہے اور
اسے باقاعدہ صنعت و تجارت کا درجہ حاصل ہے۔ آج ملت میں حیا باختگی اور بے
غیرتی پھیلانے اور قوم کو فضول لغویات میں مبتلا کرنے کو انڈسٹری کہا جاتا
ہے ، فلم انڈسٹری، کیبل انڈسٹری ملت کی اصلاح کیلئے کیا پروڈکشن کر رہی
ہیں؟ یہ کونسا رشد و ہدایت کا درس دے رہی ہیں؟کیا کوئی بتا سکتا ہے؟
میں پورے وثوق سے کہتا ہو ں کہ یہ ادارے شیطان کے ٹولے ہیں ، دجالیت
پھیلانے کے مہرے اور یہودی لابی کے غلام و زر خرید ایجنٹ ہیں۔اگر کسی نے اس
کی دلیل دیکھنی ہو تو وہ یہود کے بڑوں کی خفیہ دستاویزات، یہودی لابی، یہود
کی خفیہ صہیونی تنظیموں ’’ فری میسن ‘‘اور’’ ایلیومیٹینس ILLUMINATIS‘‘کے
خطرناک منصوبوں کی کاپیاں اٹھا کر دیکھیں کہ وہ بین الاقوامی میڈیا بارے
کیا کہتے ہیں؟ صیہونیت کے بڑوں کی بڑی عرق ریزی سے مرتب کیے گئے پروٹوکولز
اٹھائیں اور دیکھیں کہ ’’ The Protocols of the Learned Elders of Zion‘‘
کے پروٹوکول نمبر 12 میں کیا لکھا ہے۔
’’ہم دنیا بھرکے پریس میڈیا کو مکمل طور پر اپنے قابو میں لیں گے۔ ہماری
اجازت کے بغیر کوئی خبر عوام تک نہیں پہنچ پائے گی۔ آج کل بھی یہ مقصد اسی
طرح حاصل ہو رہا ہے۔ چونکہ تمام خبریں چند خبر رساں اداروں کے ذریعہ سے ہی
ملتی ہیں جن کے دفتروں میں یہ ساری دنیا سے آکر جمع ہوتی ہیں۔ اس وقت یہ
سارے خبر رساں ادارے ہماری ملکیت ہوں گے اور صرف وہ خبر شائع کریں گے جن کے
شائع کرنے کا ہم حکم دیں گے۔۔۔۔۔ کچھ اخبار اور رسائل ہم بذات خود اپنی
مخالفت یا تنقید کرنے کے لئے جاری کریں گے جو بظاہر کلی طور پر ہماری حکمت
عملی کی شدید مخالفت کریں گے۔لیکن اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ ہمارے ازلی دشمن
اس مصنوعی مخالفت کو اپنی آواز سمجھ کر اپنا باطن ہمارے سامنے کھولتے رہیں
گے۔
( Protocols # 12 ۔ پریس کو قابو میں لانا۔ ذرائع نشر و اشاعت پر قبضہ)
کیا آج بشمول ہمارے پوری دنیا کا میڈیا یہ منظر پیش نہیں کر رہا؟ کیا کوئی
بتا سکتا ہے کہ ہمارا میڈیا کیوں اور کس کے ڈر سے دین اور دین کی نشر و
اشاعت سے روگردانی کرتا ہے؟ اصلاح و ہدایت کی باتیں کیوں ملت کے سامنے پیش
کرنے سے جی چراتا ہے؟ اس لیے کہ اس کی مہار خفیہ یہودی لابی، شطرنج کی
بساعت پر بیٹھے کھیل کے مہروں کے ہاتھوں میں ہے اور ان کے ضمیر بکے ہوئے
ہیں، یہ دجالیت کو فروغ دیں گے دین کو نہیں، شیطانیت کی خبریں دیں گے دین
کی نہیں، یہ قوم کو اخلاقی زوال، حیاء سوزی اور کردار باختگی کا درس دیں گے
اصلاح و ہدایت اور بیداری امت کا نہیں۔ اگر یہ سب غلط اور اس کی کوئی حقیقت
نہیں تو میڈیا ملت کے اس سوال کا جواب دے کہ وہ دین سے بیزار کیوں ہے؟ وہ
خدا و رسول ﷺ سے غافل و بے نیاز کیوں ہے اور ملت کو بھی کر رہا ہے؟ وہ کیوں
ملت کو فضول اور لغو پروگرام دیکھا کر گمراہی و ضلالت ، فسق و فجور کے
راستے پر ڈال رہا ہے؟
آج ملت کے ہر طبقہ نے دین کو بے یار مددگار چھوڑ دیا ہے۔ہمارے تمام سرکاری
ادارے دجالیت پھیلانے کی فیور میں ہیں دین کی نہیں، وہ کھیل تماشا، ناچ
راگ، شوبز اور فیشن و عریانت کو سپورٹ کرتے ہیں دین کو نہیں۔ مسجدوں کے
لاؤڈ سپیکروں پر پابندی عائد کر دی گئی کہ مسجد سے باہر کے لوگ دین کی
باتیں نہ سن سکیں اس کے برعکس اگر ناچ راگ، مجرے، ڈانس و بھنگڑے، ڈرامہ ،
موسیقی و فلم سازی پر پابندی لگتی تو معاشرہ بے حیائی و عریانیت کا خاتمہ
نہ ہوجاتا؟ یہ رب کو تو ناراض کر سکتے ہیں مگر شیطان کی ناراضگی مول نہیں
لے سکتے۔کھیل کے میچ ، کسی ٹرافی، پی ایس ایل یا ورلڈ کپ کے فائنل ہوں تو
ہمارے وزیر اعظم بھی بول اٹھتے ہیں کہ میچ کے دوران پورے ملک میں بجلی بند
نہ کی جائے تاکہ پوری قوم خدا و رسول ﷺ سے غافل و بے نیاز ہو کرخوب انجوائے
کرے اور شیطان کی خوشی میں بھی کوئی خلل نہ آئے۔ہماری فوج کے سپہ سالار بھی
بول اٹھتے ہیں کہ فائنل میچ و فیشن شوز کے دفاع کیلئے کتنی سکیورٹی چاہیے
ہمیں بتاؤ ہم حاضر ہیں۔کیا کبھی کسی نے ہمارے وزرائے اعظم اور سرکاری
افسروں کی زبان سے یہ بھی سناکہ گرمیوں میں نماز کے اوقات میں بجلی بند نہ
کی جائے لوگ وضو کیلئے پانی اور ٹھنڈی ہوا سے محروم ہوتے ہیں؟ کیا کبھی کسی
نے ہمارے فوج کے سپہ سالاروں کی زبان سے یہ بھی سنا کہ ملک میں انعقاد ہونے
والی اسلامی آگاہی، اصلاح و بیداری امت کانفرنسز کی سکیورٹی کیلئے کیا
درکار ہے ہمیں بتاؤ ہم مہیا کریں گے؟کھیل تماشا، ناچ راگ، فیشن کو فروغ
دینا اور مقابلے کروانا ہوں، قوم کو خدا و رسول ﷺ سے غافل کر کے شیطان کو
خوش کرنا ہو تو سرکاری سطح پر اس کا کس قدر اہتمام اور معاونت کی جاتی ہے ۔
PSL ہوئی ، سرکاری سطح پر کس قدر اہتمام ، شاہ خرچ اور معاونت کی گئی ،
گراؤنڈ کی سیکورٹی کیلئے آپس پاس کی مساجد تین روز کیلئے بند کر دی گئیں۔
نماز کیلئے طواف کعبہ بند ہو سکتا ہے مگر ہمارے ہاں نماز کیلئے کھیل بند
نہیں ہو سکتا۔ کھیل کیلئے اللہ کی مسجدیں بند ہو سکتی ہیں مگر مسجدوں کیلئے
کھیل بند نہیں ہو سکتا۔ کھیل کیلئے نماز روکی جا سکتی ہے مگر نماز کیلئے
کھیل نہیں رک سکتا۔ کھیل کیلئے مسجدیں ویران کی جا سکتی ہیں مگر مسجد کیلئے
کھیل کے میدان ویران نہیں ہو سکتے۔ ہماری فوج ، ہماری سپاہ گراؤنڈ کو تو
سکیورٹی دے سکتے ہیں مگر مسجدوں کو نہیں۔گراؤنڈ پر سکیورٹی لگ سکتی تھی تو
آس پاس کی مساجد پر کیوں نہیں۔ آس پاس کی مساجد ایک دفعہ کلیئر کر کے اس پر
سکیورٹی لگا دیتے بند کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ انہیں ڈر صرف اللہ کی مسجدوں
سے ہی تھا، آس پاس شیطان کے گھر میوزک سنٹر، سینما ، فیشن سنٹر سب کھلے
رہے۔شیطان کی طرف جانے والے تمام راستے کھلے تھے اور اللہ کی طرف جانے کے
راستے بند کر دئیے گئے کہ اگر کسی کو یہاں کی یاد آئے اور وہ نماز کیلئے
مسجد جانا چاہیے تو نہ جا سکے۔ یہ معاملہ حشر میں رب کی عدالت میں پیش
ہوگا،یہ مردود قہار کے قہر سے بچ نہیں پائیں گے۔
یہ دین کو پھیلانے ، فروغ دینے اور اس کے نفاذ میں کتنے معاون اور سہولت
کار ہیں ؟ عوام میں اس کا جس قدر جوش و جذبہ تھا ، بیداری امت کیلئے بھی
ایسا جوش و خروش اور جذبہ کسی میں دیکھنے کو ملتا ہے؟کھیل تماشا کے اربوں
کے ٹکٹ اس قدر فروخت ہوئے جیسے رب کی جنت میں پیشگی گھر خرید جا رہے ہوں
مگر دینی آگاہی، بیداری کانفرنس کے ٹکٹ کوئی مفت میں لینے کو تیار نہیں۔ہر
گلی بازار، محلہ، دفتر، سکول و کالج میں اس پر بحث اور تبصرے گویا پوری قوم
کا رجحان کھیل تماشا کی طرف ہے خدا کے دین کی طرف نہیں، سب شیطان کو خوش
دیکھنا اور رکھنا چاہتے ہیں خدا کو نہیں۔پوری قوم مجموعی طور پر لعو و لعب،
کھیل کود میں کامیابی کیلئے تو رب کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر آہ و زاری،
دعائیں و التجائیں تو پیش کرتی ہے مگر قوموں کی صفوں میں کامیابی کیلئے رب
سے کوئی آہ و زاری اور فریاد نہیں کرتی اور نہ کوئی ایسی لگن ہے نہ کوئی
احساس۔ جب مجموعی طور پر قوم میں کوئی لگن نہیں قوموں کی صفوں میں سربلندی
، عزت و وقار پانے کیلئے تو رب کو کیا پڑی کہ وہ امت کے حالات بدل دے، وہ
اسی قوم کے حالات بدلنے میں مدد فرماتا ہے جس میں اس کی لگن دیکھے۔ خدا کا
قانون ہے کہ جیسی عوام ہو ویسے ہی ان پر حکمران مسلط کر دیتا ہے۔اگر عوام
کارجحان دجالیت کی طرف ہو تو حکمران بھی دجالی ان پر مسلط ہوں گے۔اگر عوام
مکار و دغا باز، عیار و سرکش اور عیش پرست ہو ں گے تو حکمران ان سے بڑھ کر
نکلیں گے۔جب عوام مغرب زدہ ہوں گے تو حکمران مغرب کو خدا ماننے والے آئیں
گے۔جب عوام کی لگن شیطانیت کے ساتھ ہوگی تو حکمران اس کے فروغ اور دفاع
کرنے والے نکلیں گے۔ جب عوام کا رجحان، عوام کی لگن دین کی طرف ہو گی تو
حکمران بھی دیندار آنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
آج ہمارے حکمران، ہمارے سپہ سالار شیطانیت پھیلانے کے سہولت کار اور اس کے
دفاع کے محافظ ہیں دین کے نہیں۔ ہمارے ملک میں سزا و جزاء کے قانون میں بھی
کوئی دین کو نہیں پوچھتا، کوئی عدالت قرآن و سنت کو نہیں دیکھتی کہ ان میں
کیا حکم ہے۔ہمارے ہاں سرکاری اور عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر سزا ہے، ہمارے
ملک کے آئین و دستور کی خلاف ورزی پر سزاہے،ہمارے خود ساختہ بنائے گئے ،
خود غرض سیاستدانوں کے کم فہم ذہنوں سے گھڑے گئے قوانین کی خلاف ورزی پر
سزا ہے مگر اللہ کریم اور اس کے پیارے رسول ﷺ کے بنائے گئے قوانین کی خلاف
ورزی پر کوئی سزا نہیں۔ قرآن و حدیث کے احکامات کی خلاف ورزی پر کوئی سزا
نہیں۔لوگ اعلانیہ نماز نہ پڑھیں، روزے نہ رکھیں، زکوٰۃ نہ دیں، حق العباد
کا لحاظ نہ رکھیں کوئی سزا نہیں، لوگ قرآن و حدیث کے احکامات کے خلاف چلیں،
ان کا مذاق اڑائیں، دین کی پرکھیاں بکھیریں تو وہ مجرم نہیں ملک کے معزز
شہری ہیں مگر جب کسی حکمران، عدالتی حکم یا آئین و دستور کو رد کریں تو
مجرم ہیں گویا ہمارے ملکی قوانین اور دستور قرآن سے بالا ہوئے نا؟ خود
ساختہ قوانین اور دستور کو جھٹلانے پر بڑے بڑے ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں
مگر قرآن کو جھٹلانے پر کسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی۔ سرکاری اداروں
میں منتخب ہونے کے لئے پبلک سروس کمیشن، این ٹی ایس ٹیسٹ اور کیا کچھ نہیں
ہوتا، مگر اللہ کے دین کے ستونوں، محور و مرکز مساجد میں اندھے بہرے لولے
لنگڑے بھی چل رہے ہیں، جنہیں احکامات دینیہ سے کوئی فہم وادارک ہی نہیں وہ
بھی مصلہ امامت پر براجمند ہیں۔ یہ عزت ہے دین کی ہمارے معاشرہ میں ، یہ
قدر ہے قرآن کی ہمارے سماج میں۔ ہم اللہ کے دین کی اتنی بے قدری کرکے اس سے
کیا امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری قدر کرے گا؟ قوموں کی صفوں میں ہماری شان
بڑھائے گا اور دنیا میں سربلندی و وقار عطا کرے گا؟
آج ہماری دعاؤں میں قبولیت کیوں نہیں؟ ہماری دعاؤں میں اثر کیوں نہیں؟
ہماری فریادیں کیوں نہیں سنی جاتیں اس کی بارگاہ میں ؟ اس لئے کہ ہم نے اس
کے دین کو پیچھے کیا اس نے ہمیں پیچھے کر دیا، ہم نے اس کے دین سے منہ موڑا
اس نے ہم سے منہ موڑ لیا۔ ہم نے اس کے دین کو چھوڑا اس نے ہمیں چھوڑ دیا،ہم
اس کے دین کی باتیں سن کر عمل کرنے کو تیار نہیں وہ ہماری صدائیں سن کر
قبول کرنے کو تیار نہیں۔ آج کوئی دین و ملت کی خبر لینے والا نہیں رہا کہ
وہ دن بدن کیوں پستیوں کی طرف جا رہی؟ اس کی سب سے زیادہ ذمہ دار اور عدالت
خداوندی میں جوابدہ حکومت، حکمران و سیاستدان طبقہ ہے جنہوں نے مغرب کی
مکاری لبرل اور سیکولر نظریات کو اپناتے ہوئے دین کی نجکاری کی اور اس کی
مہار بندے بندے کے ہاتھوں میں دے دی۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا کیا ، حکیم
الامت حضرت اقبال ؒ کی زبان ترجمان سے عرض کرتا ہوں ۔
تنگ بر ما راہ گذارِ دیں شدے
ہر لعینِ راز دارِ دیں شدے
کیا آج ہمارا معاشرہ یہ منظر پیش نہیں کر رہا کہ ہر لعین، ہر کمینہ سے
کمینہ شخص، ہر کم ظرف و ضمیر فروش انسان دین کا راز دار اور ٹھیکیدار بن کے
بیٹھ گیا ہے؟ دین کی نجکاری سے، دین کو ریاستی امور و حکومت سے الگ کرنے سے
فرقے بڑھے، مسالک بڑھے،معاشرہ میں تعصب اور نفرتیں بڑھیں، عداوتیں پھلی
پھولیں، معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہوا، ابلیسی و دجالی قوتوں نے راہ پائی اور
معاشرہ کے سر پر سوار ہو کر بیٹھ گئیں۔ آج ہر مسلک ، ہر فرقہ، ہرگروہ خود
کو سچا اور دوسروں کو کافرو مشرک گردانتا ہے۔ آج امت گروہ در گروہ، فرقہ در
فرقہ ، مسلک در مسلک تقسیم کے عمل سے گذر رہی ہے۔آج ملت کا ہر شخص اسلام
نہیں بلکہ صرف اپنے اپنے عقیدہ و مسلک کا جھنڈا لے کر دنیا پر پانپنے کی
کوشش کر رہا ہے، اور ہمارا ملت اسلامیہ کا حکمران طبقہ بھی دین و ملت کو
چھوڑ کر وطن پرستی کو بنیاد بنا کروطن کو خدا بنا کے بیٹھا ہے کہ جو کرنا
ہے وطن کیلئے کرنا ہے ملت کیلئے نہیں، ملت ڈوبتی ہے تو ڈوبے، دین جاتا ہے
تو جائے کوئی پرواہ نہیں مگر ملک میں ان کی حکمرانی قائم و دائم رہنی چاہیے
اس پر کوئی آنچ نہ آئے۔
قرآن مجید نے قوموں کے عروج و زوال کی جو تاریخ بیان کی ہے اس سے معلوم
ہوتا ہے کہ قومیں جب بھی دین سے دور اور آخرت کے محاسبہ سے بے نیاز ہوتی
ہیں یا ان کا یہ تصور ناقص ہوتا ہے اور ان میں اخلاقی ناسور سرایت کر گئے
ہیں تو اگر قوم میں اصلاح احوال کا جذبہ پیدا نہیں ہوا تو وہ ہمیشہ برباد
ہوجاتی ہے۔ اس کی تباہی و بربادی میں اس سوال کو کبھی کوئی اہمیت نہیں رہی
کہ ان کے گمراہی، ضلالت، فسق و فجور ،فساد، فتنہ و بدخلقی کی نوعیت کیا ہے،
بلکہ ہر برا عمل، خواہ اس کی نوعیت حقیر سے حقیر تر کیوں نہ ہو، اور سائز
میں ذرہ سے بھی چھوٹی ہو جب بھی وہ کسی معاشرہ کا اجتماعی کردار بن جاتی ہے
تو سمجھ لیں کہ اس کی تباہی بربادی کا سماں بن گیاہے ۔ اب وہ فطرت ، قانونِ
قدرت کے رحم و کرم پر ہے چاہے تو اسے قائم رکھے، چاہے تو ڈبو دے۔ معاشرہ کے
اندر جب فساد راہ پا جاتا ہے تو اس کا ظہور نہ تو کسی ایک ہی شکل میں ہوتا
ہے اور نہ کسی ایک ہی طبقہ تک محدود رہتا ہے۔ بلکہ ہر شعبہ زندگی اور قوم
کا ہر طبقہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔ قوم کے سنجیدہ عناصر جب اصلاح احوال کے
لیے فکر مند نہیں ہوتے ، وہ معاشرہ اگر اصلاح کی طرف نہیں آتا تو قہر
خداوند ی اس کا منتظر ہے جو کسی بھی وقت اس پر برس سکتا ہے۔ اس قہر اور غضب
خداوند ی کے چھوٹے چھوٹے جھٹکے اور پیغام آئے بھی مگر ہم نے ان پر کان نہیں
دھرے ، اس سے عبرت حاصل نہیں کی۔ جب اصلاح کار کی کوئی گنجائش نہ رہے تو
پھر قہر خداوندی کا کوڑا برس کر ہی رہتا ہے۔ یہ کوڑا کئی بار ہم پر ہماری
بد اعمالی اور غفلت کے سبب برس بھی چکا ہے زلزلوں، قدرتی آفتوں، یزید پلید،
تاتاریوں، منگولوں، چنگیزیوں، ہلاکیوں کی صورت میں مگر ہم نے اس سے سبق
نہیں سیکھا۔
قرآن مجید کے اس فلسفہ کی رو سے قوم کے اصلاح کار کے لیے یہ ضروری ہے کہ
معاشرہ کے اندر خدا کا خوف اور اس کے ساتھ صحیح بنیادوں پرتعلق پایا جائے۔
دلوں میں آخرت کے محاسبہ کا اندیشہ موجود ہو اور کسی بھی قسم کے فساد اعمال
کو معاشرہ پر مسلط ہونے کا موقع نہ دیا جائے۔ یہ مقصد ظاہر ہے کہ صرف اس
صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب قوم کے اندر اصلاح معاشرہ کے لیے ایک مسلسل
جدوجہد کی جاتی رہے۔ اور کسی بھی برائی و فساد کے معاملے میں چشم پوشی سے
کام لے کر اسے قوم کے اجتماعی وجود میں راہ پانے کا موقع نہ دیا جائے۔
اگر آج ہم اپنے معاشرہ کا مشاہدہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کتنی ہی خرافات ،
برائیاں اور بد اخلاقیاں ہیں جو پوری طرح معاشرہ کے رگ رگ میں رچی بسی ہوئی
ہیں۔ اللہ و رسول ﷺ کو بھول کر فضولیات میں وقت ضائع کرنا قوم کا شیوہ بن
چکا ہے۔آج ہماری قوم کے قلوب و اذہان کو اللہ و رسول ﷺ کے ذکر سے نہیں باطل
خرافات اور شیطانوں کی محافل سے سکون ملتا ہے۔ بت بینی، ڈرامہ و فلم سازی،
موسیقی کی دھنیں پر مست ہونا، ناچ راگ، فضول اور بیہودہ گفتار قوم میں پوری
سراعت کر چکی ہے ۔ اصلاح معاشرہ کی طرف کوئی سوچ، کوئی قدم اٹھتے نظر نہیں
آتے نہ انفرادی نہ اجتماعی۔ ان احوال میں امت پر خدا کا غضب اور قہر نازل
نہیں ہونا تو کیا ہونا ہے؟
دانائے راز، ترجمان حقیقت حضرت اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
’’ راستہ اگر خوبصورت ہوتو اس پر چلنے سے پہلے پتہ کروکہ کس منزل کو جاتا
ہے لیکن اگر منزل خوبصورت ہو تو راستے کی پروا مت کرو کہ وہ کتنا کٹھن اور
خطرناک ہے۔‘‘
ہماری منزل بہت خوبصورت و عظیم ہے مگر ہم اس کی طرف جانے والے مسافر نہیں
لگتے۔ یہ دنیا مکافات عمل ہے، یہاں ہر شخص کو اپنے کیے کا حساب دینا ہے، ہر
جھوٹ ، ہر دھوکے، ہر فریب ، ہر تکلیف، ہر اذیت کا جو وہ کسی کو دیتا ہے،
اسے اپنی ذات پہ بھگتنا ہے۔ اگر کوئی زانی ہے تو یہ عمل اس کے گھر بھی لوٹ
کر آئے گا، ہر غلط ارادے ، سوچ، عمل ، غفلت و گمراہی ، ضلالت و فسق و فجور
کا حساب دینا ہے۔ اور جو اذیت ہم رسول اللہ ﷺ کو دے رہے ان کے طریق پر نہ
چل کے اور آپ ﷺ کی امت کی پروا نہ کر کے ، اس کا تو حساب اتنا کٹھن ہونا ہے
اور اتنا سخت کوڑا برسنا ہے جس کا شائد ہمیں اندازہ ہی نہ ہو۔یقیناًہمارا
انجام بھی اچھا نہیں ہوگا۔ دنیا میں ذلت و رسوائی، خواری و ناداری ہم پر
مسلط ہو چکی ہے ۔ ہمارے اسلامی ملک ایک ایک کر کے دجالی قوتوں کے تسلط میں
جارہے ہیں، افغانستان، عراق، شام، لیبیا کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ہم
مسلمان بحیثیت مجموعی بربادی کی طرف جا رہے ہیں۔ |