اﷲ تعالیٰ نے جب آدم کومٹی سے بنایا تو فرشتوں کو حکم دیا
کہ وہ اس خاک کے پتلے کو سجدہ کریں ، ابلیس کے سوا تمام فرشتوں نے خالق
کائنات کا حکم بجا لاتے ہوئے آدم کو سجدہ کیا مگر ابلیس جو تمام فرشتوں کا
اُستاد تھا ،نے غرور و تکبر میں آکر حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار
کردیا۔ ابلیس کی زبان سے انکار سُن کر ربّ کائنات نے اُسے آسمان سے اُٹھا
کر زمین پر پٹخ دیا۔روایت ہے کہ اُس وقت ابلیس نے ربّ کائنات سے ہم کلام ہو
کر چیلنج کیا کہ وہ آدم اور اُس کی اولاد کو قیامت تک گمراہ کرتا رہے گا
،جبکہ ربّ کائنات نے یہ کہہ کر ابلیس کو آزاد کر دیا کہ میرا جو بندہ ہوگا
وہ میرے احکامات کے مطابق ہی زندگی بسر کرے گا اور تمہارے (یعنی شیطان
مردود) کے بہکاوے میں ہر گز نہیں آئے گا لیکن جو میرا بندہ نہ ہوا وہ
تمہارا (ابلیس)پیروکار بن کر دُنیا میں شر اور گمراہی پھیلاتا رہے گا ۔اﷲ
تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن پاک میں نیکی اور بدی کی راہ متعین کردی اور حضرت
انسان جسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے کو ایک بڑی آزمائش میں ڈال
دیا ۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنے لئے کون سی راہ متعین کرتا ہے
۔اپنی دنیا و آخرت کو سنوارنے کا کام کرتا ہے یا حشر کے روز دوزخ کا ایندھن
بننے کو ترجیح دیتا ہے ۔
ابلیس نے اپنے ناپاک مقاصد یعنی آدم کو گمراہ کرنے کی ابتداء ’’ امّاں ہوا
‘‘سے کی ۔ ربّ کائنات نے حضرت آدمؑ اور’’اماّں ہوا ‘‘کو سختی سے منع فرمایا
کہ جنت میں لگے ہوئے ایک درخت کے پاس نہ جائیں اور اُس کے ساتھ لگا ہوا پھل
ہرگز نہیں کھانالیکن ابلیس نے’’ اماّں ہوا ‘‘کے دل میں گمراہی ڈالی اور
بہلا پھسلا کر مجبور کر دیا کہ وہ اﷲ کی نافرمانی کرے اور وہ چیز کھائے جس
سے اُس کے ربّ نے منع کیا ہے اور حضرت آدم ؑکو بھی قائل کرے کہ وہ یہ چیز
کھا لیں ، اس سے کچھ نہیں ہوگا مگر اس وقت حضرت آدم’’ؑ ؑامّاں ہوا‘‘ کے
بہکاوے میں آ گئے اور انہوں نے اُسے کھا لیا ۔ اس نافرمانی پر اﷲ تعالیٰ
اُن سے ناراض ہو گئے ، دونوں میں شہوت غالب آ نے لگی تو انہیں جنت سے نکال
کر دنیا میں اتار دیا گیا ۔ اس کے بعد تکمیل کائنات کا ایک نہ ختم ہونے
والا سلسلہ شروع ہوا جو تاقیامت جاری و ساری رہے گا ۔
اﷲ تعالیٰ نے اس اشرف المخلوقات کو ایسی ذہنی صلاحیتوں سے نوازا کہ جن کو
بروئے کار لا کر وہ تکمیل کائنات کے ساتھ ساتھ تسخیرِ کائنات کو بھی وسعت
دینے لگا ۔ دُنیا نے بے پناہ ترقی کی ، سائنسی ایجادات ہونے لگیں اور ایک
ایسا انقلاب آیا کہ دُنیا سکڑ کر ’’گلوبل ویلج ‘‘ کی شکل اختیار کر گئی ۔
حضرت انسان نے ہر میدان میں تحقیق و جستجوسے وہ وہ کارہائے نمایاں سرانجام
دئیے کہ جن کو دیکھ کر عقلِ انسانی حیران و ششدر ہو کر رہ گئی ۔علامہ اقبال
ؒ نے گویا انہی نوجوانوں کے بارے میں کہا تھاکہ
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے ،ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
بیشک! نوجوانوں نے اپنی محنت و لگن سے چاند اور مریخ تک رسائی حاصل کر لی ۔
اس تمام تر ترقی کے ساتھ ساتھ ابلیس نے بھی انسانوں کو گمراہ کرنے کا سلسلہ
جاری رکھا ،انسان اچھائی اور برائی میں تمیز کھو بیٹھا۔انسانی فطرت کا
تقاضا ہے کہ انسان فلاح انسانیت کیلئے ایجاد کی جانے والی اشیاء کو بھی
اپنی منفی سوچوں کی تسکین کیلئے استعمال کرنے لگا
ربّ کائنات نے مسلمانوں کے لئے قرآن پاک کی صورت میں وہ عظیم کتابِ رشدو
ہدایت نازل فرمائی جس میں انسانی فطرت اور انسانی معاشرتی ضروریات کو
انتہائی واضح طور پر بیان کیا گیا ہے ۔خطبہ حجتہ الودداع کے موقع پر ہمارے
پیارے نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری پیغام میں بھی یہ
بات واضح کر دی تھی کہ وہ اپنی اُمت کے لئے دو چیزیں چھوڑے جا رہے ہیں،ایک
قرآن پاک اور دوسری سنتؐ۔اگر مسلمانوں نے قرآن پاک کی تعلیمات پر عمل کیا
اور سنت نبویؐ کو اپنایا تو وہ ضرور دُنیا و آخرت میں سرخرو ہوں گے ۔
نبی کریم ؐ کو دُنیا سے پردہ فرمائے صدیاں بیت گئیں ہم ماضی پرنظر دوہرائیں
تو مُسلمانوں نے ہر دور میں اورہر میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھے ہیں
اور یہو و نصاری ٰتمام تر سازشوں کے باوجود اپنے اسلام دشمن ناپاک عزائم
میں کامیاب نہ ہو سکے۔لیکن رفتہ رفتہ مُسلم اُمہ نے جہاں اسلامی تعلیمات کو
فراموش کر دیا وہاں شیطان ابلیس کی گمراہ کُن چالوں کے زیر اثر آتی گئی ۔
ربّ کائنات نے ہمارے لئے قرآن پاک جیسی عظیم کتاب نازل فرمائی جبکہ ابلیس
کے پیروکاروں نے ’’فیس بُک‘‘ بنا ڈالی ۔’’فیس بُک‘‘سے قبل گوگل کی
’’اورکٹ‘‘(Ourkit)،ٹیگڈ (Tagged)،ٹیوئٹر (Twitter)وغیرہ قسم کی ویب سائٹس
بنائی گئیں مگر یہ سب کی سب عوام میں مطلوبہ پذیرائی حاصل نہ کر سکیں سوائے
ٹیوئٹر کے باقی سبھی سوشل سائٹس بُری طرح فلاپ ہو گئیں ۔بیشک! گوگل کے آنے
سے لوگوں کو معلومات تک رسائی کی وہ سہولیات میسّر آئیں کہ جن کا تصور بھی
محال ہے ۔ یاہو،ایم ایس این ، ہاٹ میل جیسی سائٹس نے دستاویزات اور لیٹرز
کی ترسیل اور آپس کے رابطوں کو سہل بنادیا ۔ ہر کام سیکنڈوں اور منٹوں میں
ہونے لگا ۔ 4فروری2004 ء کومعروف کمپیوٹر پروگرامر ایک24 سالہ امریکن
نوجوان مارک ایلیٹ ذکربرگ(Mark Elliot Zuckerberg) نے ’’فیس بُک ‘‘نامی
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ متعارف کروائی تو شاہدوہ خودبھی سوچ نہیں سکتا
تھا کہ یہ اس قدر مقبول عام ہو جائے گی ۔لیکن گذشتہ چند سالوں میں ’’فیس
بُک ‘‘ بنانے والوں نے اس میں انسانی فطرت کو مدّنظر رکھتے ہوئے ایسی
انقلابی تبدیلیاں کیں کہ جن کی وجہ سے سماجی رابطوں میں آسانیاں پیدا ہوئیں
اور اس سائٹ نے کامیابی کے وہ جھنڈے گاڑھے کہ گذشتہ صرف12سالوں میں ’’فیس
بُک‘‘ کے آثاثے کھربوں ڈالر تک پہنچ چکے ہیں جبکہ اس کے خالق نوجوان مارک
ایلیٹ ذکر برگ کے اکتوبر 2016ء تک آثاثوں کی مالیت55.3 بلین ڈالر تک پہنچ
چکی اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے ، اس وقت اس نوجوان کا شمار دُنیا کی
5ویں امیر ترین شخصیت میں ہوتا ہے۔’’فیس بُک‘‘ کے خالق کا مقصد ظاہر ہے کہ
سماجی رابطوں کو وسعت دینا تھالیکن ہم نے اس تخلیق کو مثبت کی بجائے منفی
سرگرمیوں کیلئے زیادہ استعمال کرنا شروع کر دیا۔جس کی وجہ سے ہم دین و
دُنیا دونوں سے ہی دور ہو کر رہ گئے۔فی الوقت آج یہ ’’فیس بُک‘‘ ہر عام و
خاص کی ضرورت بن چکی ہے ۔ اِسے اگر ہم شیطان ابلیس کی ایجاد قرار دیں تو بے
جا نہ ہوگا لیکن اس کے خالق کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے بحیثیت مسلمان
ہم اپنی اپنی سطح پر اپنے اپنے گریباں میں جھانکیں تو ہمیں اپنی کوتاہیوں
اور لغرشوں پر خود بھی شرمندگی محسوس ہو گی ۔افسوسناک امریہ کہ ہم نے’’خود
احتسابی‘‘ پر کبھی توجہ دینا ہی مناسب نہیں سمجھا
’’فیس بُک ‘‘ جس کے لفظی معنی ہی ’’شخصیت کی کتاب ‘‘ بنتے ہیں ، نے مقبولیت
کے تمام ریکارڈ توڑدئیے ہیں۔لوگ یاہو، ایم ایس این سمیت تمام دیگر سائٹس کو
یکسر بھولتے جا رہے ہیں۔جبکہ ’’فیس بُک‘‘ سے بچے ،بوڑھے اور جوان حتیٰ کہ
خواتین کی اکثریت یوں وابستہ ہو چکی ہے کہ ۔۔رہے نام اﷲ کا ۔۔۔ہر دوسرا شخص
’’فیس بُک‘‘ کا شیدائی بلکہ اس قدر عادی ہو چکا ہے کہ جیسے یہ بھی کوئی
’’ہیروئین‘‘جیسا نشہ ہے کہ اگر اُسے استعمال نہ کیا گیا تو پھر خُدا
نخواستہ اُس کی موت واقع ہو جائے گی ۔ موجودہ حالات اور لوگوں کے مزاج کا
جائزہ لیا جائے تو ’’فیس بُک‘‘ کی وجہ سے لوگ اپنی اصل شناخت ہی بھول چکے
ہیں بلکہ دن اور رات کے 24گھنٹوں میں زیادہ سے زیادہ وقت ’’فیس بُک‘‘ کو دے
رہے ہیں۔ یوں تو دنیا بھر میں ’’فیس بُک‘‘کا استعمال عام ہے لیکن اس حقیقت
سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ پاکستان فیس بُک استعمال کرنے والے تمام ممالک
میں سر فہرست ہے ،کیونکہ معاشرے کا ہر فرد اس کے نشے کا عادی ہو چکا ہے
لوگوں کو ناشتہ اور کھاناتک بھول چکا ہے ۔گھروں میں اِس کی وجہ سے لڑائیاں
اور جھگڑے ہونے کی شکایات عام ہیں۔’’فیس بُک ‘‘ پر فرینڈ شپ کے چکر میں بچے
اور بچیاں گھروں سے راہِ فرار اختیار کر رہی ہیں ،شادی شدہ خواتین و حضرات
بھی اس کی بدولت بے راہروی کا شکار ہو رہے ہیں۔بچے اور بچیاں تعلیم سے دور
ہوتی جا رہی ہیں۔موجودہ صورتحال میں روز بروز خرابیاں بڑھ رہی ہیں۔بدقسمتی
سے پاکستانیوں نے بھی اپنی ’’فیس بُک ‘‘ بنائی لیکن اُسے زیادہ پذیرائی
حاصل نہ ہو چکی ۔ہم لوگوں کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ ہم اپنے ربّ کی نازل
کردہ عظیم کتاب ’’قرآن حکیم‘‘ کو سال ہا سال کھولنے اور اُسے پڑھنے یا اُس
سے استفادہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے مگر ابلیس کی ایجاد کردہ ’’فیس
بُک‘‘ کودن ہو یا رات ہمہ وقت کھولے بناء چین نہیں پاتے ۔اِس کا نشہ ہماری
رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے۔صبح شام ۔۔جسے دیکھو ۔۔’’فیس بُک ‘‘ میں الجھا
نظر آتا ہے ۔ بیشک! بعض لوگوں نے اس کے ذریعے دین اسلام کی تبلیغ کا سلسلہ
بھی شروع کر رکھا ہے جو کہ لائق ستائش ہے لیکن کچھ ایسے ناہنجار قسم کے
عناصر بھی ہیں جو گستاخانہ خاکوں کے ذریعے مقدس ہستیوں کی تضحیک کے ساتھ
ساتھ مذہبی تفرقہ بازی کے ذریعے بھی مسلمانوں کو آپس میں لڑانے پر ادھار
کھائے بیٹھے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ اکثر لوگوں نے اسے ذہنی عیاشی کا
ذریعہ بنا رکھا ہے ۔بعض لوگ تو اس کا سہارا لے کر قوم کی بہو بیٹیوں کی
عزتوں کا جنازہ نکالنے جیسا مکروہ دھندہ بھی انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے
کر رہے ہیں اور انہیں نکیل ڈالنے والا کوئی آہنی ہاتھ نہیں ہے ۔
لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے گستاخانہ خاکوں کی
بناء پر پاکستان میں ’’فیس بُک ‘‘ بند کر دینے کا عندیہ دینے کے بعد عوامی
و سماجی حلقوں میں ایک نہ ختم ہونے والی بحث شروع ہو گئی تھی ۔لیکن گذشتہ
روز وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنی پریس کانفرنس میں واضح
کیا ہے کہ ’’فیس بُک‘‘انتظامیہ نے متعدد گستاخانہ خاکے ہٹا دئیے ہیں اور
مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے ۔خدا کرے کہ ’’فیس بُک‘‘ کے ذمہ داران
مسلم اُمہ خصوصاً پاکستانی عوام کے جذبات کا احساس کرتے ہوئے گستاخانہ
خاکوں سے ’’فیس بُک‘‘کو پاک کرنے کے لیے اقدامات کو یقینی بنائیں ۔
ایک لمحہ لوگوں کی دلچسپیوں کا جائزہ لیا جائے تو نعوذباﷲ ! میں یہ کہنے کی
جسارت کررہا ہوں کہ ابلیس نے اشرف المخلوقات خصوصاً مسلمانوں کو گمراہ کرنے
کے دعوے کو موجودہ صدی میں 90فیصد سچ کر دکھایا ہے ۔ مسلمان قرآن پاک جیسی
عظیم کتاب سے دور ہوتے جا رہے ہیں جبکہ ابلیس برانڈ ’’فیس بُک‘‘کے استعمال
کو اپنی زندگی کا اہم حصّہ تصوّر کرنے لگے ہیں ۔آخر کب مسلم اُمہ بیدار ہو
گی ۔ ؟ یہ وہ سوال ہے کہ جس کا جواب شاہد قیامت تک نہ مل سکے ۔کیونکہ زمانہ
جس تیزی سے ترقی کررہا ہے ایسا نظر آتا ہے کہ ’’فیس بُک‘‘ کے بعد ابلیس کے
پیروکار جو اگلی کتاب ایجاد کریں گے اس کے بعد سب ہی اخلاقی و معاشرتی
اقدار فنا ہو جائیں گی ۔ اﷲ نہ کرے کہ وہ وقت آئے کہ جب قرآن پاک ہماری
غفلت اور دین سے دوری کے سبب طاق ِنسیاں ہو جائے اور ہم ’’فیس بُک ‘‘ پر دی
گئی یہودونصاریٰ کی تعلیمات کو اپنے لئے راہ نجات سمجھ کر اپنی دنیا و آخرت
خراب کر لیں اور تباہی و بربادی کے اُس غار میں جا گریں جہاں سے ہمیں کوئی
بھی نکال نہ سکے ۔ اﷲ خیر کرے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |