جنگل میں دنگل

ایک جنگل میں گیدڑ کی حکومت تھی۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہاں شیر نہیں تھے بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنگل میں جمہوریت تھی اور جمہوریت میں جس کی اکثریت ہو حکومت اسی کی ہوتی ہے۔ اب چونکہ جنگل میں ہر طرف گیدڑ ہی گیدڑ تھے اس لیے ان کا ہی راج تھا۔

جنگل میں دنگل

ایک جنگل میں گیدڑ کی حکومت تھی۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہاں شیر نہیں تھے بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنگل میں جمہوریت تھی اور جمہوریت میں جس کی اکثریت ہو حکومت اسی کی ہوتی ہے۔ اب چونکہ جنگل میں ہر طرف گیدڑ ہی گیدڑ تھے اس لیے ان کا ہی راج تھا۔

جنگل میں جمہوریت تو تھی لیکن قانون جنگل کا ہی تھا یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ اب جس کا جہاں زور چلتا وہ اپنا منھ مارنے سے باز نہیں آتا تھا۔گیدڑ چونکہ طاقتور نہیں تھا اس لیے کوئی ان کی سنتا بھی نہیں تھا۔ گیدڑ کو بھی اس کی کوئی پروا نہیں تھی کہ کوئی اس کی سنتا ہے یا نہیں سنتا۔ وہ تو بس اسی میں خوش تھا کہ وہ جنگل کا لیڈر ہے۔

جنگل میں ہر طرف ایک افراتفری مچی رہتی تھی۔ ہر کوئی اپنی جان بچانے کی فکر میں رہتا لیکن اس کے باوجود کسی کی جان محفوظ نہیں تھی۔ جہاں کسی جنگلی جانور کا دل چاہتا وہ اپنی بھوک مٹانے میں ذرا برابر دیر نہ کرتا۔ شریف جانور اس بات کی شکایت لے کر روز گیدڑ کے دربار میں رونق افروز ہوتے لیکن وہاں ان کا سامنا لومڑیوں اور بھیڑیوں سے پیش آتا۔ جوانہیں دیکھ کر اپنی رال ٹپکانے لگتے۔

ایک دن کاذکر ہے کہ پتا نہیں کہاں سے کوئی گدھا بھولا بھٹکا اس جنگل میں آپہنچا۔ جنگل کا ماحول دیکھ کر پہلے تو وہ سٹپٹایا پھر گویا اس کی سمجھ میں کچھ انوکھا آیا۔ اتنا شور مچایا کہ پورے جنگل کے جانور اس کے پاس جمع ہوگئے اور اس سے شور کی وجہ پوچھنے لگے۔

”میں جنگل کے راج کو چیلنج کرتا ہوں۔ یہاں ظلم ہو رہا ہے۔ میں اسے تبدیل کروں گا۔ آپ سب میرا ساتھ دیں۔“ گدھے کی زوردار تقریر سن کر کچھ جانور گدھے کے ساتھ ہو لیے۔ان جانوروں میں اکثریت گھاس کھانے والوں کی تھی اور دوسری طرف گوشت خور گیڈر کے ساتھ رہے۔ گویا اب جنگل میں گیدڑ کے مقابلہ میں گدھے آگئے۔

گیدڑ کو اپنی حکومت ختم ہوتی دکھائی دینے لگی تو اسے فکر ہوئی۔ اس نے فوراً اپنی کابینہ بلائی اور اس پر غور ہونے لگا کہ کس طرح گدھے کی آواز کو دبایاجائے۔ چیتے نے کہا کہ وہ اس کی گردن مروڑ دے گا۔ لیکن لومڑی بولی اس طرح تو وہ جنگل کا ہیرو بن جائے گا اورجو اس کے ساتھ نہیں وہ بھی اس کی پارٹی میں شامل ہوجائے گا۔ کچھ ایسا کرو کہ وہ مظلوم بھی نہ بنے اور اس کا کام بھی تمام ہوجائے۔سبھی اس مسئلہ پر سر جوڑے بیٹھے رہے۔ کسی نے کچھ تجویز دی تو کسی نے کچھ لیکن کسی بھی تجویز پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ آخر تنگ آکر گیدڑ نے محفل برخواست کردی۔ گیدڑ کو ایسا لگ رہا تھا کہ گدھے کے پیچھے ضرور کسی کا ہاتھ ہے اس لیے اس نے سوچا کہ پہلے دھمکیاں دے کر دیکھا جائے پھر دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔

دوسری طرف گدھا گیدڑ بھبکیوں سے بے پروا جگہ جگہ جوش خطابت دینے میں مصروف تھا۔ اسے جو بھی ملتا وہ اسے اپنی پارٹی میں شامل کرلیتا۔ وہ یہ بھی نہیں دیکھتا کہ یہ تو خود ظالم ہے۔ گدھے کے شور نے بہت جلد ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔گیدڑ کی گرتی ہوئی شہرت کو دیکھ کر کچھ جنگلی جانور بھی اس کو چھوڑ کر گدھے کے کیمپ میں شامل ہوگئے تھے۔

شیر اپنی کچھاڑ میں بیٹھے یہ سب تماشا دیکھ رہے تھے۔ انہیں اس جمہوری تماشے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا کیونکہ ان کی بھوک پیاس مٹ رہی تھی اور پھر انہیں لیڈر بننے کا شوق بھی نہیں تھا۔ کیونکہ لیڈر بن کر وہ پہلے بھی کئی بار بدنام ہوچکے تھے اس لیے وہ ایسا کوئی شوق پالنے کے چکر میں نہیں تھے۔لیکن گدھے کی آمد نے ان کے بھی کان کھڑے کردیے تھے اوروہ کچھ سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

ادھر ہاتھی اپنی مستی میں مست ، اپنے خاندان کو یکجا کرکے یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ انتخاب جیت سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا نظم و ضبط بہترین تھا اور وہ طاقتور بھی تھے لیکن ان کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کسی اور کو اپنے ساتھ ملانے میں ابھی تک ناکام رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ جو بھی ان کا ساتھ دینا چاہے وہ ان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کرچلے لیکن بھلا ایسا کیسے ممکن تھا۔ ہر کوئی تو ہاتھی بن نہیں سکتا تھا اور وہ ہر ایک کو اپنی طرح دیکھنا چاہتے تھے۔

گینڈے بھی اپنی سینگ سے آگے دیکھنے کو تیار دکھائی نہیں دیتے تھے۔ اس لیے وہ بھی کسی کے ساتھ ملنے کے لیے تیار نہیں تھے البتہ آگے آگے چلنا چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ اکثر چلتے چلتے بہت دور نکل جاتے تھے اور پیچھے جب بھی پلٹتے تو ان کے پیچھے کوئی نظر نہیں آتا تھا۔

زرافے اپنی گردن گھما گھما کر یہ ساری خبریں جنگل میں آگ کی طرح پھیلا رہے تھے۔ دور دور تک دیکھنے کے باوجود انہیں اکثر اپنے قریب میں ہونے والے واقعات کی خبر نہیں ہوتی تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ذرا ڈرپوک تھے یا پھر کسی سے دشمنی مول نہیں لینا چاہتے تھے۔ لیکن گدھے کے شور نے انہیں بھی اپنی گردن اپنی طرف گھمانے پر مجبور کر دیا تھا۔ اسی لیے اب انہیں کچھ اور دکھائی ہی نہیں دیتا تھا۔ اسے گدھے میں اپنے مفادات جو دکھائی دینے لگے تھے۔ اسی لیے وہ ہر وقت گدھے ہی کی باتیں کرنے لگے تھے۔

جنگل کا انتخابی دنگل جوں جوں قریب آرہا تھا، گیدڑ کی پریشانی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اس نے گدھے کو ڈرانے کے لیے کچھ کتوں کو اس کے پیچھے لگا دیا تھا جو روز اس کے پیچھے بھونکتے۔اس طرح وہ گدھے کی آواز کو دبانے میں تو کامیاب نہیں ہوسکے تھے لیکن اکثر جانوروں کو گدھے سے دور رہنے پر ضرور مجبور کردیا تھا۔

اس سارے کھیل تماشوں سے دور بہت ہی دور جنگل کے کنارے دریا پر مگر مچھ بیٹھے آنسو بہا رہے تھے اور ان کے آنسو خشک کرنے والا کوئی نہ تھا۔ پتا نہیں انہیں کیا دکھ تھا جس کا وہ اظہار نہیں کرسکتے تھے۔ ان کے پیٹ بھی بھرے ہوئے تھے اور دانت بھی خون آلود تھے۔ ان کے دانت صاف کرنے کے لیے ہر وقت کوئی نہ کوئی پرندہ آکر ان کے پاس بیٹھ جاتا تھا اور ان کی مظلومیت بھری بپتا سنتا تھا۔ ان کی خاموشی سے اکثر جانور یہ سمجھتے تھے کہ یہ سوگ میں بیٹھے ہیں۔ ان کی لگائی ہوئی موم بتیاں بھی سب کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی تھیں۔پھولوں کی پتیاں پتا نہیں کہاں سے یہ لے کر یہاں بیٹھ جاتے تھے اور پھر دن بھر مگر مچھ آنسو بہاتے رہتے تھے۔

گیدڑ کو اپنی حکومت جاتی دکھائی دینے لگی تو اسے پتا نہیں کیوں یہ لگنے لگا کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ اس لیے اس نے اپنے پرانے حریف بن مانسوں سے بھی ہاتھ ملانے میں کچھ عار محسوس نہ ہوئی۔ بن مانس تھے تو بڑے ہی بھلے مانس لیکن وہ صرف اپنوں کے لیے تھے۔ سارے جانور انہیں بہت شریف سمجھتے تھے اور ان کی عزت کرتے تھے۔ لیکن ان کے کالے کرتوتوں سے صرف وہی جانور آگاہ تھے جو اس کا شکار رہ چکے تھے۔ ان کی شرافت کا لبادہ اکثر جانوروں کو دھوکہ میں ڈال دیتا تھا۔ بندر سب سے زیادہ ان کے فین دکھائی دیتے تھے کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ ان کی نسل سے ہی ہیں۔

گیدڑ اور بن مانس بظاہر تو دونوں ایک دوسرے کے سخت حریف اور دشمن سمجھے جاتے تھے لیکن یہ بات بہت کم جانور جانتے تھے کہ یہ گہرے دوست ہیں۔انتخابی دنگل سے قبل دونوں نے مل کر منصوبہ بنایا کہ کس طرح انتخاب جیتنا ہے۔ دونوں نے مل کر ایک تحریری معاہدہ بھی طے کرلیا جو ابھی تک تحریری شکل میں نہیں تھا۔دونوں نے ایک دوسرے کے جرائم پر پردہ رکھنے کا وعدہ کیا اور باری باری حکومت کرنے کا عہد کیا۔ پھر باہمی رضا مندی سے انتخابی دنگل کو کروانے کے لیے لومڑیوں کو یہ کام سونپ دیا گیا۔

کہتے ہیں کہ اس جنگل میں اب بن مانس حکومت کررہے ہیں۔ گدھے آج بھی جنگل میں شور مچارہے ہیں لیکن کوئی ان کی ایک سننے کو تیار دکھائی نہیں دیتا۔ شیر اپنی کچھاڑ میں بیٹھے ہیں اور جنگل کو محفوظ قرار دے رہے ہیں اور اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کبھی کبھی وہ کوئی بڑی کاروائی کرتے ہیں۔جنگل میں آج بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہے۔ اس جنگل پر ہر وقت گدھ منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں لیکن سب خوش ہیں کہ وہ تو ابھی محفوظ اور زندہ ہیں۔کیا آپ نے ایسا جنگل دیکھا ہے؟

Rao Anil Ur Rehman
About the Author: Rao Anil Ur Rehman Read More Articles by Rao Anil Ur Rehman: 88 Articles with 223887 views Learn-Earn-Return.. View More