کوئی کسی سے بلا وجہ بات چیت نہیں کرتا تھا۔ ہر فرد
خاموشی سے گھر کے کسی نا کسی کونے میں دبکا بیٹھارہتا۔۔۔ دن کاٹتا رہتا۔۔۔
کیا مجدی کی والدہ، کیا والد، کیا بہن بھائی۔۔۔ سونا سونا سا ہو گیا تھا وہ
گھر۔۔۔ خود مجدی کی حالت تو سب سے بری تھی۔ سب کی امیدوں کا مرکز جو تھا
وہ۔۔۔ اور کوئی امید نظر نہیں آتی تھی۔۔۔ لوور مڈل کلاس فیملیز کی سیونگز
تو کوئی ہوتی نہیں۔۔۔ کبھی ایسا مشکل وقت آ جائے تو گھر کی عورتیں اپنے
زیور بیچ دیتی ہیں اور بس۔۔۔ یا پھر ادھار کی نوبت آ جاتی ہے۔
مجدی کے گھر کے حالات بھی کچھ اسی موڑ پر آ پہنچے تھے۔
’’بیٹا ! کل انکل یونس آئے تھے‘‘۔ مجدی کی امی نے صبح صبح اس کو تیار ہو تے
دیکھا۔
’’اچھا!‘‘ ۔ اس کا دل بھاری سا ہو گیا۔ انکل یونس ہی اس کے ہونے والے سسر
تھے۔
’’تمہارا بہت پوچھ رہے تھے۔۔۔‘‘۔’’ تمہاری جاب وغیرہ کے بارے میں۔۔۔‘‘ ۔ اس
کی امی ایک ایک جملہ کہہ کے کچھ ٹھہر جاتیں۔ مجدی نے آہستہ سے سر ہلایا کہ
ان کی بات سن رہا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ ان کی پوچھ گچھ کس انداز میں ہوتی
ہے۔ ظنز و طعنوں کی بوچھاڑ ہی سمجھو۔۔۔
’’میں آج کل ذولقر کے ساتھ کام کر رہا ہوں‘‘۔ مجدی نے اپنی امی کو بتایا تا
کہ جان انکل تک بات پہنچ جائے اور وہ مطمئین ہو جائیں کہ وہ کچھ کر رہا ہے۔
’’اچھا!‘‘۔ اس کی امی کی آنکھوں میں فوراََ ایک چمک سی آ گئی ۔ دل میں
انہوں نے شکر ادا کیا کہ مجدی کا کچھ تو بنا۔
’’ام م م۔۔۔‘‘۔ ’’ ویسے تو۔۔۔ عارضی سی نوکری ہے۔۔۔ پتا نہیں سالری بھی
کتنی دے گا وہ۔۔۔‘‘ ۔ مجدی نے اداس سی آواز میں امی کو بتایا تا کہ وہ کہیں
یہ نا سمجھ لیں کے اب سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے۔ بات بھی سچ ہی تھی۔
اس کی امی پھر فکر مند سی ہو گئیں۔ جو جو باتیں مجدی کے سسر بنا کر گئے تھے
وہ سب تو انہوں نے ہی سہیں تھیں۔ سب جانتے تھے کہ اگر ان سب کے حالات نارمل
نہ ہوئے تو اس رشتے کا آگے بڑھنا مشکل ہے۔ وہ لوگ بڑے لوگ تھے۔ مال دار
تھے۔ مجدی تو رہتا بھی کرائے کے گھر میں تھا۔ ان کے پیسے کے تکبر کی کاٹ
مجدی کے ہاتھ میں نہ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔
فوزیہ حیدر آباد میں اپنی کزن کی شادی میں خوب انجوائے کر رہی تھی۔ بڑب
اسپیشل شادی تھی یہ۔۔۔ بہت سارے مہمان پاکستان کے تمام شہروں سے آئے ہوئے
تھے۔ یہاں تک کہ بیرون ملک جو رشتہ دار مقیم تھے وہ بھی آنپہنچے تھے۔۔۔
ایک دن پہلے مہندی ہوئی تھی اور آج بارات تھی۔ ساری رات فوزیہ اور اس کی
تمام کزنزناچتی گاتی رہیں۔۔۔ بہت مزہ آ رہا تھا ان سب کو۔۔۔ لڑکے والوں اور
لڑکی والوں کے بیچ جوشیلے مقابلے ہو رہے تھے۔ ایک دوسرے پر جملے کسنا۔۔۔
پوائنٹس مارنا۔۔۔ شرارتیں کرنا۔۔۔ تنگ کرنا۔۔۔ غرض یہ کے سب دل کھول کر ان
دنوں کا مزہ لے رہے تھے۔
فوزیہ کزنز میں نسبتاََ بڑی تھی ۔ غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے دلہن کے
تیاریوں میں سب سے ذیادہ آگے آگے وہی ہوتی تھی۔ دوسرے بھی اسے ہی ساری ذمہ
داریاں سونپ دیتے۔ دلہن کا دوپٹہ لانا ہو۔۔۔ پارلر میں اپائنٹمنٹ لینا
ہو۔۔۔ خود کے لئے سینڈلز خریدنے ہوں۔۔۔ یا شادی حال کی سجاوٹ میں مشورہ
چائیے ہو ۔۔۔ ہر معاملے میں فوزیہ کا نام آنا ضروری تھا۔ اس گہما گہمی میں
مجھے تو وہ بھول ہی گئی تھی۔ رات بھر جگ راتا کر کے دن کو دیر سے اٹھنا اور
پھر اٹھتے ہی شادی کی تیاریوں میں لگا جانا۔۔۔ سارے دن میں کوئی ایک دو
میسجز اس کے مجھے آتے اور تین دن سے کوئی کال تو اس نے اٹھائی ہی نہ تھی۔۔۔
چلنے کا حوصلہ نہیں، رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے مجھ کو نڈھال کر دیا
ممکنہ فیصلوں میں اک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی، اس نے کمال کر دیا (پروین شاکر)
فراق کی صعوبتیں جھیلنا ممکن نا تھا
یہ کیسا روگ لگ گیا، ہمیں بے حال کر دیا(کشور باقر)
مجھ سے اور نہیں رہا جا رہا تھا۔ میں نے دو روز کے لئے مجدی کو آفس میں
بٹھایا ، گاڑی اسٹارٹ کی اور حیدر آباد چل پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔
دلاور کے روز وشب ویسے ہی گزر رہے تھے جیسے پہلے گزرتے تھے۔ اس کے روٹین
میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔۔۔ کوئی اسے احساس دلانے والا بھی نہیں
تھا۔۔۔ کہ اب پہلی سی بات نہیں رہی۔۔۔
والد تو پہلے ہی انتقال کر گئے تھے، اب بھائیوں سے بھی کنارہ کشی ہو گئی۔
وہ مست تھا۔ بے فکرا۔۔۔ بے پرواہ۔۔۔ تیس لاکھ کون سی کم رقم ہوتی ہے۔ ویسے
بھی دوکان بھی تو چل رہی تھی۔ اس سے بھی منافع آتا رہے گا۔ دو تین سال تو
مزے سے گزر ہی جائیں گے۔ بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔ یہی تھی اس کی
سوچ۔۔۔
سبین کو آخری بار جو دو ٹوک اس نے سنائیں تھیں ، اس کے بعد ان کا کانٹیکٹ
نہ ہوا۔۔۔ ویسے بھی اب سیما آ چکی تھی۔۔۔ لہذا سبین کی کیا ضرورت تھی۔۔۔
سیما کو اس نے ذیادہ سوار نہیں کیا ۔ کبھی مہہ جبین کے ساتھ ہوتا تو کبھی
نیلوفر کے ساتھ۔۔۔ اس کے حسن و جمال ، دولت و تیور کے آگے تو سب ڈھیر
تھیں۔۔۔ ایسے شخص کے ساتھ اگر ہدایت بھی جڑ جاتی تو ذاتِ باری تعالی کا
جیتا جاگتا معجزہ ہوتا۔۔۔
’’جان! تم نے پھر فون ہی نہیں کیا!!!‘‘ ۔ غیر متوقع طور پر سبین کا میسج
دلاور کے موبائیل پر نمودار ہوا۔
میسج پڑھ کر دلاور کی بانچھیں کھل گئیں۔ وہ تو اپنی زندگی کی کتاب سے سبین
نام کا صفحہ پھاڑ چکا تھا۔
’’گْڈ!‘‘ دلاور نے خود سے کہا اور خوش ہوا۔ وہ سمجھ گیا کہ وہ سبین جیسا
اور سبین اس جیسی ہے۔ اب یہ تماشہ ہمیشہ چلتا رہے گا۔ وہ بھی خوش اور سبین
بھی۔۔۔
اس نے موبائیل پر جواب ٹائپ کرنا شروع کر دیا۔
’’کب ملنا ہے ڈارلنگ! ہم تو آپ کے میسج کا ہی انتظار کر رہے تھے‘‘۔ دلاور
نے ایک ہوس بھری سانس لی اور وہ رات سبین سے وصال کے نام کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔
مجدی میرے اسٹور سے واپس گھر آ گیا تھا۔ دو تین ہفتے ہی گزرے ہوں گے اسے
میرے ہاں کام شروع کئے ہوئے۔شام کے پانچ بج رہے تھے۔ وہ گھر میں ایک موڑھے
پر بیٹھا اپنے موزے اتارنے لگا۔ یکایک اسے موزوں کی بد بو محسوس ہوئی، اس
نے ناک چڑھائی اور اٹھ کر انہیں گندے کپڑوں میں ڈال دیا۔ پھر واش روم کا رخ
کیا اور اپنا منہ ہاتھ دھویاتا کہ تازہ دم ہو جائے۔
شام کی چائے تیار تھی۔ اس کی امی نے ایک کپ مجدی کے لئے نکالا اور اس کی
طرف بڑھنے لگیں۔
’’شکریہ امی!‘‘۔ مجدی نے کپ ہاتھ میں لیا اور برآمدے میں رکھی چارپائی پر
پاؤں اوپر کر کے بیٹھ گیا۔ اس کی امی بھی ساتھ ہی بیٹھ گئیں۔
’’مجدی بیٹے! اگلے ہفتے جان انکل کی چھوٹی بیٹی کی منگنی ہے۔۔۔‘‘۔ ان دونوں
نے چائے کے کپ کی ایک ایک چسکی لی۔
’’ بہت بڑی دعوت کا اہتمام کیا ہے انہوں نے۔۔۔‘‘۔وہ پھر بولیں۔
’’چلو گے؟؟؟‘‘ مجدی خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔ اس نے اب بھی کوئی
جواب نہ دیا اور کسی سوچ میں پڑ گیا۔
جان انکل کے ہاں دعوت کا مطلب تھا خوب فضول خرچی ، دکھاوا اور نمود و نمائش
۔۔۔ ظاہر ہے وہ کھاتے پیتے لوگ تھے۔ یہ سب تو ان کے ہاں فیشن اور اسٹیٹس
سمبل تھا۔۔۔ اورِ مجدی کے گھرانے کی اتنی حیثیت نہیں تھی کہْ ان کی برابری
کر سکتے۔ منت سماجت کر کے ان لوگوں سے رشتہ تو ہو گیا تھا کیونکہ اس وقت
پھر بھی مجدی ایک اچھی نوکری کر رہا تھا۔۔۔ ترقی کی کچھ آس تھی۔۔۔ مگر اب
تو وہ صاف صاف کچھ نا کچھ طعنہ دے جاتے تھے۔
دعوت میں شرکت بھی لازمی تھی اور کوئی نہ کوئی مہنگا تحفہ تو ضرور لے کر
جانا تھا ۔ گھر کے سب افراد کو بھی بہتر سے بہتر تیار ہونا تھا۔ اگر کسی کے
پاس مناسب کپڑے نہ ہوئے تو وہ بھی دلانے ضروری تھے۔۔۔پرفیوم بھی خریدنا
تھا۔۔۔اور وہاں جانے کے لئے کار بھی بک کرانی تھی۔۔۔
دوسرے دن مجدی نے مجھ سے بیس ہزار روپے ادھار مانگ لئے۔ مجھے اس کے تنگ
حالات کا اندازہ تو تھا ہی ۔ سو میں نے بلا جھجھک اسے پیسے دے دئیے۔ بس ان
ہی بیس ہزار روپوں سے دعوت میں جانے کا اہتمام کرنا تھا۔ شاپنگ سینٹر گئے
تو مجدی کی امی کو ایک مناسب سا سونے کا نیکلس پسند آ گیا۔ نہ دکھنے میں
بہت بڑا تھا نہ بہت چھوٹا تھا۔۔۔خوبصورت بھی تھا۔ نگینے بھی لگے تھے اور
سونا بھی اچھا تھا۔ قیمت پچپن ہزار روپے۔۔۔ مجدی اور اس کی امی دونوں کے
چہروں کا رنگ بدل گیا۔ انہوں نے دوکان والے سے کوئی بحث و مباحثہ نہ کیا
۔۔۔ یہاں تک کے ایک دوسرے سے بھی کچھ نہ بولے اور دوسری طرف کو کوئی اور
چیز دیکھنے لگے۔ سانسیں جیسے چلنا رک گئیں تھیں۔ کیا خریدتے۔۔۔ سمجھ آ گیا
تھا کہ کوئی اچھا اور مناسب نیکلس خریدنا ان کے بس میں نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
جان انکل کی چھوٹی بیٹی کی منگنی ایک انجینئیر سے ہوئی تھی ۔ بڑے اچھے اور
سلجھے ہوئے لوگ تھے وہ۔۔۔ مجدی اور اس کی منگیتر تو آپس میں کزن لگتے تھے
مگر وہ لوگ خاندان سے باہر کے تھے۔
تقریب ختم ہوئی تو تمام مہمان اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے بس کزنز وغیرہ
گھر رک گئے کہ ایک خوشی کا موقع ہے کچھ ہنسی مذاق ہو جائے۔ تمام قریبی رشتہ
داروں کے ایک ساتھ ملنے کے مواقع روز روز تو آتے نہیں۔
مجدی اور اس کی منگیتر اور تمام دوسرے کزنز اور انکل وغیرہ سب ان کے گھر کے
بڑے ہال میں جمع ہو کر بیٹھے تھے۔ دیواروں کے ساتھ رکھے صوفوں پر سب چچا
تایا مامو خالو بیٹھ گئے اورسب کزنز نے بیچ میں بچھی قالین پر دائرہ بنا
لیا۔
’’ بھئی اینے تحفے تو دکھاؤ!!!‘‘ ۔ کسی نے فرمائش کی۔
’’ہاں ہاں! کیا کیا گفٹس ملے ہیں ۔۔۔ دکھاؤ تو سہی۔۔۔‘‘ سب کہنے لگے۔ مجدی
اور اس کے گھر والوں کا دل بھاری سا ہو گیا۔ پتا نہیں کیا کیا قیمتی تحائف
سب نے دئیے ہوں گے۔ ان کا دیا ہوا نیکلس کیسا لگے گا ۔۔۔ کسی کو پسند آئے
گا کہ نہیں۔۔۔ کوئی کچھ کہہ نہ دے۔ ہزار طرح کے خیالات ان کے ذہن میں گردش
کرنے لگے۔
’’واؤ۔۔۔‘‘۔ ’’ امیزنگ!‘‘ ۔ کچھ لڑکیوں نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لئے۔ سب سے
پہلے سب سے بڑا پیکٹ کھولا گیا۔ یہ سونے کا سیٹ لڑکی کو اس کے منگیتر نے
خاص طور پر دبئی سے منگوا کر دیا تھا۔ مجدی اور اس کی امی کے منہ میں جیسے
الفاظ ہی پھنس گئے ہوں۔وہ خاموشی سے اس دلکش نیکلس کو تک رہے تھے۔
’’ارے ہمارا گفٹ کھولو۔۔۔‘‘۔ مجدی کے خالو جو وہاں موجود تھے ۔ انہوں نے
بڑے دعوے سے کہا۔ وہ لڑکی کے ماموں لگتے تھے۔
وہ ایک چھوٹا سا پیکٹ تھا مگر کافی بھاری تھا۔ ’’اوہ جیزز! اتنی ساری سونے
کی چوڑیاں۔۔۔‘‘ لڑکی تو جیسے ان چوڑیوں کی چمک میں گم ہو گئی۔
مجدی ایک طرف کو بیٹھا اینے چہرے پر گھبراہٹ میں ہاتھ پھیرتا ۔۔۔ کبھی ایک
انداز سے قالین پر بیٹھتا کبھی دوسرے انداز سے۔۔۔
’’تھینک یو خالہ جان۔۔۔!‘‘ ۔وہ خالہ جان کے گلے لگا گئی۔ خالہ جان نے بھی
اسے تحفے میں ایک سیٹ دیا تھا۔ جس میں انگوٹھی اور کانوں کی بالیاں بھی
تھیں۔ ’’ کتنا زبردست ہے‘‘۔ ’’کتنا خوبصورت ہے‘‘۔ہر تحفہ ایک سے بڑھ کر ایک
تھا۔ تمام کزنز ہر جیولری کو دیکھ کر اوور ایکٹنگ کرنے لگتیں اور دل کھول
کر تعریفیں کرتیں۔۔۔
’’کیا ہے۔۔۔ زرا دکھانا !!!‘‘ ۔ جان انکل نے صوفے سے آگے کھسک کر قالین کے
بیچ پڑے ایک چوٹے سے ڈبے کو دیکھا۔ ایک باریک سی سونے کی چین جس میں جا بجا
پلاسٹک کے نقلی نگ لگی ہوئے تھے۔۔۔ سب کی آنکھوں کے سامنے تھی۔ کسی نے کچھ
نہیں کہا۔
’’یہ مجدی بھائی کا گفٹ ہے؟؟؟‘‘ ایک کزن ہلکا سا ہنس دی۔ شرمندگی سے مجدی
اور اس کی امی زمین میں گڑھ گئے ۔
کسی نے فوراََ ہی سارے گفٹس سمیٹنے شروع کر دئیے۔
’’دکھاؤ!‘‘ ایک دور بیٹھی آنٹی نے مجدی کا دیا ہوا نیکلس نما گفٹ مانگا کہ
قریب سے دیکھ سکیں۔۔۔ دور سے انہیں کچھ صحیح طرح سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ
وہ کیا ہے!!! چین ہے کہ نیکلس یا لاکٹ یا کیا!!! انہوں نے ڈبہ لیا اور بغیر
کچھ کہے سنے واپس کر دیا ۔کسی نے رسماََ بھی شکریہ ادا نہ کیا۔
مجدی اور اس کی والدہ نے اپنے حلق سے نیچے تھوک نگلا اور لال سا چہرہ لئے
اپنی لاچاری کا تماشہ کرنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔ |