وقت کو گزرنا ہوتا ہے ۔۔ آگے کی اور بڑھنا ہوتا ہے ۔۔۔
کبھی کسی نے اسے تھمتے ہوئے نہیں دیکھا رکتے ہوئے نہیں دیکھا ۔۔ جو لوگ وقت
کی رفتار کا ساتھ نہیں دے پاتے ان کے لئے خود کی زندگی مشکل پہیلی بن کر رہ
جاتی ہے ۔۔ اور جو لوگ وقت کی قدر کرنا جانتے ہیں وہ اپنی زندگی کو بھی
اچھے طریقے سے گزارنا جانتے ہیں ۔۔۔ اور ہر حال میں مطمعین اور آسودہ خاطر
رہتے ہیں ۔۔۔ مگر میں عائیشہ دانیال علی جس نے اماں بی سے وقت کی قدر کرنا
سیکھا تھا ۔۔ زندگی کی بھول بھلیاں میں وقت اور زندگی کے درمیاں اپنی ہی
ذات کو کھو دیا تھا ۔۔۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا ۔۔ اور سنئیہ سے جدائی کا
وقت بھی آن پہنچا ۔۔۔ شادی والے دن وہ گھر پر ہی تیار ہوئی تھی ۔۔ سادہ سی
میری بہن دلہن کے روپ میں حور پری لگ رہی تھی ۔۔۔ سمیر آف وائیٹ شیروانی
میں بڑا وجہیہ لگ رہا تھا ۔۔۔ ککو سنئیہ کی بار بار بلائیں لے رہیں تھیں
۔۔۔ پڑھ پڑھ کر پھوک رہیں تھیں ۔۔۔ میں بھی دل ہی دل میں اس کی نظر اتار
رہی تھی ۔۔ اللہ سے اس کی خوشیوں کی دعائیں مانگ رہی تھی ۔۔ نکاح صبح ہوچکا
تھا ۔۔۔ اور اب لگژر ی ہوٹل میں رسیپشن تھا ۔۔۔ سنئیہ خاموش تھی سر جھکائے
چپ چاپ فقط اپنے ہاتھوں پر نظر جمائے بیٹھی تھی ۔۔۔ میں جانتی تھی وہ مجھ
سے ناراض تھی ۔۔۔ مگر اس کے حق میں یہی بہتر تھا ۔۔۔ میری زندگی سے جڑا ہر
رشتہ خطرے کی زد میں تھا اور میں اپنی بہن کو ہر مصیبت سے بچانا چاہتی تھی
۔۔۔جب رخصتی کا وقت بچھڑنے کا وقت آن پہنچا ۔۔ اسے گاڑی میں بٹھایا جا رہا
تھا تب سنئیہ گاڑی میں بیٹھتے بیٹھتے رکی تھی اور پلٹ کر مجھ سے لپٹ گئی
تھی ۔۔۔
تم نے مجھے خود سے جدا کر کے اچھا نہیں کیا عائیشہ ۔۔۔ لیکن میں تمہارے لئے
ہمیشہ دعا کرتی رہونگی خدا تمہیں ہمیشہ خوش رکھے آمین ۔۔۔۔
میں نے اس کی بات پر خاموش اسے دیکھا تھا ۔۔۔ اور اسے پیار سے تھامے گاڑی
میں بٹھا دیا تھا ۔۔۔ دو دن بعد ولیمہ تھا ۔۔۔۔ جس کے ایک ہفتے بعد سنئیہ
کو اپنے شوہر سمیر کے ساتھ ابروڈ چلے جانا تھا اور اس کے بعد شاید ہم دونوں
بہنیں ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لئے دور ہوجانے والی تھیں ۔۔۔۔
*******************************
حوریہ کو تین مہینے ہوگئے تھے بابا کے پاس رہتے ہوئے ۔۔۔۔ ان کے زخم کھرنڈ
کی صورت میں تبدیل ہوگئے تھے ۔۔۔ شمشیر ہر وقت ان کے آگے پیچھے منڈلاتا
رہتا تھا ۔۔۔۔ شمشیر کو بابا کی لکھی کہانیاں اور سفر نامے زبانی یاد تھے
جو وہ حوریہ بی بی کو سناتا رہتا تھا ۔۔۔وہ بھی اس کی باتوں اکے سنائے گئے
قصوں کو بڑے شوق سے سنتیں ۔۔۔ انہیں یہ ننا سا معصوم سا جن اپنے ہی قبیلے
کا ایک جن لگا تھا ۔۔۔۔۔ اور بابا کی وہ بہت عزت کرنے لگیں تھیں ۔۔۔ اس دن
شمشیر میاں گھر سے باہر مٹر گشتی کرنے نکلے تھے اور حوریہ اس چلچلاتی دوپہر
میں باورچی خانے میں بابا کے لئے مرغ کی یقنی بنا رہی تھیں ۔۔۔۔ بابا کی
طبعیت کچھ ٹھیک نہیں تھی ۔۔۔ دمے کا عارضہ کافی عرصے سے جاں کو لگا ہوا تھا
۔۔ اسی سال سے اوپر عمر ہوگئی تھی اور دمے کا مرض پندرا دن سے کچھ زیادہ ہی
پریشان کر رہا تھا ۔۔۔۔ پھر بھی بابا کا قلم رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا
۔۔۔۔ ان کا ذریہ معاش بھی یہی تھا ۔۔۔ وہ ایک مشہور لکھاری تھے ۔۔۔ لیکن
انہیں شکلن کوئی پہچانتا نہیں تھا ۔۔۔۔
بابا ۔۔۔ پلیز یخنی پی لیں ۔۔۔۔
بس حوریہ بیٹی آدھے گھنٹے بعد پی لونگا ۔۔۔۔ آپ اسے کچن میں ہی رکھ دیں ۔۔۔
کام تو چلتا رہے گا ۔۔۔ مگر صحت سب سے زیادہ ضروری ہے ۔۔۔۔ اس لئے پلیز آپ
پہلے یخنی پی لیں ۔۔۔۔
انہوں نے بڑے مان سے بابا کو کہا تھا ۔۔۔ بابا ان کی بات پر مسکرا دئے ۔۔۔۔
ٹھیک ہے لائیے ۔۔۔۔
حوریہ نے ان کے سامنے یخنی کا پیالہ ٹرے سمیت رکھ دیا ۔۔۔۔
ایک بات پوچھوں آپ سے ۔۔۔۔
حوریہ کے پوچھنے پر یخنی پیتے پیتے بابا نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا تھا
۔۔۔۔
جی بولئے بیٹا ۔۔۔ کیا پوچھنا چاہتی ہیں آپ ۔۔۔
آپ کو شمشیر کہاں سے ملے ۔۔۔۔ میرا مطلب ہے ۔۔۔ ایک جن زادے کو آپ کے گھر
دیکھ کر مجھے حیرت ہورہی ہے ۔۔۔
اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ۔۔۔۔۔ اللہ نے میرے مقدر میں اولاد جیسی نعمت
نہیں لکھی تھی ۔۔۔۔ مگر مجھ سے زیادہ میری بیگم کو اولاد کی خواہش تھی ۔۔۔
ہر وقت مصلے پر بیٹھی وہ اپنے رب سے بس ایک ہی دعا مانگا کرتی تھیں ۔۔۔۔
مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔۔۔۔ ہم دو نوں میاں بیوی بوڑھے ہوچکے
تھے ۔۔۔ اور مایوس بھی ۔۔۔۔
وہ بھی ایک سرد ترین رات تھی ۔۔۔۔ ہم دونوں کمبل اوڑھ کر بھی سردی سے کانپ
رہے تھے ۔۔۔۔ سردی کی وجہ سے نیند بھی نہیں آرہی تھی ۔۔۔ تبھی دو بلیوں کے
لڑنے کی آوازیں دالان سے آنے لگیں ۔۔۔۔
احسان صاحب ۔۔۔۔ دودھ کا برتن تو باہر ہی رہ گیا ہے اور یہ بلیاں کہیں اس
میں منہ نہ ماردیں ۔۔۔
صالحہ فکرمندی سے بولیں ۔۔۔۔ تو میں ان کے کہنے پر لالٹین ہاتھ میں لئے
باہر کمرےسے نکل کر باورچی خانے کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔ مگر ابھی دو قدم ہی
چلا ہونگا کہ ٹھٹک کر رک گیا ۔۔۔ سا منے کا منظر ہی عجیب سا تھا ۔۔۔
دوبلیاں ۔۔۔۔ آپس میں لڑ رہی تھیں ۔۔۔۔ مگر یوں کہنا چاہئے ایک بلا اور ایک
بلی آپس میں بایک دوسرے کو بری طرح نوچ کھسوٹ رہے تھے ۔۔۔ بلی کی حالت بلے
سے زیادہ بری تھی ۔۔۔۔ مگر میرے قدم ان کی لڑائی نے نہیں بلکے
اس ننے منے بچے نے روک لئے تھے ۔۔۔ ایسا لگتا تھا ابھی پیدا ہوا ہے ۔۔۔
سفید چادر میں لپٹا ان کی لڑائی سے بے خبر ہاتھ پاؤں مار رہا تھا ۔۔۔۔ ادھر
بلی پر اب بلا حاوی ہوچکا تھا ۔۔۔ اچانک بلے نے بلی کی گردن منہ میں پکڑ کر
بری طرح دانتوں سے کتر کر ایک طرف پھینکا تھا اور پلٹ کر پہلے میری طرف پھر
اس بچے کی طرف دیکھا تھا ۔۔۔۔ اور بے خوف ۔۔۔خونخوار انداز میں بچے کی طرف
بڑھا تھا ۔۔۔۔
میرے بچے کو اس شیطان سے بچالو احسان بھائی ۔۔۔
خون میں لت پت بلی کو انسانی آواز میں اپنا نام پکارتے دیکھ کر میں بری طرح
چونکا تھا ۔۔۔ اس سے پہلے کے میں شاکڈ سے نکلتا ۔۔۔ میں نے پیچھے سے صالحہ
کی آواز سنی ۔۔۔۔ پلٹ کر دیکھا تو وہ آیت الکرسی کا ورد کرتے تیزی سے بچے
کی جانب بڑھی تھیں اور بلے کے اس تک پہنچنے سے پہلے ہی اٹھا لیا ۔۔۔۔۔ بلا
عجیب خونخوار نظروں سے صالحہ کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔ جیسے ابھی آگے بڑھے گا
اور ان پر جھپٹ پڑیگا ۔۔۔۔ مگر ایسا نہیں ہوا وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں
سکا ۔۔۔۔ ہم دونوں ہی میاں بیوی حافظٍ قرآن ہیں اللہ کے فضل سے ۔۔۔۔اس لئے
ان کے دیکھا دیکھی میں نے بھی سورہ بقراء کی تلاوت شروع کردی ۔۔۔ ہماری
تلاوت سے بلے کے چہرے کے تاثرات بدل گئے تھے اور اب وہ خوف زدہ سا نظر آرہا
تھا پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہماری نظروں کے سامنے دھواں بن کر غائب ہوگیا
۔۔۔۔ ادھر بلی نے بھی دم توڑ دیا۔۔۔۔ بچہ صالحہ کی گود میں تھا ۔۔۔۔
صالحہ یہ بچہ انسان نہیں ہے ۔۔۔۔۔
میں جانتی ہوں مگر اللہ کی مخلوق تو ہے ۔۔۔۔ ابھی بیچارہ اپنی حفاظت کرنے
کے قابل بھی نہیں کیوں نا اسے اپنے پاس ہی رکھ لیں ۔۔۔۔
مگر یہ جن ہے صالحہ اور ہم انسان کیسے پالینگے اسے ۔۔۔۔۔
میں ان کی بات پر بری طرح چونکا تھا ۔۔۔۔مگر جب انہوں نے مجھے بہت مان سے
دیکھا تو میں انکار نہ کرسکا اور یوں شمیشر میاں ہمارے ساتھ رہنے لگے ۔۔۔
ہم نے انہیں انسانی نظروں سے دور رکھا ۔۔۔۔ ابھی شمیشر چودہ سال کے ہی ہوئے
تھے کہ صالحہ کینسر کے موذی مرض کا شکار ہوکر انتقال کر گئیں ۔۔۔۔ شمشیر نے
مجھ سے زیادہ ان کی موت کا اثر لیا ۔۔۔۔ چہکتا مسکراتا شمشیر بہت خاموش
ہوگیا تھا ۔۔۔۔ اسے میری صحت کی بڑی فکر رہتی ہے ۔۔۔ وقت پر دوا دینا ۔۔۔۔
اور میرے پرہیزی کھانے کا خیال رکھنا ۔۔۔۔ مجھے ڈر ہے بیٹی میرے بعد اس
معصوم کا کیا بنے گا ۔۔۔ میرے اور صالحہ کے ساتھ رہ کر وہ بالکل ہم جیسا
ہوگیا ہے ۔۔ صالحہ نے اسے قرآن حفظ کروا دیا ہے ۔۔۔
سبحان اللہ ۔۔۔۔ اللہ کے کام اللہ ہی بہتر جانے ۔۔۔۔ بابا آپ شمشیر کی فکر
نہ کریں انشاءاللہ اللہ اس حفاظت کرے گا ۔۔
حوریہ بی بی نے انہیں تسلی دی تھی ۔۔۔۔۔اس رات کھانا شمشیر میاں کی جگہ
حوریہ نے بنا یا تھا ۔۔۔ اور شمشیر میاں تو پیچھے ہی پڑھ گئے تھے کہ حوریہ
انہیں اپنا شاگرد بنا لیں تاکے وہ بھی ان کی طرح کھانا پکانے میں طاق
ہوجائیں ۔۔ یونہی ہنستے بولتے وقت گزرا تھا ۔۔۔ مگر آدھی رات کو حوریہ بی
بی کو شمشیر کی رونے کی آواز نے جگا دیا ۔۔۔ وہ بستر سے اٹھ کر کمرے سے
باہر نکل آئیں دیکھا تو صحن میں بابا جاءنماز پر سجدے کی حالت میں پڑے ہیں
اور قریب ہی شمشیر میاں گھٹنوں میں سر دئے رونے میں مصروف تھے ۔۔۔
کیا ہوا ہے شمشیر ۔۔۔ایسے رو کیوں رہے ہو ۔۔۔۔
خالہ اماں بابا مجھے چھوڑ کر چل دئے نا ۔۔۔۔ میں اکیلا رہ گیا اب ۔۔۔۔
وہ آنسو بھری آنکھیوں سے انہیں دیکھتے ہوئے بولے تھے تو وہ تیزی سے بابا کی
طرف بڑھی تھیں ۔۔۔۔
××××××××××××××××××××
باقی آئندہ ۔۔۔۔۔۔
|