دنیا میں کچھ چیزیں بہت آسان ہوتی ہیں اور کچھ بہت مشکل
۔ یہ محض ایک تصور ہے ۔جن چیزوں کو ہم آسان تصور کر لیں وہ ہمارے لیے
آسان اور جن کو مشکل تصور کر لیں وہ مشکل ہو جاتیں ہیں۔ ایسی بہت سی چیزوں
میں ایک پردہ پوشی بھی ہے ،جو ہم اپنی تو بہت اچھے طریقے سے کر لیتے ہیں
مگر دوسروں کی نہیں کرتے ۔ اپنے بڑے گناہ بھی ہمیں معمولی محسوس ہوتے ہیں
اور دوسروں کی چھوٹی سی بُرائی دیکھ لیں تو اسے پھیلا دینا اپنا فرض سمجھتے
ہیں ۔ میں اپنی ذات کا اس حوالہ سے جائزہ لے رہی تھی کہ دروازے پر دستک
ہوئی اور میری بہت اچھی دوست کافی دن بعد میرے گھر آ ئی۔ حال چال دریافت
کرنے کے بعد ہم نے چائے پی اور پھر باتیں شروع ہو گئی۔ اس نے مجھے بتایا کہ
اس کی نئی پڑوسن بہت اچھی ہےمگر اس میں ایک بُری عادت ہے لوگوں کی بُرائیاں
کرتی ہے۔ میں نے کہا ہاں یار ہم لوگ اکثر ایسا کر جاتے ہیں ۔ بعض اوقات تو
ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا کیا کیا اور کتنا بول دیا۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
پتہ تو سب چلتا ہے یار اگر برائی اپنی ہو تو منہ سے نہیں نکلتی ۔میں نے بھی
حامی بھری ،کہ وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔
میں نے اس کے شوہر کا پوچھا تو اس نے بُرا سا منہ بنا کر کہا ۔ بس یا ر وہی
مرغی کی ایک ٹانگ ، کچھ لوگوں کو ٹھیک کرنا مشکل نہیں ، ناممکن ہوتا ہے۔
اُسے تو نا خوش رہنے کی بیماری ہے۔ میری ساس اسے پڑھاتی رہتی ہے اور وہ
پڑھتا رہتا ہے۔ میں ہنسی ،کیا پڑھتے ہیں بھائی۔اس نے افسردگی سے کہا۔ وہ جو
کسی کتاب میں نہیں ہوتا۔ مرد کیسے بنتے ہیں۔ رعب کیسے رکھتے ہیں ۔ میں نے
دھیرے سے کہا۔ یہ بات تمہاری ساس کو کیسے پتہ وہ مرد تھوڑی نا ہے۔ تو اس نے
ذور سے کہا۔ اُنہیں سب کچھ پتہ ہے ،کبھی آ کر ملو تم ان سے۔ آدھے گھنٹے
میں تم نے کانوں کو ہاتھ نہ لگائے تو کہنا۔میں نے کہا اچھا چھوڑو ۔تم اپنی
نئی پڑوسن کا بتا رہی تھی۔ تمہاری اس سے لگتا ہے بہت دوستی ہو گئی ہے ۔ اسی
لیے تو اتنے دنوں بعد میری یاد آئی۔
اس نے منہ بناتے ہوئے کہا،نہیں یار۔ اس سے ذیادہ دوستی نہیں ہو سکتی ۔
بتایا ہے نا وہ بہت غیبت کرتی ہے۔ کسی کو نہیں چھوڑتی ۔ اپنی سگی بہن کابتا
رہی تھی۔ امیر ہونے کے بعد اب سیدھے سے بات ہی نہیں کرتی۔ کہہ رہی تھی آج
کل دوستیاں اور رشتہ داریاں پیسے کے بغیر نہیں چلتی۔ جب تک چائے نہ پلاو
۔دوسری دفعہ کوئی نہیں آتا۔ اس نے جب یہ کہا تو کنول قسم سے جی چاہا میں
اس کا دیا ہوا چائے کا کپ رکھ دوں ۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی بھلا ۔ کوئی آپ
کی چائے کا بھوکا تھوڑا ہی ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں سے کون دوستی کرئے گا۔ ویسے
عورت اچھی ہے ،اب کیا بُرائی کرنی۔ پالر کا کام جانتی ہے۔گھر میں چھوٹا سا
پالر بھی کھول رکھا ہے اس نے۔ میرے بال اسی نے تو ڈائی کیے ہیں ۔ کلر کیسا
لگ رہا ہے۔ تم بھی کبھی آنا نا ۔ تم بھی ڈائی کروا لو ۔ آج کل تو فیشن ہے
۔ میاں کو بھی بنی سنوری بیوی ہی اچھی لگتی ہے۔ ورنہ یہ مرد باہر منہ مارنا
نہیں چھوڑتے ۔ میں پھر ہنسی ،نہیں یار میرے میاں ایسے نہیں ہیں ۔ اس نے ذور
سے قہقہ لگایا ۔ سب بیویاں دوسروں کے سامنے یہی کہتی ہیں ۔ سچ تو سب ہی
جانتے ہیں۔
تم سناو ،آ ج کل کس چیز پر لکھنے کا سوچ رہی ہو۔ میں نے اس کی جائزہ لیتی
نظروں کو بھانپتے ہوئے دیکھا اور بولی۔ہاں یار بڑے دنوں سے کچھ لکھا نہیں
تھا تو آج تمہارے آنے سے پہلے میں سوچ رہی تھی کہ کچھ نیا لکھوں ۔اپنی
ذات کی بُرائیوں پر نظر ثانی کر رہی تھی۔ اس نے تمسخر خیز لہجے میں کہا تو
پھر کون سی منتخب کی تم نے۔ بُرائیا ں تو بہت ہیں تم میں۔ میں نے سر تسلیم
خم کیا اور اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی ،اثبات میں سر ہلایا ، واقعی ٹھیک
کہہ رہی ہو ۔ لیکن جس برائی پر لکھنے کا سوچ رہی ہوں پردہ پوشی ہے۔ مجھے
لگتا ہے کہ میں دوسرں کی پردہ پوشی کم کرتی ہوں ۔ ذیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا مثلاً کیسے تمہیں کیسے محسوس ہوا کہ تم لوگوں
کی پردہ پوشی نہیں کرتی ۔ میں نے تو کبھی تمہارے منہ سے کسی کی بُرائی نہیں
سنی ۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ جو سانپ دیکھائی دے جائیں وہی سانپ نہیں
ہوتے ،بلوں کے اندر موجود سانپ بھی سانپ ہی ہوتے ہیں ۔ کل تمہیں پتہ بھی
نہیں کیا ہوا۔ اس نے استفسار کیا۔ کیا ہوا۔ میں نے بتایا ۔ کل ہماری ماسی
نہیں آئی ۔ مجھے سارا کام خود کرنا پڑا ،میری اور میری پڑوسن آنٹی کی
ماسی ایک ہی ہے۔ وہ میرے پاس آئیں تو انہوں نے کہا ،کچھ مسلہ نہیں ہے
ہماری ماسی کو بس حرام خور ہو گئی ہے ، ایک ماہ میں ایک دفعہ تو ضرور بخار
آ جاتا ہے اسے۔ میں نے بھی ہاں میں ہاں ملا دی۔ہم نے کافی دیر اس کی
بُرائی کی۔یہ بھی نہیں سوچا کہ ممکن ہے ۔ اس کام والی کو سچ میں کوئی مسلہ
ہو۔
اس نے میری بات کاٹ دی ، اس میں کون سی بُرائی ہوئی ،تم بھی نا۔ وہ ٹھیک
کہہ رہیں تھی نا تمہاری پڑوسن ،ان لوگوں کی تو ہڈی میں بے ایمانی ملی ہوتی
ہے۔ ذرا سا نہ دیکھو کام میں ایسے ڈنڈی مارتی ہیں ۔ اچھے خاصے پیسے کماتی
ہیں اور حالت دیکھو تو میلی کچیلی۔ بو ایسی کہ پاس کھڑے نہیں ہوتا ، سر
جووں سے بھرے ۔ کپڑے گرد سے۔ آج کل تو ذرا سی بات کہہ دو تو منہ کو آتیں
ہیں یہ ۔ تمہیں افسوس ہو رہا ہے ،عجیب ہے۔میں نے اس کی تردید کی نہیں یار
میری ماسی تو صاف ستھری رہتی ہے۔ کام میں بھی ڈنڈی نہیں مارتی ۔ بس چھٹیاں
کر لیتی ہے۔ اس کے بچے ہیں،نا چھوٹے تو کبھی کسی کو کچھ ہوتا ہے تو کبھی
کسی کو کچھ ۔ میری دوست نے بسکٹ کو دانتو ں میں توڑتے ہوئے کہا ۔ تو پھر
گھر بیٹھے نا کام کیوں کرتی ہے۔ تو میں نے کہا اس کا شوہر نشہ کرتا ہے ۔ دو
دو ماہ گھر نہیں آتا ۔بے چاری اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہے۔ کام اس
کی مجبوری ہے۔ اس نے بسکٹ کو آگے کیا اور بڑے وثوق سے بولی ،تم ان لوگوں
کی کہانیوں پر نہیں جانا ۔یہ پیدائشی رائٹر ہوتیں ہیں ۔ کسی کا شوہر نشہ
کرتا ہے تو کسی کا مر ہی جاتا ہے۔ کسی کا اپائیج ہو کر گھر بیٹھا رہتا
ہے۔بچے دیکھو اِن کے لائین لگی ہوئی ہوتی ہے۔ اللہ معافی دے اِن لوگوں سے۔
میں تو ایسی ماسی نہیں رکھتی بھائی جس کے چھوٹے بچے ہوں ۔میں سوچ رہی تھی
،بچے تو ہم دونوں کے بھی چھوٹے ہی ہیں ۔ بس اللہ تعالی کا کرم ہے اس نے
ہمیں ماسی نہیں بنایا۔ ۔۔۔۔ مجھے سوچ میں ڈوبا دیکھ کر ،میری دوست نے کہا
۔کیا سوچ رہی ہو۔میں نے دھیمے لہجے میں کہا ،کچھ نہیں تم کیک لو نا۔ میں نے
دیکھا کہ ایک جوں چلتے چلتے اس کے سر سے نیچے آ چکی تھی۔ماتھے کے ایک بال
پر لٹکی ہوئی تھی۔ میں نے سوچا شاہد میری غلط فہمی ہو ۔ میں نے غور سے
دیکھنے کی کوشش کی ۔ وہ جوں ہی تھی۔ میرے دل میں آیا کہ میں اُسے بتا دوں
کہ اس کے ماتھے پر بال کے ساتھ جوں ہے مگر پھر میں نے سوچا وہ شرمندہ ہو
جائے گئی۔اس کے سر میں جوئیں ہیں ،یہ بات اسے پتہ ہی ہو گی ۔ کیا مجھے اس
کے ماتھے پر جھولے لیتی جوں کو اُتار کر اس کے ہاتھ میں دے دینا چاہیے۔ یا
نہیں ۔میرے دل نے کہا نہیں ۔ مجھے اسے شرمندہ نہیں کرنا چائیے ۔ یہ ہی تو
پردہ پوشی ہے۔
|