فرقہ پرستی : نقصانات –وجوہات-حل

اسلام ایک صاف ستھرا دین ہے اس پہ کسی قسم کا داغ دھبہ ، میل کچیل نام کی کوئی چیز نہیں ۔ اسلام کا ہرمعاملہ واضح ، تعلیمات روشن اور افکار ونظریات سے لیکر عقائد وعبادات تک سارے کے سارے ٹھوس اور مستند معیار پر قائم ہیں ۔ یہ دین اپنے ماننے والوں کو اتحاد واتفاق کی تعلیم دیتا ہےاس لئے نماز، روزہ، حج جیسے ارکان اسلام میں وحدانیت نظر آتی ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے فرامین میں لوگوں کو تفرقہ بازی کرنے ، اختلاف وانتشارپھیلانے ، نفرت ودشمنی کو ہوادینے سے منع کیاہے اور الفت ومحبت، اتحاد واتفاق اور بھائی چارہ کو قائم کرنے اور اسے بڑھانے کا حکم دیا ہے ۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے جہاں عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں میں یگانگت کی فضاقائم رکھے وہیں گفتاروکردار کے ذریعہ علماء کی بھی ذمہ داری ہے کہ اتحاد ملت کا دامن تھامے رہے ،اس کے لئے جو بھی جائز صورت اپنانی پڑے اپنائے خواہ تنظیمی شکل ہویا خلافت کا قیام ۔

جولوگ دین میں تفرقہ پھیلاتے ہیں یا تفرقہ بازی کا حصہ بنتے ہیں خواہ علماء ہوں یا عوام دونوں ہی اتحاداسلامی کے دشمن ،تعلیمات اسلامیہ کے مخالف اور اللہ ، اس کے رسول کے باغی ہیں ۔

آج دین ومسلک کے نام پر ہمارے اختلاف نے عوام کو بڑے مشکلات میں ڈال رکھاہے ، عام آدمی صحیح دین کوسمجھنے سے قاصر ہے ، دین پر عمل کرنے کے لئے بہت سارے مسائل میں تذبذب کا شکار ہے حتی کہ عبادات کی انجام دہی میں اس قدر کٹھنائی کا سامنا کررہی ہے کہ اکثر یت تو عبادت سے ہی روگراں ہوگئی ہے ۔ ایک دوسرے کی تکفیر کرنا، ایک دوسرے سےنفرت وبغض رکھنا ،ایک دوسرے کے خلاف مکروفریب کرنا، دوسرے مسلک والوں کی مسجدوں ، قبرستانوں اور مدارس پر قبضہ کرنا، اپنی عبادت گاہوں ، کتابوں ، اماموں اور عقائدونظریات کو تقسیم وخاص کرلینا، شادی بیاہ اورلین دین میں مسلکی منافرت برتنا، بے قصورمسلمانوں پر جوٹھے الزامات لگانا اور ان پرجوٹھے مقدمات درج کراکےہراساں وپریشاں کرنا بلکہ اس پر فخر کرنا اور مزے لینا، ایک دوسرے کے مکاتب ومدراس کے خلاف سازش رچنا ، انہیں بند کرنے کی ناروا کوشش کرنا، مخلص دعاۃ ومبلغین کے خلاف پروپیگنڈے کرنا، اسلاف وبزرگان دین کے متعلق ہرزہ سرائی کرنا، اپنے اپنے مسلکی قوت وشان بڑھانا اور اس کے لئے جائز وناجائز ہرقسم کے ذرائع استعمال کرنا ، مسلکی عصبیت ، مسلکی انارکی ، مسلکی تنازع ، مسلکی تشددوفساد مچانا مسلمانوں میں بطور خاص ہندوپاک، نیپال، بنگلہ دیش وغیرہ میں عام ہے ۔

یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین وتبع تابعین کے دور میں بھی اختلاف کا نمونہ ملتا ہے مگر وہ اختلاف نصوص آیات واحادیث میں فہم وبصیرت کا اختلاف ہے جس کا امکان کل بھی تھا ، آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا ۔ صحابہ کرا م اور تابعین عظام دین پر عمل کرنے کے لئے نبی ﷺ کی سنت تلاش کرتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے ۔ صحابہ کے بعد تابعین واتباع تابعین کا بھی یہی منہج رہاہے۔ ائمہ اربعہ کے درمیان اختلاف کا باعث یا تو نص کی عدم معرفت یا نص میں فہم کا اختلاف ہے ۔ یہ اختلاف ہوتے ہوئے بھی ائمہ کے دور میں تفرقہ بازی نہیں تھی ۔ آج لوگوں نے ان کے نام پر الگ الگ فرقہ بنارکھا ہے اور ان ائمہ کے اختلاف کو بنیاد کر آپس میں ایک دوسرے کی تکفیر میں مبتلا ہیں ۔ جہاں تک کسی امام سے نص کی عدم معرفت کی وجہ سے کسی مسئلہ میں خطا ہوئی تو اس خطا کو چھوڑ دی جائے گی اور یہ خطا جوآج ہمیں اختلاف نظر آرہی ہے دراصل اس وقت کے لحاظ سے اس امام کا اجتہاد تھا جو انہوں نے اللہ کی دی ہوئی دینی بصیرت کی بنیاد پراخذ کیا تھا ، ان کے سامنے کوئی خاص مسلک ، کوئی خاص دنیاوی غرض یا کوئی شخصیت پرستی نہیں تھی ، وہ ہم سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے تھے ، اپنی زبان سے وہی بات کہتے جو وہ اپنی دینی بصیرت سے حق سمجھتے تھے ۔ آج دلیل واضح ہوجانے کے بعد بھی لوگ امام کی بشری خطاؤں پہ مصر ہیں اور یہ اصرا ر اس قدد شدید ہے کہ آپس میں جدل وجدال کا ماحول بناہوا ہے ۔ اور جہاں پر ائمہ سے نص کی معرفت کے باوجود فہم وبصیرت میں اختلاف ہوا تو اس اختلاف کو کتاب وسنت پر لوٹایا جائے جو موافق ہو اسے اختیار کیا جائے جو مخالف ہو چھوڑ دیا ہے ۔ اس سے کسی امام کی اہانت مقصود نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے حق میں کسر شان شمار ہوگی ۔ چاروں ائمہ ہمارے ہی ہیں ،کسی غیر کے نہیں ہیں ۔ ہم ان سے بہت محبت کرتے ہیں ، ان سے محبت کا تقاضہ ہے کہ ان کی خطا یا اختلاف پہ گرفت نہ کی جائے اور نہ ہی ان کے نام پہ فرقہ بنایا جائے ۔ مجتہد ہونے کے ناطے ان سے جو خطا یا اختلاف ہوا وہ اللہ کے نزدیک اجر کا باعث ہے لیکن ہم جان بوجھ کر ان کے اختلاف کو ہوا دیں ، ان کے اختلاف کی بنیاد پر ائمہ کو چار حصوں اور چار فرقوں میں تقسیم کردیں اور ان کی بشری خطا کو بھی جبرا صحیح ثابت کریں یہ مذموم ہے ۔ یہی تفرقہ بازی کی جڑ ہے ۔معلوم یہ ہوا کہ نصوص میں فہم وتدبر سے جو مختلف معانی اخذ ہوں وہ مذموم نہیں بلکہ مختلف معانی کو بنیاد بناکر تفرقہ بازی کرنا یہ مذموم ہے ۔ یقین جانئے اگر آج بھی امت اس نقطہ نظر ہی جمع ہوجائے تو سارے فرقے مٹ سکتے ہیں کیونکہ اسلام ایک طریقہ حیات اور دستور زندگی کا نام ہے اس میں تفرقہ باز ی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ۔

ہمیں اگر امام ابوحنیفہ ؒ سے محبت ہے تو محبت کا ظہار کرسکتے ہیں ، فرط محبت میں نسبت بھی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیساکہ کوئی امام مالک سے فرط محبت کے طور پر اپنے نام کے ساتھ مالکی لکھے۔ لوگوں کا صدیقی ، فاروقی اور عثمانی لکھنا بھی بطور محبت ہے ۔ کوئی کسی مدرسے سے فارغ ہوتا ہے تو اس کی محبت میں خو د کو اس طرف انتساب کرتا ہے ۔ محبت کے اظہار کے لئے کی اچھی نسبتوں میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر نسبت کا مطلب الگ فرقہ بنانا ہے تو مذموم ہے خواہ نسبت کسی شخص کے نام پر ہو، ادارے کے نام پر یا قوم وعلاقہ کے نام پر ہو۔
 

Maqbool Ahmed Salfi
About the Author: Maqbool Ahmed Salfi Read More Articles by Maqbool Ahmed Salfi: 320 Articles with 350110 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.