انٹرنیشنل تیوہار۔حق اور تقاضے

میلاد عربی زبان کالفظ ہے جس کا معنی پیدائش ہوتا ہے۔ نبی کی پیدائش کے حالات، پیدائش کے واقعات، پس منظر[BACK GROUND] اس وقت کا ماحول، سماج اور آپ ﷺ کی ذات با برکات سے جڑی دوسری باتوں کا تذکرہ میلاد، مولود، میلاد النبی اور جشن میلاد وغیرہ کہلاتا ہے۔

میلاد کا معنی:۔میلاد عربی زبان کالفظ ہے جس کا معنی پیدائش ہوتا ہے۔ نبی کی پیدائش کے حالات، پیدائش کے واقعات، پس منظر[BACK GROUND] اس وقت کا ماحول، سماج اور آپ ﷺ کی ذات با برکات سے جڑی دوسری باتوں کا تذکرہ میلاد، مولود، میلاد النبی اور جشن میلاد وغیرہ کہلاتا ہے۔ قر آن مقدس کی روشنی میں دیکھا جائے تو نبیوں کی پیدائش کا تذکرہ کرنا اللہ تعالی کی پاکیزہ سنت ہے، اور اس اعتبار سے یہ بہت بڑے ثواب کا کام ہے۔

میلاد قرآن کی روشنی میں:۔ یہاں اجمال کے پیش نظر تمام آیتوں کا ترجمہ تو نہیں پیش کیا جا سکتا البتہ موضوع کی اہمیت کے لیے مراجع کا ذکر کیا جاتا ہے جس کی روشنی میں آسانی سے اصل ماخذ سے مراجعت کر کے لطف اندوزی کی جا سکتی ہے ۔ قرآن پاک کے تیرہویں پارے کی سورہ حجر آیت نمبر 28 سے 35 تک حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا بڑے اچھے انداز سے ذکر ہے۔ بیسویں پارے کی سورہ قصص آیت نمبر 7 سے 13 تک حضرت موسی علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر جمیل ہے۔ تیسرے پارے کی سورہ آل عمران آیت نمبر 38 سے 41 تک اور پھر سولہویں پارے کی سورہ مریم آیت نمبر 3 سے 15 تک حضرت یحیی علیہ السلام کی میلاد کا تفصیلی ذکر ہے۔ بالکل اسی طرح پہلے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 45 سے 47 تک اور پھر سورہ مریم آیت نمبر 16 سے 35 تک عیسی علیہ السلام کی پیدائش کا خوب ذکر ہے۔ اخیر میں تیسویں پارے کی سورہ بلد آیت نمبر 1 سے 3 تک حضور سرور کائنات ﷺ کی میلاد پاک کا ان لفظوں میں ذکر فرمایا گیا: مجھے اس شہرمکہ کی قسم، اس لئے کہ اے محبوب(ﷺ)! تم اس شہر میں ہو، اور تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام اور اس کی اولاد(آپﷺ خود) کی قسم۔

دوسری آیت میں اللہ تعالی نے قسم کا سبب بتلایا اس لیے کہ اے محبوبﷺ! تم اس شہر میں ہو، یعنی اللہ تعالی نے اپنے نبی کے ہونے کی قسم یاد فرمائی جبکہ اسی ہونے کو دوسرے لفظوں میں میلاد کہا جاتا ہے۔ اس آیت سے بڑی خاموشی کے ساتھ یہ جواب بھی ہو گیا کہ مکہ جو بڑی عظمتوں والا شہر ہے، ہو سکتا ہے اللہ کی قسم کی وجہ کعبہ، حجراسود، زمزم اور دوسری محترم چیزیں ہوں، اس لئے کہہ دیا گیا: اس لئے کہ اے محبوب! تم اس شہر میں ہو۔

عید میلاد پر سلام :۔قرآن میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک نبیوں کی پیدائش کے دن بہت عظیم ہوتے ہیں، اسی لیے اللہ تعالی نے ان دنوں پر خاص طور سےسلام بھیجا ہے۔ حضرت یحیی علیہ السلام کے بارے میں ہے:سلام ہو اس( یحی علیہ السلام) پر جس دن پیدا ہوا، جس دن وفات دیا جائے گا اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا۔ (پارہ 16، سورہ مریم، آیت نمبر 15)

اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کی بات قرآن نے بیان کی ہے :وہی سلام مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا، جس دن میری وفات ہوگی اور جس دن زندہ اٹھایا جاں گا۔ (پارہ 16، سورہ مریم، آیت نمبر 33)
میلاد النبی انٹر نیشنل تیوہار :۔میلاد النبی ﷺ منانا، جلسے جلوس، چراغاں، ڈیکوریشن، گشت کرنا، خوشی کا اظہار، اس دن صدقہ کرنا اور وہ دوسرے کام کرنا جو شریعت کے خلاف نہیں ہیں، آج کی پیداوار یا صرف ہندوستان کی چیز نہیں بلکہ یہ وہ عظیم کام ہیں جو کئی سو سالوں سے دنیا بھر میں ہوتے آ رہے ہیں۔ آج بھی دنیا بھر میں عید میلاد النبی ﷺکے مبارک موقع پر نبی کے دیوانے جلوس اور طرح طرح سے خوشیوں کا اظہار کرتے اور اپنی غلامی کا ثبوت دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں مصر [EGYPT] کا سرکاری جلوس اور جشن عید میلاد النبی ﷺ دنیا بھر میں مشہور ہے، جس میں ہر سال دنیا کے 200 ملکوں کے علما شریک ہوتے ہیں۔ ہمارے ہندوستان کی نمائندگی کے طور پر کیرل کے شیخ ابو بکر احمد مسلیار اور ندوۃ العلما لکھنؤ کے علما مدت سے اس میں شریک ہوتے رہے ہیں ۔علاوہ ازیں پاکستان، بنگلہ دیش، سیریا [SIRIYA]سمیت 58 ملک ہیں جہاں پوری شان و شوکت کے ساتھ جلوس میلاد کا اہتمام ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ پر ایسے بہت سے ملکوں کے جلوس میلاد دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں عرب میں موجودہ حکومت کے قیام سے پہلے کے مکہ معظمہ کا آنکھوں دیکھا صرف ایک واقعہ لکھا جاتا ہے جس سے سمجھ داروں کے لیے دلیل کے ساتھ نصیحت بھی ہوگا۔

اللہ تعالی کے گھر میں نبیﷺ کا میلاد اس طرح منایا جاتا رہا ہے:۔ 12 ربیع الاول کی رات ہر سال مسجدحرام میں اعلان ہوتا ہے۔ تمام علاقوں کے علما، گورنر، اور چاروں مسلکوں کے قاضی مغرب کی نماز کے بعد مسجد حرام میں جمع ہو جاتے ہیں۔ نماز ادا کرنے کے بعد ’’سوق اللیل‘‘ سے گزرتے ہوئے ’’مولدالنبی‘‘ ﷺ (جہاں آپ ﷺ کی پیدائش ہوئی)کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں شمعیں، لالٹین اور مشعلیں ہوتی ہیں(یہ مشعلیں اٹھانے والے جلوس کے روپ میں ہوتے تھے)اور وہاں لوگوں کی اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ جگہ نہیں ملتی۔ پھر ایک عالم دین وہاں خطاب کرتے ہیں۔ تمام مسلمانوں کے لیے دعا ہوتی ہے اور تمام لوگ دوبارہ مسجد حرام میں آ جاتے ہیں۔ واپسی پر بادشاہ ایسی محفل کرنے والوں کی دستار بندی کرتا ہے۔ پھر عشا کی اذان ہوتی ہے، اس کے بعد لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا ہے کہ دور دراز دیہاتوں، شہروں سے یہاں تک کہ جدہ کے لوگ بھی اس محفل میں شریک ہوتے اور آپ ﷺکی پیدائش پر خوشی مناتے ہیں۔(الاعلام باعلام بیت اللہ الحرام PAGE نمبر 196)

علاہ ازیں امام محمد بن جار اللہ القرشی (۱۶۰۱ء)نے اپنی ’’الجامع اللطیف‘‘ میں، امام قسطلانی (۱۵۱۷ء)نے ’’المواھب اللدنیہ ‘‘ میں، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (۱۷۶۲) نے’’ الدر الثمین ‘‘ میں اسی طرح کے واقعات نقل کئے ہیں ۔

ایک سوال کا جواب:۔ میلاد کا معنی اور اس کا شرعی حکم اوپر بیان ہو چکا۔ اب ایک ضروری سوال کا جواب بچ جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ برتھ ڈے[BIRTH DAY] اور میلادالنبیﷺ میں کیا فرق ہے؟ جس کی بنیاد پر برتھ ڈے نا جائز اور میلاد النبیﷺ جائز ہے۔ اس کا بنیادی جواب یہ ہے کہ برتھ ڈے منانا اپنے آپ میں ہرگز نا جائز نہیں چنانچہ اگر کوئی اپنے بچوں کی پیدائش کے دن خوشی کا اظہار کرتا ہے، پارٹی دیتا ہے، مبارک باد دیتا ہے، مٹھائیاں بانٹتا ہے تو یہ سب جائز کام ہیں۔ کیونکہ بچے بھی اللہ کی نعمت، فضل اور رحمت ہیں اور اللہ کے فضل اور رحمت پر خوشی منانے کا حکم ہے۔ اس کا ارشاد ہے: تم فرماؤ! اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے ۔ (پارہ 11 سورہ یونس، آیت نمبر58) ہاں! اگر کوئی مسلمان عیسائیوں کی پیروی میں کیک[CAKE] کاٹتا ہے، ناچ گانوں کا اہتمام کرتا ہے، آتش بازی ہوتی ہے تو یہ کام پہلے سے نا جائز ہیں اور غیروں کی تقلید ہونے کی بنیاد پر نا جائز ہی رہیں گے۔ لیکن ظاہر سی بات ہے نبی ﷺکی میلاد کے دن کوئی بھی مسلمان جان بوجھ کر یہ نا جائز کام نہیں کرتا بلکہ اس دن آپ ﷺ کا ذکر ہوتا ہے، غریبوں کی امداد کی جاتی ہے، آپ کے نام پر جلوس کے روپ میں تمام مسلمان جمع ہوتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی کام ایسا نہیں جو نا جائز ہو۔ اور سب کام اپنے آپ میں الگ الگ طور پر جائز ہیں تو ایک ساتھ ہونے کی بنیاد پر کیسے نا جائز ہو جائیں گے؟ ہاں !ہمیں چاہیے کہ میلاد النبیﷺ کو اور زیادہ اچھے ڈھنگ سے منانے کی کوشش کریں اور ساتھ ہی اپنی اولاد کا برتھ ڈے بھی اگر منائیں تو قرآن خوانی، میلاد شریف، فاتحہ، صدقہ اور دوسرے نیک کام کریں تاکہ ہماری اولاد کو غریبوں کی دعائیں لگیں، بزرگوں کا فیضان ملے اور ان کے سروں سے مصیبتیں دور ہوں۔

میلاد النبی کیسے منائیں؟ 24 طریقے :۔ دوستو! اوپر بیان ہوئے قرآنی اور شرعی دلائل کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں کہ میلاد النبیﷺ کے موقع پر سب سے افضل کام درود و سلام بھیجنا اور روزہ رکھنا ہے۔ کیونکہ نبیﷺ کے یوم ولادت پر سلام بھیجنا خدا کی سنت ہے اور اپنے یوم ولادت پر روزہ رکھنا خود حضور ﷺ کی سنت ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ اس عظیم تاریخی دن کو ہم کچھ اس انداز سے منانے کی کوشش کریں:
[1] اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھیں۔ [2&3] ہر دن کم سے کم ایک ہزار بار اپنے نبیﷺ کی بارگاہ میں خود بھی درود و سلام پڑھیں اور اپنے گھر والوں کو بھی اس کا پابند بنائیں۔ [4] آپ ﷺ کے نام پر نیاز دلا کر اپنے گھر والوں اور غریبوں میں تقسیم کریں۔[5] اپنے گھر پر یا کم سے کم اپنی مسجد میں میلاد کا اہتمام ضرور کریں۔ [6،7&8] میلادوں میں اور یوں بھی نبیﷺ کی زندگی اور سیرت کو پڑھیں اور دوسروں کو سنائیں یا کسی سے پڑھوا کر سنیں۔[9&10] ہر دن آپ ﷺ کے پاکیزہ اخلاق اور سنتوں میں سے کم سے کم دو پر عمل کریں۔ [11&12] اپنے نبی کی زندگی کے بارے میں اپنی معلومات کے مطابق صحیح اور سچی باتیں دوسروں کو بتائیں اور اپنی معلومات کے لئے جاننے والے علما سے کچھ اور چیزیں معلوم کریں۔ [13&14] نبیﷺ کی سیرت سے متعلق کوئی کتاب خریدیں اور اس کو پابندی سے پڑھنے کی عادت بنائیں۔[15&16] اپنے علاقوں اور آس پاس کے اسکولوں میں سیرت کے بارے میں بچوں کے درمیان مقابلہ کروائیں اور اچھی پوزیشن حاصل کرنے والوں کو اچھا خاصا انعام دیں۔[17] جو زیادہ روزے نہ رکھ سکے وہ کم سے کم اس مہینے میں آنے والے پیر[MONDAY] کو ضرور روزے رکھیں۔[18] روزہ داروں کو افطار کروائیں۔[19] ہر دن کسی بیوہ، یتیم، غریب یا ضرورت مند کی مدد کے طور پر 112 روپیے یا جتنے کی بھی اللہ توفیق دے، صدقہ کریں۔ [20&21] اپنے علاقوں میں بہت کم خرچ میں جلسے کروائیں، جلسوں میں آنے والے عالم دین کو پہلے سے عنوان[TOPIC] دیں اور سیرت پر بولنے کے لیے کہیں۔ [22] غریبوں میں کپڑے، کمبل یا ضروت کی دوسری چیزیں تقسیم کریں۔[23] کسی غریب کے بچے کی فیس اپنے ذمہ لے لیں۔[24] اپنی سال بھر کی عملی زندگی کے لیے کم سے کم سیرت کا ایک نمایاں پہلو ضرور اپنائیں اور اپنے آپ کو اس بات کا پابند کریں کہ اس پورے سال اور پھر پوری زندگی یہ کام ضرور کرتا رہوںگا۔ میلاد النبیﷺ کی دوہری [DOUBLE] مناسبت سے یہ 24 ضروری باتیں رقم کر دی ہیں۔ کوشش کریں کہ یہ سب کام کر سکیں پھر بھی اگر سب نہ ہو سکیں تو ان میں سے کچھ کام ضرور کریں۔ خداے تعالی ہمیں سمجھ بوجھ اور توفیق خیر عطا فرمائے۔ آمین۔
(مضمون نگار ہندی ماہ نامہ ’’احساس‘‘ جے پور کے ایڈیٹر ہیں)

khalid Ayyoob Misbahi
About the Author: khalid Ayyoob Misbahi Read More Articles by khalid Ayyoob Misbahi: 4 Articles with 3278 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.