گیارہ ستمبر کے بعدیورپ میں اسلام کے حوالے سے ایک
نہ ختم ہونے والی بحث جاری ہے ۔ایک ایسا الجھا ہوا موضوع جس کا کوئی سرا
سجھائی نہیں دیتا ۔مغربی یورپ میں اس وقت ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد مسلمان
مقیم ہیں جن میں نصف کے قریب فرانس میں آباد ہیں جن پر عرب تہذیب کا غلبہ
ہے ۔یورپ میں اسلام کے بارے میں اس طرح کے سوال اٹھائے جا رہے ہیں ۔
٭ اسلام کو یورپ کے ایک مذہب کے طور پر قبول کیا جائے گا یا نہیں ۔
٭ اسکولوں میں ہیڈ اسکارف پر پابندی لگادی جائے گی ؟
٭ دہشت گردی اور آزادی کی جدوجہد کے درمیان جاری کش مکش کا انجام کیاہے ؟
٭ کثیر الاقوام یورپی ثقافت کا اختتام قریب ہے یا اس کی کوکھ سے ایک فساد
جنم لینے والا ہے ؟
٭ مسلمانوں کاوجود یورپی معاشرے کو کس قدر بدلے گا ؟
٭ کیا بڑھتی ہوئی مسلم آبادی یورپی تہذیب کے لیے خطرے کا الارم ہے ؟’
٭ دہشت گردی سے مسلم آبادی کا کوئی تعلق ہے بھی یا محض یہودیوں نے اسے
مسلمانوں کے ساتھ نتھی کر دیا ہے ؟
یورپی ذرائع ابلاغ واضح طور پر اس ’’خدشے ‘‘کااظہار کر رہے ہیں کہ نائن
الیون کے بعد مسلمانوں میں اتحاد و یک جہتی اور منظم ہونے کا خیال تقویت
پکڑ گیا ہے ۔اس کے باوجود امریکا کے برعکس یورپ میں مسلمانوں کو زیادہ نفرت
کا سامنا نہیں ‘ اس کی بنیادی وجہ امریکا کی پالیسیاں ہیں جن کا مرکز و
محور امریکی مفادات ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کرتے ہیں
کہ مسلمانوں کے خلاف امریکی مہم کے نتیجے میں یورپ کے اندر اسلام کے مطالعے
اور معلومات حاصل کرنے میں اضافہ ہوا ہے۔ذرائع ابلاغ میں امریکا کی مخالفت
زیادہ ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ اسلام اس کا ٹارگٹ ہے ۔ مغربی میڈیا میں
ایک طرف مسلمانوں کی تاریخ پیش کی جاتی ہے تو دوسری طرف موجودہ مسلم معاشرے
کی خرابیوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ ایک طرف امریکا پر اس حوالے سے تنقید
کی جاتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف بر سر پیکار ہے تو دوسری طرف مسلمانوں
کے خلاف بھی پراپیگنڈا عام ہے کہ وہ یورپی اور امریکی تہذیب سے حسد رکھتے
ہیں یعنی ایک تیر سے دو شکار ۔
دوسری طرف وہ مسلم نوجوان ہیں جو امریکی اور یورپی معاشرے کی ’’ رنگینیوں
‘‘اور رویے سے متنفر ہو کر تیزی کے ساتھ اسلام کی طرف پلٹ رہے ہیں ان کے
مزاج میں شدت کا عنصر غالب آ رہا ہے جو اسلام سے نابلد ہیں ‘اسلام کے بارے
میں جاننے کو بے تاب ہیں جو اسلام سے وابستہ ہیں وہ اسلام کے بارے میں
ابھرنے والے سوالوں کا جواب تلاش کر رہے ہیں ۔ دونوں طرح کے لوگوں کے لیے
سوال ایک جیسے ہیں جو جواب طلب ہیں ۔
۱۔ کیااسلام پسند دہشت گرد ہیں اور کیا اسلام کی تعلیمات دہشت گردی سکھاتی
ہے۔
۲۔ وہ کیا عوامل ہیں جو مسلم نوجوانوں کو خود کش حملوں پر مجبور کرتے ہیں ؟
یورپی معاشرے میں نوجوان لڑکیاں اور لڑکے تیزی کے ساتھ اسلام کی جانب راغب
ہو رہے ہیں ۔ وہ اسلام کے بارے میں حقائق جاننے کو بے تاب ہیں ۔یہی وجہ ہے
کہ اسلامی لٹریچر کی طلب بڑھ گئی ہے ۔قرآن پاک کے مقامی زبانوں میں ترجمے
کی طلب بڑھ گئی ہے۔اس وقت علمائے کرام کی ذمے داری ہے کہ وہ ان نوجوانوں کی
پیاس بجھانے کا اہتمام کریں ۔
آج جس شدت سے لوگوں میں اسلام کے بارے میں جاننے کی طلب ہے پہلے کبھی نہ
تھی ۔
یورپ نے اسلام تو کجا عیسائیت کو بھی کلاس روم سے باہر رکھنے کی بھر پور
کوشش کی ہے ‘ بالخصوص فرانس اس میں سر فہرست ہے ‘ لیکن ۱۱ ستمبر کے واقعات
کے بعد جب مختلف یورپی ملکوں کے سکولوں میں مسلمان بچیوں نے ہیڈ اسکارف
پہننے شروع کر دیے تو سیاسی ایوانوں میں ہلچل مچ گئی۔ فرانس کی وزارت تعلیم
نے ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دے کر تمام سرکاری اداروں میں
اس طرح کی ’’ مذہبی علامات ‘‘ پر پابندی لگانے کی کوشش کی ۔ اس کے نتیجے
میں دو مسلم بہنوں عالمہ لیوی اور لیلیٰ لیوی نے اپنے شدید رد عمل کا اظہار
کرتے ہوئے اسکارف اوڑھنے شروع کر دیے ۔سکول انتظامیہ نے اسے ’’مذہبی علامت
‘‘ قرار دے کر پابندی لگادی اور سکول سے ان کے اخراج کا فیصلہ کر دیا۔بہنوں
نے اسے عدالت میں چیلنج کر دیا ۔ عدالت میں دلائل دیتے ہوئے اٹھارہ سالہ
لیلیٰ لیوی نے کہا ۔
’’ حجاب پر پابندی یورپی چارٹر برائے انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی
ہے ۔ جب یورپ کے قوانین کسی خاتون کو حجاب پہننے پر مجبور نہیں کرتے تو یہ
قوانین حجاب اتارنے پر کیسے مجبور کر سکتے ہیں ؟ اگر یورپ کو واقعی
مسلمانوں کی آزادی کی فکر ہے تو اسے چاہیے کہ ہمیں آزاد چھوڑ دے ۔ ہم حجاب
پہنیں یا نہ پہنیں ۔جس طرح آپ کے قوانین کی منشا ہے انہیں پورا کیاجانا
چاہیے ۔‘‘
اسی طرح کا ایک اور واقعہ اسپین کی عرب نژاد تیرہ سالہ فاطمہ الدریسی کا ہے
۔ اسکول انتظامیہ نے اس کے حجاب کرنے پر پابندی عاید کی ‘تو وہ عدالت میں
چلی گئی ۔دلائل کے بعد جج نے فیصلہ سناتے ہوئے لکھا ……
’’ تعلیم کا حق اس بات سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ مسلمان لڑکی کون سا لباس
پہنتی ہے ۔‘‘
اس فیصلے کے بعد مشہوریورپی دانشور کرسٹو فرڈ کی نے لکھا۔
’’ یورپ کا نظام اپنے تضادات کے بوجھ تلے دبتا جا رہا ہے ۔‘‘
مغربی ذرائع ابلاغ نے ایک اورمسلمان نوجوان کے جذبات کو بھی خوب اچھالا ہے
۔
یہ برطانیہ میں مقیم ۲۵ برس کے احمد نامی ایک نوجوان ہیں جو بریڈ فورڈ میں
مقیم ہیں ۔ ’’نیوز ویک ‘‘ نے کار لاپاور کی سٹوری شائع کرتے ہوئے لکھا ۔
’’صنعتی شہر بریڈ فورڈ جو حلال گوشت اور تندور ہوٹلوں سے بھرا پڑا ہے ‘ ۲۵
برس کا باریش ہلکی نیلی آنکھوں والاا حمد صرف اسی نام سے پکارے جانے کا
متمنی ہے ‘ اس کا لہجہ یارک شائر کے شہریوں کا ہے لیکن وہ اپنے آپ کو ایک
افغانی پٹھان کہتا ہے ۔ احمد کا کہنا ہے کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا
کہ آپ افغانی ‘ برطانوی یا یورپی ہیں ۔ اسلام صرف ایک ہے ۔ احمد بتاتا ہے
وہ اسلام کی تلاش نو سے پہلے نشہ کرتا تھا اور کلبوں میں پڑا رہتا تھا ۔ اب
وہ جہاز اور ٹینک بنانے والے ایک کارخانے میں کام کرتا ہے ۔ اس کے نزدیک یہ
کام جہاد ہے کہ آپ ایسی جگہ پر بھی اچھے مسلمان بن کر رہیں ‘جہاں برہنہ
عورتیں ہو ں یا کیسینو۔ حقیقی جہاد یہ ہے کہ آپ اپنی زبان اور شرمگاہ پر
قابو رکھیں ۔‘‘
۱۱ ستمبر کے واقعات کے بعد اسلام کا مطالعہ کرنے والے ۳۵ سالہ نارویجن
اسمارٹ کا کہنا ہے ۔
میں نے اسلام کی کسی کتاب میں وہ بات نہیں پڑھی جو امریکا اور دوسرے متعصب
دانشور اور ذرائع ابلاغ مسلمانوں پر قابو پانے کے لیے بطور الزام لگاتے ہیں
‘ اسلام کا مطلب ہی امن اور عافیت کا دین ہے ۔ہمارا میڈیا بھاری اسلحے کے
ساتھ مسلمانوں کی تہذیب پر حملہ آور ہے یہ ایک ایسی کھلی جارحیت ہے جس کا
جواب بہر حال مسلمان آبادی کو دینا ہوگا ۔
###
|