نفسِ ذکیہ قسط نمبر ۔ ١٥

اس رات فوزیہ کی کزن کی بارات آنی تھی۔ سب بے حد خوش تھی۔ گہما گہمی مچی ہوئی تھی۔ شادی کے گھر کی حالت جو ہوتی ہے سب کو پتا ہی ہے۔۔۔
دلہن کو اپنی سینڈل پسند نہیں آ رہی ۔۔۔ چینج کرانی ہے۔۔۔
بہن کے ساتھ جھگڑا ہو گیا ہے ۔۔۔ وہ ساتھ پارلر نہیں جا رہی۔۔۔
دوپٹہ ابھی تک بن کر نہیں آیا۔۔۔ لے کے آنا ہے۔۔۔
کچھ بھی ہو جائے۔۔۔ پارلر سے اپائنٹمنٹ فکس ہے۔۔۔ ٹائم پہ جانا ہے ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
فوزیہ تو اپنی کزن کے ساتھ یوں چپکی ہوئی تھی کہ جیسے ہر قدم اس کا اپنے ہاتھوں سے اٹھا نا ہو۔۔۔ لڑکیوں کو ویسے بھی ایسے کاموں میں مزہ آتا ہے۔ ایک دن فوزیہ کے ہاتھ بھی تو پیلے ہونے تھے۔ دلہن تو دلہن تھی۔۔۔ فوزیہ بھی تمام رشتہ داروں کی آنکھوں کا تارا بنی ہوئی تھی۔

پچھلی رات مہندی میں جگ راتا ہوا تھا۔ فوزیہ اپنا موبائیل سائلنٹ کر کے مزے سے سو ئی ہوئی تھی۔ دن کے بارہ بج چکے تھے۔ آج رات بارات آنی تھی۔
میں بار بار فوزیہ کو فون کر رہا تھا۔میں نے صبح ہی اسے میسج کر کے بھی بتا دیا تھا کہ میں حیدر آباد آ رہا ہوں۔ مگر اس کا نہ کوئی جواب آیا ۔۔۔نہ ہی اس نے کوئی کال اٹینڈ کی۔
مجھے بہت بے چینی ہو رہی تھی۔ ساتھ ساتھ غصہ بھی آ رہا تھا۔ عجیب کیفیت ہوتی ہے محبت میں۔۔۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ بندہ کیا سوچ رہا ہے، کیا کر رہا ہے۔

بس میری ایک ہی خواہش تھی کہ فوزیہ کا دیدار ہو جائے۔

’’یار! آج تو چھوڑ دو میری جان۔۔۔‘‘ فوزیہ نے موبائیل کی طرف دیکھ کر کہا۔ میں حیدر آباد پہنچ چکا تھا ۔ وہ میرا فون نہیں اٹھا رہی تھی۔ اس کے آس پاس دو تین لڑکیاں ابھی تک سوئی ہوئیں تھیں۔ وہ اس معاملے میں بہت محتاط رہتی کہ کسی کو اس کے اور میرے تعلق کے بارے میں پتا نہ چلے۔۔۔

اس نے پھر فون کاٹ دیا ۔ میں ایک کونے میں گاڑی پارک کر کے۔۔۔ بے خود سا پڑا ہوا تھا ۔
’’پلیز فون اٹھا لو!‘‘میں نے پھر ایک میسج بھیجا۔ فوزیہ نے میسج پڑھ کے موبائیل ایک طرف رکھ دیا۔
’’بیٹا ! جلدی اٹھ جاؤ۔۔۔ مریم اٹھ چکی ہے۔۔۔ بہت کام ہیں آج۔۔۔‘‘۔ فوزیہ کی خالہ کمرے میں داخل ہوئیں اور جلدی سے کہا۔فوزیہ کوئی جواب دئے بغیر اٹھی اور واش روم میں فریش ہونے چلی گئی۔

باہر ڈائنگ روم میں کچھ لوگ بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔ کوئی رات کے لئے کپڑے استری کر رہا تھا تو کوئی کسی سے بحث و مباحثے میں الجھا ہوا تھا۔۔۔فوزیہ نے بھی ہاتھ میں ایک چھوٹی سی ٹرے اٹھائی، دو تیس سلائس بریڈ کے رکھے ، چائے رکھی اور دلہن کے کمرے میں گھس گئی۔
میں ہر چند منٹ بعد اسے کال کرتا مگر وہاں سے کوئی جواب نہ آتا۔۔۔ موبائیل اس نے اپنے بیگ میں ڈال کے چھوڑ دیا تھا۔

کہاں ہو گی وہ۔۔۔!!! کہاں تلاش کروں اسے۔۔۔!!!
کہاں جاؤں؟؟؟ کس سے پوچھوں؟؟؟
کیا نظر آئے گی وہ؟؟؟۔۔۔ کیامل سکے گی مجھ سے؟؟؟
کہاں بھٹک رہا ہوں میں؟؟؟ کون مجھے سنبھالے گا؟؟؟میری پلکیں بھیگ گئیں۔

شامِ فراق اب نہ پوچھ ، آئی اور آ کے ٹل گئی
دل تھا کہ پھر بہل گیا، جان تھی کہ پھر سنبھل گئی

بزمِ خیال میں تیرے حسن کی شمع جل گئی
درد کا چاند بجھ گیا، ہجر کی رات ڈھل گئی

جب تجھے یاد کر لیا صبح مہک مہک اٹھی
جب تیرا غم جگا لیارات مچل مچل گئی (فیض)

’’میں اتنی دور سے ملنے آیا ہوں فوزیہ! کوئی جواب تو دے دو کم سے کم۔۔۔‘‘ میں نے پھر میسج بھیجا۔
’’کیا تمہیں مجھ سے ملنے کا جی نہیں چاہتا؟؟‘‘ ایک اور میسج گیا۔
’’کیا تمہیں میری یاد نہیں آتی؟؟؟‘‘ ایک اور۔۔۔
’’کیا صرف میں ہی تڑپ رہا ہوں۔‘‘
’’ تمہیں میرا کوئی احساس نہیں؟؟؟‘‘
’’ تم مجھ سے محبت نہیں کرتی کیا؟؟؟‘‘
’’ فوزیہ پلیز مجھے جواب دے دو۔۔۔‘‘
’’ کیا میں واپس چلا جاؤں؟؟؟‘‘

’’ہاں‘‘۔ فوزیہ نے غصے میں جواب لکھا اور موبائیل آف کر دیا۔

مجھ پر تو جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔ کوئی قیامت آ گئی ہو جیسے۔۔۔ آنکھیں موٹے موٹے آنسوؤں سے بھر گئیں۔ میں پلک تک جھپکنا بھول گیا۔۔۔ مجھے اپنے ذہن پر کوئی بھاری سا بوجھ محسوس ہونے لگا۔ میں نڈھال سا ہو کر گاڑی کے اسٹیرنگ پہ گر گیا۔
’’رحم کرو فوزیہ!‘‘
’’رحم کرو!‘‘
جب کوئی کسی سے محبت کرتا ہے تو در حقیقت اس کا غلام بن جاتا ہے اور انجانے میں اس کی پرستش کرنے لگتا ہے۔دوسری طرف دستور یہ ہے کہ جتنی محبوب کو توجہ دی جائے گی وہ اتنی ہی بے اعتنائی اور لاپرواہی برتے گا۔ اگر اس سے کوئی عشق مبرا ہے تو وہ صرف عشق حقیقی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔

دوسرے دن ولیمہ ہو گیا اور فوزیہ فارغ ہو گئی۔ اگلے دن اسے کراچی واپس آنا تھا ۔۔۔
آخرکار اسے مجھ پہ رحم آ ہی گیا۔ موبائیل ہاتھوں میں پکڑے اس نے سستی سے ایک میسج لکھا اور مجھے سینڈ کر دیا۔

میری تو نیند ہی اڑ گئی تھی۔ زمانوں بعد تو دل میں کوئی اترا تھا۔ کسی کو اپنا سمجھا تھا۔ سوچا تھا کہ اب زندگی میں بہار آئے گی۔ میری روح پہ جو زخم لگے ہوئے تھے اس پر کوئی مرہم رکھے گا۔۔۔کسی سے میں اپنی حقیقت بیان کرں گا۔۔۔ کسی کو اپنی کہانی سناؤں گا۔۔۔ مگر اس دن کی بے رخی نے تو جیسے میری روح چیر دی ہو۔۔۔ پرانے رستے زخموں کے ساتھ ساتھ کچھ اور خراشیں نمودار ہو گئیں تھیں۔۔۔

رات دن فوزیہ کو فون اور میسجز بھیجنا اور روتے رہنے کے سوا اور کوئی کام نہ تھا میرا۔۔۔ گھر سے نکل کر آفس اور اسٹور جانے کے بجائے میں کبھی کسی اجڑے باغ میں گھومتا رہتا یا سمندر کے سونے ساحلوں پر چلتا رہتا یا ہائی وے پہ ویران میدانوں کی خاک چھانتا رہتا۔۔۔
مجدی کو فون کر کے میں نے یہی کہہ رکھا تھا کہ میں حیدر آباد میں ہی ہوں اور اپنی محبت کی خوبی اور ستائیش میں ڈوبا ہوں۔۔۔ لہذا وہ کچھ دن کاروباری معاملات سمبھالے رکھے ۔۔۔

’’سوری ذولقر! آئی ایم رئیلی سوری! تم مجھ سے ملنے آئے اور میں نہ مل سکی۔۔۔ پلیز مجھے معاف کر دو۔ کل میں کراچی آ رہی ہوں ۔ میں آتے ہی تم سے ملوں گی۔ آئی ایم سوری ۔۔۔ تمہیں پتا ہی ہے کہ میں گھر والوں سے بہت ڈرتی ہوں۔ اگر تم سے ملنے کی کوشش کرتی تو کسی نہ کسی کو پتا چل جاتا اور بہت باتیں بنتی اور گھر والے بھی بہت شرمندہ ہوتے۔ مجھے پتا ہے تم ناراض ہو گے۔ مگر میری مجبوری کو سمجھو۔۔۔ پلیز ناراضگی دور کر دو۔۔۔ میں پرسوں تم سے ملنے آ رہی ہوں۔ آئی لو یو۔‘‘ ۔ فوزیہ نے میسج کے آخر میں ایک چھوٹا سا دھڑکتا دل بنایا ہوا تھا۔

میں فوزیہ کا میسج پڑھ کر چہک اٹھا۔ آنکھوں میں ایک چمک سی آ گی۔میں نے ایک گہری سانس لی جیسے دوبارہ زندہ ہو گیا ہوں۔۔۔’’آئی لو یو!‘‘ میں نے اسے غائبانہ جواب دیااور موبائیل چوم لیا۔ ’’شکر ہے۔۔۔‘‘ ناجانے کیسے کیسے وسوسے میرے بیمار دماغ میں آنے لگے تھے۔۔۔ کہ اس نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔ اس نے مجھ سے دھوکا کیا ہے۔ بے وفا ہے وہ۔۔۔ وعدہ خلاف ہے۔۔۔

میرے ان گنت میسجز اور کالز سے جو بے رخی برتی گئی تھی۔ میں سب یک دم بھول گیا اور خوش ہو گیا۔ اس کا ایک معذرت بھرا میسج مجھ میں روح پھونکنے کے لئے کافی تھا۔
میں یوں اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا جیسے کسی کو سولی پر چڑھنے سے بچا لیا گیا ہو۔

ہاں۔ وہ میری جان ہی تو بن گئی تھی۔ میں تو اسے اپنی ذات کا ایک حصہ ہی سمجھنے لگا تھا۔ اگر میرے جسم کے سب سے ضروری حصے کو الگ کر دیا جاتا تو کیا میں زندہ رہ پاتا!!!

۔۔۔۔۔۔۔

مجدی صبح سویرے اٹھ کر چرچ کی طرف چل پڑھا۔سارے راستے اس نے خوب حمد اور تسبیحات پڑھیں۔چھ دن سے وہ صبح سویرے اٹھ کر چرچ جاتا اور چرچ کی ساری صفائی اپنے ہاتھوں سے کرتا۔ پھر کچھ نا کچھ پیسے ، جو بھی اس کے لئے ممکن ہوتا، خیرات کرتا اور پھر میرے آفس پہنچ جاتا کام کرنے۔۔۔

یہی نئی منت اس نے مانی تھی۔ سات دن مکمل ہوتے تو اس کی منت پوری ہوتی۔ اسے پورا یقین تھا کہ اس بار اس کی سن لی جائے گی۔ سارے بگڑے کام بن جائیں گے۔۔۔ دن پھر پہلے جیسے خوشگوار ہو جائیں گے۔۔۔ رشتہ ناطے جڑ جائیں گے۔۔۔ ناراضگیاں تلخیاں دور ہو جائیں گے۔

آج ساتواں دن تھا۔چرچ کا ہال بالکل خالی تھا، وہ ہاتھ میں جھاڑو پکڑے لاڑز پرئیر پڑھتا پڑھتا چرچ کے مین ہال میں جھاڑو پھیر رہا تھا۔۔۔

’’اے ہمارے باپ! تو جو آسمان پر ہے۔۔۔تیرا نام پاک مانا جائے۔۔۔
تیری بادشاہی آئے۔۔۔
تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے ویسے ہی زمین پر بھی ہو۔۔۔
ہماری روز کی روٹی آج بھی ہمیں دے دے اور جس طرح ہم اپنے قصورواروں کو بخش دیتے ہیں تو بھی ہمیں بخش دے۔۔۔
۔۔۔اور ہمیں آزمائش میں نہ پڑنے دے۔ بلکہ ہمیں برائی سے بچا لے۔ آمین‘‘۔

یک دم اس کا موبائیل بچا۔ وہ پوری دلجمئی کے ساتھ صفائی کر رہا تھا۔ بہت خوش ہوتا تھا وہ چرچ کی خرمت کر کے۔۔۔ خداوند کی تعریف و ستائیش کر کے۔۔۔
’’ہیلو امی جان!‘‘ مجدی نے کال ریسیو کرتے ہی کہا۔
’’بیٹا مجدی!‘‘ اس کی امی کی آواز آئی۔
’’جی امی!‘‘۔
’’کہاں ہو؟‘‘۔’’ کیا کر رہے ہو؟؟؟‘‘ اسکی امی نے رسماََ پوچھا۔
’’بس یہیں ۔۔۔ چرچ میں ہوں۔۔۔ کیا ہوا؟؟؟‘‘ مجدی بولا۔
’’بیٹا وہ جان انکل آئے تھے ابھی۔۔۔‘‘۔ وہ کچھ رکیں پھر بولیں۔’’ بیٹا !۔۔۔ منگنی ختم کر دی ہے انہوں نے۔۔۔‘‘مجدی کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ کاش یہ الفاظ اس نے نہ سنے ہوتے۔ دوسری طرف سے اسے اپنی امی کی سسکیوں کی آواز آنے لگی۔ وہ دکھ میں رو رہیں تھیں۔ مجدی کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ دل رونے لگا۔ اپنی امی کی آہیں سن کر وہ اور بھی بے تاب ہو گیا۔
’’اچھا!‘‘ اس نے با مشکل کہا۔ اس کے لئے اس سے ذیادہ بات جاری رکھنا ممکن نہ تھا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے موبائیل جیب میں ڈالا اور چھاڑو پھر سے سنبھال کر زمیں کی طرف جھک گیا۔ دو تین موٹے موٹے آنسو اس کے آنکھوں سے رس کر زمین پر ٹپک گئے۔ وہ یوں ہی سکتے کی کیفیت میں اپنے آنسوؤں کو تکنے لگا۔ گلے میں پڑی صلیب کے نشان والی چین بھی لٹک کر اسے کی آنکھوں کے آگے جھولنے لگی۔

پھر جانے اسے کیا ہوا۔ اس نے جیسے ایک پھنکار ماری ۔۔۔ اور ناک سے زور زور سے سانسیں لیتا ہوا اپنے گلے میں پڑی صلیب کو زور سے پکڑ کر کھنچا۔۔۔ صلیب کی چین ٹوٹ کر اس کے ہاتھ میں آ گئی۔ دوسرے ہی لمحے اس نے چین کھینچ کر چرچ کے بڑے سے دروزے پر پٹخ دی۔۔۔ گو کہ خداوند سے اعلانِ جنگ کر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔

’’سر! فہد کو پولیس نے پکڑ لیا ہے۔۔۔‘‘
’’ جیل میں بند ہے وہ۔۔۔ سینٹرل جیل میں۔۔۔‘‘ میں نے حیرانی سے اپنے اسٹور میں کام کرنے والے کی بات سنی۔
فہد پکڑا گیا تھا۔ لازماََ وہ لڑکی بھی گرفتار ہو گئی ہو گی جو اس کے ساتھ بھاگی تھی۔ ’’ام م م۔۔۔‘‘ میں جوں کا توں جہاں کھڑا تھا وہیں کا وہیں خاموشی سے کھڑا تھا۔ فہد جیل میں تھا۔۔۔ جانے کس حال میں ہو گا۔ مجھے اس سے ملنے جانا چائیے۔ پتا نہیں پولیس والے اس کے ساتھ کیا کر رہے ہوں گے!!! اس کے گھر والوں کا کیا رویہ ہو گا۔۔۔ اور لڑکی والوں کا کیا حال ہوگا!!!

لڑکی والے لڑکی کے ساتھ کیسا سلوک کریں گے اب۔۔۔ کتنی بے عزتی کی بات ہے۔۔۔ کیسے اتنا گھمبیر معاملہ حل ہوگا اب۔۔۔ میں بہت کچھ سوچنے لگا۔

پھر خود ہی میں نے اپنے خیالوں کو جھڑک دیا۔ اس دن فوزیہ جو کراچی واپس آ رہی تھی۔پچھلی رات سے دل میں عجیب ہل چل اور بے چینی مچی ہوئی تھی۔ٹھیک سے سو بھی نہیں سکا تھا۔ آفس میں تو میں آ گیا تھا مگر نہ کام ہو رہا تھا نہ کاج۔۔۔ اپنی سیٹ پر بیٹھا بھی نہیں جا رہا تھا۔ انتظار کی کیفیت بے چینی اور بیتابی میں بدل گئی تھی۔

بار بار دل چاہتا کہ سہراپ گوٹھ پر بس اسٹینڈ پر جا کر کھڑا ہو جاؤں۔۔۔ اس سے ملوں گا تو نہیں۔۔۔ پر کم از کم اسے ایک نظر دیکھ تو لوں گا۔
پھر فوزیہ کی کی گئیں تنبیہات یاد آ جاتیں۔۔۔ اور ایک خوف سا طاری ہو جاتا کہ کہیں وہ ناراض ہو گئی تو میں اپنے آپ کو پھر کیسے سنبھالوں گا؟؟؟
اس کے خفا ہو جانے کا درد ایک بار تو میں بھگت چکا تھا۔۔۔ لہذا دوبارہ اس تکلیف سے گزرنے کے خیال سے ہی دل دھڑک کر رہ جاتا تھا۔۔۔ اور اس کی ناراضگی کا مطلب تھا ایک بار پھر ہجر کی صعوبتیں جھیلنا۔۔۔

میرے ذہن میں اب ایسی منفی باتیں بہت جلدی آنے لگتیں۔۔۔ ڈر اور خوف بہت جلد اپنی گرفت میں لے لیتا۔۔۔ میں اپنے اور فوزیہ کے رشتے کو اچانک ہی بہت غیر محفوظ اور ضرورت سے ذیادہ نازک سمجھنے لگا تھا۔۔۔

دوپہر کو وہ کراچی آ رہی تھی اور اسی شام اس کا مجھے سے ملنے کا وعدہ تھا۔

شام ہو گئی اور وعدہ ٹوٹ گیا۔۔۔

’’ذوالقر ! کل ملیں گے پلیز! میں بہت ذیادہ تھکی ہوئی ہوں‘‘۔ فوزیہ نے ایک میسج بھیجا اور میرے سارے جزبات پیروں تلے روند دئیے۔
۔۔۔۔۔۔۔

دلاور ایک اسٹیٹ ایجنٹ کو ساتھ گاڑی میں بٹھائے شہرِ کراچی کے چکر کاٹ رہاتھا۔ کبھی گلشن جمال تو کبھی گلشن اقبال ، کبھی طارق روڈ کبھی حیدری۔۔۔ کبھی کلفٹن کبھی ڈیفینس۔۔۔ اسے ایک کمرہ بھی چائیے تھا اپنے رہنے کے لئے اور جو پیسے اسے بھائیوں سے حصے کے ملے تھے اس سے ایک اور دوکان یا کوئی چھوٹا موٹا فلیٹ خرید نے کا ارادہ بھی تھا۔ اس نے سوچا کہ اس کا کرایہ بھی آتا رہے گا تو ما ہوار آمدنی میں اضافہ ہو جائے گا۔ دوسری دوکان پہ تو اس کا اپنا مال پڑا ہوا تھا۔ وہ کرائے پہ نہیں تھی۔

میں نے تو ویسے ہی اسے منع کر دیا تھا کہ اپنے گھر اسے نہیں رکھ سکتا۔۔۔ مجھے اس کی نظر پر بھروسہ نہ تھا ۔ میرے گھر میں بھی ماں بہنیں تھیں ۔ اور دلاور کی سر گرمیوں سے تو سب واقف ہی تھی۔

کرتے کراتے دلاور کو اپنے لئے ایک خوبصورت سا روم پسند آ ہی گیا۔ یہ ڈیفینس میں ایک خالی بنگلے میں بنا ایک روم تھا۔ گھر کے مالک ملک سے باہر رہتے تھے اور صرف ایک ہی روم کرایہ پہ دینا چاہتے تھے۔ بنگلہ بڑا مادرن طرز پہ بناہوا تھا ۔۔۔ اسے جو کمرہ مل رہا تھا وہ پہلی منزل پہ تھا اور ساتھ بالکونی بھی مل گئی تھی۔۔۔ بالکونی سے نیچے جھانکو تو بڑا سا لان آنکھوں کو بہت دلکش لگتا تھا۔ کرایہ بیس ہزار روپے۔۔۔ دلاور نے کون سا کیلکولیٹر نکالنا تھا۔ اسے روم بہت اچھا لگا اس نے فوراََ ہی بیانہ دے دیا اور تین دن کے اندر اندر یہاں شفٹ ہونے کی بات پکی کر لی۔

پوری ایک ہفتے کی تگ ودو کے بعد اسے ایک درکان بھی مل گئی۔ ستائیس لاکھ روپے کی دوکان تھی۔ جو پہلے سے ہی کرائے پہ چڑھی ہوئی تھی ۔ اس کا کرایہ اٹھارہ ہزار روپے آتا تھا۔ دلاور کو ان معاملات کا کوئی تجربہ تو تھا نہیں۔۔۔ اس نے کسی سے پوچھا نہ پاچھا ۔۔۔ نہ مجھ سے یا مجدی سے کوئی مشورہ کیا اور جلد بازی میں وہ دوکان بھی خرید لی۔

سالوں بعد دلاور نے کوئی کام کیا تھا۔ اب یہ انویسٹمنٹ کیا رنگ لائے گی۔۔۔یہ تو وقت ہی بتاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔

’’آہ۔۔۔‘‘ ۔
مجدی کراچی کے ایک بد نام علاقے میں ۔۔۔ ایک اندھیری گلی میں بیٹھا تھا۔۔۔ آس پاس کچھ اور بھی بے ہوش افراد پڑے تھے۔۔۔ میلے کپڑے ۔۔۔ گندہ حال۔۔۔انجیکشن کی سوئی ابھی تک مجدی کی رگوں کے اندر ہی کھپی ہوئی تھی۔۔۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔۔ ایک بے خودی سی طاری ہو گئی اس پر۔۔۔ زمین و آسمان جھومنے لگے۔۔۔ سر میں ایک خفیف سا درد جاگا اور کچھ دیر میں سرور میں بدل گیا۔۔۔’’ہاہ۔۔۔‘ ‘ وہ گہرے گہرے سانس لیتا دنیا سے بے گانہ ہو رہا تھا۔۔۔ اس نے بلا جھجھک انجیکشن اپنے بازو کی رگوں سے نکالا اور ایک طرف کو ڈال دیا۔۔۔ خون کے کچھ قطرے اس نشان سے رس کر اس کے بازو پر پھسلنے لگے ۔۔۔

وہ چونکڑا مار کر بیٹھا تھا ۔۔۔ اب پیر کھول کر زمین پر بجھا دئیے۔۔۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ از خود مسکرانے لگا۔۔۔ پھر نڈھال سا ہو گیا اور اسی گلی میں نیچے لیٹ گیا۔۔۔

مجدی نے مجھے اپنی منگنی ٹوٹنے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔ ویسے تو جس دن اس کی منگنی ہوئی تھی وہ تب ہی سے اس رشتے کے ٹوٹنے سے خو ف ذدہ رہتا تھا۔ اس کی جاب ان ہی دنوں تو ختم ہوئی تھی۔ میں بھی اپنے غموں میں ڈوبا ہوا تھا۔ توجہ ہی نہیں کی کہ مجدی کس حال میں ہے کیا کر رہا ہے۔ ظاہراََ تو وہ روز آفس آتا اور دیر تک وہیں بیٹھا کام کرتا رہتا پھر یا تو خود واپس گھر چلا جاتا یا میں اسے ڈراپ کر دیتا۔۔۔

مجدی کے اندر کیا جنگ چل رہی تھی مجھے اس کا احساس ہی نہیں تھا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔

دوسرے دن میں آفس میں گم سم سا بیٹھا تھا۔ مجدی بھی وہیں موجود تھا ۔ دل اداس تھا تو تب کچھ اجڑا اجڑا ، سونا سونا محسوس ہو رہا تھا۔ نہ مجدی کو میری فکر تھی نہ مجھے اس کی ۔۔۔ ہم دونوں ہی اپنے اپنے غموں کو دل میں دبائے دنیا کو آنکھوں میں دھول جھونک رہے تھے۔ خود کو سمیٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔ نا جانے کچھ انسانوں میں یہ کیا عجیب احساس ہوتا ہے۔۔۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا دکھ ان ہی کہ اندر دبا رہے۔۔۔ ظاہراََ وہ بالکل نارمل نظر آتے ہیں مگر اندر سے ٹوٹ رہے ہوتے ہیں۔ کسی سے اپنی تکلیف کا اظہار کرتے ہوئے انہیں شرم سی آتی ہے۔۔۔ یا شاید یہ صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس ان کا دکھ سننے والا کوئی ہوتا ہی نہیں ہیں۔ سو وہ کہتے ہیں کہ اپنی ذات کا تماشہ کیونکر بنائیں۔۔۔جب تک ممکن ہوتاہے خود کو دلاسہ دیتے رہتے ہیں۔۔۔ اندھیرے میں بیٹھ کر رو دیتے ہیں۔۔۔ بارش میں آنسو بہا لیتے ہیں تا کہ کسی کو پتا نہ چلے ۔۔۔ یہاں تک کہ جب چنگھاریاں افک تک چمکا دیں تو سب پر سب کچھ خود بہ خود ہی عیاں ہو جاتا ہے۔۔۔

میری نظریں اسٹور میں آتے ہوئے شخص پر جم گئیں۔ وہ فوزیہ تھی۔ میں نے لا چاری سے ایک گہرا سانس لیا اور ایک طرف کو دیکھنے لگا۔۔۔ میرے چہرے کی رنگت لال ہو گئی۔ شرمندگی سی محسوس ہونے لگی۔ یوں لگنے لگا کہ کسی نا قدرے کے پیروں میں اپنے آپ کو گرا دیا ہے۔۔۔

’’ہیلو۔۔۔ فوزیہ۔۔۔‘‘ مجدی نے فوزیہ کو دیکھتے ہی مسکرا کر کہا۔ اسے نے بے پرواہی سی اسے جواب دیا اور عام سی چال چلتی ہوئی سیدھی میرے آفس میں آ گئی۔
میں اپنی چیئر پر ہی جم کر بیٹھا ہوا تھا۔ نہ اس کی طرف دیکھا نہ ہی کچھ کہا۔۔۔ دیکھتا بھی کیسے نہایت کوشش کرنے کے باوجود آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں تھیں۔
فوزیہ خود ہی میرے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔ وہ چپ چاپ چند منٹ مجھے دیکھتی رہی۔
’’کیا ہوا۔۔۔؟؟؟‘‘ میری طرف دیکھ کیوں نہیں رہے۔ فوزیہ بولی۔
میر ے چہرے کا رنگ اور ذیادہ سرخ ہو چکا تھا۔ بہت کوشش کے باوجود بھی میں اپنی دھڑکنوں کو قابو کرنے میں ناکام ہو گیا تھا۔
’’ذولقر! کیا ہو گیا ہے۔۔۔؟؟‘‘۔ ’’تم اچانک ہی اتنے سینسٹو کیوں ہو گئے ہو؟؟؟‘‘ وہ کچھ کہہ رہی تھی اور میں گم سم سا ہی تھا۔
’’پہلے تو اس طرح دیوا۔۔۔ اس طرح بیحیو نہیں کرتے تھے۔۔۔!!!‘‘ دیوانے کا لفظ زبان سے کہتے کہتے اس نے جملہ بدل دیا۔ میں دل ہی دل میں اپنے آپ پر ہنس پڑا۔ وہ صحیح جو کہہ رہی تھی۔ دیوانوں کی طرح ہی تو میں اس کا طواف کرنے لگا تھا۔ جیسے پروانہ شمع کے گرد کرتا ہے۔

میرے طرف سے اسے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا۔ نہ ہی میں نے اس کی طرف دیکھا۔ میں تو بس اسی بات کا چشن منا رہا تھا کہ وہ آئی تو سہی ۔۔۔ مجھ سے ملی تو۔۔۔ مجھ سے بات تو کی۔۔۔ اور وہ میرے سامنے بیٹھی ہے۔۔۔

میرے آفس کی دیواریں شیشے کی تھیں۔ مجدی کچھ کچھ دیر بعد مجھے اور فوزیہ کو دیکھتا اور پھر نظریں ہٹا لیتا۔۔۔ اسے کچھ تشویش سی ہو گئی تھی۔ اتنا تو وہ بھی جانتا تھا کہ پیار محبت کے اس کھیل اور غم و الم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

میری طرف دیکھو ذولقر!‘‘
’’میں تم سے ملنے آئی ہوں۔۔۔‘‘فوزیہ کا لہجہ بدل گیا۔ جیسے اسے میرا یوں خاموش رہنا اور اس سے نظریں پھیرنا برا لگا رہا ہو۔ میری کیا مجال تھی کہ اسے ناراض کرتا۔۔۔ اسے ناراض کرنے کا مطلب اپنے آپ کو ہی تکلیف میں ڈالنا تھا۔
’’ذولقر!‘‘ اس نے پھر مجھے جھنجھوڑا۔
’’ہاں؟‘‘ میں نے ٹوٹی پھٹی آواز میں بہ مشکل کہا۔

چند منٹ اور بیٹھ کر ہم نے کچھ رسماََ سی باتیں کیں ۔ پھر فوزیہ اٹھ کر چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔
 

Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 78470 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More