آج ایک مدت کے بعد اسے اپنے دل پہ ایک بوجھ محسوس ہو رہا
تھا۔ نجانے آج کیا تھا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔ اس کا بدن
کانپ رہا تھا، اسے اپنے جسم میں اپنا لہو خشک ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
وقت کی رفتار نے اسے کبھی مہلت نہ دی تھی کہ وہ ان کے بارے میں سوچے جنہیں
وہ ایک عرصہ پہلے چھوڑ کر روشن مستقبل کی تلاش میں ایک لمبے سفر پر گیا
تھا۔ سارا راستہ وہ آنے والے لمحات کو سوچتا رہا۔ اسے اپنی ان دیکھی
کامیابی کی مسرت تھی اور یہی وجہ تھی کہ تب بھی اسے وہ منظر یاد نہیں آ رہا
تھا جسے وہ بندرگاہ پہ چھوڑ آیا تھا۔ پھر کام کی الجھن نے بھی اسے یہ مہلت
نہیں دی تھی کہ وہ اس منظر کو یاد کرے۔ مگر آج وہ ساری کامیابیاں حاصل کرنے
کے بعد ایک عجیب الجھن میں تھا۔ آج پہلی بار اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اس نے
بہت کچھ کھو دیا ہے۔ آج پہلی بار اس نے وہ بند دریچہ کھولا تھا جو اسے بہت
دور بندرگاہ پر لے گیا جہاں سے اس نے اپنی کامیابی کا سفر شروع کیا تھا۔
کتنی آنکھیں تھیں جن میں آنسو جھلملا رہے تھے، کتنے لہجے تھے جو خشک ہو چکے
تھے۔ آج اسے سب یاد آ رہا تھا۔ وہ پنگھوڑا جس میں اس نے حرکت کرنا سیکھا
تھا، وہ گلیاں جن میں وہ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا، باغ کا
وہ جھولا، جس میں وہ جھولا کرتا تھا۔ پھر لڑکپن کی شوخیاں، جوانی کی دہلییز
اور ایک چہرہ۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور سوچا کہ وہ تو ایک خوبصورت خواب
تھا جو آنکھ کھلتے ہی ختم ہو گیا ہوگا۔ بھلا تیس سال تک کون کسی کا انتظار
کرتا ہے، اگرچہ وعدہ تو قیامت تک کا تھا مگر یہ ممکن نہیں تھا۔ وہ بھی تو
بھول چکا تھا، بس آج ایک دھندلا سا عکس باقی تھا۔ وہ ایک دفعہ پھر بندرگاہ
پہ لوٹا: “بیٹا اپنا خیال رکھنا، کھانا وقت پر کھانا، زیادہ کام مت کرنا
اور اپنی صحت کا خیال رکھنا۔“ آج تیس سال کے بعد پہلی دفعہ یہ الفاظ اس کے
ذہن میں گونجے تھے، مگر اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ابھی رخصت ہو رہا ہے اور
اس کی ماں ابھی اسے رخصت کر رہی ہے۔ “ماں‘! اس کی زبان سے خودبخود یہ لفظ
نکلا اور پھر اسے سب یاد آنے لگا۔ “بیٹا تو نہ جا، یہیں پہ کچھ چھوٹا موٹا
کام دیکھ لے۔ ہم خوش ہیں، دو وقت کھانے کو مل جائے، الله کا شکر ہے، ہر وقت
آنکھوں کے سامنے تو رہے گا اور دیکھ میری زندگی کا بھی کیا بھروسہ، تو چلا
جائے گا اور مجھ پر کوئی غیر مٹی ڈالے گا۔ مجھے تو تیرے کندھوں کی ضرورت
پڑے گی، تو نہ جا“۔ “نہیں ماں! یہ میرا خواب ہے اور میں اسے ضرور پورا کرو
گا۔ دیکھ اب مجھے موقع ملا ہے تو تو کیا کہتی ہے میں خود اس پر لات مار
دوں۔ ًان موقع ایک بار ملتا ہے ہاتھ سے نکل گیا تو لوٹ کر نہیں آتا اس لئے
میں اسے کھونا نہیں چاہتا، میں جاؤنگا اور ضرور جاؤنگا۔۔“ “میں جانتی ہوں
تو نہیں رکے گا، تو تو بچپن سے ہی ضدی ہے، یاد ہے نا کیسی کیسی فرمائشیں
پوری کرواتا تھا، یاد ہے نا؟“
“ہاں ماں! مجھے سب یاد ہے“۔ اچانک اس کی زبان سے بے ساختہ نکلا اور اس نے
آنکھیں کھول دیں۔ “ہاں ماں! مجھے سب یاد ہے“۔ ایک دفعہ پھر اس نے کہا اور
اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں چمکنے والے آنسوؤں نے آنکھوں کا ساتھ چھوڑ
دیا۔ وہ آج دو سالہ بچے کی طرح ماں کو یاد کر کے رو رہا تھا۔ نجانے تو کس
حال میں ہوگی ماں۔ میں کتنا بد نصیب ہوں، یہ نہیں سمجھ سکا کہ میری ساری
خوشیاں تو تیرے قدموں میں تھیں مگر میں انہیں کہاں ڈھونڈنے نکلا تھا اور آج
مجھے احساس ہوا کہ یہ سب تو میری خواہش نہیں تھی، مجھے تو خوشیاں چاہییں
تھیں جو صرف تیرے سائے میں تھیں۔ ماں تو مجھ سے ناراض ہو گئی ہو گی۔ مگر تو
تو ماں ہے، بیٹے سے کیسے ناراض رہے گی۔ ماں میں تیرے پاؤں دباؤنگا، تجھے
اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاؤنگا جیسے تو مجھے کھلایا کرتی تھی۔ ماں اب میں
تیرے نخرے اٹھاؤنگا جیسے تو نے ساری زندگی میرے نخرے اٹھائے۔ میرے لاڈ
پالے۔ ہاں ماں مجھے یہ سب نہیں چاہئے، مجھے بس تو چاہئے۔ یہ سب سوچتے سوچتے
وہ چونک گیا۔ ایک خیال نے اسے تڑپا دیا۔ کیا پتا ماں ہے بھی
کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس سے آگے وہ کچھ نہ سوچ سکا۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔
اس کے دل پر بوجھ بڑھنے لگا۔ ماں اگر تو چلی گئی تو میں معافی کس سے مانگوں
گا۔ میں رونا چاہتا ہوں ماں، اپنے دل کا غبار آنسوؤں میں بہانا چاہتا ہوں
اور میں جانتا ہوں کہ مجھے رونے کے لئے صرف تیرا کندھا ملے گا اور کوئی
مجھے اپنے کندھے پر سر رکھ کر رونے نہیں دے گا۔ تو نہیں جا سکتی۔
تیس سال کے بعد وہ آج پھر اسی بندرگاہ پہ تھا جہاں سے اسے بہتی آنکھوں نے
تیس سال پہلے رخصت کیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ کوئی مسکراتا ہوا چہرہ اس کے
استقبال کے لئے وہاں نہ ہوگا۔ وہ سر جھکائے عجیب کشمکش میں بندرگاہ پر
اترا۔ آگے بڑھا اور ایک چہرے کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ آنکھیں پتھرائی ہوئی
مگر اس پر مرکوز تھیں۔ وہی بہتی ہوئی آنکھیں جنہوں نے تیس سال پہلے اسے
رخصت کیا تھا۔ آج ان میں بہنے کی طاقت نہیں تھی مگر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ
بہنے کو بیقرار ہیں۔ اس کے قدم زمین سے چپک گئے۔ اس نے پوری قوت سے اپنے
پاؤں اٹھائے اور اسے ایسا لگا کہ اس نے اپنے اوپر زمین اور آسمان کا بوجھ
اٹھایا ہوا ہے۔ وہ اس چہرے کے سامنے رکا۔ زبان ہلی مگر لفظ نہ نکلا۔ پھر
پوری طاقت جمع کر کے اس نے زبان کو دی اور اس کی زبان سے دھیرے سے نکلا،
“ماں“! آنکھیں نہ ہلیں، لبوں نے حرکت کی مگر بغیر آواز نکالے ساکت ہو گئے۔
“ما!ں!“ اس نے دوسری بار پکارا اور اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل
پڑے۔ “ماں میں آ گیا ہوں، زمانے کی خاک چھانتا ہوا، اپنی روح پر ان گنت
چھالے لے کر آیا ہوں۔ میرے دل و دماغ پر گرد کی تہہ جمی ہوئی ہے اور میں آج
اسے بہا دوں گا آنکھوں کے راستے۔“ پھر اس نے ماں کے کندھے پر سر رکھا اور
ایک معصوم بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ “ماں تو مجھے معاف کر دے، میں
تجھے بھول گیا تھا۔ بہت ظلم کیا ہے میں نے تجھ پہ، مگر دیکھ یہ ظلم تو میں
اپنے اوپر بھی کرتا رہا اور مجھے اس کا احساس تیس سال بعد ہوا ہے۔ ماں! میں
اب تیرے پاؤں دباؤں گا، تیری خدمت کروں گا، تیرے ناز اٹھاؤں گا، بالکل اسی
طرح جس طرح تو نے بچپن میں میرے لئے کیا تھا۔ بس تو مجھے معاف کر دے۔ ایک
بار مجھے ایک بار بیٹا کہہ کر پکار تاکہ میرے دل و دماغ کا بوجھ اتر سکے۔
میں تیری آواز سننے کو ترس گیا تھا۔ مجھے یاد نہیں آ رہا کہ تو مجھے کیسے
پکارا کرتی تھی۔ ماں مجھے آج پکار“۔
شائد ماں نے اس کے الفاظ سنے ہی نہیں۔ اس کی آنکھیں ابھی تک وہیں لگی ہوئی
تھیں جہاں سے بیٹا نمودار ہوا تھا۔ اس نے ماں کو غور سے دیکھا، “ماں تو
بولتی کیوں نہیں؟ ناراض ہے مجھے پتا ہے۔ مگر ماں میں تیرا ضدی بیٹا ہوں
تجھے منا کر ہی رہوں گا“۔ اس نے ماں کو ہلایا اور اس کی چیخ نکلی کیونکہ
ماں اب آواز سننے والی تھی نہ سنانے والی تھی۔ وہ تو نجانے کب سے بے جان ھو
چکی تھی۔ وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا اور بالکل بھول گیا کہ وہ بندرگاہ
پر ہے اور وہاں لوگ اس کے گرد جمع ہیں۔ اسے تب ہوش آیا جب کسی نے اس کے
کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اس نے سر اٹھایا تو ایک بوڑھا اسے تھپکی دے کر کہہ رہا
تھا، “یہ بڑھیا پچھلے پچیس سال سے اسی بندرگاہ پہ اپنے بیٹے کا روز انتظار
کرتی رہی ہے“ تب اسے یاد آیا کہ اس نے ماں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پانچ سال
بعد لوٹ آئیگا۔ اور ماں اسکے انتظار میں پچیس سال سے موت کو شکست دیتی رہی
لیکن آج خود ہار گئی تھی۔ |