محمد داؤد خان آزاد
اسلام ایک آفاقی مذہب ہے۔ اس نے زندگی کے تمام شعبہ جات کے لیے اپنے ماننے
والوں کو بہترین اور عمدہ اصول وقوانین پیش کیے ہیں۔ اخلاقی زندگی ہو یا
سیاسی، معاشرتی ہو یا اجتماعی اور سماجی ہر قسم کی زندگی کے ہر گوشہ کے لیے
اسلام کی جامع ہدایات موجود ہیں اور اسی مذہب میں ہماری نجات مضمر ہے۔
مگر آج ہمیں یورپ اور یہودونصاریٰ کی تقلید کا شوق ہے اور مغربی تہذیب کے
ہم دلدادہ ہیں۔ یورپی تہذیب وتمدن اور طرزِ معاشرت نے مسلمانوں کی زندگی کے
مختلف شعبوں کو اپنے رنگ میں رنگ دیا ہے۔ مسلمانوں کی زندگی میں انگریزی
تہذیب کے بعض ایسے اثرات بھی داخل ہوگئے ہیں، جن کی اصلیت وماہیت پر مطلع
ہونے کے بعد ان کو اختیار کرنا انسانیت کے قطعاً خلاف ہے؛ مگر افسوس کہ آج
مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ان اثرات پر مضبوطی سے کاربند ہے؛ حالاں کہ قوموں
کا اپنی تہذیب وتمدن کو کھودینا اور دوسروں کے طریقہٴ رہائش کو اختیار
کرلینا ان کے زوال اور خاتمہ کا سبب ہوا کرتا ہے۔ مذہبِ اسلام کا تو اپنے
متبعین سے یہ مطالبہ ہے : ”یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ
فِیْ السِّلْمِ کَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ
إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ“ (البقرہ آیت۲۰۸) ترجمہ: اے ایمان والو!
اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدم پر مت چلو، یقینا وہ
تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔ (بیان القرآن)
یہود ونصاریٰ کی جو رسومات ہمارے معاشرہ میں رائج ہوتی جارہی ہیں، انھیں
میں سے ایک رسم ”اپریل فول“ منانے کی رسم بھی ہے۔ اس رسم کے تحت یکم اپریل
کی تاریخ میں جھوٹ بول کر کسی کو دھوکا دینا، مذاق کے نام پر بے وقوف بنانا
اور اذیت دینا نہ صرف جائز سمجھا جاتا ہے؛ بلکہ اسے ایک کمال قرار دیا جاتا
ہے۔ جو شخص جتنی صفائی اور چابک دستی سے دوسروں کو جتنا بڑا دھوکا دے دے،
اُتنا ہی اُس کو ذہین، قابلِ تعریف اور یکم اپریل کی تاریخ سے صحیح فائدہ
اٹھانے والا سمجھا جاتا ہے۔ یہ رسم اخلاقی، شرعی اور تاریخی ہر اعتبار سے
خلافِ مروت، خلافِ تہذیب اور انتہائی شرمناک ہے۔ نیز عقل ونقل کے بھی خلاف
ہے۔
اس رسم بد کی دو حیثیتیں ہیں: (۱) تاریخی۔ (۲) شرعی۔
اپریل فول کی تاریخی حیثیت
اس رسم کی ابتداء کیسے ہوئی؟ اس بارے میں موٴرخین کے بیانات مختلف ہیں۔ ہم
یہاں ان میں سے تین اقوال پیش کرتے ہیں؛ تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ عقل وخرد
کے دعوے داروں نے اس رسم کو اپنانے میں کیسی بے عقلی اور حماقت کا ثبوت دیا
ہے۔
(۱) بعض مصنّفین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سترہویں صدی سے پہلے سال کا آغاز
جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا، اس مہینے کو رومی لوگ اپنی دیوی
”وینس“ (Venus) کی طرف منسوب کرکے مقدس سمجھا کرتے تھے، تو چوں کہ سال کا
یہ پہلا دن ہوتا تھا؛ اس لیے خوشی میں اس دن کو جشن کے طور پر منایا کرتے
تھے اور اظہارِ خوشی کے لیے آپس میں ہنسی مذاق بھی کیا کرتے تھے، تو یہی
چیز رفتہ رفتہ ترقی کرکے اپریل فول کی شکل اختیار کرگئی۔
(۲)انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا میں اس رسم کی ایک اور وجہ بیان کی گئی ہے
کہ اکیس مارچ سے موسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہوجاتی ہیں، ان تبدیلیوں کو
بعض لوگوں نے اس طرح تعبیر کیا کہ (معاذ اللہ) قدرت ہمارے ساتھ اس طرح مذاق
کرکے ہمیں بے وقوف بنارہی ہے؛ لہٰذا لوگوں نے بھی اس زمانے میں ایک دوسرے
کو بے وقوف بنانا شروع کردیا۔ (انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا ۱/۴۹۶ بحوالہ
”ذکروفکر“ ص۶۷، مفتی تقی عثمانی مدظلہ)
(۳)ایک تیسری وجہ انیسویں صدی عیسوی کی معروف انسائیکلوپیڈیا ”لاروس“ نے
بیان کی ہے اور اسی کو صحیح قرار دیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ جب یہودیوں
نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کرلیا اور رومیوں کی عدالت میں پیش
کیا تو رومیوں اور یہودیوں کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ الصلاة والسلام کو
تمسخر اور استہزاء کا نشانہ بنایاگیا، ان کو پہلے یہودی سرداروں اور فقیہوں
کی عدالت میں پیش کیاگیا، پھر وہ انھیں پیلاطُس کی عدالت میں فیصلہ کے لیے
لے گئے، پھر پیلاطس نے ان کو ہیرودیس کی عدالت میں بھیج دیا اور بالآخر
ہیرودیس نے دوبارہ فیصلہ کے لیے ان کو پیلاطس ہی کی عدالت میں بھیج دیا۔
لُوقا کی انجیل میں اس واقعہ کو اس طرح نقل کیاگیا ہے:
”اور جو آدمی یسوع کو پکڑے ہوئے تھے اس کو ٹھٹھوں میں اُڑاتے اور مارتے تھے
اور اس کی آنکھیں بند کرکے اس سے پوچھتے تھے کہ نبوت سے بتا تجھے کس نے
مارا؟ اور انھوں نے طعنہ سے اور بھی بہت سی باتیں اس کے خلاف کہیں۔“ (انجیل
لوقا، ب۲۲، آیت ۶۳-۶۵، ص۲۲۷)
اور انجیل لوقاہی میں ہیرودیس کا پیلاطُس کے پاس واپس بھیجنا ان الفاظ سے
منقول ہے:
”پھر ہیرودیس نے اپنے سپاہیوں سمیت اُسے ذلیل کیا اور ٹھٹھوں میں اڑایا اور
چمک دار پوشاک پہناکر اس کو پیلاطس کے پاس واپس بھیجا۔“ (انجیل لوقا، ب۲۳،
آیت۱۱، ص۲۲۸)
لاروس کا کہنا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو ایک عدالت سے دوسری عدالت
میں بھیجنے کا مقصد بھی ان کے ساتھ مذاق کرنا اور انھیں تکلیف پہنچا تھا؛
چونکہ یہ واقعہ یکم اپریل کو پیش آیا تھا، اس لیے اپریل فول کی رسم درحقیقت
اسی شرمناک واقعے کی یادگار ہے۔ (ذکروفکر ص۶۷-۶۸)
اگر یہ بات درست ہے تو غالب گمان یہی ہے کہ یہ رسم یہودیوں نے جاری کی ہوگی
اور اس کا منشاء حضرت عیسیٰ علیٰ نبیّنا وعلیہ الصلاة والسلام کی تضحیک
ہوگی؛ لیکن یہ بات حیرت ناک ہے کہ جو رسم یہودیوں نے (معاذ اللہ) حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کی ہنسی اڑانے کے لیے جاری کی اس کو عیسائیوں نے کس طرح
قبول کرلیا؛ بلکہ خود اس کے رواج دینے میں شریک ہوگئے؛ جبکہ وہ حضرت عیسیٰ
علیہ السلام کو نہ صرف رسول؛ بلکہ ابن اللہ کا درجہ دیتے ہیں۔ قرینِ قیاس
یہ ہے کہ یہ ان کی دینی بدذوقی یا بے ذوقی کی تصویر ہے۔ جس طرح صلیب، کہ ان
کے عقیدہ کے مطابق اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دی گئی ہے، تو
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کی شکل سے بھی ان کو نفرت ہوتی؛ لیکن ان پر خدا
کی مار یہ ہے کہ اس پر انھوں نے اس طرح تقدس کا غازہ چڑھایا کہ وہ ان کے
نزدیک مقدس شے بن کر ان کے مقدس مقامات کی زینت بن گئی۔ بس اسی طرح اپریل
فول کے سلسلہ میں بھی انھوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمنوں کی نقّالی
شروع کردی۔ اللّٰہم احفظنا منہ․ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عیسائی اس رسم کی
اصلیت سے ہی واقف نہ ہوں اور انھوں نے بے سوچے سمجھے اس پر عمل شروع کردیا
ہو۔ واللہ اعلم اپریل فول کی شرعی حیثیت
مندرجہ بالا تفصیل سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ تاریخی اعتبار سے یہ رسم بد
قطعاً اس قابل نہیں کہ اس کو اپنایا جائے؛ کیونکہ اس کا رشتہ یا تو کسی
توہم پرستی سے جڑا ہوا ہے، جیساکہ پہلی صورت میں، یا کسی گستاخانہ نظریے
اور واقعے سے جڑا ہوا ہے؛ جیساکہ دوسری اور تیسری صورت میں۔ اس کے علاوہ یہ
رسم اس لیے بھی قابلِ ترک ہے کہ یہ مندرجہ ذیل کئی گناہوں کا مجموعہ ہے:
(۱) مشابہت کفار ویہود ونصاریٰ
(۲)جھوٹا اور ناحق مذاق
(۳)جھوٹ بولنا
(۴)دھوکہ دینا
(۵)دوسرے کواذیت پہنچانا
ان میں سے ہر ایک پر الگ الگ عنوانات کے تحت مختصر کلام کیا جاتا ہے؛ تاکہ
یہ بات معلوم ہوجائے کہ احادیثِ شریفہ میں ان گناہوں پر کتنی سخت وعیدیں
وارد ہوئی ہیں۔
کفار اور یہودونصاریٰ کی مشابہت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود ونصاریٰ اور کفار ومشرکین کی مشابہت
اور بودوباش اختیار کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے، مثلاً: آقا صلی
اللہ علیہ وسلم نے داڑھی رکھنے کا اور مشرکین ومجوس کی مخالفت کرنے کا حکم
دیا ہے۔ اسی طرح یہود کی مشابہت سے بچنے کے لیے دسویں محرم کے ساتھ نویں
تاریخ کو روزہ رکھنے کا بھی حکم فرمایا۔ غرض کہ ہر موقع پر آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے غیرقوموں کے طریقہٴ زندگی کو اپنانے سے منع فرمایا ہے۔ اور ان
الفاظ میں وعید فرمائی ہے کہ: ”من تشبّہ بقوم فہو منہم“ (مشکوٰة شریف
۲/۳۷۵) یعنی جو شخص کسی قوم سے مشابہت اور ان کے طور طریقے کو اختیار کرے
گا اس کا شمار انہی میں ہوگا؛ مگر افسوس کہ غیرقوموں کا طریقہ ہی آج ہمیں
پسند ہے۔
حالانکہ ہمیشہ ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دی ہے، آپ
کی حیات میں بھی اور وفات ظاہری کے بعد بھی۔ نیز ہمیشہ ان کی کوششیں دین
اسلام اور مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے پر صرف ہوتی ہیں؛ مگر ہم مسلمان
ذرا اس بات پر غور نہیں کرتے اور انھیں کے طور طریقوں میں مگن رہتے ہیں اور
اپنے عمل سے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیتے ہیں۔
ایک عبرت ناک واقعہ
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرّہ کے مواعظ میں کسی
جگہ ایک واقعہ منقول ہے کہ ایک پیر صاحب غیرمسلموں کے تہوار ”ہولی“ کے دن
پان کھاتے ہوئے اپنے مریدین کے ساتھ جارہے تھے، پورا راستہ ہولی کے رنگ سے
رنگا ہوا تھا۔ رنگی ہوئی سڑک پر ایک گدھا کھڑا ہوا عجیب سا معلوم ہورہا
تھا، پیر صاحب نے از راہِ مذاق پان کی پیک یہ کہتے ہوئے گدھے پر تھوک دی کہ
”تجھ کو کسی نے نہیں رنگا، میں ہی رنگ دیتا ہوں“۔ القصہ پیر صاحب کی وفات
کے بعد کسی مرید نے ان کو خواب میں دیکھا کہ عذاب میں مبتلا ہیں، پوچھنے پر
فرمایا کہ ہولی کے دن کے واقعہ کی پکڑہوگئی۔ خدا کی پناہ!
جھوٹا اور ناحق مذاق
اسلام نے خوش طبعی، مذاق اور بذلہ سنجی کی اجازت دی ہے۔ بارہا رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے ساتھ مذاق فرمایا ہے؛ لیکن آپ کا
مذاق جھوٹا اور تکلیف دہ نہیں ہوتا تھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ ایک مرتبہ صحابہٴ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض
کیا کہ
یا رسول اللّٰہ انّک تداعبنا، قال: انّی لا اقول الاّ حقًّا(ترمذی
شریف:۲/۲۰)
ترجمہ: اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ تو ہمارے ساتھ دل لگی
فرماتے ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ (میں دل لگی ضرور کرتا ہوں مگر) سچی اور
حق بات کے علاوہ کچھ نہیں بولتا۔
حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے مذاق میں دوسرے
شخص کا جوتا غائب کردیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم
ہوا، تو آپ نے ارشاد فرمایا:
لا تُرَوِّعُوْا الْمُسْلِمَ فَاِنَّ رَوْعَةَ المسلم ظلم عظیم(الترغیب
والترہیب۳/۴۸۴)
ترجمہ: کسی مسلمیان کو مت ڈراؤ (نہ حقیقت میں نہ مذاق میں) کیونکہ کسی
مسلمان کو ڈرانا بہت بڑا ظلم ہے۔
امام غزالی تحریر فرماتے ہیں کہ مزاح ومذاق پانچ شرطوں کے ساتھ جائز؛ بلکہ
حسنِ اخلاق میں داخل ہے اور ان میں سے کوئی ایک شرط مفقود ہوجائے تو پھر
مذاق ممنوع اور ناجائز ہے۔
(۱) مذاق تھوڑا یعنی بقدرِ ضرورت ہو
(۲) اس کا عادی نہ بن جائے
(۳)حق اور سچی بات کہے
(۴)اس سے وقار اور ہیبت کے ختم ہونے کا اندیشہ نہ ہو
(۵)مذاق کسی کی اذیّت کا باعث نہ ہو (احیاء العلوم اردو ۳/۳۲۴-۳۲۶)
سفیان بن عیینہ سے کسی نے کہا کہ مذاق بھی ایک آفت ہے، انھوں نے فرمایا کہ
نہیں؛ بلکہ سنت ہے؛ مگر اس شخص کے حق میں جو اس کے مواقع جانتا ہو اور اچھا
مذاق کرسکتا ہو۔ (خصائل نبوی، ص۱۵۳)
بہرحال حاصل یہ ہے کہ جھوٹے اور تکلیف دہ مذاق کی شریعت اسلامیہ میں کوئی
گنجائش نہیں؛ بلکہ اس طرح کا مذاق مذموم ہے۔
جھوٹ بولنا
اس رسم ”اپریل فول“ میں سب سے بڑا گناہ جھوٹ ہے؛ جبکہ جھوٹ بولنا دنیا و
آخرت میں سخت نقصان اور محرومی کا سبب ہے۔ نیز اللہ رب العالمین اور نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا باعث ہے۔
قرآن کریم میں جھوٹ بولنے والوں پر لعنت کی گئی ہے۔ ارشاد مبارک ہے:
فنجعل لعنة اللّٰہ علی الکاذبین (آل عمران آیت ۶۱)
ترجمہ: پس لعنت کریں اللہ تعالیٰ کی ان لوگوں پر جو کہ جھوٹے ہیں۔
نیز احادیث شریفہ میں بھی مختلف انداز سے اس بدترین وذلیل ترین گناہ کی
قباحت وشناعت بیان کی گئی ہے۔
حدیث ۱: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اذا کَذَبَ العبدُ تَبَاعَدَ عنہ المَلَکُ مِیلاً من نَتَنٍ ما جاء بہ
(ترمذی شریف۲/۱۹)
ترجمہ: جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس کلمہ کی بدبو کی وجہ سے جو اس نے بولا
ہے رحمت کا فرشتہ اس سے ایک میل دور چلا جاتا ہے۔
حدیث ۲: ایک حدیث شریف میں آپ نے جھوٹ کو ایمان کے منافی عمل قرار دیا،
حضرت صفوان بن سُلیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم سے عرض کیاگیا کہ
أیکون الموٴمن جَبانا؟ قال: نعم، فقیل لہ أیکون الموٴمن بخیلا؟ قال: نعم،
فقیل لہ أیکون الموٴمن کذّابا؟ قال: لا․ (موطا امام مالک ص۳۸۸)
ترجمہ:کیا موٴمن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں، (مسلمان میں یہ
کمزوری ہوسکتی ہے) پھر عرض کیاگیا کہ کیامسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟ آپ نے
ارشاد فرمایا: ہاں (مسلمان میں یہ کمزوری بھی ہوسکتی ہے) پھر عرض کیاگیا
کیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ نے جواب عنایت فرمایا کہ نہیں، (یعنی ایمان
کے ساتھ بے باکانہ جھوٹ کی عادت جمع نہیں ہوسکتی اور ایمان جھوٹ کو برداشت
نہیں کرسکتا)۔ دھوکہ دینا
اپریل فول کی رسم بد میں چوتھا گناہ، مکروفریب ہے؛ حالانکہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم اس گناہ پر سخت الفاظ سے وعید بیان فرمائی ہے۔ حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:
مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا․(مسلم شریف ۱/۷۰) جو شخص ہم کو (مسلمانوں
کو) دھوکا دے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا:
الموٴمنون بَعضُہم لِبَعْضٍ نَصَحَةٌ وَادُّون، وَانْ بَعُدَتْ منازلہم
وَاَبْدَانُہُمْ وَالفَجَرَةُ بعضہم لبعضٍ غَشَشَةٌ مُتَخَاوِنُوْنَ وَاِنْ
اقْتَرَبَتْ مَنَازِلُہُمْ وَاَبْدَالُہُمْ․ (الترغیب والترہیب ۲/۵۷۵)
ترجمہ: موٴمنین آپس میں ایک دوسرے کے خیرخواہ اور محبت کرنے والے ہوتے ہیں
اگرچہ ان کے مکانات اور جسم ایک دوسرے سے دور ہوں اور نافرمان لوگ آپس میں
ایک دوسرے کے ساتھ دھوکے باز اور خائن ہوتے ہیں، اگر ان کے گھر اور جسم
قریب قریب ہوں۔
مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ دھوکہ بازی اللہ تعالیٰ سے بغاوت کرنے
والوں اور نافرمانوں کا عمل ہے، موٴمنین کا عمل تو ایک دوسرے کے ساتھ
خیرخواہی کرنا ہے۔ لہٰذا کسی بھی ایمان والے کو دوسروں کے ساتھ دھوکے کا
معاملہ نہیں کرنا چاہیے۔
ایک عبرت ناک واقعہ
عبدالحمید بن محمود معولی کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ
عنہما کی مجلس میں حاضر تھا، کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا
کہ ہم حج کے ارادہ سے نکلے ہیں جب ہم ذات الصفاح (ایک مقام کا نام) پہنچے
تو ہمارے ایک ساتھی کا انتقال ہوگیا، ہم نے اس کی تجہیز وتکفین کی، پھر قبر
کھودنے کا ارادہ کیا، جب ہم قبر کھود چکے تو ہم نے دیکھا کہ ایک بڑے کالے
ناگ نے پوری قبر کو گھیر رکھا ہے، اس کے بعد ہم نے دوسری جگہ قبر کھودی تو
وہاں بھی وہی سانپ موجود تھا۔ اب ہم میّت کو ویسے ہی چھوڑ کر آپ کی خدمت
میں آئے ہیں کہ ہم ایسی صورتِ حال میں کیا کریں؟ حضرت عبداللہ بن عباس رضی
اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ سانپ اس کا وہ بد عمل ہے جس کا وہ عادی تھا،
جاؤ اس کو اسی قبر میں دفن کردو، اللہ کی قسم اگر تم اس کے لیے پوری زمین
کھود ڈالوگے پھر بھی وہ سانپ اس کی قبر میں پاؤگے۔ بہرحال اسے اسی طرح دفن
کردیاگیا۔ سفر سے واپسی پر لوگوں نے اس کی بیوی سے اس کا عمل پوچھا، تو اس
نے بتایا کہ اس کا یہ معمول تھا کہ وہ غلہ کا تاجر تھا اور روزانہ بوری میں
سے گھر کا خرچ نکال کر اس میں اسی مقدار کا بھس ملادیتا تھا۔ (گویا کہ
دھوکہ سے بھس کو اصل غلہ کی قیمت پر فروخت کرتا تھا)۔ (شرح الصدور للسیوطی،
ص۱۷۴)
دوسرے کو تکلیف دین ایک حدیث شریف میں صحیح اور کامل مسلمان اس کو قرار
دیاگیا ہے جو کسی مسلمان بھائی کو تکلیف نہ دے؛ بلکہ ہمارا مذہب اسلام تو
یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک موٴمن کے ہاتھ وغیرہ سے پوری دنیا کے انسان (مسلم
ہو یا غیرمسلم) محفوظ ہونے چاہئیں؛ بلکہ جانوروں کو تکلیف دینا بھی انتہائی
مذموم، بدترین اور شدید ترین گناہ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کا
سبب ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ
سے اور صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہ وَیَدِہ․ (بخاری
شریف۱/۶، مسلم شریف۱/۴۸)
ترجمہ: کامل مسلمان وہ شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ
رہیں۔
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
اَلْمُوٴْمِنُ مَنْ أَمِنَہُ النَّاسُ عَلٰی دِمَائِہِمْ
وَأَمْوَالِہِمْ․(ترمذی شریف۲/۹۰)
ترجمہ: کامل موٴمن وہ شخص ہے جس سے تمام لوگ اپنے خونوں اور مالوں پر مامون
و بے خوف وخطر رہیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا:
مَلْعُوْنٌ مَنْ ضَارَّ مُوٴْمِنًا أوْ مَکَرَ بِہ (ترمذی شریف ۲/۱۵)
ترجمہ: وہ شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہے جو کسی موٴمن کو نقصان
پہنچائے یا اس کے ساتھ چال بازی کا معاملہ کرے۔
مندرجہ بالا تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ ”اپریل فول“ بہت سارے بدترین گناہوں کا
مجموعہ ہے؛ لہٰذا اب ہم مسلمانوں کو خود فیصلہ کرلینا چاہیے کہ آیا یہ رسمِ
بد اس لائق ہے کہ مسلمان معاشرہ میں اپناکر اس کو فروغ دیا جائے؟ اللہ
تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس طرح کی تمام برائیوں سے محفوظ فرمائے اور دین
کی صحیح سمجھ عطا فرمائے، آمین ۔ |