بعض لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کو اہلحدیث ثابت کرنے کی
ناکام کوشش کرتے ہیں اوراس کی آڑمیں مسئلک اہلحدیث اور اکابراہلحدیث پرطعن
وتشنیع کرتے ہوئے عوام کومسلک اہلحدیث سے بدظن کرنے کی کوشش کرتے ہیں
حالانکہ یہ بات قابل گرفت نہیں ہوسکتی کہ ارتدادسے قبل مرتد ہونے والے شخص
کاعقیدہ و مسئلک کیاتھا؟
اگرہم اس بات کوقابلِ گرفت ٹھہرائیں تو پھر ہمیں سوچنا ہوگا کہ طلٰیحہ اسدی
جس نے نبی آخر الزماں جناب محمد رسول اﷲ ﷺ کی زندگی میں ہی اسلام قبول
کیاتھا وفات النبی ﷺ کے بعددعویٰ نبوت کرکے مرتد ہوگیا اور بعدازاں صدیق
اکبر ؓ کے دور خلافت کے آخر میں دوبارہ مسلمان ہوگیا تھا توکیا جب وہ مرتد
ہوا تو اس کے مرتد ہونے سے پہلے کے افکار ونظریات کوموردالزام ٹھہراسکیں گے
؟یقینًانہیں۔
لیکن یہاں پرتو گنگاہی الٹی بہہ رہی ہے کہ اصل حقائق کومسنح کرتے ہوئے
معروف حنفی عالم ابوالقاسم رفیق دلاوری اپنی کتاب رئیس قادیان میں رقمطراز
ہے کہ
’’ارتداد سے پہلے مرزا صاحب اور حکیم نورالدین صاحب دونوں اہلحدیث تھے اور
چونکہ اس وقت تک ان کے مذہبی رویہ میں اسلام کی کچھ نہ کچھ رمق باقی تھی اس
لیے یہ خود بھی اب تک اہلحدیث کہلاتے تھے۔‘‘
(رئیس قادیان صفحہ271،طبع چہارم 2007ء)
محترم قارئن !اﷲ رب العزت نے قرآن مقد س میں فرمایا ہے کہ
یٰاَ یُّہَاالَّذِےْنَ اَمَنُوْااِنْ جَآءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ
فَتَبَیَّنُوْااَن تُصِیْبُوْاقَوْماً بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلیٰ مَا
فَعَلْتُمْ نٰدِمِےْنَ٭
یعنی اے ایمان کا دعوی کرنے والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے
تو تم تحقیق کرلیا کرو کہیں ایسانہ ہوکہ تمہاری لاعلمی کی وجہ سے کسی قوم
کوتکلیف پہنچے اور تمہیں نادم ہونا پڑے ۔
( سور ۃ الحجرات آیت نمبر6)
یعنی کسی بھی خبر اور معاملے کو بغیر تحقیق کے تسلیم نہیں کرنا چاہئے اسی
اصول کومد نظر رکھتے ہوئے اس بات کی تحقیق کرتے ہیں کہ مرزاغلام احمد
قادیانی کا عقیدہ اور فقہی مسئلک کیا تھا ۔ مرزا قادیا نی اپنے فقہی مسئلک
کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
’’اگرحدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور سنت میں اورنہ قرآن میں مل سکے توفقہ
حنفی پرعمل کرلیں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خداکے ارادہ پردلالت کرتی ہے۔‘‘
(ریوبوبر مباحثہ چکڑالوی وبٹالوی صفحہ7مندرجہ روحانی خزائن جلد 19صفحہ212)
مرزا بشیراحمد اپنے باپ مرزا قادیانی کا مؤقف واضح کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
’’خاکسارعرض کرتاہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یوں تو سارے اماموں کو
عزت کی نظر سے دیکھتے تھے مگر امام ابو حنیفہ کوخصوصیت کے ساتھ علم ومعرفت
میں بڑھا ہوا سمجھتے تھے اور ان کی قوت استدلال کی بہت تعریف فرماتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ334روایت نمبر360طبع چہارم)
مذید اسی رویت میں مرزابشیراحمدلکھتا ہے کہ
’’مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ ایک مولوی حضرت مسیح
موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اورالگ ملاقات کی خواہش ظاہر کی جب
وہ آپ سے ملاتو باتو ں باتوں میں اس نے کئی دفعہ یہ
کہاکہ میں حنفی ہوں اور تقلیدکو اچھا سمجھتاہوں وغیرذالک آپ نے اس سے فر
مایاکہ ہم کوئی حنفیوں کے خلاف تو نہیں ہیں کہ آپ بار بار اپنے حنفی ہونے
کااظہار کرتے ہیں۔‘‘
(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ334روایت نمبر360طبع چہارم)
مرزا غلام احمد قادیانی امام ابو حنیفہ رحمۃاﷲ علیہ کے بارے میں اپنا موقف
بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
’’بعض آئمہ نے احادیث کی طرف توجہ کم کی ہے جیسا کہ امام اعظم کوفی رضی اﷲ
عنہ جن کو اصحاب الّر ائے میں سے خیال کیا گیا اور ان کے مجتہدات کو بواسطہ
وقت معانی احادیث صحیحہ کے بر خلاف سمجھا گیا ہے مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ
امام صاحب موصوف اپنیقوت اجتہادی اور اپنے علم روایت اور فہم وفراست میں
آئمہ ثلاثہ باقیہ سے افضل واعلیٰ تھے اور ان کی خدا داد قوت فیصلہ ایسی
بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت عدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور ان کی
قوت مدر کہ کو قرآن شریف کے سمجھنے میں ایک خاص دستگاہ تھی اور ان کی فطرت
کو کلام الٰہی سے ایک خاص مناسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے
تھے اسی وجہ سے اجتہاد واستنباط میں ان کے لیے وہ درجہ علیھامسلم تھا جس تک
پہنچنے سے دوسرے سب لوگ قاصر تھے۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ530‘531’ندرجہ روحانی خزائن جلد3صفحہ385)
محترم قارئین !مرزاقادیانی وہابیوں کے خلاف اپنامذہب بیان کرتے ہوئے
لکھتاہے کہ
’’ہمارامذہب وہابیوں کے برخلاف ہے ہمارے نزدیک تقلیدایک اباحت ہے کیونکہ
ہرایک شخص مجتہد نہیں ہے ذراساعلم ہونے سے کوئی متابعت کے لائق نہیں
ہوجاتا۔ کیاوہ اس لائق ہے کہ سارے متقی اور تزکیہ کرنے والوں کی تابعداری
سے آزادہوجائے۔ قرآن شریف کے اسرار سوائے مطہراورپاک لوگوں کے کسی پرنہیں
کھولے جاتے۔ہمارے ہاں جوآتاہے اسے پہلے ایک حنفیت کارنگ چڑھاناپڑتاہے۔میرے
خیال میں یہ چاروں مذہب اﷲ تعالیٰ کافضل اوراسلام کے واسطے ایک چاردیواری
ہیں۔اﷲ تعالیٰ نے اسلام کی حمایت کے واسطے ایسے اعلیٰ لوگ پیداکیے جونہایت
متقی اورصاحبِ تزکیہ تھے۔آج کل کے لوگ جوبگڑے ہیں اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ
اماموں کی متابعت چھوڑدی گئی ہے۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلداوّل صفحہ534طبع چہارم)
محترم قارئین!یہ توتھے مرزاقادیانی کے حنفی مذہب اورفقہ حنفی کے حق میں
دلائل اوراب مرزاقادیانی کا اہلحدیث اوروہابیوں کے بارے میں بھی مؤقف
ملاحظہ کرلیں۔
مرزاقادیانی کااہلحدیثوں(وہابیوں)کے بارے میں مؤقف:۔
وہی مرزاقادیانی جونہ صرف تقلیدشخصی کاقائل رہابلکہ اپنے آپ کو حنفی کہلانے
کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتارہاکہ وہ حنفیوں کے خلاف نہیں ہے اور یہ بھی اعلان
کرتارہاکہ’’ جوشخص قادیانی ہوناچاہتاہے اس پرپہلے حنفیت کارنگ
چڑھاناپڑتاہے۔‘‘وہی مرزاقادیانی اہلحدیث کے بارے میں لکھتاہے کہ
’’جب تک وہابی آنحضرت ﷺکی عظمت نہیں سمجھتاوہ بھی خداسے دورہے انہوں نے بھی
دین کوخراب کردیاہے۔جب کسی نبی یاولی کاذکرآجائے توچلااٹھتے ہیں کہ ان کوہم
پرکیافضیلت ہے۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلد3صفحہ160طبع چہارم)
’’وہابیوں میں تیزی اورچالاکی ہوتی ہے خاکساری اورانکساری توان کے نصیب میں
نہیں ہوتی یہ ایک طرح سے مسلمانوں کے آریہ ہیں۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلد3صفحہ161طبع چہارم)
’’میرادل ان لوگوں سے کبھی راضی نہیں ہوااورمجھے یہ خواہش کبھی نہیں ہوئی
کہ مجھے وہابی کہاجائے اورمیرانام کسی کتاب میں وہابی نہ نکلے گا۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلد2صفحہ515طبع چہارم)
’’ مشرک بھی سچی محبت آنحضرتﷺسے نہیں رکھ سکتا اورایساہی وہابی بھی نہیں
کرسکتا یہ مسلمانوں کے آریہ ہیں ان میں روحانیت نہیں ہے خداتعالیٰ اوراس کے
سچے رسول سے محبت نہیں ہے۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلد3حاشیہ صفحہ161طبع چہارم)
مذید مرزاقادیانی اپنی کتاب کشتی نوح میں رقمطرازہے کہ
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں یہودی اگرچہ بہت فرقے تھے مگرجوحق
پرسمجھے جاتے تھے وہ دوفرقے ہوگئے تھے (۱)ایک وہ جوتوریت کے پابندتھے اسی
سے اجتہاد کے طورپرمسائل استنباط کرتے تھے (۲)دوسرافرقہ جوتوریت پراحادیث
کو قاضی سمجھتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔پس اس زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام
پیداہوئے اوران کے مخاطب خاص طورپر اہلحدیث ہی تھے جوتوریت سے زیادہ حدیثوں
کی عزت کرتے تھے اورنبیوں کے نوشتوں میں خبردی گئی تھی کہ جب یہودکئی فرقوں
میں منقسم ہوجائیں اورخداکی کتابکوچھوڑکراس کے برخلاف حدیثوں پرعمل کریں گے
تب ان کوایک حکم عدل دیاجائے گا جو مسیح کہلائے گا اوراس کووہ قبول نہ کریں
گے آخرسخت عذاب ان پرنازل ہوگااوروہ طاعون کاعذاب ہوگا۔‘‘
(کشتی نوح حاشیہ صفحہ50‘51مندرجہ روحانی خزائن جلد 19حاشیہ صفحہ53‘54)
’’جس طرح یہودیوں کے علماء نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)پرفتویٰ
تکفیرکالگایااور ایک شریر فاضل یہودی نے وہ استفتاء طیارکیااوردوسرے فاضلوں
نے اس پرفتویٰ دیایہاں تک کہ بیت المقدس کے صدہاعالم فاضل جواکثراہلحدیث
تھے۔انہوں نے حضرت عیسیٰ پر تکفیر کی مہریں لگادیں یہی معاملہ مجھ سے
ہوااورپھرجیساکہ اس تکفیرکے بعدجوحضرت عیسیٰ کی نسبت کی گئی تھی ان کوبہت
ستایاگیاسخت سخت گالیاں دی گئی تھیں ہجواوربدگوئی میں کتابیں لکھی گئی تھیں
یہی صورت اس جگہ پیش آئی گویااٹھارہ سوبرس کے بعدوہی عیسیٰ پھرپیداہوگیا
اوروہی یہودی پھرپیداہوگئے۔‘‘
(کشتی نوح صفحہ50مندرجہ روحانی خزائن جلد19صفحہ53‘54)
حنفی اوراہلحدیث کے اختلافی مسائل میں مرزاقایانی کامؤقف:۔
احناف اور اہل حدیث میں جوبنیادی اختلافی مسائل (آمین بالجھر‘رفع ا لیدین
وغیرہ) ہیں ان میں بھی مرزاقادیانی نے عملی طورپراپنے آپ کوحنفی ہی
ظاہرکیاہے۔
مرزاقادیانی کے بیٹے مرزابشیراحمدنے اپنی کتاب سیرت المہدی میں پنڈت دیوی
رام ولد متھراداس کاایک ایسا حلفیہ بیان درج کیاہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ
مرزاقادیانی حنفی المذہب تھا چنانچہ وہ حلفیہ بیان ملاحظہ کریں:
٭ ’’میں 21جنوری1875ء کو نائب مدرس ہو کر قادیان گیاتھا میں وہاں چارسال
رہا میں مرزا غلام احمد کے پاس اکثر جایا کرتاتھا اور میزان طب آپ سے پڑھا
کرتاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ عرصہ کے بعد میرناصر نواب صاحب جوکہ محکمہ نہرمیں ملازم
تھے ان کا ہیڈ کوارٹر بھی خاص قادیاں میں تھا اور وہابی مذہب کے تھے مرزا
صاحب اہل سنت والجماعت (حنفی) کے تھے کبھی کبھی دونوں کواکٹھے نماز پڑھنے
کا موقعہ ملتا تواکثر اپنے اپنیمذہب کے متعلق بحث ومباحثہ کیاکرتے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ688روایت نمبر759)
اس حلفیہ بیان میں مذیدلکھاہے کہ
’’میرناصر نواب کے ساتھ میرے روبرو رفع الیدین ۔آمین بالجھر،ہاتھ باندھنے
کے متعلق ،تکبیر پڑھنے کے متعلق بحث ہوتی کہ آیا یہ امورجائز ہیں
یاناجائز۔ان ایام میں آپ کے دوست کشن سنگھ کنگھی گھاڑا۔شرم پت اورملاوامل
تھے۔اوریہ لوگ مرزاصاحب کے پاس کبھی کبھی آتے تھے ۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ693روایت نمبر759)
٭ ’’بیان کیا مجھ سے میاں عبداﷲ سنوری نے کہ اوائل میں میں سخت غیر مقلد
تھا اور رفع الیدین اورآمین بالجھر کا بہت پابند تھا اور حضرت صاحب کی
ملاقات کے بعد بھی میں نے یہ طریق مدت تک جاری رکھا عرصہ کے بعد ایک دفعہ
جب میں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی تو نماز کے بعد آپ نے مجھ سے مسکرا کر
فرمایا میاں عبداﷲ اب تواس سنت پربہت عمل ہوچکا ہے اور اشارہ رفع الیدین کی
طرف تھا۔میاں عبداﷲ صاحب کہتے ہیں کہ اس دن سے میں نے رفع الیدین کرنا ترک
کردیا بلکہ آمین بالجھر کہنا بھی چھوڑ دیااور میاں عبداﷲ صاحب بیان کرتے
ہیں کہ میں نے حضرت صاحب کوکبھی رفع الیدین کرتے یا آمین بالجھر کہتے نہیں
سنا اور نہ کبھی بسم اﷲ بالجھرپڑھتے سنا ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ147روایت نمبر154طبع چہارم)
٭ ’’ خواجہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیاکہ
میرے والد صاحب بیان کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کی
نیت باندھتے تھے تو حضور اپنے ہاتھوں کے انگوٹھوں کوکانوں تک پہنچاتے تھے
یعنی یہ دونوں آپس میں چھو جاتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ744‘745روایت نمبر823طبع چہارم)
٭ ’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ میں نے حضرت مسیح
موعود علیہ السلام کوکبھی بھی کسی سے معانقہ کرتے نہیں دیکھامصافحہ کیاکرتے
تھے اور حضرت صاحبکے مصافحہ کرنے کاطریقہ ایسا تھا جوعام طور پر رائج ہے
اہلحدیث والا مصافحہ نہیں کیا کرتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول صفحہ718روایت نمبر772 طبع چہارم)
٭ ’’خواجہ عبدالرحمن صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیاکہ میرے
والد میاں میاں حبیب اﷲ صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ مجھے نماز میں حضرت
مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کھڑے ہونے کاموقعہ ملا اور چونکہ میں احمدی
ہونے سے قبل وہابی تھا میں نے اپناپاؤں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے
پاؤں کیساتھ ملانا چاہا مگر جب میں نے اپنا پاؤں آپ کے پاؤں کے ساتھ رکھا
تو آپ نے اپنا پاؤں کچھ اپنی طرف سرکا لیا جس پر میں بہت شرمندہ ہوا اور
آئندہ کیلئے اس طریق سے باز آگیا۔‘‘
(سیرت المہدی جلداول صفحہ313روایت نمبر344طبع چہارم)
اس روایت کے آخر میں مرزا بشیر احمد رقمطراز ہے کہ
’’مگر اس (پاؤں سے پاؤں ملانے )پراہلحدیث نے اتنا زور دیا اور اس قدر
مبالغہ سے کام لیاہے کہ یہ مسئلہ ایک مضحکہ خیز بات بن گئی ۔اب گویا ایک
اہلحدیث کی نماز ہوہی نہیں سکتی جب تک وہ اپنے ساتھ والے نمازی کے کندھے سے
کندھا اور ٹخنہ سے ٹخنہ اور پاؤں سے پاؤں رگڑاتے ہوئے نماز ادا نہ کرلے
حالانکہ اس قدر قرب بجائے مفید ہونے کے نماز میں خواہ مخواہ پریشانی کا
موجب ہوتاہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ314روایت نمبر344 طبع چہارم)
٭ ’’ ڈاکٹر محمداسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ اس ملک میں مرنے جینے
اور شادی بیاہ وغیرہ کی جورسوم رائج ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کو
اہلحدیث کی طرح کلی طور پر ردنہیں کردیتے تھے بلکہ سوائے ان رسوم کے
جومشرکا نہ یا مخالف اسلام ہوں باقی میں کوئی نہ کوئی تو جیہہ فوائد کی
نکال لیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اس اس فائدہ یا ضرورت کیلئے یہ رسم
ایجاد ہوئی ہے مثلاً نیوتہ (جسے پنجابی میں نیوندرا کہتے ہیں)امداد باہمی
کے لیے شروع ہوا ۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ744روایت نمبر822 طبع چہارم)
٭ ’’مولوی شیرعلی صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت مسیح موعود۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔یہ
بھی فرماتے تھے کہ ۔۔۔۔۔۔میں یہ نہیں کہتا کہ جوشخص سورۃ الفاتحہ نہیں
پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی کیونکہ بہت سے بزرگ اور اولیاء اﷲ ایسے گزرے
ہیں جو سورۃ فاتحہ کی تلاوت ضروری نہیں سمجھتے تھے اور میں ان کی نمازوں
کوضائع شدہ نہیں سمجھتا۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل334‘335روایت نمبر361طبع چہارم)
٭ ’’حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ ہم نے حضرت صاحب سے
دریافت کیایہ جوحدیث میں مرقوم ہے کہ اگر انسان اپنی شرمگاہ کوہاتھ لگائے
تو وضوٹوٹ جاتاہے یہ کیامسئلہ ہے ؟آپ نے فرمایا کہ شرم گاہ تو جسم ہی کا
ایک ٹکڑا ہے اس لیے یہ حدیث قوی معلوم نہیں ہوتی ۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ320روایت نمبر352طبع چہارم)
مرزا قادیانی خود رقمطراز ہے کہ
٭ ’’اس میں چنداں حرج نہیں معلوم ہوتا ہے خواہ کوئی کرے یانہ کرے احادیث
میں بھی اس کا ذکر دونوں طرح پر ہے اور وہابیوں اور سنیوں کے طریق عمل سے
بھی یہی نتیجہ نکلتاہے کیونکہ ایک تو رفع الیدین کرتے ہیں اور ایک نہیں
کرتے معلوم ہوتاہے کہ رسول اﷲﷺ نے کسی وقت رفع یدین کیا اور بعدازاں ترک
کردیا۔‘‘
(ملفوظات مرزا غلام احمد قادیانی جلد3صفحہ193طبع چہارم)
٭ ’’اکیلا ایک وترکہیں سے ثابت نہیں ہوتا وتر ہمیشہ تین ہی پڑھنے چاہئیں۔‘‘
(ملفوظات مرزا غلام احمد قادیانی جلد3صفحہ193طبع چہارم)
٭ ’’اکیلا وتر ہم نے کہیں نہیں دیکھا وترتین ہیں خواہ دورکعت پڑھ کرسلام
پھیر کرتیسری رکعت پڑھ لوخواہ تینوں ایک ہی سلام سے آخر میں التحیات بیٹھ
کر پڑھ لو ایک وتر تو ٹھیک نہیں ۔‘‘
(ملفوظات مرزا غلام احمد قادیانی جلد3صفحہ213طبع چہارم)
بریلوی ‘ اہلحدیث اختلافی مسائل میں مرزا قادیانی کا مؤقف :۔
1۔ حیات النبی واولیائے کرام:۔
حیات النبی ﷺ کے بارے میں مرزا قادیانی بریلوی مسئلک کی تائید کرتے ہوئے
رقمطراز ہے کہ
٭ ’’نجات یافتہ کون ہے ؟وہ جویقین رکھتاہے جوخداسچ ہے اورمحمدﷺ اس میں اور
تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اورآسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی
اورکتاب ہے اورکسی کے لیے خدانے نہ چاہاکہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگریہ برگزیدہ
نبی ہمیشہ کے لیے زندہ ہے۔‘‘
(کشتی نوح صفحہ13مندرجہ روحانی خزائن جلد19صفحہ14)
٭ ’’(فوت شدہ انبیاء کرام)بیداری میں پاک دل لوگوں سے کبھی کبھی زمین پرآ
کرملاقات بھی کرلیتے ہیں ہمارے نبیﷺکااکثراولیاء سے عین بیداری کی حالت میں
ملاقات کرناکتابوں میں بھراپڑاہے اورمؤلف رسالہ ھٰذا (مرزاقادیانی)بھی کئی
دفعہ اس شرف سے مشرف ہو چکاہے۔ والحمدﷲ ذالک۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ اوّل صفحہ126مندرجہ روحانی خزائن جلد3حاشیہ صفحہ226)
٭ ’’اصل بات یہ ہے کہ مقدس اورراستبازلوگ مرنے کے بعدزندہ ہوجایاکرتے ہیں
اوراکثرصاف باطن اورپرمحبت لوگوں کوعالمِ کشف میں جو بعینہ عالم بیداری ہے
نظرآ جایا کرتے ہیں چنانچہ اس بارہ میں خودیہ عاجز صاحب ِ تجربہ ہے
بارہاعالم بیداری میں بعض مقدس لوگ نظرآتے ہیں اور بعض مراتب کشف کے ایسے
ہیں کہ میں کسی طورکہہ نہیں سکتاکہ ان میں کوئی حصہ غنودگی یاخواب یاغفلت
کاہے بلکہ پورے طورپربیداری ہوتی ہے اور بیداری میں گذشتہ لوگوں سے ملاقات
ہوتی ہے اورباتیں بھی ہوتی ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ254مندرجہ روحانی خزائن جلد3صفحہ354)
٭ ’’میں کئی بارلکھ چکاہوں اورپھربھی لکھتاہوں کہ اہل کشف کے نزدیک یہ بات
ثابت شدہ ہے کہ مقدس اورراستباز لوگ مرنے کے بعدپھر زندہ ہوجایاکرتے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ255مندرجہ روحانی خزائن جلد3صفحہ355)
٭ ’’چنانچہ خداتعالیٰ نے مجھے بشارت دی کہ موت کے بعدمیں پھر تجھے حیات
بخشوں گااورفرمایاکہ جولوگ خداتعالیٰ کے مقرب ہیں وہ مرنے کے بعد پھرزندہ
ہو جایا کرتے ہیں۔‘‘
(فتح اسلام حاشیہ صفحہ16مندرجہ روحانی خزائن جلد3صفحہ16)
٭ انہی تحریروں میں بیان کیے گئے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے مرزابشیر
احمداپنی کتاب سیرت المہدی کی ایک روایت میں لکھتاہے کہ
’’ہوشیارپورسے پانچ چھ میل کے فاصلہ پرایک بزرگ کی قبر ہے جہاں کچھ باغیچہ
سا لگاہواتھا وہاں پہنچ کر حضور(مرزاقادیانی)تھوڑی دیرکے لیے بہلی سے
اترآئے اورفرمایا یہ عمدہ سایہ دارجگہ ہے یہاں تھوڑی دیرٹھہرجاتے ہیں اس کے
بعد حضور قبرکی طرف تشریف لے گئے میں بھی پیچھے پیچھے ساتھ ہوگیا اور شیخ
حامدعلی اور فتح خاں بہلی کے پاس رہے آپ مقبرہ پرپہنچ کراس کادروازہ کھول
کراندرگئے اورقبر کے سرہانے کھڑے ہوکردعاکے لیے ہاتھ اٹھائے اورتھوڑی دیر
تک دعافرماتے رہے پھرواپس آئے اورمجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا’’جب میں نے
دعاکے لیے ہاتھ اٹھائے توجس بزرگ کی یہ قبر ہے وہ قبرسے نکل کردوزانو
ہوکرمیرے سامنے بیٹھ گئے اوراگرآپ ساتھ نہ ہوتے تومیں ا ن سے باتیں بھی
کرلیتاان کی آنکھیں موٹی موٹی ہیں اوررنگ سانولا ہے ۔‘‘ پھرکہادیکھو اگر
یہاں کوئی مجاورہے تواس سے ان کے حالات پوچھیں چنانچہ حضور نے مجاور سے
دریافت کیا اس نے کہا میں نے ان کو خود تو نہیں دیکھا کیونکہ ان کی وفات
کوقریبًا ایک سوسال گزرگیا ہے ہاں اپنے باپ دادا سے سناہے کہ یہ اس علاقہ
کے بڑے بزرگ تھے اور اس علاقہ میں ان کابہت اثر تھا حضور(مرزاقادیانی)نے
پوچھا ان کاحلیہ کیاتھا؟ وہ کہنے لگا کہ سناہے سانولا رنگ تھا اورموٹی موٹی
آنکھیں تھیں۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ64‘65روایت نمبر88طبع چہارم)
بذریعہ کشف آنحضرتﷺسے احکامات پوچھنا:۔
٭ آنجہانی مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
’’اہل ولایت بذریعہ کشف آنحضرتﷺسے احکام پوچھتے ہیں اوران میں سے جب کسی کو
کسی واقعہ میں حدیث کی حاجت پڑتی ہے تووہ آنحضرت ﷺکی زیارت سے مشرف
ہوجاتاہے پھرجبرائیل علیہ السلام نازل ہوتے ہیں اورآنحضرت جبرائیل سے وہ
مسئلہ جس کی ولی کوحاجت ہوتی ہے پوچھ کر اس ولی کوبتادیتے ہیں یعنی ظلی
طورپر وہ مسئلہ بہ نزول جبرائیل منکشف ہوجاتا ہے ‘پھرشیخ ابنِ عربی نے
فرمایاہے کہ ہم اس طریق سے آنحضرت ﷺسے احادیث کی تصیح کرالیتے ہیں بہتیری
حدیثیں ایسی ہیں جومحدثین کے نزدیک صحیح ہیں اوروہ ہمارے نزدیک صحیح نہیں
اوربہتیری حدیثیں موضوع ہیں اور آنحضرتﷺکے قول سے بذریعہ کشف صحیح ہوجاتی
ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ77‘78مندرجہ روحانی خزائن جلد3صفحہ177‘178)
٭ ایک اورمقام پر مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
’’میرایہ بھی مذہب ہے کہ اگرکوئی امرخداتعالیٰ کی طرف سے مجھ پرظاہر
کیاجاتا ہے مثلاًکسی حدیث کی صحت یاعدم صحت کے متعلق توگوعلمائے ظواہر
اورمحدثین اس کوموضوع یامجروح ٹھہراویں مگرمیں اس کے مقابل اور معارض کی
حدیث کوموضوع کہوں گا اگرخداتعالیٰ نے اس کی صحت مجھ پرظاہر کردی ہے جیسے
لَامَہْدِیْ اِلَّا عِےْسٰی والی حدیث ہے محدثین اس پرکلام کرتے ہیں مگرمجھ
پرخداتعالیٰ نے یہی ظاہر کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اوریہ میرا مذہب میراہی
ایجادکردہ مذہب نہیں بلکہ خودیہ مسلّم مسئلہ ہے کہ اہلِ کشف یااہلِ الہام
لوگ محدثین کی تنقیدحدیث کے محتاج اورپابندنہیں ہوتے۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلد2صفحہ45طبع چہارم)
صلی اﷲ علیک یارسول اﷲ پڑھنااوریارسول اﷲ مدد کہنا :۔
محترم قارئین !مرزاقادیانی اوراس کی ذریت حنفی بریلوی اورحنفی دیوبندی میں
سے حیاتی گروہ کی طرح’’ صلی اﷲ علیک یارسول اﷲ پڑھنااوریارسول اﷲ مدد کہنا
‘‘جائزسمجھتاہیچنانچہ اسی بات کاتذکرہ کرتے ہوئے مرزابشیراحمد ابنِ
مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
’’خواجہ عبدالرحمان صاحب ساکن کشمیرنے بذریعہ تحریرمجھ سے بیان کیاکہ میرے
والد صاحب نے ایک مرتبہ ذکرکیاکہ جب میں شروع شروع میں احمدی ہواتو قصبہ
شوپیاں علاقہ کشمیر کے بعض لوگوں نے مجھ سے کہاکہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ
الصلوۃوالسلام سے ’’صلی اللّٰہ علیک یا رسول اللّٰہ وسلمک اللّٰہ یارسول
اللّٰہ‘‘ کے پڑھنے کے متعلق استفسارکروں یعنی آیایہ پڑھناجائز ہے یانہیں
سومیں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں اس بارہ میں خط لکھا ۔حضورنے
جواب تحریرفرمایاکہ یہ پڑھنا جائزہے۔
خاکسارعرض کرتاہے کہ اس استفسارکی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ آنحضرت
ﷺوفات پاچکے ہیں توکیا اس صورت میں بھی آپ کوایک زندہ شخص کی طرح مخاطب
کرکے دعادیناجائزہے۔سواگریہ روایت درست ہے توحضرت مسیح موعود کافتویٰ یہ ہے
کہ ایساکرناجائز ہے اور اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ آپ ﷺکی
روحانیت زندہ ہے اورآپ اپنی امت کے واسطے سے بھی زندہ ہیں اس لیے آپﷺکے لیے
خطاب کے رنگ میں دعا کرناجائز ہے ۔بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو
اپنے ایک شعرمیں آنحضرتﷺسے مخاطب ہوکرآپ سے مدداورنصرت بھی چاہی ہے چنانچہ
فرماتے ہیں:۔
’’اے سےّدالوریٰ!مددے وقتِ نصرت است‘‘
یعنی اے رسول اﷲﷺ!آپ کی امت پرایک نازک گھڑی آئی ہوئی ہے ۔ میری مددکوتشریف
لائیے کہ یہ نصرت کاوقت ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ553‘554روایت نمبر579طبع چہارم)
غوثیت اورقطبیت:۔
مرزاغلام احمدقادیانی متنبی رقمطرازہے کہ
’’میں جس راہ کی طرف بلاتا ہوں یہی وہ راہ ہے جس پر چل کرغوثیت اور قطبیت
ملتی ہے اوراﷲ تعالیٰ کے بڑے بڑے انعام ہوتے ہیں جولوگ مجھے قبول کرتے ہیں
ان کی دین ودنیا بھی اچھی ہوگی ۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلد2صفحہ54طبع چہارم)
الشیخ جیلانی ؒکے بارے میں بریلوی عقائد اورمرزاقادیانی:۔
مرزاقادیانی الشیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃاﷲ علیہ کے بارے میں بریلوی عقائد
کی متابعت میں اہلحدیثوں پر طنزکرتے ہوئے لکھتاہے کہ
’’(اہلحدیث)اولیاء کی کرامات سے منکرہوبیٹھے مگردجال کی کرامات کا کلمہ پڑھ
رہے ہیں اگرایک شخص انہیں کہے کہ سےّدعبدالقادرجیلانی قدس سرّہ نے بارہ برس
کے بعدکشتی غرق ہوئی زندہ آدمیوں سے بھری نکالی تھی اورایک دفعہ ملک الموت
کی ٹانگ توڑدی تھی اس غصہ سے کہ وہ بلااجازت آپ کے کسی مریدکی روح نکال
کرلے گیا تھاتوان کراماتوں کوہرگزقبول نہیں کریں گے بلکہ ایسی مناجاتوں
کوپڑھنے والوں کو مشرک بنائیں گے ۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ اوّل صفحہ230مندرجہ روحانی خزائن جلد3صفحہ215‘216)
مولودخوانی اورمرزاقادیانی:۔
مولودخوانی کا تذکرہ کرتے ہوئے مرزاقادیانی رقمطرازہے کہ
’’آنحضرت(ﷺ)کاتذکرہ بہت عمدہ ہے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ انبیاء اوراولیاء
کی یادسے رحمت نازل ہوتی ہے اورخودخدانے بھی انبیاء کے تذکرہ کی ترغیب دی
ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔آنحضرتﷺکی بعثت‘پیدائش اوروفات کاذکرہوتوموجب ثواب ہے۔۔۔۔بعض
ملاں اس میں غلو کرکے کہتے ہیں کہ مولودخوانی حرام ہے۔ اگر حرام ہے توپھرکس
کی پیروی کروگے ؟ کیونکہ جس کاذکرزیادہ ہواس سے محبت بڑھتی اورپیداہوتی
ہے۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلد3صفحہ160‘159طبع چہارم)
محترم قارئین!آپ نے مرزاقادیانی کے عقائداورنظریات ملاحظہ کرلیے اب اہل
حدیث کے بارے میں اس کاایک اور قول بھی ملاحظہ کریں ۔اسکی کتاب ملفوظاتمیں
لکھاہے کہ
’’یایحیٰ خذِالکتاب بقوۃوالخیر کلہ فی القرآن
اس میں ہم کو حضرت یحیٰ کی نسبت دی گئی ہے کیونکہ حضرت یحی کویہودکی ان
اقوام سے مقابلہ کرناپڑاتھا جوکتاب اﷲ توریت کوچھوڑے بیٹھے تھے اور حدیثوں
کے بہت گرویدہ ہورہے تھے اور ہربات میں احادیث کوپیش کرتے تھے ایساہی اس
زمانہ میں ہمارامقابلہ اہل حدیث کے ساتھ ہواکہ ہم قرآن پیش کرتے ہیں اوروہ
حدیث پیش کرتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلد2صفحہ203طبع چہارم)
محترم قارئین !مرزاقادیانی کے عقائد ونظریات پر یہ اعتراض کیاجاتاہے کہ اگر
مرزا قادیانی حنفی تھاتو اس نے بعض مسائل میں فقہ حنفی سے اختلاف کیوں کیا؟
اس اعتراض کا جواب قادیانیوں کی کتاب فقہ احمدیہ میں کچھ اس طرح موجودہے کہ
’’فقہ احمدیہ میں عام مدوّن فقہ حنفی سے بعض امورمیں اختلاف کیاگیاہے یہ
اختلاف فقہ حنفی کے اصولوں سے باہرنہیں۔پس جس طرح حضرت امام ابو حنیفہ سے
آپ کے شاگردوں مثلًا حضرت امام ابویوسف یاحضرت امام محمد کا اختلاف فقہ
حنفی کے دائرہ سے ان کو باہر نہیں لے جاتا اور ان کے اس اختلاف کوفقہ حنفی
کی مخالفت نہیں سمجھاجاتا اسی طرح فقہ احمدیہ کابعض امور میں اختلاف فقہ
حنفی کے مخالف قرار نہیں دیاجاسکتا خصوصًاجبکہ یہ اختلاف انہی اصولوں
پرمبنی ہے جنہیں فقہاء حنفی تسلیم کرتے ہیں کیونکہ فقہ احمدیہ کے وہی مأخذ
ہیں جوفقہ حنفی کے ہیں۔‘‘
(فقہ احمدیہ مشتمل بَراحکامِ شخصیہ صفحہ15شائع کردہ ادارۃ المصنفین ربوہ)
محترم قارئین !مرزاقایانی کے حنفی المذہب ہونے کے بارے میں احناف کی اپنی
گھر کی گواہیاں ملاحظہ فرمایں۔
٭ بریلویوں کی مشہورومعروف شخصیت مولوی فیض احمدفیض مفتی اعظم گولڑہ شریف
اپنی کتا ب مہرمنیر میں رقمطراز ہے کہ
’’تحریک قادیانیت کے بانی کانام مرزاغلام احمدتھا وہ برٹش انڈیامیں صوبہ
پنجاب کے ضلع گورداسپور کے موضع قادیاں میں1839ء میں پیداہوئے ان کے
والدکانام غلام مرتضیٰ تھاجو سمرقندی مغل گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ان
کاپیشہ طبابت اور زمیندارہ تھا مرزاغلام احمدعلوم مروجہ عربی فارسی اورطب
کی تحصیل سے فارغ ہوکر 1864ء میں ڈپٹی کمشنرسیالکوٹ کے دفتر میں بطور اہل
مدقریبًاچارسال ملازمت کرتے رہے بعدہ ملازمت چھوڑکراپنے والد محترم کاہاتھ
بٹاناشروع کردیا ساتھ ساتھ مذہبی کتب کا مطالعہ بھی جاری رکھا اورمناظرات
وغیرہ میں حصہ لیتے رہے جہاں تک معلوم ہوسکاہے ان کے آباؤاجداد حنفی المذہب
مسلمان تھے اورمرزا صاحب بھی اپنی اوائل زندگی میں انہی کے قدم بہ قدم چلتے
رہے۔‘‘
(مِہرمنیرصفحہ165ایڈیشن 2011)
یہ توتھامرزاقادیانی کاعقیدہ وفقہی مسئلک اب اسی ضمن میں مختصرتذکرہ حکیم
نورالدین کاجوکہ قادیانیوں کاخلیفہ اوّل اورمرزاقادیانی کادستِ راست بھی
تھا‘اس کے بارے میں مشہور حنفی عالم ابوالقاسم رفیق دلاوری اپنی کتاب رئیس
قادیاں میں رقمطرازہے کہ
’’حکیم نورالدین جومرزاصاحب کے انتقال کے بعد ان کے جانشین اوّل منتخب ہوئے
تھے قصبہ بھیرہ ضلع شاہپور(سرگودھا)کے رہنے والے تھے علوم عربیہ کی تحصیل
ریاست رامپور میں کی تھی وہاں سے فراغت پاکر لکھنؤگئے اورحکیم علی حسن کے
پاس رہ کر طب کی تکمیل کی کچھ عرصہ مکہ معظمہ میں مولانا رحمۃاﷲ علیہ
مہاجرمکی کی خدمت میں اورمدینہ منورہ میں مولاناشاہ عبدالغنی صاحب نقشبندی
مجددی رحمۃاﷲ علیہ کے پاس رہے۔
لیکن ایسے اکابر کی صحبت اٹھانے کے باوجود طبیعت آزادی کی طرف مائل تھی اس
لیے حنفیت پر قائم نہ رہے پہلے اہل حدیث بنے لیکن اس سے بھی جلد سیر ہوگئے۔
ان دنوں ہندوستان کی فضا نیچریت کے ہنگاموں سے گونج رہی تھی چاہاکہ اس گلشن
آزادی کی بھی ذراسیرکردیکھیں سرسیّداحمدخاں کی کتابوں اوررسالوں کامطالعہ
شروع کیایہ مسئلک پسندآگیااوراسی کی صف میں جلوہ گری شروع کردی ۔۔۔۔۔ جن
دنوں مرزالام احمدقادیانی سے حکیم نورالدین کی ملاقات ہوئی ان ایام میں
حکیم صاحب پکے نیچری تھے۔‘‘
(رئیسِ قادیاں صفحہ144‘145ازابوالقاسم رفیق دلاوری )
|