مذاہب عالم میں تصوف کے رجحانات

دنیا کے بڑے مذاہب میں اسلام، ہندومت، عیسائیت اور بدھ مت کا نام سب سے اہم ہے۔ اس مضمون کے اندر اس بات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان تمام مذاہب میں تصوف کا کیا رجحان رہا ہے۔

تصوف کسی مذہب کانام نہیں ہے۔ تصوف نام ہے ایک خاص فلسفے کا ، تصوف نام ہے ایک رویے کا ، تصوف نام ہے ایک خاص فکر و نظر کا۔ تصوف بعض مقامات پر مذہب سے اختلاف بھی رکھتا ہے اور یہ اختلاف تصور خدا سے شروع ہوتا ہے۔اہل مذاہب کے مطابق خدا دنیا و ما فیہا سے ما وراء ہے۔ وہ اس کائنات کا مالک بھی ہے اور خالق بھی ہے مگر وہ اس سے علیحدہ ہے۔وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ساری کائنات پراس کا اختیار اور اس کا تصرف ہے لیکن اس کے وجود سے اس کائنات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اذا اراد شیئا ان یکون لہ کن فیکون۔ وہ اپنے ارادے اور اپنی مرضی کا خود مالک ہے۔ لیکن صوفیوں کے مطابق خدا اس کائنا ت سے الگ نہیں ہے۔ بلکہ وہ کائنات کے اندر موجود ہے اور اس کی ذات ہر ہر ذرے میں سمائی ہوئ ہے۔
موجودہ وقت میں دنیا کے جو بڑے مذاہب سمجھے جاتے ہیں وہ اسلام، ہندومت، عیسائیت اور بدھ مت ہیں۔ تمام ادیان عالم میں خدا کی عبادت اور ذکر واذکار کے طریقہ ہائے کارایک دوسرے سے کہیں مماثلت رکھتے ہیں تو کہیں ایک دوسرے سے الگ بھی ہیں۔ عبادت و ریاضت کا ایک طریقہ یا کہا جائے کہ ایک شعبہ تصوف کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ تصوف کے رجحانات ان تمام مذاہب میں پائے جاتے ہیں۔ تصوف کا طریقہ بھی ادیان عالم میں الگ الگ ہےجس کا ذکرذیل میں آئےگا۔ اس ٹرم پیپر میں اسلام ،عیسائیت، ہندومت اور بدھ مت میں تصوف کے رجحانات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی مگر اس سے پہلے تصوف کے معانی ومفاہیم اور اس کے آغاز و ارتقاء پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا ضروری خیال کرتا ہوں۔

تصوف اور اس کے معنی و تعریف:
علامہ شبلی سے ایک بار پوچھا گیا کہ صوفیوں کا نام صوفی کیوں ہے؟ انہیں اس نام سے پکارا کیوں جاتا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ نام جو صوفیوں کےلیے استعمال ہوتا ہے اس کے اصل، مصادر اور مشتقات میں بہت سے اختلافات ہیں۔ اور یہ اختلافات آج تک جاری ہیں۔ یہ بحث جس قدر مختلف فیہ ہے اسی قدردلچسپ بھی ہے کہ تصوف کی اصل اور اس کے مشتقات کیا ہیں۔ اس سلسلے میں علماء اور صوفیاء کرام کے مختلف اقوال اور نظریات ہم کو ملتے ہیں ۔انہیں اقوال ونظریات میں سے چند اقوال ونظریات تصوف کی اصل کے بارے میں پیش کیے جارہے ہیں۔
ابوالنصر سراج طوسی نے اپنی کتاب اللمع میں لکھا ہے کہ صوفی کا لفظ اصل میں صفوی تھا چونکہ یہ لفظ تلفظ میں ثقیل اور بھاری ہے اس لیے صفوی کےبجائے صوفی کا لفظ استعمال کیا گیا۔
ابو بکر محمد الکلاباذی کے مطابق صوفی کو صوفی اس لیے کہتےہیں کہ اس کے معاملات صفا اور صاف ہوتے ہیں تو صفا کی مناسبت کی وجہ سے اس کو صوفی کہا جاتا ہے۔
بشیر بن الحارث کا خیال ہے کہ صوفی اس کوکہتے ہیں جس نے اپنے معاملات اللہ کے حوالے کر دیے ہوں۔ تو اللہ پاک بھی اسے عزت اور کرم سے نوازتے ہیں۔
علامہ لطفی اپنی کتاب تاریخ فلاسفہ اسلام میں رقم طراز ہیں کہ صوفی کا لفظ در اصل ثیو صوفیا سے مشتق ہے جو یونانی زبان کا ایک لفظ ہے اور اس کے معنی حکمت و دانائی کے ہیں۔
ابو ریحان البیرونی کے مطابق تصوف کالفظ اصل میں سین سے تھا جس کے معنی حکمت کے ہیں جب دوسری صدی ہجری میں یونانی زبان کی کتابوں کاترجمہ عربی زبان میں ہوا تو یہ لفظ عربی زبان میں بجائے سین کےصاد سے لکھا جانے لگا اور اس طرح تسوف سے تصوف بن گیا۔
حضرت ابوالحسن علی الہجویری نے اپنی تصنیف کشف المحجوب میں لکھا ہے کہ لوگوں کے اس اسم کی تحقیق میں بہت سے اقوال لکھے ہیں ان میں سے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ اہل تصوف کو صوفی اس لیے کہتےہیں کیونکہ یہ اون کا لباس پنہے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ ایک دوسرے گروہ کا خیال ہےکہ یہ لوگ برگزیدگی اور زہد و ورع میں اللہ تعالی کے یہاں صف اول میں ہوتے ہیں لہٰذا ان کو صوفی کہا جاتا ہے۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ صفا سے ہے جس کے معنی مصفی کےہیں اور یہ کدورت کی ضد ہے جبکہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ صوفی کا لفظ صفہ سے ہے جو کہ مدینہ منورہ میں مسجدی نبوی کے اندر اصحاب صفہ کا چبوترہ تھا ۔ اسی وجہ سے صوفیا کو صوفی کہا جاتا ہے اور ہر صوفی اپنی نسبت کو اصحاب صفہ کی طرف گرداننا باعث فخر سمجھتا ہے۔
اس کے بعد ہم صوفی کی تعریف کی طرف آتے ہیں تو یہاں بھی بہت سے اقوال ملتے ہیں۔ سری سقطی جو مشہور صوفی ہیں صوفیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کا کھانا اتنا ہی ہوتا ہے جیسا کہ بیمارآدمی کھاتا ہے۔ ان کی نیند اتنی ہی ہوتی ہے جیسا کہ کوئی ڈوبنے والا آدمی نیند کرتاہے اور ان کی بات و گفتگو اتنی ہی ہوتی ہے جتنا کہ کوئی گونگا آدمی کرتا ہے۔
بعض حضرات سے سوال کیا گیا کہ صوفی کس کو کہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ جو کسی چیز کا مالک نہ ہو اور کوئی چیز اس کی ملکیت نہ ہو یعنی جو طمع،لالچ اور ذاتی اغراض کا غلام و بندہ نہ ہو۔
حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں حقیقت کی معرفت حاصل کرنا، دقائق پر گفتگو کرنا اور مخلوق کے پاس جو کچھ ہے اس سے ناامید ہو کر خالص اللہ سے امید رکھناتصوف ہے۔
حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کے مطابق اپنے اوپر دنیاوی آسائشوں کا استعمال ترک کر دینا تصوف ہے۔
حضرت جنید بغدادی کے مطابق تصوف مستقل مجاہدہ نفس کا نام ہے۔
حضرت عثمان بن علی الہجویری کہتے ہیں کہ اپنے اخلاق و معاملات کوصاف رکھنااور ہر پہلو پر صٖفت صفا کو لازم رکھنا تصوف ہے اور صوفی قد افلح من تزکی کی تصویر ہے۔
حضرت امام غزالی کے مطابق تصوف علم و عمل کے مجموعے کانام ہے ۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے مطابق تصوف کی بنیاد آٹھ چیزوں پر ہوتی ہے جن کی ترتیب اس طرح ہے: سخاوت ابراہیم، رضائے اسمعیل، صبرایوب، مناجات زکریا، غربت یححیٰ، حرقہ پوشی موسی، سیاحت و تجرد عیسیٰ اور فقر محمد ﷺ۔
اسلام اور تصوف
دین اسلام ہی سب سے قدیم اور ازلی وابدی دین ہے۔ چنانچہ تصوف کا آغاز بھی سب سے پہلے اسلام سے ہوتا ہے۔ دوسری صدی ہجری سے اس کی شروعات ہوتی ہے اور ایک تحریک کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ جب دنیا عیش و عشرت میں غرق ہو جاتی ہے اور دین سےروگردانی کرنے لگتی ہے تو ایسے وقت میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو خالص اللہ کی عبادت میں لگے رہتے ہیں۔ تصوف کی ابتدا بھی ایسے ہی حالات میں ہوئی جب اسلامی معاشرہ عیش و عشرت اور دنیاوی لذتوں میں تقریبا غرق ہو چکا تھا۔ چونکہ یہ عیش وعشرت کا رد عمل تھا اس لیے یہ ظاہر ہے تصوف کی بنیاد خالص زہد و تقوی پر تھی۔ اس لیے شروع شروع میں بدعات اور فسق و فجور کا اس میں کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ لیکن چوتھی صدی کےآتے آتے اس میں غیر اسلامی عوامل بھی داخل ہونے لگے اور یونانی فلسفہ، ہندومت اور عیسائیت و نصاری کے فلاسفہ نے قصدا اور عمدا اِس تصوف کو رواج دیا جو آج تک مروج ہے۔
اسلامی تصوف کئی افکار و نظریات پر مشتمل ہے، اس کے کچھ خاص عقائد اور نظریات ہیں جن کو مختصرا ذیل میں پیش کیا جائے گا۔
وحدۃ الوجود
تصوف کی اصطلاح میں وحدۃالوجود کا مفہوم یہ ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز اور ہر ذرے میں خدا کی ذات موجود ہے۔ انسان ریاضت وعبادات کے ذریعے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کو ہر چیز میں خدا نظر آنے لگتاہے۔ اس نظریے کے حاملین ہر چیز کو خدا کی ذات کا حصہ خیال کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکتھے ہیں کہ ان تمام چیزوں میں اللہ کی ذات موجود ہے۔
وحدۃ الشہود
اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی ہستی الگ ہے اور اس کائنات کی ہر چیز خدا کی ہستی کا پرتو ہے۔ جب انسان اس مرحلے پر آتاہے تو روحانی ترقی کرتے کرتے اس کی ہستی خدا کی ہستی میں گم ہوجاتی ہے۔
حلول
تصوف کا تیسرا مقام حلول ہے۔ اس مقام پر آنے کے بعد انسان اپنے آپ کو اس طرح متقی اور پرہیز گار کر لیتا ہے کہ اس کا دل بالکل صاف و ستھرا ہو جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں خدا کی ذات اس کے جسم میں حلول کر جاتی ہے۔ وحدۃالشہود اور حلول کے فرق کو ہم اس طرح سجمھ سکتے ہیں وحدۃالشہود میں تو انسان اپنی روحانی ترقی کی وجہ سے خدا کی ذات میں مدغم ہو جاتا ہے لیکن حلول میں خود خدا کی ذات اس کے جسم میں حلول کر جاتی ہے۔
چلہ کشی ، دست بوسی، بیعت اور کچھ خاص ذکر و اذکار اور اوراد وغیرہ یہ آج کل کے صوفیا کے یہاں عام ہو چکا ہے اور لوگوں نے اسی کو تصوف کا نام دے دیاہے۔ جبکہ تصوف کسی خاص ذکر کا نام نہیں، تصوف کسی خاص چلہ کشی کا نام نہیں، تصوف کسی خاص طریقت کا نام نہیں، تصوف کسی خاص تسبیح کا نام نہیں، تصوف خاص اوراد و وظائف کا نام نہیں۔ تصوف نہ رسوم کا نام ہے اور نہ کسی ہیئت و وضع قطع کا نام ہے،نہ تصوف کسی جبہ و دستار کا نام ہے، نہ تصوف کسی گدۤی کا نام ہے۔تصوف نہ وراثت ہے نہ دعوی ہے ، تصوف موسیقی سننے کا نام نہیں ہے بلکہ تصوف سراسر حسنِ معاملہ ہے، حسنِ ادب ہے، تصوف یہ ہے کہ اللہ سے معاملہ کیسا کرنا ہے، رسول سے صحابہ سے کیسا معاملہ کرنا ہے،ہر ایک کے ساتھ اپنا معاملہ اچھا رکھنے کا نام تصوف ہے۔تصوف نام ہے تزکیہ نفس کا، تصوف نام ہے اصلاح نفس کا، تصوف نام ہے قد افلح من تزکی کا ۔
اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ دنیا سے پوری طرح کٹ کر عبادت کی جائے بلکہ اسلام کا حکم ہے کہ حضور ﷺ کی عملی زندگی کو نمونہ بنا کر زندگی گزاری جائے۔ پوری طرح سے کٹ کر زندگی گزارنے کواسلام نے تبتۤل اور رہبانیت قرار دیا ہے اور اس کو سرے سے خارج قرار دیا ہے جس کا ذکر قرآن واحادیث دونوں میں ہے۔ لا رھبانیۃ فی الاسلام اور ورھبانیۃ ابتدعوھا ما کتبنٰھا علیہم۔ شادی نہ کرنا اور اکیلے زندگی گزارنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
تصوف اور عیسائیت
عیسائیت میں ان تمام امور اور طریقوں کا ذکر ملتا ہے جن سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔ چونکہ اصلی تعلیمات میں تو عیسائیوں نے تحریفات کر ڈالی ہیں اس لیے ان کی موجودہ تعلیمات کے حساب سے اللہ سے قرب حاصل کرنے کے جو طریقے ان کے پادریوں نے بیان کیے ہیں اور ان کی کتابوں میں ملتے ہیں ان پر مختصرا روشنی ڈالی جا رہی ہے۔
ہمارےیہاں صوفیا کا ترک نکاح اور ازدواجی زندگی سے راہ فرار اختیار کرنا دراصل عیسائیوں کا شیوہ ہے۔ عیسائیت میں اللہ تعالی سے قربت حاصل کرنےکےبارے میں ان کی کچھ تعلیمات پیش خدمت ہیں:
عیسیٰ علیہ السلام کا ایک حواری کہتا ہے کہ "جس بات کا تم نے مجھ سے سوال کیا اس بارے میں میں یہی کہوں گا کہ مرد کی خوبی یہ ہے کہ وہ عورت کو نہ چھوئے"۔ مزید کہتا ہے کہ "میں غیر شادی شدہ اور کنواروں سے کہتاہوں کہ وہ بھی میری طرح اس کنوارے پن کے لباس کو ہمیشہ پہنے رہیں"۔
یہ عیسائیت کی تعلیم ہے ۔ عیسائیت میں ترک شادی کو ضروری قراد دیا گیا ہے اگر قرب خداوندی درکار ہے تو۔ یہی وجہ ہے کہ پادری اور عیسائی عورتیں یعنی راہبائیں اپنی پوری زندگی شادی نہیں کرتیں۔ یہ لوگ اس کی تائید میں اک دلیل یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ غیر شادی شدہ لوگ خداکی رضامندی اچھی طریقے سے حاصل کر سکتے ہیں جبکہ شادی شدہ لوگ اپنی بیویوں یا مردوں کی رضامندی کے زیادہ خواہش مند ہوتے ہیں۔ عیسائیوں کے یہاں ایسے بھی کئی واقعات مل جاتےہیں کہ ان کے پادریوں نے اپنا ذکرہی کاٹ لیا تھا تاکہ شہوانی خواہشات سے چھٹکارا مل سکے۔
عیسائیوں کی بہت سی تعلیمات میں سےایک تعلیم مال ودولت سے دوری بنانا، اس دنیا کو ترک کرنا، بھوکے پپاسے اور ننگے رہنا، دنیا کی رنگینیوں اور لذتوں سے اپنےآپ کو دوررکھنا بھی شامل ہیں۔ان کے یہاں اس بات کا بھی ذکر ملتاہے کہ حضرت عیسی نے بہت سے لوگوں سے یہ کہا کہ اگر تم نجات چاہتے ہو تو اپنی زمین، جائیداد اور کھیتی باڑی سب کچھ بیچ ڈالو تاکہ اس کےبدلے میں آسمان میں خزانہ تیار ہو جائے۔
انہیں تمام بنیادوں پر عیسائیوں نے رہبانیت کو اختیار کیا ۔ اس کے اندر جسمانی تکالیف کو برداشت کرنا، جسم کو اذیتوں میں ڈالنا، دنیا کو ترک کرنا ، عورتوں سے دوری بنائے رکھنا، نکاح کو ترک کر دینا اور تمام دنیاوی لذتوں سے اپنے آپ کو دور کرنا شامل ہے۔ اور اسی رہبانیت کے طریقے کو عیسائیت میں نجات کا راستہ قرار دیا گیا ہے۔
ہندومت اور تصوف
قدیم زمانے سے ہی ہندومت کے متبعین کی تعداد بے شمار رہی ہے اور لوگوں نے اس مذہب میں عبادت کے مختلف طریقے اپنائے ہیں۔ ہندومت واحد ایسا مذہب ہے جس میں دیوی دیوتاوں کی تعداد بھی بہت زیادہ رہی ہے اور ہر گوشہ حیات کے لیے الگ الگ دیوی دیوتا مقرر کر لیے گئے ہیں۔
ہندو مذہب اگر چہ کافی قدیم مذہب ہے مگر اس میں تصوف کی روایت بہت زیادہ پرانی نہیں ہے۔ پندرہویں اور سولہویں صدی عیسوی میں اس کا آغاز ہوتا ہے جس کو بھکتی کے نام سے جانا گیا۔ جس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ لوگ شنکراچاریہ کے فلسفے سے تنگ آ چکے تھے۔ یہ لوگ ان تمام باتوں سے متفق نہیں تھے اس لیے لوگوں کا رجحان بھکتی کی طرف ہو گیا۔
2۔ ہندومت کے ورن سسٹم نے بھکتی کے لیے راہیں ہموار کیں۔ چاروں طبقات میں سے برہمن اور چھتریہ طبقات کے لوگ ویشیہ اور شودروں پر ظلم و ستم کرتے تھے اور ان سے تمام کام کرائے جاتے تھے۔ بڑے طبقات کے لوگ ان کو اچھوت سمجھتے تھے جس کی وجہ سے نچلے طبقات والوں کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
3۔ بھکتی کے مقبول عام ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جب نچلےطبقات بڑے طبقات کے ظلم و ستم سے عاجز آ گئے تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا جس کی وجہ سے ہندو مبلغین اور ان کے آچاریہ حضرات کو بڑی تشویش ہوئی تو انہوں نے اس کو روکنے کے لیے بھکتی کا سہارا لینا شروع کیا۔
4۔ بھکتی کے وجود میں آنے کی ایک بہت بڑی وجہ مسلمان بھی رہے ہیں۔ اسلام میں موجود انسان دوستی، مساوات، بھائی چارہ، ایک خدا کی عبادت اور آپسی پیار محبت نے لوگوں کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ یا تو وہ اسلام قبول کر لیں گے یا پھر اس کی جگہ کوئی ایسا نظام قائم کیا جائے جس سے ہندومت میں لوگوں کا یقین قائم رہے۔
بھکتی سنسکرت کے لفظ بھج سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں وقف کرنا اور اپنے آپ کو خداسے منسلک کرنا۔ ہندو فلسفے اور نظریے کے مطابق مکتی حاصل کرنے کیے لیے بھکتی ایک سب سے اہم ذریعہ ہےاور عہد وسطیٰ کےہندوستان کی ایک اہم تحریک بھی ہے۔ اس نے انسان کو خدا کے لیےوقف کرنے پر زور دیا مگر بعد میں آہستہ آہستہ اس پر اسلام اور صوفیا کے اثرات مرتب ہونے شروع ہو گئےجس کی وجہ سےاب موجودہ دورمیں اس کے بہت سے اصول تبدیل ہو چکے ہیں۔
اے ایل سریواستو کے مطابق بدھ مت کےزوال کےبعد سے لےکر اب تک ہمارے یہاں بھکتی جیسی زوردار اور دم دار کوئی بھی تحریک نظر نہیں آتی۔ در اصل بھکتی ان مساعی و کوششوں کا نام ہے جو ہندومت کو سدھارنے اور مکتی حاصل کرنے کے لیے کی گئیں۔
ہندومت میں تصوف کے لیے گھر بار چھوڑںا، بیوی بچوں سے علیحدگی اختیار کرنا،جنگلوں میں بھٹکنا ضروری ہے۔ ہندومت میں تصوف کی اعلی منزل موکچھ اور مکتی حاصل کرناہے۔ ایسے لوگوں کا دنیا و ما فیہا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کےلیے ان کےیہاں ایک باقاعدہ اصطلاح موجود ہے جس کو سنیاس کہا جاتا ہے۔ ہندومت میں تصوف کا ایک نام ویدانت بھی ہے جس کامظاہرہ ہندوجوگی حضرات کرتے ہیں۔ ہندومت کے ویدانت میں معرفت حاصل کرنے کے لیے گیان، دھیان اور گردیسیا ضروری ہیں۔
بدھ مت اور تصوف
ہندومت کے مقابلے بدھ مت میں تصوف کارجحان زیادہ رہا ہے ۔ کیونکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ بدھ مت کی شروعات ہی برہمن مت کے ردعمل کے طور پر ہوئی تھی۔ خود مہاتما بدھ نے اسی کا سہارا لیا اور نروان حاصل کرنے کے لیے جنگلات و صحراوں کی خاک چھانی۔ بدھ مت میں نروان کو سب سے اعلی مقام حاصل ہے۔ معرفت کی آخری منزل ان کے یہاں نروان ہی ہے۔
بدھ نے اپنے تمام متبعین کو حکم دیا کہ وہ نروان حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لیے انہوں نے مندرجہ ذیل اصولوں کا ذکر کیا جن کوبدھ مت کی ریڈھ کی ہڈی کہا جاسکتا ہے:
1۔ لوگ آپس میں محبت سے رہیں۔ کسی پر ظلم نہ کریں، یہاں تک کہ جانوروں کوبھی نہ ستائیں۔
2۔ ہر حال میں سچ کا دامن تھامے رہیں اور جھوٹ سے پرہیز کریں۔
3۔ ماں باپ اور استاد کا حق پہچانیں اور ان کی عزت وخدمت کریں۔
4۔ پیدائش کی بنا پر کسی کو حقیر و رذیل نہ خیال کریں، کیونکہ یہ فرق صرف اعمال پر موقوف ہے۔
5۔ غریبوں، محتاجوں اور بے کسوں کی مدد کریں۔
6۔ افراط و تفریط سے بچیں اور ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کریں۔
7۔ حلال ذریعےسے اپنی روزی کمائیں۔
8۔ تپسیا اور برہمنوں کی من گھڑت رسموں کے ذریعے نجات حاصل کرنے کا خیال ترک کریں۔ خلوص نیت سے کام کریں اور دوسروں کو بھی نیکی کی تلقین کریں۔
بدھ مت کے اندر بھی گھر بار چھوڑنا اور دنیا و ما فیہا سے لاتعلقی اختیار کرنا نروان حاصل کرنےکے لیےلازمی عنصر ہے جیسا کہ خود گوتم بدھ کی سوانح سے پتہ چلتا ہے۔ بدھ مت کے متصوفین کو جنگلات میں رہنا ہوتا ہے۔ کھانا بھیک مانگ کر ہی کھانا ہوتاہے۔ یہ لوگ عموما برہنہ حالت میں ہوتے ہیں جیسا کہ عام طور پر ان کے بھکشووں کی تصاویر دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے۔ لباس کے نام پر ان کے جسم پر صرف چند لیتھڑے ہی ہوتے ہیں۔
ان کےذکرو اذکار کا انداز کیسا ہونا چاہیے اس کے بارے میں ہے کہ ذکر کی ابتدا کرنے سے قبل اپنا سانس روک لے، تمام جسمانی اعضاء کوپرسکون حالت میں لے آئے، جسم کو حرکت نہ دے یہاں تک کہ پلکیں بھی نہ جھپکے۔
خاموش رہنا بھی بدھ مت کے متصوفین کی عادات میں سے ایک ہے جیسا کہ گوتم بدھ کی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے۔ ان کا ایک عقیدہ سمادھی کا بھی ہے یہ مراقبہ اور ذکر الہی کا وہ مقام ہے جس میں ذکرکرنے والا خدا کی ذات میں فنا ہوجاتا ہے اور نروان حاصل کر لیتا ہے۔
خلاصہ
مذکورہ بالا بحث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تصوف کا یہ طریقہ اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ تصوف کے بنیادی نظریات وحدۃ الوجود ، وحدۃ الشہود، حلول، فنا اور تناسخ خالص ہندوازم، بدھ ازم اور عیسائیت کا عقیدہ ہے جودین کے نام پر، معرفت حاصل کرنے کے نام پر صوفیوں نے اختیار کرلیا ہے۔ دراصل تصوف ہندوازم اور بدھ ازم کی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ صوفیوں کاظاہری حلیہ اور لباس بھی وہی ہوتا ہے جو ہندو جوگیوں اور بدھ ازم کے متصوفین کا ہے، برہنہ رہنےکی روایت کا اسلام میں کہیں کوئی ذکرنہیں بلکہ سترعورت پر اسلام میں بہت زوردیا گیا ہے۔ ابراہیم بن ادہم، حلاج اورابن منصور وغیرہ کے واقعات کو پڑھ کر صاف طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ اسلامی طریقئہ عبادت نہیں ہے۔ اسلام نے معرفت حاصل کرنے اور اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کےلیے یہ طریقے نہیں بتائے جن پر صوفی حضرات چلتے ہیں۔
ہندو جوگی و متصوفین خانقاہوں میں پناہ لینا، دنیا کو ترک کر دینا، عزلت نشینی اختیار کرنا،اپنے آپ کو جسمانی اذیتوں میں مبتلا کرنا، شہوتوں کا قلع قمع کرنا اور محنت و مشقت کرنے پر اس لئے عمل کرتے ہیں کیونکہ ان کے مذہبی رہنما ان کو اس کی تلقین کرتے ہیں اور ایسا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ عیسائی ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ وہ حضرت عیسی کے بارے میں ایسے اقوال سنتے چلے آئے ہیں اور ان کے راہبوں و پادریوں نے ان کے سامنےاس کو اس طرح سے پیش کیا ہے کہ گویا عیسائیت نام ہی رہبانیت کا ہے۔ بدھ مت کے ماننے والےایسا اس لیے کرتے ہیں کیونکہ گوتم بدھ نے ایسا کیا ہے اور وہ اپنے متبعین کے لیے رول ماڈل ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمان ایسا کیوں کرتے ہیں۔ کیونکہ نہ تو ایسا خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور نہ آپ کے صحابہ سے اس طرح کا کوئی بھی واقعہ ثابت ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ صوفیوں نے قرآن و سںت کے خلاف عیسائیوں، ہندووں اور بدھ مت کے طریقوں کو اختیار کیا ہے۔

کتابیات
1۔ کمال، ڈاکٹر رضی احمد، ہندوستانی مذاہب ایک مطالعہ، 2014، دہلی، مکتبہ الحسنات۔
2۔ حسن، ڈاکٹر محمد، دہلی میں اردو ادب کا تہذیبی و فکری پس منظر، 2003،دہلی، اردو اکیڈمی دہلی۔
3۔ مولوی عبدالحق، اردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیا ئے کرام کا حصہ،2011، دہلی، انجمن ترقی اردو ہند۔
4۔ حسن، ڈاکٹر محمد، ہندی ادب کی تاریخ، 2015 ، دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس۔
5۔ ولی الدین، ڈاکٹر میر، قرآن اور تصوف،1945، دہلی، ندوۃ المصنفین قرول باغ۔
6۔ زماں، قدیر، تصوف بہ یک نظر، 2006، حیدرآباد، فورم فار ماڈرن تھاٹ اینڈ لٹریچر۔
7۔ لون، ڈاکٹر غلام قادر، مطالعہ تصوف،طبع مکرر 1988، دہلی، مرکز اسلامی
8۔ تاراچند، ڈاکٹر، اسلام کا ہندوستانی تہذیب پر اثر،1966، دہلی، آزاد کتاب گھر، کلاں علی۔
9۔ ظہیر، احسان الٰہی، تصوف تاریخ و حقائق،، لاہور، ادارۃ ترجمان السنتہ

Aziz sahsola
About the Author: Aziz sahsola Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.