اللہ کے بنائے ہوئے رشتوں میں سب سے خوبصورت تعلق اور
بندھن اگر ہے تو میاں بیوی کا تعلق ہے۔حضرت آدم ؑ کی تخلیق کے ساتھ ہی ان
کی بیگم حضرت حوا کی تخیلق یہ بتاتی ہے کہ میاں بیوی کا بندھن کتنا ضروری
اور اہم تھا۔ہر نسل ہر دور اور ہر مذہب اور معاشرے نے اس کی اہمیت اور
ضرورت پر زور دیا ہے۔بیسویں صدی جہاں بہت آسانیاں لے کر آئی ہے وہاں کچھ
ایسی ناگزیر ضرورتوں میں رکاوٹ بھی بنی ہے جن پر بنی نوع انسان کی بقا کا
دارومدار ہے۔ان ضرورتوں میں سے ایک ضرورت نکاح ہے۔جس پہ نسل انسانی کی بقا
کا دارومدار ہے۔جبکہموجودہ دور کا المیہ ہے۔نکاح مشکل سے مشکل تر ہوتا جا
رہا ہے اور برائی کی طرف جانے والے راستے اتنے ہی آسان۔
یونیسف کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک کڑور سے زائد لڑکیاں شادی
کے انتظار میں بیٹھی ہیں ( 20سے 35 سال کی لڑکیاں )۔
جبکہ ان میں سے دس لاکھ سے زائد لڑکیوں کی شادی کی عمر گزر چکی ہے
(30سے35سال) ۔ ان 10لاکھ لڑکیوں میں 78فیصد تعلیم یافتہ ہیں ۔اس وقت ہر گھر
میں اوسطاً دو یا دو سے زائد لڑکیاں شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہیں۔یونیسیف
نے بتایا ہے کہ پاکستان میں لڑکیوں کی شادیوں میں تاخیر کی بڑی وجہ ذات پات
کا نظام اور دیگر معاشی اور سماجی ناہمواریاں تو ہیں ہی مگر اس کے ساتھ
ساتھ لڑکیوں کا لڑکوں کی نسبت زیادہ تعلیم یافتہ ہونا بھی بتایا ہے۔
رشتہ ڈھونڈنے کے طریقے:
زمانہ گو ترقی کی منازل طے کر رہا ہے مگر اس ترقی سے خاندان کا ادارہ بری
طرح متاثر ہوا ہے۔ نکاح اس خاندان کی اکائی کی طرف اٹھایا جانے والا ایک
اہم قدم ہے۔فی زمانہ کچھ حقائق ہیں جن کو نظرانداز کر کے ہمارہ معاشرہ
تباہی کی طرف گامزن ہوا ہے۔ذیل میں ان حقائق کی نشاندہی کی جائے گی۔تاکہ اس
مسئلے پہ قابو پایا جا سکے۔
رشتہ مل جانے پہ پختہ یقین:
رشتہ تلاش کرنا مشکل تو ہے مگر ناممکن نہیں۔اگر آپ تھوڑا اپنے اندر یقین
اور ایمان کو پختہ کر لیں تو یہ کام آسان ہو سکتا ہے۔سورہ یٰسین میں ارشاد
باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ"وہ خدا پاک ہے جس نے زمین کی نباتات کے اور خود ان کے اور جن چیزوں
کی ان کو خبر نہیں،سب کے جوڑے بنائے۔"
درج بالا آیت ثابت کر رہی ہے کہ ہر انسان کا جوڑا اللہ نے بنا رکھاہے۔بس آپ
کا کام صرف اس کی کھوج لگانا ہے۔اس کو تلاش کرنا ہے۔راقمہ کی ان لڑکیوں سے
خصوصی درخواست ہے جن کی عمریں تجاوز کر چکی ہیں مگر شادی نہیں ہوئی۔
آٹوسجیشن طریقہء علاج سے مدد:
اور مایوسی کی کیفیات کا شکار ہیں۔وہ آٹو سجیشن طریقے کی مدد سے خود کو اس
کیفیت سے نکالیں۔آٹوسجیشن طریقہ علاج اس وقت یورپ اور پوری دنیا میں
بیماریوں کے علاج میں کامیاب اور مستند ترین درجہ اختیار کر چکا ہے۔اس
طریقہ ء علاج میں مرض کی تشخیص کے بعد اس کو چند جملے بتا دیئے جاتے ہیں کہ
وہ بار بار ان جملوں کو دہرائیں۔اصل میں ہوتا یہ ہے کہ جب انسان اندر سے
کمزور ہوتا ہے تو اس پر مختلف بیماریوں کا حملہ آور ہونا آسان ہو جاتا
ہے۔یقین ایک اندرونی کیفیت ،عقید ہ ہے۔جس پر ہمارے دیگر اعمال کا دارومدار
ہوتا ہے۔جب یقین پختہ ہوتا ہے تو امید پیدا ہوتی ہے۔اور حالات سے لڑنا آسان
ہو جاتا ہے۔جو لڑکیاں نامید اور مایوسی کا شکار ہیں وہ درج بالا آیت کو بار
بار دہرائیں۔ہو سکے تو اپنے کمرے میں لکھ کر بھی کسی دیوار کے ساتھ چپکا
لیں۔اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تصور کریں کہ آپ کو اچھا رشتہ مل چکا ہے۔آپ
بہترین شادی شدہ زندگی گزار رہی ہیں۔ایسا بار بار تصور کرنے سے آپ کے دل
میں یقین پیدا ہوگا کہ یہ کام یقنا ہونے والا ہے۔اور یہ یقین آپ کو ہر طرح
کے مسائل حل کرنے میں مدد دے گا۔جب آپ کے دل میں یقین کی دولت ہوگی تو آپ
کے چہرے پر خوبصورتی اور حسن و جمال ہوگا۔اس لئے کم از کم روزانہ سونے سے
پہلے اس تصور کی مشق کریں۔
سوشل بنیں۔
موجودہ دور میں کامیاب لوگوں پہ ریسرچ کی گئی اور دیکھا گیا کہ ان میں ایسی
کیا عادات اور رویئے ہیں جن کی وجہ سے یہ لوگ کایاب ہوئے۔تو پتہ چلا کہ ایک
بہت بڑی وجہ ان کا سوشل ہونا بھی تھا۔اصل میں جب انسان لوگوں سے ملتا جلتا
ہے۔تو اس کے لیئے کامیابی کے مواقع آتے اور راستے کھلتے ہیں۔گھر میں پڑے
رہنا ،اپنی الگ دنیا بسا لینا یہ مسائل کا حل نہیں ہے۔ایسی لڑکیوں کو
چاہیئے کہ اپنا فرینڈز سرکل بڑھائیں۔الھدیٰ،النور اور جماعت اسلامی کے قرآن
سرکل میں جائیں۔قرآن سیکھیں۔دین کا علم حاصل کریں۔اس سے ایک تو آخرت کا سفر
آسان ہو گا دوسرا لوگوں سے میل جول سے آپ کا رشتہ آنے کے امکانات بڑھ جائیں
گے۔
دعا کو ہتھیار بنائیں:
تقدیر سے بھی سبقت لے جانے والی اگر کوئی چیز ہے تو وہ "دعا"ہے۔دعا مومن کا
ہتھیار ہے۔مشکلات میں اگر کوئی چیز زاد راہ ہے تو وہ دعا ہے۔اس لیئے اس کو
معمول بنائیں۔جن اوقات میں دعا قبول ہوتی۔ان میں ضرور دعا کریں۔اور پورے
یقین کے ساتھ مانگیں۔اور دعا مانگنے سے کبھی نہ اکتائیں۔
اس کے علاوہ کچھ مسنون ازکار ہیں جیسا کہ تسبیح فاطمہ۔۔اس کو نماز کے بعد
پڑھا جاتا ہے۔آپ رشتے کی نیت سے بھی پڑھیں۔یہ مجرب ہے۔رشتے کی تلاش کے لیئے
اور نیند نہ آنے کی صورت میں تسبیح فاطمہ بہت مفید ہے۔سورہ الرحمٰن قرآن کی
دلہن ہے۔روزانہ اس سورہ کی تلاوت بھی ایک مجرب عمل ہے۔
حسن و خوبصورتی میں اضافے کے لئے ریکی کریں:
ڈاکٹر غزالہٰ موسیٰ جو پاکستان کی مشہور سائیکارٹرسٹ اور فیملی کنسلٹنٹ
ہیں۔انہوں نے مجھے ریکی کا بتایا اور ان کی معروف کتاب میں بھی یہ طریقہ
درج ہے۔
ریکی کا طریقہ
چہرے کی ریکی اس طرح کریں:
اپنے دونوں ہاتھوں پر سے انگوٹیاجں اتار دیں۔دونوں ہاتھ جوڑ کر چہرے پر رکھ
دیں۔آنکھیں بند کر کے ساتھ ساتھ کوئی مراقبہ کریں مثلا آپ تصور میں ایک
کوئی ایک مربع شکل بنائیں۔ہر مرتبہ آپ مربع کی ایک سائیڈ بنائیں۔آپ ساتھ
ساتھ زبان کی حرکت سے پڑھیں۔یا حی یا قیوم۔۔۔آپ کچھ منٹ یہ پڑھنے کے بعد
اللہ کانام بدل سکتے ہیں۔مثلا آپ یا شافی بھی پڑھ سکتے اور اللہ خوبصورت ہے
وہ خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔یہ آیت اردو اور عربی جس میں چاہیں پڑھ سکتے۔
انسانی جسم میں شفا حاصل کرنے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔ریکی میں اس
صلاحیت سے کام لے کر شفا حاصل کی جاتی ہے۔درج بالا طریقے سے ریکی کرنے سے
نہ صرف رنگ فئیر ہوتا ہے بلکہ چہرے میں دلکشی بھی پیدا پوتی ہے۔روازانہ دس
منٹ کی ریکی آپ کو جاذب نظر اور دلکش بنا دے گی۔
امور خانہ داری میں مہارت:
موجودہ دور میں جب سے تعلیم کی طرف لڑکیوں کا رجحان بڑھا ہے۔تب سے امور
خانہ داری بری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح کے پیچھے بڑی
وجہ یہ نظر آتی ہے کہ لڑکی کو گھر کے کام نہیں آتے۔لہذا ضرورت اس امر کی
ہے۔کہ ضروری کاموں میں طاق ہوا جائے۔ڈاکٹر صداقت پاکستان کے معروف
سائیکاٹرسٹ ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ شادی کی تیاری یہ نہیں ہوتی کہ آپ جہیز
اکٹھا کریں بلکہ یہ ہوتی ہے کہ گھر کے ضروری کام سیکھیں۔اور آپ نی طبیعت کے
اندر برداشت اور ٹھہراو پیدا کریں۔
غیر ذات میں شادیوں کو رواج دیں۔
ذات پات کی حد بندیاں جہاں انسان کو محدود کرتی ہیں وہاں اس سے معاشرتی
مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں جیسے خاندان میں شادیاں کرنا۔۔۔ایک تو مرد ویسے ہی
عورتوں کے مقابلے میں کم ہیں اوپر سے ذات برادری کے چکر میں اور بھی کم رہ
جاتے ہیں۔لہذا اس رسم کو توڑا جائے۔نبی کریمﷺ کی حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے
کہ خاندان سے باہر شادیوں کرو"اس سے جہاں آنے والی نسلوں میں ذہانت بڑھتی
ہے وہاں موروثی بیماریوں پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔بچوں کا اپاہج ہونے
کی ایک وجہ کزن میرج بھی بتائی جاتی ہے۔اگر ہم خاندان سے باہر شادیاں کرنا
شروع کر دیں گے تو رشتے ملنے والا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور ان امراض پر
قابو بھی۔
تعدد ازواج:
ڈاکٹر غزالہ موسیٰ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ اگر پاکستان 20۔15 فیصد مرد
دوسری شادی کرنا شروع کر دیں اور دونوں بیویوں کو عدل اور محبت کے ساتھ
رکھیں۔اور بیویاں بھی خوشی خوشی اس صورت حال کو قبول کر لیں تو رشتے نہ
ملنے والا مسئلہ بڑی آسانی سے حل ہو سکتا ہے کیونکہ پیدائشی اعتبار سے
مردوں کی تعداد عورتوں سے کم ہے اور عمر میں بھی عورتیں زیادہ عمر پاتی ہیں
مردوں کی نسبت اور پھر حادثات میں شرح اموات بھی مردوں کی زیادہ ہے۔یہ تمام
حقائق تقاضا کرتے ہیں کہ تعدد نکاح کو رواج دیا جائے اور عورتیں خوداس کی
اجازت دیں۔
نکاح میں تاخیر نہ کریں۔
حدیث مبارکہ ہے کہ ؔنکاح آدھا ایمان ہے"شریعت کا حکم ہے کہ اگر اچھا رشتہ
مل رہا ہوتو نکاح میں دیر نہیں کرنی چاہیئے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا تین آدمیوں کی مدد
کرنا اﷲ تعالی کے ذمے ہے مکاتب جو کتابت اداکرنے کا ارادہ رکھتا ہے نکاح کا
خواہش مند جو عفت کو بچانا چاہے اور اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والا ۔(ترمذی
ٗ نسائی ٗ ابن ماجہ )
ایک اور حدیث میں حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ جب کسی بندے
نے نکاح کرلیا تو نصف دین اس کے لیے مکمل ہوگیا اور باقی نصب دین کے لیے اﷲ
کا تقوی اختیار کرے ۔ ( بیہقی شعب الایمان)
" حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: علی ! تین باتوں کے کرنے میں دیر نہ کیا کرنا۔ ایک تو نماز ادا
کرنے میں جب کہ وقت ہو جائے، دوسرے جنازے میں جب تیار ہو جائے اور تیسری بے
خاوند عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا ہم پلہ رشتہ مل جائے۔ " (جامع ترمذی )
بڑھتی ہوئی معاشی ناہمواری نے عورت کوگھر سے نکلنے پہ مجبور کر دیا ہے۔اچھی
جاب اب ضروت بنتی جا رہی ہے۔حالانکہ کمانا مرد کی ذمہ داری ہے عورت کی
نہیں۔کمانے کے لئے تعلیم حاصل کرنا اور نکاح میں تاخیر کرنا خلاف شریعت
ہے۔ایک کروڑ سے زائد لڑکیوں کی شادی نہ ہونا کسی بھی معاشرے کے لیے سوالیہ
نشان ہے۔یہ فطرت کے اصولوں سے روگردانی کی سزا ہے۔اور ہماری پریشانیوں کی
اصل وجہ بھی۔نبی کریمﷺ کی تعلیمات ہیں کہ نکاح میں تاخیر نہ کی جائے۔اور اس
میں سب سے مقدم شرافت اور مذہب ہے۔اسی کو فوقیت حاصل ہونی چاہیئے۔ نہ کہ
مواشرے میں پھیلے رسم و رواج کو۔۔ا ن رسم و رواج کی زنجیروں نے لڑکیوں کو
تنہائی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے یا پھر گرل فرینڈ بنے پہ مجبور کر دیا
ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرتی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے تھوڑے پر توکل
کیا جائے۔تاکہ لڑکیوں کی زندگی محفوظ بنائی جا سکے۔ |