ہم اس وقت جس نازک صورتحال سے گزر رہے ہیں اورمذہبی طبقے
کو جن مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے اس کے پیش نظر بعید نہیں کہ آنے والا
کل اس سے بھی ذیادہ مشکل اور مسائل سے بھر پور ہو۔ اس ملک کو جس طرح سیکولر
بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور ایک طبقہ دن رات سیکولرزم کے فروغ کے لیے
کوشاں ہے اگر اسلامی قوتوں نے ان کا راستہ نہ روکا اور ان کے خطرناک عزائم
کے آگے بند نہ باندھا تو خاکم بدہن اس ملک میں اسلام پسند قوتوں کے ساتھ
وہی سلوک ہو گا جو کمیونسٹ انقلاب کے بعد وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ
ہوا تھا۔ اسلام پسند عوام نے کمیونسٹ انقلاب کے وہ 74سال کیسے گزارے اس کا
اندازہ ہم یہاں بیٹھ کر نہیں کر سکتے۔ ان مسلمانوں کو اپنا ایمان بچانا
مشکل ہو گیا تھا ، جس کے بارے میں پتا چل جاتا کہ یہ مسلمان ہے اسے سرعام
اٹھا کر لیا جاتا اور جس مسلمان کے بارے میں پتا چل جاتا کہ یہ روزے رکھتا
ہے اسے زبردستی سور کا گوشت کھلایا جاتا ۔ علم دین پڑھنے اور پڑھانے پر
مکمل پابندی تھے ، لوگ رات کے آخری پہر اٹھ کر تہہ خانوں میں جا کر اپنے
بچوں کو قرآن کی تعلیم دلاتے تھے ۔ باہر کھیتوں میں کام کے بہانے شاگرد
استاد کے پاس چلے جاتے اور اس سے کچھ مسائل سیکھ لیتے اس طرح ان مسلمانوں
نے دینی تعلیم حاصل کی ۔ ہم اس وقت جس صورتحال سے دوچار ہیں اور آئے روز
مذہبی قوتوں کو جس طرح تنگ کیا جاتا ہے ،کبھی مدارس پر چھاپے مارے جاتے ہیں
، بے گناہ طلباءکو اٹھا لیا جاتا ہے اور مذہبی شعائر کی توہین کی جاتی ہے
یہ صورتحال انتہائی تکلیف دہ ہے اور ہمارے مقتدر طبقے کو اس کا نوٹس لینا
چاہئے ۔
موجودہ حکومت پچھلے کچھ عرصے سے پہلے نیشنل ایکشن پلان کے تحت اور اب دیگر
حیلے بہانوں سے اسلام پسندوں کو تنگ کرتی آئی ہے اور ان کے گرد گھیرا تنگ
کیا جا رہا ہے ۔ اس صورت حال کے پیش نظر مذہبی قوتوں کو جتنے اتحاد و اتفاق
کی ضرورت اب ہے پہلے نہیں تھی۔ اگر سیکولر قوتیں ایک پیج پر جمع ہو کر
اسلام مخالف ایجنڈے پر کام کر سکتی ہیں تو اسلامی قوتیں اپنی اس ذمہ داری
کا احساس کیوں نہیں کرتی۔ اگرچہ کچھ جماعتیں اور علماءانفرادی اور اجتماعی
طور پر اس حوالے سے سرگرم ہیں لیکن بہر حال ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
لاہور کے کچھ علماءاور اکابر کے صاحبزدگان نے اپنی اس ذمہ داری کا احساس
کرتے ہوئے قدم اٹھایا ہے اور اس سلسلے میں پیر علامہ محمد زبیر عابد کی
سربراہی میںخصوصا لاہوراور پاکستان بھرمیں ”پاکستان علماءو مشائخ کونسل“کے
نام سے ایک جماعت قائم کی ہے جس کا مقصد اسلامی شعائر کا تحفظ ، دینی مدارس
اور ان مدارس میں پڑھنے والے طلباءکا تحفظ اور اسلامی قوتوں کو درپیش خطرات
اور چیلنجز کا ادراک کرکے ان کا مو ¿ثر حل تلاش کرنا ہے ۔ جماعت کے اراکین
میں مفتی محمد عثمان منصور صدر،ڈاکٹر عزیر البازی ، پیر اسداللہ فاروق،
مولانا طیب قریشی،مفتی علی داود اور سیف الاسلام شامل ہیں ۔ اس سلسلے میں
جماعت کا پہلا اجلاس 23مارچ2017کو لاہور میں منعقد ہوا ۔ اجلاس کی صدارت
علامہ محمد زبیر اور مفتی محمد عثمان منصور نے کی ۔ اجلاس میں لاہور اور
پاکستان بھر سے علماءنے شرکت کی ، اس اجلاس میں جماعت کامنشور ، لائحہ عمل
اور دیگر ضروری قرار دادیں پاس کی گئی ۔ اجلاس میں جن امور کو متفقہ طور پر
منظور کیا گیا وہ درج ذیل ہیں:
پاکستان کا قیام جس نظریے اور مقصد کے تحت عمل میں لایا گیا تھا اسے از سر
نو اجاگر کرنا اور ملک میں دہشت گردی، باہمی منافرت اور بد امنی کے فروغ کے
اسباب میں مذہبی شدت پسندی کے ساتھ ساتھ لسانی، طبقاتی، علاقائی اور نسلی
منافرت و عصبیت کا قلع قمع کرنا۔اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ شدت
پسندی اور منافرت کے خاتمے کے لیے ان تمام دائروں میں کام کرنے کی ضرورت
ہے۔ بعض سیکولر حلقوں کی طرف سے اسلامی تعلیمات کی مسلسل مخالفت اور دینی
اقدار و روایات کی توہین اور تمسخر بھی شدت پسندی اور دہشت گردی سے کم نہیں
ہے، اس کا نوٹس لینا بھی ضروری ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک نظریاتی
اسلامی ریاست ہے اس لیے اس میں اسلامی نظام کے نفاذمیں کسی قسم کی رکاوٹ
برداشت نہیں کی جائے گی ۔آئمہ مساجد اور خطباءکے لیے تعلیم و تربیت کا
معیار طے کیا جائے گا اور موجودہ ائمہ و خطباءکےلیے تعلیمی و تربیتی معیار
کو بہتر بنایا جائے گا۔
تعلیمی نصاب کو ملک کے نظریاتی اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کرنے اور قومی
ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ بنانے کے لیے اس کا جائزہ لیا جائے گا اور
سفارشات مرتب کی جائیں گی۔ ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا اور سوشل
میڈیا کی موجودہ آزاد روی تمام محب وطن حلقوں کے لیے باعث تشویش ہے۔ اسے
کنٹرول کرنا ضروری ہے اور اسے اسلامی روایات و اخلاقیات کے دائرہ میں لانے
کے لیے مؤثر محنت کی ضرورت ہے۔ ملک میں فرقہ وارانہ، لسانی، نسلی اور
علاقائی تعصبات کو ابھارنے والے عناصر کے سدباب کے لیے عوامی بیداری اور
جدوجہد کی جائے گی۔ پاکستان کی وحدت و سا لمیت، معاشرتی ترقی، سیاسی
استحکام اور قومی خودمختاری کا بہر صورت تحفظ اور دفاع کیا جائے گا ۔دینی
مدارس پر چھاپے اور اور طلباءکی گمشدگی کے حوالے سے اعلی حکام سے بات چیت
کی جائے گی اور ان کا تحفظ اور دفاع بہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔ اجلاس
کے اختتام پر ملکی سالمیت اور عالم اسلام کے بہتر مستقبل کے لیے خصوصی دعا
کی گئی۔ |