باسمہ تعالی و تقدس
مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے جس میں ایک نماز کا ثواب پچیس ہزار
نمازوں کے برابر ہے اور جو مرتبے کے لحاظ سے مسجد حرام اور مسجد نبوی کے
بعد دنیا کی سب سے عظیم مسجد ہے۔ دنیا کی یہ وہ اکیلی مسجد ہے جس میں معراج
کی رات آخری پیغمبر ﷺ کی اقتدا میں تمام نبیوں نے نماز ادا کی اور یہی وہ
اکیلی مسجد ہے جس کی خصوصی برکتوں کا قرآن پاک نے سورہ بنی اسرائیل، پارہ
15، آیت نمبر 1 میں خاص طور پر ذکر کیا ہے۔
ان تمام فضیلتوں کی حامل وہ پاک مسجد اور وہ قبلہ آج کس پوزیشن میں ہے؟ یہ
وہ سوال ہے جس کا جواب ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کو نہیں معلوم۔ ہم معراج
مصطفٰے ﷺ کے ضمن میں قبلہ اول کا ضمنی ذکر تو ضرورکرتے ہیں لیکن اس کےمتعلق
شاید سوچتے کبھی نہیں ۔ ہم ا س مضمون کے واسطے سے اس حساس مشن کو آگے
بڑھانا چاہتے ہیں اور اپنے با شعور اور درد مند قارئین سے یہ امید کرتے ہیں
کہ ایک مسلمان بلکہ ایک انسان ہونے کے ناطے مسجد اقصیٰ کس طرح ہمارا راستہ
تک رہی ہے؟ ہم اس کی خود بھی مسلسل فکر کریں گے اور دوسروں تک بھی اپنا
پیغام پہنچانے میں کسی قسم کی تساہلی کو روا نہیں رکھیں گے ۔کیوں کہ یہ ہم
میں سے ہر ایک کی اپنی ذاتی ذمہ داری ہے۔ اب تاریخی تسلسل کے ساتھ قبلہ اول
کی حالت زار کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مسجد اقصی کے خلاف اسرائیلی کوششوں کا آغاز 7 جون 1967 سے ہوا جس کا سلسلہ
آج تک جاری ہے ۔ تاریخ کی روشنی میں اسرائیل کے اس ظلم کی داستان کچھ یوں
سمیٹی اور پیش کی جا سکتی ہے۔
7 جون 1967 مسجد اقصٰی کا پچھمی دروازہ جسے’’باب مغاربہ‘‘کہا جاتا ہے، اس
کی چابیوں کوزبر دستی اس وقت اپنے قبضے میں لے لیا گیا جب اسرائیلی فوج نے
شہر پر قبضہ کر کے اردنیوں کو وہاں سے باہر نکالا تھا۔
9 جون 1967 اسرائیلی افسروں نے مسجد اقصٰی میں نماز جمعہ ادا کرنے پر
پابندی لگا دی۔
21 جون 1969 ڈینس مائکل روہان نامی ایک آسٹریلیائی دہشت گرد نے مسجد کی شان
دار محراب کو جلا دیا۔ پوری دنیا میں اس کی مذمت کی گئی لیکن کچھ یہودی
تنظیموں نے اس کی تعریف کی اور اسے بائبل کی پیشین گوئی قرار دیا۔معاذ اللہ
رب العالمین۔
16 نومبر 1969 حرم شریف کے جنوب پچھمی طرف موجود ’’گوشہ فخریہ‘‘کو اپنے
قبضے میں لے لیا۔
14 اگست 1970 ’’دی جیرشن سلمان گروپ‘‘نے جو کہنے کے لئے ’’ ہیکل
سلیمانی‘‘کی تعمیر نو کا فیصلہ کئے ہوئے تھا زبر دستی حرم میں داخل ہو گیا
لیکن مسلمانوں کے مقابلے کی وجہ سے ہارنے پر مجبور ہو گیا البتہ اس گھماسان
میں دسیوں نمازی اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے زخمی ہوئے۔
19 اپریل 1980 یہودی راہبوں اور بڑے برزگوں کے ایک گروپ نے ’’ معبد
کوہ‘‘(ٹیمپل ماؤنٹ) پر قبضہ کرنے کے لئے چپکے چپکے ایک کانفرنس کی۔
28 اگست 1980 اسرائیلی افسروں نے مسجد اقصٰی کے ٹھیک نیچے ایک سرنگ کھودی۔
30 مارچ 1982 مسلم اوقاف کے ذمہ داروں نے اسرائیل کو دنیا کی کئی ایک
زبانوں میں خطوط لکھے اور اپنی حرکتوں سے باز نہ آنے کی صورت میں اس کے
خطرناک نتائج کی بات کہی۔
11 اپریل 1982 ایلن گڈ نامی ظالم اسرائیلی فوجی نے اپنے ایم۔16 ایزالٹ
رائفل سے فائرنگ شروع کر دی جس سے کچھ لوگ قتل ہوئے اور کچھ زخمی، دونوں کی
تعداد 60 تھی۔
20 مئی 1982 مذکورۃ الصدر خطوط کے جوابات کے طور پر ان اوقاف کے ذمہ داروں
کو موت کی دھمکیاں دی گئیں۔
26 مارچ 1983 جروشلم کا اصلی اندرونی دروازہ اس کھدائی کی وجہ سے منہدم ہو
گیا۔
21 اگست 1985 اسرائیلی پولیس نے اسرائلیوں کو حرم میں عبادت کرنے کی اجازت
دے دی۔
14 اگست 1986 یہودی راہبوں نے ایک قانون پاس کیا جس میں یہودیوں کو حرم میں
عبادت کی اجازت دے دی گئی اور حرم کے علاقے میں انھوں نے ایک صومعہ بنانے
کا مطالبہ کیا۔
12 مئی 1988 اسرائیلی سپاہیوں نے مسلمانوں کے پر امن احتجاج پر حرم کے
سامنے فائرنگ کر دی جس سے لگ بھگ 100 فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے۔
8 اگست 1990 اسرائیلی افسروں نے مسجد اقصیٰ میں قتل عام کیا جس سے 22 نمازی
شہید ہو گئے اور 200 سے زیادہ آدمی زخمی ہو گئے۔
25 جولائی 1995 اسرائیلی ہائی کورٹ نے ’’معبد کوہ‘‘میں یہودیوں کو عبادت کی
اجازت دے دی جس سے مسلمانوں کے جذبات کو زبر دست ٹھیس پہنچی اور پوری دنیا
میں اس کے خلاف احتجاج ہوئے۔
28 ستمبر 2000 ایریل شیرون کے نا پاک قدم مسجد اقصٰی میں پڑے جس کی وجہ سے
وہاں کے مسلمانوں کو بڑی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دن فلسطینیوں اور
اسرائیلیوں کے بیچ بڑی زبر دست جھڑپیں ہوئیں۔
2008و 2009 میں اسرائیل نے حماس کے خلاف بڑی سخت لڑائی چھیڑی جس سے 22 دن
تک خوب بربریت کا مظاہرہ کیا۔
الغرض! اسرائیل کا ٹارگیٹ مسجد اقصٰی کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں کرنا،
گنبد صخرہ کو ڈھ کر اس کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا اور اسرائیلی تشدد
پسندوں کو وہاں آباد کرنا ہے۔
یہاں تک وہ حالات تھے جن کا براہ راست مسجد اقصی سے تعلق ہے لیکن اسرائیل
کا مشق ستم جس طرح قبلہ اول ہے اسی طرح پوری سر زمین فلسطین بھی ہے۔
فلسطین آزادی کے انتظار میں آخر کب تک؟:۔ کیا فلسطین ایک آزاد ملک کے روپ
میں دنیا کے نقشے پر ابھر سکتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہر وہ ملک دے
سکتا ہے جو اقوام متحدہ پر ا پر اثر انداز ہے۔ کیونکہ یہ بات انھیں کے ووٹ
سے طے ہوتی ہے۔
فلسطینی آج بھی پتھروں کے دور کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ فلسطین میں دن
بہ دن نا جائز قبضہ بڑھتا جا رہا ہے اور جگہ جگہ یہودی آباد یاں تعمیر ہو
رہی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف فلسطینیوں کے گھروں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ پچاس
لاکھ سے زیادہ فلسطینی بے گھر ہیں۔ لاکھوں شہید ہو چکے ہیں۔ ہزاروں بے قصور
اسرائیلی جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہیں اور جو کچھ آزادی کی زندگی گزار رہے ہیں
وہ بھی ہمہ وقت خوف و دہشت کے سایے میں برائے نام آزاد ہیں اور بس۔ ظلم کی
حد یہ ہے که 94 فیصد فلسطین کی زمین پر ظالم اسرائیل کا قبضہ ہے صرف 6 فیصد
زمین اصل فلسطینیوں کے پاس باقی بچی ہوئی ہے۔ یہ سب کچھ کوئی چند ہفتوں یا
مہینوں کی داستان نہیں ہے بلکہ ایک لمبے وقت سے ہو رہا ہے لیکن اکیسویں صدی
میں بڑی پلاننگ سے ہو رہا ہے۔ مسلم ممالک کو آپس میں کچھ ایسا الجھا دیا
گیا ہے که وہ اپنے مسائل ہی نہیں سلجھا پاتے، انہیں فلسطینیوں کی کیا سوچ
ہو؟ جبکہ سعودی عرب جیسے اسلام کے ٹھیکے دار ممالک کو اپنی عیاشیوں سے فرصت
نہیں۔
آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ بات واضح ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے که دنیا
میں ابھی فرعونیت اور یزیدیت باقی ہے۔ حسینیت موجود ضرور ہے لیکن عملی طور
پر اسے اپنایا نہیں جا رہا ہے۔ لیکن ان سب کے با وجود کم سے کم مسلمانوں کو
ابھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ فلسطینیوں کو پیدا کرنے والا خدا
اپنے ان بندوں سے بے خبر نہیں ہے۔ ہمیں امید ہی نہیں یقین ہے کہ پھر کوئی
صلاح الدین پیدا ہوگا اور ایک نہ ایک دن ان مظلوموں کو ان کا حق مل کر رہے
گا اور ضرور مل کر رہے گا۔ ہاں! یہ ہماری خوش قسمتی ہوگی که وہ کریم ہم سے
ان بے چاروں کی خدمت کا کچھ کام لے لے۔ اس لئے آئیے ہم یہ وعدہ کریں که ہم
سے جو کچھ ہو سکےگا ان بھایئوں کے لئے کریں گے۔
آزادی فلسطین کے لئے ہم کیا کریں؟:۔
1 زیادہ سے زیادہ لوگوں تک فلسطینیوں اور مسجد اقصٰی کی آزادی کی مہم
پہنچائیں اور صورت حال بتلائیں۔
2 ان تمام پروگراموں میں شریک ہوں جو اس موضوع سے متعلق ہوتے ہیں اور خود
بھی ایسے پروگرام کریں اور کراوئیں۔
3 قرآن پاک کی سورہ بنی اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ پڑھیں اور سنیں تاکہ
مسجد اقصٰی کی اہمیت کا پتہ چلے اور اسے اس کا حق دلانے کا جذبہ پیدا ہو۔
4 دشمن کی چال سمجھیں، دوسروں تک پہنچائیں اور اسے نا کام کرنے کی پوری
کوشش کریں۔
5 فلسطین کے متعلق خبروں پر خصوصی توجہ دیں اور انٹرنیٹ سے فلسطین کے متعلق
زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں اور دوسروں تک پہنچائیں۔
6 روزانہ فلسطین اور مسجد اقصٰی کے بارے میں کچھ دیر اپنی زندگی کے دوسرے
مسائل کی طرح غور کرنے کی عادت بنائیں اور ہر مہینہ کم سے کم پندرہ آدمیوں
سے اس موضوع پر ضرور تبادلہ خیال کریں۔
7 گھر میں ایک چھوٹی سی لائبریری بنا لیں جس میں فلسطین اور مسجد اقصٰی کے
بارے میں معلومات ہوں۔
8 فلسطین اور مسجد اقصیٰ کی تاریخ لکھیں یا لکھنے والوں سے لکھوائیں۔
9 فوٹو، آڈیو، ویڈیو اور انٹرنیٹ کے ذرائع سے فلسطین اور مسجد اقصٰی کی
صورت حال دوسروں تک پہنچائیں۔
10 ’’گلوبل مارچ ٹو جروشلم‘‘ایک ایسی تنظیم ہے جو ہر سال دنیا بھر میں
فلسطین اور مسجد اقصیٰ کے متعلق عالمی پیمانے پر پر امن احتجاج کرتی ہے، اس
سے جڑیں اور دوسروں کو جوڑیں۔
گلوبل مارچ ٹو جروشلم 2012 کی ررپوٹ:۔
سال 2012 ’’گلوبل مارچ ٹو جروشلم‘‘کے تحت 37 لوگوں کا ایک گروپ مارچ میں
ایران، ترکی، لبنان، پاکستان اور دوسرے ممالک میں احتجاج کے لیے نکلا۔
فیروز بھائی میٹھی بور والے ممبئی کی قیادت میں اہل سنت کی طرف سے اس وفد
کی قیادت مسلم اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن آف انڈیا کے قومی صدر مولانا سید محمد
قادری اور جنرل سیکٹری انجینئر شجاعت علی قادری نے کی۔ وفد میں بھارت کے
علاوہ پاکستان، ملیشیا، انڈونیشیا، افغانستان، آزربائجان، تزاکستان، ترکی،
فلسطین، بحرین، جورڈن، روس، ہالینڈ اور برطانیہ سمیت لگ بھگ 50 ملکوں کے
لوگوں نے شرکت کی۔
وفد نے ایران کی راجدھانی تہران، ترکی کی راجدھانی انکارا، استمبول، لبنان
کی حد نضرت اور دوسری بھی کئی ایک جگہوں پر پورے جوش کے ساتھ پر امن
مظاہرات کیے۔ جبکہ ایران کے صدر ڈاکٹر احمدی نژاد اور عرب فورم کے سکریٹری
مان بشیر سے خصوصی ملاقاتیں کی۔ کئی ایک جگہوں پر وفد کا شان دار استقبال
بھی ہوا۔ وفد نے اس دوران استمبول میں آرام فرما صحابی رسول حضرت ابو ایوب
انصاری رضی اللہ تعالی، کونیا میں مدفون علامہ جلال الدین رومی اور حضرت
شمس تبریزی علیہما الرحمہ اور بیروت میں آرام فرما امام اوضاعی رحمہ اللہ
تعالی عنہ کے مزارات پر حاضری کی سعادت بھی حاصل کی اورخاص طور سے فلسطین
کے حق میں دعائیں کی۔ 30 تاریخ کو وفد کا آخری پروگرام ’’الحمرا‘‘ میں ہوا
اور پھر سب اپنے اپنے وطن لوٹ آئے۔ جب سے وفد کی ہندوستان واپسی ہوئی ہے
اس وقت سے اب تک ممبئی، دہلی، لکھنؤ اور جے پور سمیت ملک کے کئی شہروں میں
فلسطین اور مسجد اقصیٰ کی باز یابی کے لئے کئی ایک نشستیں اور پروگرام
ہوچکے ہیں۔
اس سلسلے کی ایک اہم کڑی مسلم ا سٹوڈنٹ آرگنائزیشن آف انڈیا کے پرچم تلے 14
جولائی 2012 کو پنک سٹی پریس کلب، جے پور میں منعقد ہونے والی وہ انٹرنیشنل
کانفرنس تھی جس میں پورے ملک سے دانش وروں نے شرکت کی اور مہمان خصوصی کے
طور پر فلسطین کے سفیر ظہیر زید حمداللہ شریک ہوئے۔
لیکن قارئین کرام ! یہ کام کچھ اتنا آسان بھی نہیں که صرف چند تحریکوں یا
پروگرامس، سمینارس یا کانفرنسیز سے حل ہو جائے بلکہ یہ وہ عظیم مقصد ہے جس
کے لیے حضرت صلاح الدین ایوبی جیسے ہمارے اسلاف نے اپنی مکمل زندگیاں صرف
کی ہیں اور ہمیں درس دیا ہے۔ اس لیے اس کے لیے ہم میں سے ہر ہر آدمی کو
بجاے خود اپنے آپ میں ایک مستقل تحریک بننا ہوگا۔ اور یہ یقین سے کہا جا
سکتا ہے که اگر ملک کا بچہ بچہ مسلمان نہ صحیح ایک انسان ہونے کے ناطے ہی
فلسطین اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لئے کوشش کرتا ہے تو پھر یہ کچھ مشکل
بھی نہیں۔ کیوں کہ ہم ایک آزاد ملک میں سانسیں لیتے ہیں وہاں وہ سب کچھ ہو
سکتا ہے جو ہم چاہتے ہیں، شرط صرف یہ ہے کہ مزاج میں جہاں استقلال اور
اخلاص ہونا چاہیے وہیں طریق عمل میں غیر معمولی بصیرت اور معقولیت ہونی
چاہیے۔
ہم اپنی بات کو موثر انداز میں ذمہ داروں تک پہنچائیں اور اپنا معقول و
مہذب احتجاج درج کروائیں اور کرواتے رہیں تو کوئی بعید بات نہیں کہ ہماری
حکومت اقوام متحدہ سے ظالموں کے خلاف ایکشن لینے کی پر زور اپیل کرے۔بلکہ
آج تو پہلے کی بہ نسبت زیادہ آسانیاں ہیں۔ ہمارے اسلاف نے اس مشن کے لیے
بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور جانوں کا خراج پیش کیا ہے لیکن ہمیں تو وہ بھی
کرنے کی ضرورت نہیں۔ میمورنڈم کی شکل میں اپنے مطالبات ہوں، ذمہ دار افراد
کی رفاقت ہو اور حکومت کے ذمہ داروں سے وقتا فوقتا مسلسل مطالبات ہوں ۔ یہ
آج کی کل قربانیوں کا نچوڑ بن سکتا ہے۔ خداے قدیر سے دعا ہے کہ ہمیں
دردمند دل ، صالح جذبات اور توفیق خیر نصیب فرماے۔اللھم آمین۔ |