انسان نے یقیناً ہر دور میں کوشش کی ہے کہ اس کی اجتماعی
معاشرتی زندگی مستحکم رہے۔ ہم جب حیاتِ انسانی کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو
ہمیں اِس کا رخ اجتماعیت کی طرف ہی نظر آتا ہے۔ تاریخ انسانی نے مختلف
معاشرے تشکیل دیئے اور گردشِ زمانہ نے مختلف معاشروں کو پیوند خاک بھی کیا
جب وہ اجتماعی طور پر فطرت کے خلاف چلیں ، جب وہ قانون قدرت کو توڑ کر اس
کی نافرمان و گستاخ بنی اور خدا کے متعین کردہ اصولوں سے انحراف کیا ۔ بنی
نوع انسان کو انفرادی بدعملی کی سزا دنیا میں نہیں ملتی اس کا حساب کتاب
آخرت میں ہے مگر جب قومیں اجتماعی طور پر بدعمل ہو جائیں تو اس کی سزاء
دنیا ہی میں مل جایا کرتی ہے۔ جب قوموں میں بد عملی، بد خلقی، غفلت، بے راہ
روی اجتماعی طور پر گھر کر جاتی ہے تو تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جاتی
ہے اور تاریخ نے ایسے کئی مناظر دیکھے بھی ہیں۔ قرآن کریم نے بھی مختلف
قوموں کی تباہی کا ذِکر کیا ہے جن میں اخلاقی خرابیاں اجتماعی طور پر گھر
کر گئی تھیں۔
اَلَمْ یَرَوْاکَمْ اَھْلَکْنَا مِنْ قَبْلِھِمْ مِّنْ قَرْنٍ مَّکَّنٰھُمْ
فِیْ اَلْاَرْضِ مَالَمْ نُمَکِّنْ لَّکُمْ وَاَرْسَلْنَا السَّمَآءَ
عَلَیْھِمْ مِّدْرَارًا وَ جَعَلْنَا الْاَنْھٰرَ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھِمْ
فَاھْلَکْنٰھُمْ بِذُنَوْبِھِمْ وَاَنْشَانَا مِنْ بَعْدِھِمْ قَرْنًا
اٰخَرِیْنَo
’’کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک
کردیا جنہیں ہم نے زمین میں ایسا مضبوط و پائیدار اقتدار دیا تھا کہ ایسا
اقتدار تمہیں بھی نہیں دیا اور ہم نے ان پر لگا تار برسنے والی بارش بھیجی
اور ہم نے ان (کے مکانات و محلّات) کے نیچے سے نہریں بہائیں پھر (اتنی
پرعیش و عشرت والی زندگی دینے کے باوجود) ہم نے ان کے گناہوں کے باعث انہیں
ہلاک کردیا اور ان کے بعد ہم نے دوسری امتوں کو پیدا کیا۔‘‘ (سورہ الانعام
6: 6)
وَلَقَدْ اَھْلَکْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا
وَجاَءَ تْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَمَا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا
کَذٰلِکَ نَجْزِیْ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَo
’’ اور بیشک ہم نے تم سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم
کیا، اور ان کے رسول ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے مگر وہ ایمان لاتے
ہی نہ تھے، اسی طرح ہم مجرم قوم کو ان کے عمل کی سزا دیتے ہیں۔ ‘‘ (سورہ
یونس 10 : 13)
وَمَا اَھْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ اِلَّا وَلَھَا کِتَابٌ مَعْلُوْمٌo
اور ہم نے کوئی بھی بستی ہلاک نہیں کی مگر اس بناء کہ ان کے پاس ہماری ایک
روشن کتاب تھی (جس کی انہوں نے خلاف ورزی کی سو ہم نے ان کو انجام تک پہنچا
دیا)۔ (سورہ الحجر 15: 4)
وَکَمْ اَھْلَکْنَا قَبْلَھُمْ مِّنْ قَرْنٍ ھَلْ تُحِسُّ مِنْھُمْ مِّنْ
اَحَدٍ اَوْ تَسْمَعُ لَھُمْ رِکْزًاo
اور ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر دیا ہے، کیا آپ ان میں سے
کسی کا وجود بھی باقی دیکھتے ہیں یا کسی کی کوئی آہٹ بھی سنتے ہیں۔ (سورہ
المریم 19: 98 )
فَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنٰہَا وَ ھِیَ ظَالِمَۃً فَہِیَ
خَاوِیَۃٌ عَلیٰ
عُرُوْشِہَا وَ بِءْرٍ مُّعَطَّلَۃٍ وَّ قَصْرٍ مَّشِیْدٍ o اَفَلَمْ
ےَسِیْرُوْا فِیْ اَلْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَھُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ
بِھَا اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِھَا فَاِنَّھَا
لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِیْ
الصُّدُوْرِo
’’ پس کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں ہم نے انہیں تباہ کر دیا تو وہ
اپنی چھتوں سمیت گری پڑی ہیں اور کئی ایک بیکار کنویں اور کتنے ہی مضبوط
محل ویران پڑے ہیں۔ کیا انہوں نے کبھی زمین میں گھوم پھر کر نہیں دیکھا کہ
ان کے دل ان باتوں کو سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان کی باتیں سن
لیتے، بات یہ ہے کہ صرف ان کی آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوئیں( یعنی یہ لوگ
اپنی آنکھوں سے تاریخ پر نظر دوڑا کر عبرت حاصل نہیں کرتے کہ ان سے پہلو ں
کا کیا انجام ہوا ہم سے غافل ہونے کے سبب) بلکہ ان کے دل بھی اندھے ہو چکے
ہیں جو سینوں میں پڑے ہیں( مردہ حالت میں جنہیں کوئی سوجھ بوجھ نہیں)۔ ‘‘
(سورہ الحج22: 45-46)
ہم تاریخ کے سبھی ادوار کھنگال کراس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بحیثیت مجموعی
انسان کی معاشرتی زندگی میں بگاڑ غالب رہا اور اصلاح کے بہت کم آثار دیکھنے
کو ملتے ہیں۔اسی مجموعی بگاڑ کے نتیجہ میں قومیں زوال پذیر ہوئیں اور اپنے
انجام کو پہنچیں۔جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ
قدرت قوموں کے عروج وزوال اور تباہی و بربادی کے قوانین کے اطلاق میں قوموں
کے درمیان فرق نہیں کرتی، جو قوانین یہود و نصاری کے لئے ہیں وہی امتِ
مسلمہ کیلئے ہیں، جو اصول اہل باطل کیلئے ہیں وہی اہل حق کیلئے، جو ضابطے
اہل کفر کیلئے ہیں وہی اہل ایمان کیلئے۔ قرآن کریم میں بیان کردہ قوانین
اٹل ہیں جن میں تبدیلی نہیں ہوا کرتی ہے۔ان کو ’’سنۃاللہ ‘‘ کہا گیا ہے۔
سُنَّۃَ اللّٰہِ فِیْ الَّذِیْنَ خَلَوا مِنْ قَبْلُج وَلَنْ تَجِدَ
لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًاo
’’ یہی اللہ کی سنت( اللہ کریم کی عادت ، اللہ کا قانون، اللہ کا اصول و
ضابطہ اور طور طریقہ رہا) ان لوگوں میں جو تم سے پہلے گزر چکے۔ ( اور یہی
تمہارے لیے ہیں) تم اللہ کے قانون و ضابطے میں کوئی تبدیلی ہرگز نہیں پاؤ
گے۔‘‘ (سورہ الاحزاب 33: 62)
قرآن کا پیمانہ ہمارے سامنے ہے اس سے ہم خود کو پرکھ سکتے ہیں کہ ہم کہاں
کھڑے ہیں اور ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے؟ اس وقت ملت
اسلامیہ کئی بڑے بڑے فتنوں اور صدموں میں گھری ہے۔ ہر بڑا فتنہ چاہے وہ
ملکی سطح پر ہو یا عالمی سطح پر ،سقوطِ بغدادہو یا سقوطِ اندلس یا خلافتِ
عثمانیہ کا خاتمہ ہویامسئلہ فلسطین اور کشمیرکا، مشرقی تیمور ہو
یاچیچنیا،بوسینیا،کوسوؤ، سرب اور برمی مسلمانوں کی نسل کشی ہو یا افغانستان
و عراق، شام، لیبیا کی مسماری یا ہندوستان میں اٹھتے مسلم کش فسادات ہوںیہ
سب امتِ مسلمہ کوبیدار کرنے، آزمائش، پرکھانے اورانھیں خوابِ غفلت سے جگانے
کیلئے رونما ہورہے ہیں کہ یہ سب دیکھ کے ان کا خون کھولتا ہے یا نہیں؟ ان
کا سویا ضمیر جاگتا ہے یا نہیں؟ ان کی ٹوٹی و مری ہوئی غیرت جاگتی ہے یا
نہیں؟
مگر شائد ہم ان سب آزمائشوں میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کے
بھی ہمارا خون نہیں کھولا، ہماری مردہ غیرت نہیں جاگی، ہمارے سوئے ضمیر
بیدار نہیں ہوئے۔ بغداد جلتا رہا قوم سوئی رہی، کابل اجڑتا رہا قوم مدہوش
تھی، عراق برباد ہو گیا قوم بے غیرتی کی چادر اوڑھے رہی، لیبیا پر آگ و آہن
کی بارش ہوئی قوم غفلت سے بیدار نہ ہوئی، فلسطین و کشمیر ، برما میں
مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے قوم کی آنکھیں نہیں کھل رہیں۔ ہمارے عظیم
جرنیل صلاح الدین ایوبی کی قبر کو ٹھوڈے مارے گئے اور کہا گیا ۔’’ لو صلاح
الدین ہم یہاں تک پہنچ آئے تم کب تک سوئے رہے گے؟ دراصل یہ صلاح الدین
ایوبی ؒ کی قبر کو ٹھوڈا نہیں تھا بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے وجود پر ٹھوڈا
تھا ، ہمیں کہا گیا ، ہمیں للکارا گیا کہ لوہم یہاں تک پہنچ آئے تم غفلت سے
کب اٹھوگے؟ تمہارے مردہ ضمیر کب جاگیں گے؟ تمہاری خوابدیدہ مردہ روحیں کب
بیدار ہوں گی ہمارے مقابلہ کو؟
مگر افسوس ہم نے دشمن کی للکار پر کان نہیں دھرے۔ہم 313تھے تو زمانے کی
کایا پلٹ دی، آج ہم ڈیڑھ ارب ہیں مگر کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ بے جان مٹی کا
ڈھیرہیں۔ مٹی میں بھی اگر جان ہوتو بڑے بڑے تن آور شجر پیدا کر کے سائباں
تو مہیا کرتی ہے ، مگر ہماری پوری ملت اسلامیہ کے وجود کی مٹی اس سے بھی
گئی گذری ہے، بالکل مری کھپی اور بے جان ہے کہ کوئی دید ہ ور پیدا نہیں کر
پا رہی جو سائبان بن کر امت پر سایہ فگن ہو۔ ہم تعداد میں اربوں مگر بے جان
اور مردہ مٹی کے ڈھیر بن چکے ہیں۔ہمارے حکمر ان بے غیرتی و بے حسی کی چادر
اوڑھ چکے ہیں۔ ان کی مذہبی حممیت اور غیرت دینی دم توڑ چکی ہے ، انہیں دین
و ملت کے ساتھ ہونے والی کسی بھی اونچ نیچ پر کوئی دکھ و صدمہ نہیں پہنچتا۔
دشمن کو میر صادق اور میر جعفر بہت سستے داموں مل رہے ہیں، جہاں بد د یانت
حکومتیں ہوں، کرپٹ انتظامیہ ، بے ضمیر رہنما، جھگڑالو علماء،فسادی ملاں، بے
اثر پیر و مشائخ ہوں تو امت کی بیداری و اصلاح کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟ چمن
کے مالی خود ہی چمن کی جڑیں کاٹ رہے ہیں اور اس کے تنوں کو کھوکھلا کر رہے
ہیں۔
آج کس کے گھر لوٹے جا رہے ہیں؟ کس کے وسائل پر قبضے ہو رہے ہیں؟ آج چار سو
دنیا میں کس کی نسل کشی کی جا رہی ہے؟ آج ہر سو جلی نعشیں، بکھری لاشے، کٹے
اعضاء، بین کرتی مائیں، سسکتی بہنیں، اجڑے سہاگ، بلکتے بے سہارا بچے کس ملت
سے وابستہ ہیں؟ آج دنیا میں کونسی قوم ظلم و جبر کی چکی میں پس رہی ہے؟ کیا
کبھی کسی نے یہ سوچا؟ کیا یہ سب کچھ دیکھ کے کبھی کسی کا خون کھولا؟ کب
بیدار ہو گی یہ سوئی بے جان ملت؟ کب کھولیں گی اس مردہ بے ضمیر امت کی
آنکھیں؟ اگر کسی بہت گہری نیند سوئے آدمی کو ٹارچر کریں یا کوئی کیڑامکوڑا
بھی ڈس لے تو وہ فوراً بیدار ہو کر ہوشیار ہو جاتا ہے ۔مگر بد نصیب قوم
ایسی مدہوش نیند سوئی ہے کہ اتنے بڑے بڑے ٹارچر پہنچے پر بھی قوم میں ذرا
جنبش نہیں آئی کہ وہ کروٹ ہی بدل لے۔ جیسے کسی مردہ کو جتنا مرضی ٹارچر
کرتے رہو اس میں ذرا جنبش نہیں آتی بالکل یہی حال ہمارا ہے ۔ ہم غفلت میں
پڑے اتنی گہری نیند سورہے ہیں کہ ہماری ملت کے جسم پر کتنے بڑے بڑے ٹارچر
اور زخم آئے مگر ہم میں ذرا حرکت و جنبش نہیں آئی۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم
بیدار ہونے کیلئے اسرافیل علیہ السلام کے ثور پھونکنے کی آواز کے منتظر ہوں
کہ ہمیں اگر ثور کی آواز سنائی دے گئی تو ہم اٹھیں گے اس سے پہلے ہم اٹھنے
والے نہیں مگر اس وقت اٹھنا ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے گا اور نہ ہمارے کسی
مفاد میں ہو گا۔
کتاب رحمت کو آگ لگا کراور پیغمبر رحمت ﷺ کے خاکے تراش کر کے مسلمانوں کو
ذہنی اذیت دی جارہی ہے تب بھی غفلت کی نیند سوئی قوم بیدار نہیں ہو رہی۔
ہمارے ضمیر مردہ ہو چکے ، ہماری غیرت دم توڑ چکی۔ اس کی ایک زندہ مثال ابھی
کل کی پیش کرتا ہوں کہ وہ کمینہ انسان امریکی جنرل ہوڈ نے گوانتاموبے کے
قید خانہ میں مسلمانوں اذیت دینے کیلئے باتھ روموں میں ٹیشو کی جگہ قرآن
مقدس کے اوراق رکھوائے ۔ اس عمل پر تو قرون عالم میں مسلمانوں کو آگ لگ
جانی چاہیے تھی اور غفلت سے اٹھ کھڑے ہو کر اس کمینے کو کیفر کردار تک
پہنچاتے مگر افسوس کہ اس کے برعکس ہم نے کیا کیا ۔ یہی کمینہ جنرل جب خودکو
اسلام کا قلعہ کہنے والے ملک پاکستان آیا تو اس دور کے حکمرانوں نے اس کے
قدموں کے نیچے سرخ قالین بچھا کر اس کا پرتپاک استقبال کیا۔ یہ اس کی زندہ
مثال ہے کہ ہماری غیرت مردہ اور ضمیر دفن ہو چکا ہے۔
یہ تمام قرائن و شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہم مسلمانوں سے ہرگز
راضی نہیں ہے اور اسی وجہ سے امتِ مسلمہ ہر جگہ ذلیل و خوار ہو رہی ہے۔جب
ہم لمبی لمبی ، گڑ گڑا کر دعائیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں۔یا الٰہی ! ہمارا
حال دیکھ، تو حکم ہوتا ہے تو اپنا نامہ اعمال دیکھ۔ دوسری قوموں سے نصیحت
اور عبرت حاصل نہ کرنے کی وجہ سے قدرت ایسے ہی عذاب نازل کیا کرتی ہے۔ضروری
نہیں ہے کہ آسمان سے پتھر برسیں یا زمین الٹ جائے اور خوفناک چنگھاڑ سنائی
دے۔یہ عذاب کبھی تاتاریوں تو کبھی عیسائیوں، ہلاکو خان، چنگیز خاں ،تیمور
خاں کے حملوں کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے اور اب امریکہ، انڈیااور
اسرائیل ، طاغوتی و سامراجی قوتوں کے تسلط کی شکل میں ہم پر مسلط ہے۔قدرت
اسی طرح ایک غالب طاقت کو دوسری طاقت سے دفع کیا کرتی ہے۔اور سزا اور عقوبت
کیلئے ظالم بادشاہوں کو مسلط کر دیتی ہے۔
آج ہمارے اندر ایمان کمزور ہے۔مغرب کی مکاری اور تہذیب و فلسفہ نے ہمارے
ایمان کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں ہمارے
کردار یہود و نصاریٰ سے بھی گئے گذرے ہیں۔ ہم سے تو سکھ لوگ بہتر ہیں جو
اپنے گرو کی ایک ایک ادا کو اپنائے ہوئے ہیں، سکھ لوگ اس وقت دنیا میں جہاں
بھی ہیں، جس عہدہ ، جس منصب پر بھی ہیں وہ اپنے گرو کا نمونہ پیش کرتے ہیں
، وہ دنیا کے بڑے سے بڑے منصب پر پہنچ کر بھی اپنے گرو کی سی داڑھی اور سر
پر گرو کی سی پگ رکھنے سے نفرت و ہتک محسوس نہیں کرتے۔ہمارے ہاں مجموعی
افراد ملت تو دور کی بات جب ہم برصغیر اور بعض عرب ممالک سے باہر کے مذہبی
راہنما، دینی سکالرز، روحانی پیشوا ، مساجد کے امام و خطیب دیکھیں تو ان کے
چہروں پر نبی کریم ﷺ کی سنت دیکھائی نہیں دیتی یہ حال ہے ہمارے مذہبی
پیشواؤں کا۔ ہماری قوم کا اجتماعی رنگ و روپ مغرب زدہ اسلام زدہ نہیں۔ آپ
ملک کے جس محکمہ، ادارہ، دفتر، بنک، سکول ، کالج و یونیورسٹی میں چلے جائیں
آپ کو مغربی مقلد نظر آئیں گے ، سب آپ کو مغربی رنگ و روپ میں ڈھلے نظر
پڑیں گے، کلین شیو، پینٹ شرٹ، ٹائی باندھے بظاہر مغربی ، ایمان اور رسول
اللہ ﷺ سے محبت ان کے اندر ایک بند کونے میں چھپی ہوتی ہے کہ بظاہر کوئی
دیکھ کر نہ کہہ سکے کہ ہم مسلمان ہیں، جبکہ رسول اللہ ﷺ سے وابستگی و محبت
کا تقاضا تو یہ ہے کہ دنیا آپ کو دور دیکھ کر جان جائے کہ یہ محمد کریم ﷺ
کا غلام ہے ۔
لعو و لعب میں جیتیں تو سر سجدے میں ہیں رکھتے
دیکھائیں زمانے کو ہم بھی کہیں سے ہیں مسلم لگتے
واضح میں مغرب کی نمو، لباس سے بھی ہیں مغربی جھلکتے
پیرو کہاں سے لگتے آپ کے یہ مغرب و ہنود کے چہکتے
دیا آپ نے درس محبت و الفت و اخوت و وفا کا
سمجھا تیری قوم نے غداری و مکاری و عیاری و دغا کا
ہم میں مجموعی طور پر اپنے آقا کریم ﷺ کی کون سی ادا باقی ہے؟ ہم میں آقا
کریم ﷺ کے کون سے اخلاق و اطوار باقی ہیں؟ ہم میں آپ ﷺ کا کونسا کردار پایا
جاتا ہے؟ ہم آپ ﷺ کے کس اسوہ پر عمل پیرا ہیں؟ جواب ۔۔۔۔یقیناًکوئی نہیں
۔مگر اس کے برعکس آج وہ کونسی اخلاقی خرابیاں ہیں جو ہم میں، ہمارے معاشرہ
میں اجتماعی طور پرموجود نہیں ؟ وہ کونسی غلاظت، گندگی ، بیہودگی ہے،وہ
کونسے غلط اطوار ہیں جو ہم میں نہیں پائے جاتے؟ وہ کونسی بد خلقیات ہیں جن
کی ہم میں کثرت نہیں؟ ظلم و زیادتی، فساد،حسد، حق تلفی اور مفاد پرستی کیا
ہمارا اجتماعی فعل نہیں ہے؟ منشیات کے بازار، ہوس کے اڈے ، شراب خانے ، جوا
، چوری، ڈاکہ زنی، قتل وغارت گری،زنا کاری، رشوت خوری، سود و حرام خوری،
دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ،خوشامد، دوغلے پن، حرص، تمہ، لالچ، ملاوٹ، ناپ
تول میں کمی آخر وہ کون سا اخلاقی مرض ہے جو ہم میں نہیں پایا جاتا؟ بد
عنوانی و کرپشن اور خود غرضی کا ایسا کونسا طریقہ ہے جو ہم نے ایجاد نہیں
کیا؟ دھوکہ دہی، فریب اور مفاد پرستی کی ایسی کونسی قسم ہے جو ہمارے مسلم
معاشرہ میں زوروں پر نہیں؟ تشدد، تعصب، عصبیت اور انسان دشمنی کے ایسے
کونسے مظاہرے ہیں جو ہمارے اسلامی معاشرہ میں دیکھنے کو نہیں ملتے؟ ان
سوالات کا جواب یقیناًہاں میں ملے گا۔ یہ سب کچھ اور اس کے علاوہ اور بھی
بہت کچھ برا ہے ہمارے معاشرہ میں مگر پھر بھی ہم مسلمان کہلوانے میں ذرا
شرم محسوس نہیں کرتے۔ اچھے مسلمان تو بہت دور کی بات ہم تو اچھے انسان بھی
نہیں ہیں۔ہماری مسجدوں سے جوتے اٹھائے جاتے ہیں، مسجدوں کے گندے لوٹے بھی
لوگوں کی دست ریزی سے محفوظ نہیں، مسجدوں اور پبلک مقامات کی لیٹرینوں میں
کیا کیا بیہودہ اخلاق سے گری باتیں لکھی ہوتی ہیں، گلی میں چلتے موبائل فون
جھپٹ کر لے جاتے ہیں، ہمارے ہاں گلی بازاروں میں واٹر کولر نصب ہوں تو گلاس
کو زنجیر سے باندھ کے رکھنا پڑتا ہے یہ ہے ہمارے کردار کی جھلک۔ ہمارے
معاشرہ میں انسان نما جانور بستے ہیں، جنہیں نہ کوئی تہذیب ہے نہ کوئی
شعور۔
منزل و مقصود قرآں دیگر است
رسم و آئیں مسلماں دیگر است
در دل او آتش سو زندہ نیست
مصطفی ﷺ در سینہ او زندہ نیست
قرآن کریم کی منزل اور اس کا مقصود اور ہے ، ہماری منزل اور ہمارا مقصود
کچھ اور ہے، ہم کچھ اور کے طلبگار ہیں، ہم قرآن بھی رکھنا چاہتے ہیں اور
باطل اطوار و روایات بھی، ہم سنت بھی رکھنا چاہتے ہیں اور غلط خرافات و
کردار بھی۔ قرآن کے احکام، اصول و ضوابط کچھ اور ہے جبکہ ہمارے رسوم، ہمارے
اطوار، ہماری روایات کچھ اور ہیں ۔ ہم قرآن کریم اور اس کی تعلیمات سے دور
ہوتے جا رہے ہیں ۔ مسلمان کے دل میں جلا دینے والی وہ آگ نہیں ہے جو ہر
باطل کو جلا دے۔ حضرت محمد مصطفی ﷺ ان کے سینوں میں زندہ نہیں ہیں، ان کے
دلوں میں حضور اکرم ﷺ کی محبت و الفت باقی نہیں ہے۔
یہاں مجھے ایک انگریز کی بات یاد آئی جس میں ہمارے بد تہذیب لوگوں کے لئے
سو سو درس ہے ، اگر عقل ہو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ میں روزگار کے سلسلہ میں
یواے ای وزٹ پر تھا اور ابو ظہبی میں مقیم تھا۔صبح کے وقت چہل قدمی کیلئے
باہر نکلا اور سمندر کنارے ایک تفریحی پارک کی طرف رخ تھا ۔ میرے آگے ایک
انگریز آہستہ آہستہ ڈور رہا تھا اور اس کا پالتو کتااس کے پیچھے تھا۔ کتے
نے رک کر فٹ پاتھ پہ پاخانہ کر دیا۔ اس نے شخص نے موڑ کے دیکھا تو ڈور کے
آیا اور اپنی جیب سے شاپر نکالا اپنے ہاتھ پہ چڑھا کر وہ پاخانہ اٹھایااور
شاپر میں لپیٹ کر اپنی جیب میں ڈال لیا۔اور جو اس کے ہاتھ میں بوتل تھی
پانی کی پینے کیلئے وہ پانی پاخانہ کی جگہ پر ڈال کر واش کر دیا۔ مجھے بڑی
حیرت ہوئی اس کے عمل پر اور اسے داد بھی دینے کو دل چاہتا تھا مگر کیونکہ
شناخت نہیں تھی اس لئے میں یہ ہمت تو نہ کر سکا مگر اپنی منزل چھوڑ کر اس
کے پیچھے چل پڑا یہ جانے کیلئے کہ جو اس نے پاخانہ اٹھایا اس کا کیا کرتا
ہے۔ تھوڑی دور ایک کوڑا دان آیا تو اس نے جیب سے شاپر نکال کر اس میں ڈال
دیا۔
یہ تہذیب ہے اور میں آج بھی اس کے اس عمل کو سلام پیش کرتا ہوں، ہمیں اس سے
درس عبرت سیکھنی چاہیے۔ہم جس ماحول اور معاشرہ میں رہتے ہیں اسے پاک صاف
رکھنا کس کی ذمہ داری ہے؟ ہمارے معاشرہ میں تو جانور کیا ، فٹ پاتھوں پہ
انسان پیشاب کرتے ہیں جہاں سے لوگوں نے گذرنا ہوتا ہے۔ فٹ پاتھوں پہ چلتے
ہوئے اتنی گندی بد بو آ رہی ہوتی ہے، ہمارے لاری اڈوں سے اتنی گندی بدبو
اٹھ رہی ہوتی ہے لوگ وہاں بسوں کی اوٹ میں پیشاب کر دیتے ہیں۔ جانوروں کے
گوبر ہماری سڑکوں پر جمے ہوتے ہیں اس کے علاوہ جو گھریلو اور دکانوں کا گند
، کوڑا کرکٹ ہو وہ اٹھا کے فٹ پاتھوں ، سڑکوں اور گذرگاہوں پر ڈال دیا جاتا
ہے۔ نہ ہمارے معاشرہ میں کوئی تہذیب ہے نہ انسانیت نام کی کوئی چیز،ہمارے
ہاں کوئی انسانی طریقہ اور وطیرہ ہی نہیں رہا دنیا کو جس کی مثال دیں۔ہم
مسلمان دنیا کو تہذیب سیکھانے والے آج بے مہار جانوروں کا روپ دھارے ہوئے
ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گذرے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا۔
مثل المومن ومثل الایمان کمثل الفرس
فی اخیتہ یجول ثم یرجع الیٰ اخیتہo
’’ مسلمان اور اس کے ایمان کی مثال ایک رسی سے کھونٹے کے ساتھ بندھے ہوئے
گھوڑے کی سی ہے وہ جتنا بھی ادھر ادھر گھومے مگر اپنے دائرے ، اپنی رسی کی
لمبائی کی حدود کے اندر رہتا ہے۔‘‘
یقیناًآپ نے گھوڑے یا کسی بھی جانور کو رسی کے ساتھ کھونٹے سے بندھے ہوئے
ضرور دیکھا ہوگا ، اس کے کھونٹے اور رسی کی لمبائی کے آخری سرے تک ایک
دائرہ سا بنا ہوتا ہے اس کے چلنے اور ادھر ادھر گھومنے سے کیونکہ وہ کھونٹے
سے بندھی رسی کی لمبائی سے زیادہ باہر نہیں جا سکتا۔ وہ زیادہ سے زیادہ
جتنا باہر جا سکتا ہے وہاں اس کے قدموں کے نشان پڑ جاتے ہیں گول دائرہ یعنی
اپنے محور کے طواف کی صورت ، دائرہ کار و حدود اربعہ ظاہر کرتا ہے۔ یہ اس
کے طواف کا آخری کنارہ ہے وہ اس سے اور باہر نہیں جا سکتا۔ اگر وہ زور لگا
کر رسی کی لمبائی سے زیادہ باہر جانے کی کوشش کرے گا تو وہ رسی ٹوٹ جائے گی
اور کھونٹے (اپنے محور و مرکز) سے اس کا ناطہ بالکل کٹ جائے گا اب وہ آزاد
ہے جدھر کو چاہے جا سکتا ہے مرکز سے اس کا کوئی واسطہ نہیں رہا۔
ہم اس وقت کہاں ہیں کھڑے ہیں؟ کیا ہم اپنے دین کی رسی اور اس کی حدود کے
دائرہ میں ہیں؟ہم اپنے مرکز اور رسی کی لمبائی کی حدود سے بہت دور نکل گئے
ہیں۔ہماری رسی مرکز سے کٹ چکی ہے،ہمارا ناطہ، ہمارا رشتہ مرکز سے بالکل ٹوٹ
چکا ہے ، ہم مرکز سے اپنے سب تعلق اور واسطے ختم کر چکے ہیں۔اب مرکز ہم سے
لاتعلق ہے اور ہم اس سے، اور اب ہمیں اس کا یقین بھی ہو جانا چاہیے۔ اب
مرکز سے ہمارا ناطہ اس وقت تک نہیں جوڑ سکتا جب تک ہم واپس پلٹ کر اپنے
مرکز و محور ( حضور اقدس ﷺ )سے اپنی رسی کو جوڑ کر مضبوطی سے باندھ نہیں
لیتے، آپ ﷺ کی سیرت طیبہ، اوصاف و کردار کا طواف نہیں کرتے، اور آپ ﷺ کی
شریعت و طریقت کے دائرہ میں رہ کر اپنی زندگی بسر نہیں کرتے۔
ہمارا یہ نظریہ ہے کہ بس مسلمان کے گھر پیدا ہو گئے تو مسلمان بن گئے یہ
سوچ باطل ہے۔ صرف مسلمان کے گھر پیدا ہونے سے بندہ مسلمان نہیں بن جاتا جب
تک مسلمانوں کے سے کردار و اوصاف نہ ہوں۔ یزید بھی تو ایک مسلمان گھرانے کا
فرد تھا بلکہ مسلمانوں کے ایک اہم ترین گھر کا فرزند، جن کے والد محترم
بشارتاً جنتی ہیں، عشرہ مبشرہ صحابہ میں ان کا نام ہے۔اگر مسلمانوں کے گھر
پیدا ہونے والے فرد سبھی مسلمان ہوتے تو یزید جیسے کمینے انسان کا کبھی
ظہور نہ ہوتا دنیا میں۔ابن زیاد، امر بن سعد کو دیکھو کس گھرانے کا فرزند
اور اسلام کے کتنے عظیم جرنیل و سپہ سالار حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کا بیٹا۔مگر اس ۔۔۔(میں ان کے والد گرامی کا نام پڑھ کر
میں سر پکڑ کے بیٹھ گیا کہ کیا کہوں اسے) نے تو اپنے عظیم والد کا نام بھی
ڈبو کر کے رکھ دیا۔ایسے لوگ اس بات کی دلیل ہیں کہ مسلمان گھرانوں سے پیدا
ہونے والے سبھی مسلمان نہیں ہوتے ، اگر مسلمانوں کے عظیم گھرانے ان جیسے
لعنتی اور پلید انسان نکل سکتے ہیں تو عام گھرانوں کی تو حیثیت ہی کچھ نہیں
رہتی۔ مسلمان بننا کوئی خاندانی ورثہ نہیں کہ مسلمان کے گھر پیدا ہوئے تو
مسلمان ہوئے۔ مسلمان اپنے کردار سے بنا جاتا ہے، اپنے اچھے اخلاق و اوصاف
سے بنا جاتا ہے۔ انسانیت سے محبت و الفت، ہمدردی، رواداری، حسن خلق، حسن
معاملات انسان کو مسلمان بناتے ہیں۔ اسلام کے زریں اصولوں اور حضور ﷺ کے
اسوہ حسنہ پر چل کر زندگی بسر کرنے والے لوگ حقیقی مسلمان ہوتے ہیں۔
تیرے عمل سے ہے تیرا پریشاں ہونا
ورنہ مشکل نہیں مشکل کا آساں ہونا
پورے عالم پہ ہو حکومت تیری اے مسلماں!
تو سمجھ جائے اگر اپنا مسلماں ہونا |