کوئی یہ نعرہ لگاتا ہے سب سے پہلے پاکستان کو ئی کہتا ہے
کہ
نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے
کوئی کہتا ہے کہ تعمیر پاکستان تو ہوچکی لیکن تکمیل پاکستان ابھی باقی ہے -
خاص طور پر سب سے خطر ناک سوچ یہ ہے کہ ہمیں ہندوستان سے دوستی لگا لینی
چاہیے ہم ان کے ملک میں کاروبار کریں وہ ہمارے ملک میں کاروبار کریں وہ بھی
خوش ہم بھی خوش حالانکہ نام نہاد دانشوروں کی کوششوں سے ہندوستان سے دوستی
ہوچکی ہے یا کافی حد تک پیش رفت ہو چکی ہے حالانکہ اللہ نے کافروں سے
مشرکوں سے دوستی لگانا منع فرمایا ہے لیکن اللہ کی نافرمانی تو ہمارے ملک
کے حکمرانوں نے اپنے اوپر لازم کر رکھی ہے جہاد کا حکم اللہ نے دیا ہے تو
حکمران اللہ کی کھلے عام نافرمانی کر رہے ہیں کفّار سے دوستی کا اللہ نے
حکم دیا ہے تو اس معاملے بھی حکمران اللہ کی نافرمانی کر رہے ہیں مسلمان
ملکوں سے دوستی کا اللہ نے حکم دیا ہے اس معاملے میں بھی حکمران اللہ کی
نافرمانی کر رہے ہیں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ حکمران انڈیا سے دوستی لگانے
میں عافیت سمجھ رہے ہیں حالانکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ مسلمانوں تم ان سے
رحم کی توقّع رکھو گے لیکن وہ تم پر ہرگز رحم نہیں کریں گے بلکہ تم پر ظلم
کریں گے اور تمھیں زیادہ آسانی سے مٹا دیں گے -
اس معاملے میں قرآن پاک میں اللہ نے ایک سپر طاقت کا تزکرہ فرمایا کہ کس
طرح فرعون ایک سپر طاقت بن کر بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا لیتا ہے اور
بنی اسرائیل نسل در نسل غلامی میں پستے چلے گیے اور اللہ نے موسیٰ علیہ
السلام کو نجات دہندہ بنا کر پیدا فرمایا اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ اللہ
نے فرعون کو سمندر میں غرق کردیا اور موسیٰ علیہ السلام کو اور ان کی قوم
بنی اسرائیل کو صحیح سلامت پار لگا دیا اور اب ایک بڑا جنگل بنی اسرائیل کے
سامنے تھا تو اللہ نے ان کے لیے بارہ چشمے جاری فرمائے اور ان پر من
السلوٰی نازل فرمایا اور اس طرح سے بنی اسرائیل کو اللہ نے آزادی تو عطا
فرما دی لیکن وہ لوگ اس نعمت کا صحیح معنوں میں شکریہ ادا نا کر سکے اور
جہاد کے معاملے میں اللہ کی نافرمانی کر بیٹھے
اللہ نے حکم فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو یہ تم سب فرض پرہے کیوں کہ
اللہ نے تمھیں نسل در نسل غلامی سے نجات دی اور تمھارے لیے چشمے جاری کیے
اور تم پر من السلوٰی نازل کیا حالانکہ فرعون تم پر بہت زیادہ ظلم کیا کرتا
تھا اور اس قدر ظالم تھا کہ وہ تمھارے لڑکوں کو قتل کردیتا تھا اور عورتوں
کو زندہ رہنے دیتا تھا یہاں جن لوگوں کے پاس مال زیادہ ہوگیا تھا وہ حصرت
موسیٰ علیہ السلام کو اپنے سے غریب سمجھ کر ان کی اطاعت کرنے میں پس وپیش
کرنے لگے کہ ہم زیادہ مال و دولت والے ہیں اس لیے ہم زیادہ اس قابل ہیں کہ
ہمیں حکومت ملے اور لوگ ہمارے احکامات پر عمل کریں اور دولت اور خزانوں کا
لالچ اس قدر ہوا کہ اس تاک میں رہنے لگے کہ دوسرے لوگوں پر ہم حکمران بن کر
ان پر ٹیکس لگائیں اور ہمارے خزانے دن بدن زیادہ ہوتے جائیں اور اس طرح سے
وہ لوگ اللہ کے احکامات سے غفلت برتنے لگے اور اللہ نے جہا د کا حکم دیا تو
انھوں نے ڈھٹائی سے حضرت موسیٰ کو جواب دیا کہ اے موسیٰ آپ اور آپ کا اللہ
بہت زیادہ طاقتور ہیں اس لیے آپ اور آپ کا اللہ جائیں اور کافروں سے جہاد
کریں اور جب فتح حاصل ہوجائے گی تو ہم مال غنیمت حاصل کرنے آ جائیں گے آخر
ہم نے آپ کا اور اللہ کا کلمہ پڑھا ہے اور آپ کے دین پر ایمان لائے ہیں
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان لوگوں کو بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ جہاد
کا فرض ادا کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے تھے اور آگے سے حیلے بہانے بناتے
تھے کہ ہم اگر جہاد کریں گے تو ہم مارے جائیں گے تو ہمارے اموال پر کوئی
دوسرا قابض ہو جائے گا کیا ہمارے حکمران بنی اسرائیل کی طرح نہیں نافرمانی
کرتے کہ حکمرانی ہمیں ملے مال دولت خزانے تو ہمیں ملیں مگر جہاد نا کرنا
پڑے تو پھر کہتے ہیں یہ احکامات تو قرآن میں ہیں اور قرآن میں تو صدیوں
پرانے واقعات ہیں اب تو جدید دور ہے
اب تو جدید دور ہے اب اسکے تقاضے بھی جدید ہیں جہاد کرنے سے فتنہ فساد
پھیلے گا لوگ مارے جائیں گے ایٹمی ٹیکنالوجی کا دور ہے پاکستان ہندوستان پر
ایٹم بم مارے گا تو وہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا اور ہندوستان پاکستان پر
ایٹمی اسلحہ چلا دے گا تو پاکستان صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا اب تو جہاد کا
نام لینا انسانیت کو ختم کرنے کے مترادف ہے اگر جنگ ہوئی تو کچھ بھی نہیں
بچے گا سب کچھ ملیا میٹ ہو جائے گا یعنی یا تو اسلام کو چھوڑو اور ہمارے
مذہب کو اختیار کرو سیکولرازم کو اپناو کہ جو جہاں لگا ہوا ہے لگا رہنے دو
کسی کو نا روکو اپنا مذہب چھوڑو نہیں اور دوسرے کا مذہب چھیڑو نہیں تاکہ نا
جنگ ہو اورنا ایٹمی اسلحہ کے استعمال کی نوبت آئے اور سب ہنسی خوشی سے رہیں
سہیں یہ ہیں وہ باتیں جو جہاد سے مسلمان حکمرانوں کو روکے ہوئے ہیں اس بات
کو کوئی نہیں سوچتا کہ جہاد مسلمانوں کا ایک اہم فریضہ ہے دوسرے لوگوں کے
مذہبی فرائض کو چھیڑو نہیں لیکن اسلام کے اہم فریضے کی بات آئے تو نا صرف
چھیڑا جاتا ہے بلکہ جہاد کو سب سے بڑا جرم دہشت گردی بنا دیا گیا ہے اور
زبردستی اسے ادا کرنے سے روک دیا جاتا ہے اور تو اور اس فریضہ جہاد کے بارے
میں تعلیم حاصل کرنے کو بھی منع کر دیا گیا ہے کہ اس وقت تک ہم مسلمانوں پر
یقین ہی نہیں کریں گے جب تک کہ وہ اس بات پر اس طرح سے یقین نہیں دلا دیتے
کہ جس گاوں میں جانا ہی نہیں ہے تو اس کا نام پوچھنے کا کیا فائدہ کہ جو
بندہ جس گاوں کا راستہ پوچھتا ہے ہو سکتا ہے کہ کہیں اس کا وہاں جانے کا
ارادہ بن جائے کہ جہاد کی تربیّت اگر مسلمان حاصل کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ
ان کا جہاد کرنے کا ارادہ بن جائے اور عالمی امن کو خطرہ ہو جائے ذرا سوچیں
کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اگر اللہ کا دین نافذ کرنے کے لیے جہاد کی
تربیّت بھی حاصل کی تو عالمی امن کو خطرہ ہو سکتا ہے لیکن امریکہ دو مسلمان
ملکوں سے جنگ کر کے ڈرون حملے کر کر کے ہزاروں لاکھوں بے گناہ لوگوں کو اس
لیے مار ڈالا جاتا ہے کہ یہ پردہ اور نماز روزہ کیوں نافذ کرتے ہیں اپنے
ملک میں اسلامی قانون کیوں نافذ کرتے ہیں -
جب دو ملک مسلمانوں سے چھین لیے گیے ہیں اس وقت عالمی امن کو کوئی خطرہ
نہیں ہے اور جہاد سے عالمی امن کو خطرہ ہو جائے گا حالانکہ جہاد سے زیادہ
اور خطرناک جنگ چھیڑ رکھی ہے کافروں نے افغانستان اور عراق میں اوراس وقت
کوئی خطرہ نہیں تھا عالمی امن کو یہ ہے کافروں کے ساتھ دوستی کا خمیازہ جو
مسلمان بھگت رہے ہیں اور نسل در نسل غلامی میں پھنستے چلے جارہے ہیں اس میں
عرب ممالک پاکستان اور افغانستان اور بنگلہ دیش اور ہندوستانی مسلمانوں کو
قصور وار قرار دیتے ہیں اور مذکورہ ممالک کے مسلمان عرب ممالک کو قصور وار
قرار دیتے ہیں اور اس طرح بنی اسرائیل والے بھی 12 قبیلوں پر مشتمل تھے اور
ایک دوسرے لڑتے جھگڑتے تھے اور ایک دوسرے کو قصور وار قرار دیا کرتے تھے
لیکن جہاں بڑے سردار کوئی موسیٰ علیہ السلام کے دین کے خلاف کام یا خلاف
شرع کام کا آغاز کرتا تھا تو سارے اس کے پیچھے چل پڑتے تھے جیسا کہ بچھڑے
کی پوجا والا معاملہ اور جہاد سے انکار والا معاملہ اور موسیٰ علیہ السلام
کی حکمرانی والا معاملہ اور اللہ اور ان کے رسول موسیٰ علیہ السلام کی
اطاعت والا معاملہ ان معاملات میں سارے شیطان کے پیچھے چل پڑتے تھے اور
فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ بنی اسرائیل میں فرقہ پرستی اس
قدر ہو گئی تھی کہ 71 فرقے بن گئے تھے حالانکہ ان کے مذہب میں بھی فرقہ
پرستی کبیرہ گناہ تھا - اب ہمارے مسلمان یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں تو قدم
قدم پر عذاب سے ڈرایا گیا ہے کہ یہ کرو گے تو اللہ کا ٰعذاب آجائے گا وہ
کرو گے تو اللہ کا عذاب آ جائے گا یہ سارے عذاب مسلمانوں کے لیے ہی کیوں
ہیں دوسرے مذاہب پر تو کوئی عذاب وذاب نہیں آتے ہزاروں سال سے وہ ویسی کی
ویسی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ جن قوموں پر عذاب نہیں آتا ان میں شامل ہو
جانا چاہیے مسلمان رہ کر عذاب کا شکار ہونے کی کیا ضرورت ہے تو میں کہتا
ہوں کہ مسلمانوں پر تو اللہ اس لیے چھوٹے چھوٹے عذاب نازل کرتا ہے تاکہ
مسلمان گمراہی سے پلٹ آئیں اور پڑے عذاب میں گرفتار نا ہو جائیں ہمیشہ
ہمیشہ کے لیے جھنّمی نا ہو جائیں گے - اور دوسرے یہ کہ اللہ نے مسلمانوں پر
فرض کیا ہے کہ جہاد کے ذریعہ سے دوسری قوموں کو اسلام میں داخل کرو کیوں کہ
اسلام کی نعمت اللہ نے تمھیں دی ہے ان کو تو اس نعمت سے محروم رکھا ہے تاکہ
اللہ کے دین کو پوری دنیا پر غالب کر سکو اور اللہ کے فرماں بردار بن جاو
اور جب تم دوسری قوموں کو اسلام میں داخل ہی نہیں کرو گے تو ان کا گناہ بھی
تم پر ہوگا اس لیے تم اللہ کے عذاب کا شکار ہوتے ہو اور وہ عذاب سے بچے
ہوئے ہیں کہ ان کو دین اسلام میں داخل کرنا تو تمھارا فرض تھا اے مسلمانوں
اللہ ہم تمام مسلمانوں کو اپنے تمام فرائض کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین
جب اسلامی انقلاب کے لیے فارمولے کی میں بات کرتا ہوں تو وہ ہمارے مسلمانوں
سے پہلے ہندوستان والوں کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور وہاں اس کے مطابق عمل
دراآمد ہو رہا ہوتا ہے لیکن ہمارے حکمران یقین ہی نہیں کرتے ہیں مگر ہمارا
فرض ہے دعوت دیتے رہنا کیوں کہ کل قیامت کو حکمران یہ نا کہیں کہ ہمیں تو
کسی نے بتایا ہی نہیں تھا اوہ میرے مسلمان بھائیو اللہ تعالیٰ نے جہاد کا
فارمولہ بتایا ہے جس پر عمل کر کے ہم پاکستان میں انقلاب لا سکتے ہیں اس
لیے میں کہتا ہوں کہ یہ جمہوری حکمرانوں کے بس کی بات نہیں ہے اس لیے پاک
فوج کو چاہیے کہ وہ اقتدار پر قبضہ کریں اور جہاد کو جاری کریں اس کے لیے
بڑی محنت کی ضرورت ہوگی اس فارمولے پر عمل کرنا ہوگا -
مانا کہ سکولوں میں کالجوں میں یونیورسٹیوں میں پڑھنا چاہیے پر جہاد کا ہی
ہر ایک پیریڈ ہونا چاہیے تاکہ امن وامان قائم ہو سکے تاکہ عدل وانصاف قائم
ہو سکے اس میں یہ ہونا چاہیے کہ تعلیم کے میدان میں اسلام کے مطابق اصلاحات
کرنا ہوں گی اور ہر سکول کالج یونیورسٹی میں فوجی تعینات کیے جانے چاہیِں
تاکہ وہ ہر ایک پیریڈ جہاد کا ممکن بنا سکیں اور جو لڑکا فارغ التصیل ہو وہ
ایک ماہر فوجی اور مجاہد بن کر نکلے اور بھر اس کو فوج میں بھرتی کر کے فوج
میں اضافہ کیا جانا چاہیے اس قدر اضافے کی ضرورت ہے کہ کم از کم پانچ کروڑ
فوجی ہونے چاہییں جو چھاونیوں میں رہیں اور اسلام پر عمل درآمد کو ممکن
بنائیں اور غیر فوجیوں کو اپنا نوکر بنا کر حق حلال کی کمائی کا موقع دیں
وہ پنے لیے بھی کمائی کریں اور فوج کے لیے بھی کمائی کریں اور جدود اللہ کو
نافذ کیا جائے اور تمام کبیرہ گناہوں پر پابندی لگائی جائے اور کرپٹ سسٹم
کو بدل کر اسلام نظام کو ملک میں رائج کیا جائے اور نماز میں سب کی حاضری
لی جائے اور نماز زکوٰۃ اور دوسرے نیک اور اخلاقی کام اور سخاوتی کام کرنے
والوں کو عہدے اور اعزازات دیے جائیں مراعات اور تنخواہیں دی جائیں اور
کافر ملکوں سے جہاد کا آغاز کیا جائے تو اس طرح سے انقلاب لایا جاسکتا ہے
مگر غدّار اپنی غدّاری کا انقلاب لانے کے لیے اس فارمالے پر عمل کریں گے
اور دین دار لوگ چاہے وہ فوج ہوں یا سول وہ دیکھتے ہی رہ جائیں گے
لیکن یاد رہے عمل سے زنگی بنتی ہے جنّت بھی جھنّم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نا نوری ہیں نا ناری ہیں
|