ملیر کی کپاس ---- یااللہ ‘ کیا دولت تھی ہمارے پاس !

ملیر کراچی کی کپاس بہت ہی اعلیٰ درجے کی ہوتی تھی - یہ امریکہ کی بہترین کپاس کا مقابلہ کر سکتی تھی اور مصر کی کپاس بھی اس کے سامنے ہیچ تھی - اسے انعامی مقابلے میں بھیجا گیا

جب سے ہوش سنبھالا ' ایک شخصیت کا نام تواتر سے سنتے چلے آرہے ہیں -- اور وہ ہیں صبیحہ خانم -- ماضی کی مقبول اداکارہ -- خاص طور پر صبیحہ خانم کا اپنے قاصد کبوتر سے پیغام کا بھیجنا اور اسے تاکید کرنا کہ اے قاصد --جا میری مطلوبہ جگہ پر جا اور میرا کام پایہ تکمیل کو پہنچا - اگر کام نہ ہو تو وہیں مر کھپ جانا ----وہیں جان دے دینا ----لیکن خالی ہاتھ نہ آنا -
فلم : دلا بھٹی
گلوکارہ : منور سلطانہ
لیکن آج ساٹھ سال بعد پھر ایک ایسا ہی پیغام ملا ہے کہ اے پاکستان میں رہنے والو --- خصوصاً کراچی شہر بلکہ ملیر کے قدیم ساکنو یہ تو بتاؤ تمہارے علاقے ملیر میں ------ ملیر ریلوے پل کے پاس ہوا سے چلنے والا اونچا سا پنکھا ( یعنی ونڈ مل) کیوں لگا یا گیا تھا ؟
اور ساتھ ہی ڈیڑھ صدی قبل کی تصویر بھی بھیج دی ہے جس میں ہوا سے چلنے والا یہ پنکھا ملیر دریا کے ریلوے پل کے قریب دکھایا گیا ہے - لیکن یہ پل ٹوٹا ہوا ہے - ٹوٹا ہوا کیا بلکہ درمیان کا حصہ ہی غائب ہے

تصویر بھیجنے والے ہیں جناب "نک بالمر" - انہوں نے اپنے پڑ دادا - - - بلکہ سگڑ داداؤں کی قدیم پٹاریوں کی تلاشی لی تو اپنے ایک ایسے ہی سگڑ دادا 'چارلس برٹون ' کے زمانے کی ' ڈیڑھ سو سالہ پرانی 1866 کی ایک تصویر ملی - چارلس برٹون کی تعیناتی اس زمانے میں کراچی میں ہوئی تھی - اس تصویر میں ملیر کا ریلوے پل دکھایا گیا ہےجو کراچی کو لانڈھی سے جوڑتا ہے اور یہ پل اس زمانے میں ٹوٹ گیا تھا -

اگر پاکستان کا ریلوے کے لحاظ سے تجزیہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں سب سے پہلی ریلوے لائن جو بچھائی گئی تھی وہ کراچی سے کوٹری کی تھی - اس کے بعد پنجاب اور دیگر علاقوں میں ریلوے لائن بچھائی گئی - 1853 میں اس ریلوے لائن کی منظوری دی گئی اور 1858 میں اس ریلوے لائن کے بچھانے کا باقائدہ آغاز اس وقت کے کمشنر سندھ جناب بارٹلے فریر کے ہاتھوں انجام پایا - مختلف ریلوے اسٹیشن مثلاً میکلوڈ روڈ اسٹیشن - فریر ریلوے اسٹیشن وغیرہ بنائے گئے - ان کے نام بعد میں کراچی سٹی اسٹیشن اور کراچی چھاونی اسٹیشن رکھے گئے - اس ریلوے لائن کا مقصد مختلف اقسام کے سامان کی ترسیل میں آسانی اور تیزی پیدا کرناتھا - اس کے لئے انگلستان میں باقائدہ ایک ادارہ تشکیل دیا گیا جس کانام 'سندھ ریلوے کمپنی' رکھا گیا

بات ہو رہی تھی ملیر ریلوے پل کی جس کی تصویر جناب نک بالمر صاحب نے بھیجی ہے - وہ کہتے ہیں کہ
اگست 1866 میں کراچی میں ایک نہایت ہی طوفانی بارش ہوئی تھی جس کا کبھی تصور ہی نہیں کر سکتے یعنی تیس گھنٹے کے اندر چالیس انچ بارش - اس بارش اور اس کے بعد سیلاب نے ارد گرد کے دیہات کے دیہات الٹ کے رکھ دئے - زرخیز زمیں کو تہس نہس کردیا - آبادی اس زمانے میں کم تھی لیکن اس کے باوجود نوے کے قریب انسانی جانیں ضائع ہوئیں - اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں باربرداری کے جانور اور دودھ دینے والے مویشی سیلابی پانی کی نذر ہو گئے - ملیر دریا کا ریلوے پل بھی اس سیلاب سے نہ بچ سکا اور اس پل کا ایک حصہ ٹوٹ کر بہہ گیا - سیلاب اس قدر شدید تھا کہ اس نےریلوے لائن کی فش پلیٹوں کو اکھیڑ کے رکھ دیا - اس زمانے کے ریلوے کے برطانوی افسر میک نیل نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ملیر ندی کے اس پل کے مقام پر شدید طغیانی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ریلوے پل سے کچھ فاصلہ پہلے اس میں دو ندیاں سکھن ندی اور دنبہ ندی آکر ملتی ہیں - ان دونوں ندیوں سے جو پانی بہہ کر آرہا تھا انکے بہاؤ کی رفتار الگ الگ تھی جو ملیر ندی کے اندر ایک خطرناک تلاطم کا باعث بنیں اور بالآخر پل کو ہی تباہ کردیا - میک نیل مزید کہتے ہیں کہ ملیر دریا میں اس روز صبح صادق کے وقت پانی نہ ہونے کے برابر تھا لیکن تھوڑی ہی دیر میں پانی کی سطح چڑھنی شروع ہوئی اور آٹھ بجے تک پانی اسٹیل گرڈر سے بھی بلند ہو کر ریلوے لائن کو چھونے لگا - سیلاب میں موجود مختلف دیہاتوں کا ملبہ اور لہروں کے شدید تھپیڑے پوری قوت کے ساتھ سے پل سے بار بار ٹکرا رہے تھے ارد گرد پورے ماحول میں ایک خوفناک شور مچا ہوا تھا - جیسے اندھیری رات میں اچانک بہت سے جانور ایک دوسرے سے لڑ رہے ہوں اور چنگھاڑ رہے ہوں - ایک دوسرے کو بھنبھوڑ رہے ہوں - یہاں بھی تو یہی منظر تھا - لہریں اور تھپیڑے بار بار پل کو بھنبھوڑ رہے تھے - پانی کے جھاگ کے سبب کئی مرتبہ تو پل نظرہی نہیں آتا تھا - اورپھر ایک مرتبہ جب پل نظر نہیں آیا تو پتہ چلا کہ اب حقیقت میں غائب ہو چکا ہے - لوہے کے بڑے بڑے ساٹھ ساٹھ ٹن کے شہتیر کاغذاور تنکوں کی طرح بہتے ہوئے دور تک پھیل گئے - پل ٹوٹ چکا تھا -

یہ پل -- اور یہ کراچی کوٹری ریل کی پٹری کتنی اہمیت کی حامل تھی اس کا اندازہ اس زمانے میں برطانیہ کے اخباروں سے لگایا جا سکتا ہے - ڈیلی نیوز جمعرات 26 مارچ 1863 کو لکھتا ہے کی میکلوڈ روڈ اسٹیشن (یعنی کراچی سٹی اسٹیشن ) سے روزانہ سو سے زائد ریلوے ویگنوں کی ترسیل ہو رہی ہے جس میں چھ سو ٹن سے زیادہ وزنی تجارتی مال ہوتا ہے - یہاں پر مسافروں کے ڈبون کی تعداد صرف 27 ہے اور اس کے مقابلے میں مال برداری کے لئے ویگنوں کی تعداد 227 تھی جسے بڑھا کر چھ مہینے کے اندر اندر 372 کر دیا گیا ہے -انجنوں کی تعداد بیس ہے اور مزید پانچ انجنوں کا آرڈر دے دیا گیا ہے

کوٹری کراچی کی مال گاڑیوں سے جو کپاس بھیجی گئی اس کا تذکرہ کرتے ہوئے اخبار لکھتا ہے کہ سال 1862 میں ساٹھ ہزار سے زائد کپاس کی گانٹھیں جن کا وزن نو ہزار ٹن کے قریب ہوتا ہے اسی ریلوے لائن کی بدولت برآمد کی گئیں اور اگلے سال گانٹھوں کی تعداد ساٹھ ہزار سے بڑھا کر ڈیڑھ لاکھ کر دی جائے گی -

یہی اخبار ملیر کی کپاس کے بارے میں کہتا ہے کا تذ کرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ملیر کی کپاس کے کیا کہنے - بہت ہی اعلیٰ درجے کی ہے - اسکے نمونے لیکر ممبئی بھیجے گئے تو وہاں کے چیمبر آف کامرس والے اتنی اعلیٰ درجے کی کپاس دیکھ کر دنگ رہ گئے - انہوں نے کہا "لاجواب --بے مثال - یہ امریکہ کی بہترین کپاس کا مقابلہ کر سکتی ہے - اور مصر کی بہترین سے بہترین کپاس اس کے سامنے ہیچ ہے - واہ کیا شاندار کپاس ہے -بہت عرصے بعد اس قسم کا بہترین نمونہ دیکھنے میں آیا ہے - اسے ضرور انعامی مقابلے میں بھیجا جائے "

یہ سب کچھ بتانے کے بعد بھائی "نک بالمر" پھر سوال اٹھاتے ہیں کہ ملیر ریلوے پل کے پاس ہوا سے چلنے والا اونچا سا پنکھا ( یعنی ونڈ مل) کیوں لگایا گیا تھا ؟ کیا یہ اس زمانے کے ریلوے لائن بچھانے والے ٹھیکےدار جان برنٹن نے اپنے بارہ ہزار کارکنو ں کو پانی کی سہولت دینے کے لئے لگایا تھا یا پھر اس زمانے میں کپاس کی فصلوں کو پانی مہیا کر نے کے لئے نصب کیا گیا تھا - اس کے پیچھے کیا اسرار ہے ؟

یہ حاتم طائی تھا جو حسن بانو کے تمام سوالوں کے جواب لے آتا تھا - میں تو ناکام ہی رہا - ہاں حسن بانو کا ایک سوال یہ بھی تو تھا نیکی کر دریا میں ڈال " اگر حسن بانو موجودہ زمانے میں جی رہی ہوتی تو سوال کرتی 'نیکی کر دریائے ملیر میں ڈال' کا کیا بھید ہے -دریائے ملیر کے اس پنکھے کی خبر لاؤ اور بھائی نک بالمر تک پہنچاؤ --بذریعہ کبوتر نہیں بلکہ بذریعہ ای میل -


اس مضمون کی تکمیل کے لئے میں جناب 'نک بالمر ' کا شکر گزار ہوں - تصویر میں 1866 میں سیلاب سے تباہ شدہ پل اور اس زمانے کا کراچی ملیر کا نقشہ دکھایا گیا ہے - موجودہ زمانے کا گوگل سے کھینچا گیا ملیر کراچی کا نقشہ بھی دکھایا گیا ہے - چھوٹے سے باکس میں جناب 'نک بالمر' کی تصویر ہے - تصویر کے نیچے اس زمانے یعنی 1866 کے بعد ‘ نک بالمر ‘ کے سگڑ دادا ‘ چارلس برٹون ‘ کی پینسل سے لکھی ہوئی کچھ
یاد داشتیں ہیں

(اس آرٹیکل کی تیاری میں sepoysgriffins اور pakistaniat ویب سائٹس سے مدد حاصل کی گئی ہے-

Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 333396 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More