یہ حقیقت ہے کہ تعلیم کا معیار روز بروز گرتا چلا جا رہا
ہے، خاص طور پر سیکنڈری جماعتوں تک مگر یہ بھی سچ ہے کہ تعلیم دینے والے
اساتذہ کو بھی نہ جانے کیا ہو گیا ہے۔ جہاں طلباء کو ادب و آداب سکھاۓ جاتے
ہوں وہاں پر اساتذہ کا یہ حال ہو کہ انھیں ہی گفتگو کے آداب سکھانے پڑ
جائیں تو ایسے ماحول اور تعلیمی معیار کا اندازہ آپ خود ہی لگا لیں۔ بے
لگامی، بے راہ روی اور بد زبانی کا طعنہ نوجوان نسل، خاص طور پر طلباء کو
دیا جاتا ہے۔ کوئ یہ نہیں سوچتا کہ اس کے پیچھے کیا عناصر کار فرما ہوتے
ہیں۔ یہ ہم بڑوں کی ہی کوتاہیاں اور غلطیاں ہوتی ہیں جو نوجوان نسل ہمیں
لوٹاتی ہے۔ جو بیج ہم بوتے ہیں اور جن کوتاہیوں کا پانی دے دے کر ہم اسے
پروان چڑھاتے ہیں تو ہم کیا توقع رکھتے ہیں کہ ہمیں سایہ دار اور پھل دار
درخت ملے؟ کانٹوں کے بیج بونا، زہریلا پانی دے کر پرواں چڑھانا اور اس پر
پھر توقع اچھی رکھنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ اپنا کیا دھرا دوسرے پر ڈال دینا
بہت آسان ہوتا ہے۔ خاص طور پر بچوں پر کیوں کہ وہ تو ویسے ہی سب کو خود سر
اور بے لگام نظر آرہے ہوتے ہین۔ ان کی خود سری اور بے لگامی کے پس منظر میں
کیا ہوتا ہے، اسے کسی کو جاننے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بس قصوروار وہی ہوتا ہے
جو بظاہر نظر آرہا ہوتا ہے۔ یہ کچھ روز پہلے پیش آنے والا بظاہر ایک معمولی
سا واقعہ ہے۔ مگر دیکھا جاۓ تو اس واقعہ سے ایک بہت بڑی حقیقت سامنے آتی ہے۔
یہ ایک ایسے اسکول کی ٹیچر کی بات ہے جس کی برانچیں تقریباً پورے پنجاب میں
ہیں۔ جہاں یہ بات آجاۓ کہ فلاں اسکول کی برانچیں ہیں، وہاں پہلی بات یہ ذہن
میں آتی ہے کہ اسکول ضرور اچھا ہو گا۔ اسی قسم کے ایک اچھے اسکول کی ٹیچر
کا فون گھر آتا ہے کہ جناب 200روپے جمع کرادیں۔ وجہ پوچھی تو جواب آیا کہ
آپ کے بچے نے مجھ سے 200 روپے ادھار لۓ تھے وہ کل دے جائیں۔ بچہ میٹرک کا
طالب علم ہے۔ بچے کو اچھی خاصی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد پوچھا گیا کہ بیٹا آپ نے
ایسا کیوں کیا؟ اس نے بتایا کے اس نے اپنی ٹیچر سے کوئ ادھار کبھی نہیں لیا۔
ٹیچر وہ پیسے مانگ رہی ہیں جو پوری جماعت سے پرنسپل کو تحفہ دینے کے لۓ
اکھٹے کۓ گۓ تھے۔ چونکہ وہ غیر حاضر تھا اس لۓ جمع نہ کرا سکا تھا۔ یہ
تفصیل بچے کے والدین کو بھی معلوم تھی۔ انھوں نے سوچا ہوا تھا کہ جب بچہ
ایک دو روز میں پریکٹیکلز کی تیاری کے لۓ اسکول جاۓ گا تو وہ یہ رقم ٹیچر
کو دے دے گا۔ یہ بات تو ٹیچر کو بھی معلوم تھی کہ بچے نے اسکول ہر صورت میں
آنا ہے۔ مگر چونکہ انھوں نے اپنی جیب سے پیسے بھرے تھے اس لۓ ان سے صبر نہ
ہوسکا اور انھوں نے گھر فون کر دیا۔ گھر فون کرنا اور پیسوں کا مطالبہ کرنا،
یہاں تک تو بات با لکل ٹھیک اور جائز ہے۔ مگر یہ کہہ کر پیسوں کا مطالبہ
کرنا کہ آپ کے بیٹے نے مجھ سے جو 200 روپے ادھار لۓ ہیں وہ واپس کر دیں،
کیا ایک استاد کو زیب دیتا ہے؟ یہاں پر یہ بتانا ضروری ہے کہ انھوں نے یہ
بات بالکل عام لہجے میں کی تھی۔ نہ وہ شکایت تھی اور نہ ہی الزام تھا۔ یعنی
اگر اس بات پر سوچا جاۓ تو یہ اور بھی بری بات ہے۔ شکایت یا الزام لگانے
والی بات تو پھر بھی سمجھ میں آتی ہے کیوں کہ اس کے پیچھے کوئ نہ کوئ وجہ
ضرور ہوتی ہے۔ مگر اتنی بڑی بات کو ایک عام بات کی طرح کر دینا، یہ بھی نہ
دیکھنا اور سوچنا کہ میں ایک استاد ہوں مجھے ایسی بات کرنا زیب بھی دیتا ہے
ہا نہیں، نئ نسل کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے۔ استاد ایک درسگاہ ہوتا ہے۔
دیکھا جاۓ تو ادھار بچے نے نہیں ٹیچر نے دہنا تھا۔ اخلاقیات، ادب و آداب،
سلیقے سے جینے کا ڈھنگ اور اسی قسم کی بہت ساری باتوں کا ادھار ہے تمام
اساتذہ پر۔ یہ ایسا قرض یے جو ہم پر اور ہمارے تعلیمی رہنماؤں پر بڑھتا جا
رہا ہے۔ اس قرض کو اتارنا تو دور کی بات، کوئ اس بات کو ماننے کی حد تک بھی
تیار نہیں کہ ہم اس نوجوان نسل کے مقروض ہیں اور ان کے بگاڑ میں ہمارا ہاتھ
ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں زیادہ تعداد ایسے اساتذہ کی ہے جنھوں نے استاد
اور شاگرد کے درمیان ادب و آداب کی حدود کو ختم کر دیا یے۔ کسی بھی تعلیمی
ادارے میں چلے جائیں تو آپ کو پہچاننا مشکل ہوگا کہ کون استاد ہے اور کون
شاگرد۔ یہ بات ان کی عمر کے کم فرق کی وجہ سے نہیں کی جا رہی بلکہ ان کی
شخصیت کی وجہ سے کی جا رہی ہے۔ استاد اگر طلباء کے ساتھ کھڑا ہے اور ان سے
باتوں میں مصروف ہے تو آپ کو اندازہ لگانا مشکل ہو جاۓ گا کہ استاد کون ہے۔
کیوں کہ اب ان کے درمیان ادب و آداب کی حدود ختم ہو چکی ہیں۔ وہ آپس میں
ایسے بات کر رہے ہوں گے جیسے بے تکلف دوستوں سے کی جاتی ہے۔ پہلے زمانے میں
استاد ہوتے تھے تو ان کو دور سے آتا دیکھ کر ہی ان کی تعظیم میں سر ادب سے
جھک جاتے تھے۔ ہاتھ باندھ کر اور نگاہیں نیچی کر کے ان سے مخاطب ہوا جاتا
تھا۔ اپنی آواز کو ان کی آواز سے ہمیشہ دھیمی اور مؤدبانہ رکھا جاتا تھا۔
شاگرد ایسے ہوتے تھے تو استاد بھی ایسے ہوتے تھے کہ کسی شاگرد کو بھی اس کی
حدود سے باہر نہیں نکلنے دیتے تھے۔ ادب و آداب، اخلاقیات اور نہ جانے کن کن
خصائل کا مجموعہ ہوتا تھا ایک استاد۔ پھر نہ جانے تربیتوں میں کہاں کہاں
دراڑیں پڑتی گئیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ دراڑیں اس قدر بڑھیں کے
ادب و آداب اور اخلاقیات سمیت سب اچھی باتیں غرق ہو گئیں۔ نہ استاد، استاد
رہا اور نہ شاگرد، شاگرد۔ آخر میں استاد کی بے پناہ عزت کا ایک ناقابل
فراموش واقعہ جو پچھلے دنوں واٹس ایپ کی زینت بنا رہا لفظ بہ لفظ درج ہے۔ "ایک
دفعہ ابن انشاء ٹوکیو کی ایک یونیورسٹی میں مقامی استاد سے گفتگو میں محو
تھے۔ جب گفتگو اختتام پر پہنچی تو وہ استاد ابن انشاء کو الوداع کرتے ہوۓ
یونیورسٹی کے باہری صحن تک چل پڑا۔ ابھی ہونیورسٹی کی حدود میں ہی تھے کے
دونوں باتیں کرتے کرتے ایک مقام پر کھڑے ہو گۓ۔ اس دوران ابن انشاء نے
محسوس کیا کہ پیچھے سے گزرنے والے طلباء اچھل اچھل کر گزر رہے ہیں۔ باتیں
ختم ہوئیں تو ابن انشاء یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ محترم ہمارے پیچھے سے
گزرنے والا ہر طالب علم اچھل اچھل کر کیوں گزر رہا ہے اس کی کوئ خاص وجہ؟
ٹوکیو یونیورسٹی کے استاد نے بتایا کہ سورج کی روشنی سے ہمارا سایہ ہمارے
پیچھے پڑرہا ہے اور یہاں سے گزرنے والا ہر طالب علم یہ نہیں چاہتا کہ اس کے
پاؤں اس کے استاد کے ساۓ پر پڑیں۔ اس لۓ ہمارے عقب سے گزرنے والا ہر طالب
علم اچھل اچھل کر گزر رہا ہے۔ یہ قوم کیوں نہ ترقی کرے۔ ہمارے معاشرے میں
تو استاد کا احترام اس کے گریڈ اور عہدے سے منسلک ہے"۔ |