آزاد کشمیر کے بورڈ آف ریونیو کی طرف سے 3فروری2017کو
زیرنمبر(ب آر/بحالیات2017/4015-40/)جاری نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ صدر
آزاد جموں و کشمیر نے موصولہ شکایات کے پیش نظر مہاجرین جموں و کشمیر مقیم
پاکستان کے حق میں جاری شدہ سرٹیفکیٹ ریاستی باشندہ کی از سر نو جانچ پڑتال
کے لئے سات نکاتی طریقہ کار کی منظوری صادر فرمائی ہے، جس کے مطابق
سرٹیفکیٹ ریاستی باشندہ کی پڑتال کا عمل آزاد کشمیر کے تمام اضلاع کے ڈپٹی
کمشنر اور ڈپٹی کمشنر بحالیات کے دفاتر سے بیک وقت شروع ہو گا۔دفتر ڈپٹی
کمشنر بحالیات میر پور اپنے جاری شدہ سرٹیفکیٹ کے درست ہونے کا جائزہ لے
گا۔تحقیقاتی عمل میں جموں یا وادی کشمیر کی کوئی تخصیص نہیں کی جائے
گی۔آزاد کشمیر کے اضلاع سے جاری مہاجرین مقیم پاکستان کے حق میں جاری شدہ
سرٹیفکیٹ کی پڑتال متعلقہ اضلاع کے عملے کے ذریعے کر کے ایک ماہ کے اندر
بورڈ آف ریونیو کو رپورٹ دینے کی پابندی۔نوٹیفکیشن کے ذریعے ڈپٹی کمشنر اس
بات کے پابند کہ وہ کسی مہاجر جموں و کشمیر مقیم پاکستان کے حق میں کوئی
باشندہ ریاست سرٹیفیکیٹ جاری نہیں کریں گے البتہ اپنے ضلع میں مستقل آباد
مہاجرین کو باشندہ ریاست سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کے پابند ہوں گے۔ڈپٹی کمشنر
بحالیات میر پور جاری شدہ باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ ہا ء کی حیثیت کا تعین دو
ماہ میں کرنے کے پابند اور حسب ضرورت ایک ماہ کی تو سیع کا اختیار بورڈ آف
ریونیو کو حاصل ہو گا۔
آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے غیر مستحق اور غیر متعلقہ افراد کو جاری باشندہ
ریاست سرٹیفیکیٹ منسوخ کرنے کا عمل اچھا اقدام ہے لیکن اس پڑتال کے اس عمل
کو مہاجرین مقیم پاکستان تک محدود رکھنے سے اصل مقصد حاصل نہیں ہوتا کیونکہ
آزاد کشمیر میں بھی کافی تعداد میں پاکستان کے مختلف علاقوں کے افراد نے
باشندہ ریاست سرٹیفیکیٹ حاصل کر رکھے ہیں۔اس پڑتال کے دوران مہاجرین مقیم
پاکستان کے لئے سرٹیفیکیٹ جاری کرنے پر پابندی سے جموں و کشمیر کے مہاجرین
کے بشمول تعلیمی حق اور مقبوضہ جموں و کشمیر کا سفر کرنے کے حق سمیت کئی
حقوق متاثر ہو سکتے ہیں۔ شنید ہے کہ مہاجرین مقیم پاکستان کے تعلیمی کوٹے
کا خاتمہ بھی آزاد کشمیر میں زیر غور ہے۔آزاد کشمیر کی تاریخ میں یہ پہلا
موقع ہے کہ جب آزاد کشمیر حکومت اور مہاجرین جموںو کشمیر مقیم پاکستان کے
درمیان دوریوں میں نمایاں اضافہ ہو گیا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ
مہاجرین مقیم پاکستان اور آزاد کشمیر حکومت کے درمیان تعلقات کے خاتمے کا
مرحلہ شروع کیا جا چکا ہے۔آزاد کشمیر کی ہر حکومت میں مہاجرین مقیم پاکستان
کی نمائندگی واضح طور پر موجود رہی ہے لیکن موجودہ حکومت میں مہاجرین مقیم
پاکستان کی نمائندگی واضح طور پر نظر انداز معلوم ہوتی ہے۔
ماضی میں آزاد کشمیر کی سب سے مضبوط اور موثر سیاسی جماعت مسلم کانفرنس میں
صدر اور جنرل سیکرٹری کے عہدوں پر آزاد کشمیر اور مہاجرین مقیم پاکستان کی
شخصیات کے فائز کئے جانے کی روایت قائم رہی۔بزرگ کشمیر رہنما محمد علی کنول
کئی عشرے مسلسل مسلم کانفرنس کے جنرل سیکرٹری رہے ۔کنول صاحب کی وفات کے
بعد خواجہ امین مختار مسلم کانفرنس کے جنرل سیکرٹری بنے اور اپنی وفات تک
اس عہدے پر فائز رہے۔مسلم کانفرنس کی تاریخ میں خواجہ محمد امین مختار وہ
واحد شخصیت ہیں جن کا جنازہ مسلم کانفرنس کے دفتر سے اٹھایا گیا۔امین مختار
صاحب کی وفات کے بعد راولپنڈی شہر کی ویلی 4کی سیٹ سے آزاد کشمیر اسمبلی کے
ممبر شاہ غلام قادر کشمیری مہاجر کی حیثیت سے مسلم کانفرنس کے سیکرٹری جنرل
بنے ، آزاد کشمیر میں مسلم لیگ(ن) کے قیام تک اس عہدے پر فائز رہے اور اس
کے بعدمسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے سیکرٹری جنرل بنے۔مسلم کانفرنس اور مسلم
لیگ(ن) میں اپنے ہی جماعتی ساتھیوں کی طرف سے '' چند سو ووٹ لے کر ممبر
اسمبلی بننے '' کے طعنوں کی صورتحال میں سیکرٹری جنرل شاہ غلام قادر نے
نیلم ویلی حلقے سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔آزاد کشمیر اسمبلی کے گزشتہ
الیکشن میں نیلم ویلی حلقے سے الیکشن ہار گئے کیونکہ اس وقت پاکستان میں
پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔گزشتہ سال ہونے والے الیکشن میں مسلم لیگ(ن) کے
سیکرٹری جنرل شاہ غلام قادرآزاد کشمیر کے تمام حلقوں کے مقابلے میں سب سے
زیادہ ووٹ لیکر کامیاب رہے۔سیکرٹری جنرل مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر شاہ غلام
قادر دس سال سے زائد عرصے سے مکمل طور پر نیلم ویلی حلقے میں موجود ہیں اور
انہوں نے نیلم ویلی میں اپنا گھر بھی تعمیر کیا۔ گزشتہ الیکشن سے پہلے سے
ہی سیکرٹری جنرل شاہ غلام قادر مکمل طور پر نیلم ویلی میں موجود ہوتے ہوئے
سرگرمی سے عوامی رابطوں میں مصروف رہے۔عوامی رابطے کے لئے نیلم ویلی کے ہر
علاقے میں پیدل بھی چلے ۔فوتگی پر تعذیت کے لئے دور دراز مقامات بھی پہنچے۔
اس عوامی رابطہ مہم میں علاقے کے رواج کے مطابق کسی کے قیمتی جانور کے مرنے
پر بھی افسوس کرنے دشوار پہاڑی راستوں پر جانا پڑا۔ ایک عشرے سے زائد عرصے
تک نیلم ویلی میں زیادہ سے زیادہ موجود رہنے اور سرگرم عوامی رابطہ مہم سے
مقامی رواجات مزاج کا یوں حصہ بنتے گئے کہ جس کا ایک انداز ان کی گزشتہ سال
کے الیکشن میں ہونے والی کامیابی ہے۔شاہ صاحب کو اگر اب مکمل طور پر'' نیلم
ویلی والا'' قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔اگر کوئی کسر باقی رہ گئی ہے
تو وہ صرف مقامی طور پر شادی کرنے کی ہے،ورنہ مقامی ہونے کے باقی تمام
لوازمات پورے ہو چکے ہیں۔مہاجرین مقیم پاکستان کے حلقے سے نیلم ویلی حلقے
میں منتقل ہونے سے پاکستان مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر کے صدر اور جنرل سیکرٹری
کے دو اہم ترین عہدے مظفر آباد ڈویژن کا اعزاز بن چکے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے قیام سے اب تک اس کے مرکزی عہدیداران کا یک بھی
اجلاس منعقد نہیں ہو سکا۔اس طرح مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کو پارلیمانی
پارٹی کے ذریعے چلایا جا رہا ہے ،حالانکہ پارلیمانی پارٹی مرکزی عہدیداران
،مجلس عاملہ کو جوابدہ ہوتی ہے ۔لیکن شاید بادشاہی انداز سیاست کے رواجات
کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔مسلم کانفرنس میں بھی پارلیمانی پارٹی کو ہی فیصلہ ساز
ادارہ بنا لیا گیا تھا جس وجہ سے پارلیمانی پارٹی کے ارکان کے اختلافات نے
ایک جماعت سے دو جماعتیں تخلیق کر دیں۔مسلم کانفرنس کی طرح مسلم لیگ(ن)
آزاد کشمیر میں بھی مجلس عاملہ کے نام پر سینکڑوں افراد اس کے رکن بنا دیئے
گئے ۔آزاد کشمیر میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے قیام کے وقت ،اسمبلی میں
خصوصی نشستوں کے الیکشن میں وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کی سفارش پر
ان کے ایک ملازم کی بیٹی اور الیکشن سے پہلے تک پاکستان تحریک انصاف آزاد
کشمیر میں شامل خاتون کو مسلم لیگ(ن) کی طرف سے ممبر اسمبلی بنانا ،ایک
ایسا داغ ہے جو وزیر اعظم کے حلف سے پہلے ہی مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر کے
دامن پر لگا دیا گیا۔حکومت کے قیام کے وقت مخصوص نشستوں پر وزیر اعظم
پاکستان کی سفارش پر ان کے ایک ملازم کی بیٹی اور حریت کانفرنس آزادکشمیر
میں شامل ایک تنظیم کے نمائندے کی اہلیہ ،جو اپنی نامزدگی تک پاکستان تحریک
انصاف آزاد کشمیر میں شامل تھیں، کو بھی '' خفیہ سفارش'' پر منتخب
کرایاگیا۔اس اقدام سے آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کی اخلاقی بر تری کے
عمومی تصور کو زک پہنچی ۔یوں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی طرح جماعتی سیاست کے
حوالے سے بھی مسلم لیگ(ن)آزاد کشمیر کے رہنمائوں کی ''ٹیم'' میں کوئی مہاجر
مقیم پاکستان دیکھنے کو بھی میسر نہیں ہے۔ |