کورے کاغذ کی سپیدی پر ترس آتا ہے

راستے نئی منزلوں کا پتہ چاہتے ہیں نئی کونلپوں کی نمو، نوشتہ دیوار ہے حوصلے بلند ہونے چاہیں عمل پیہم ،یقین محکم، عزم مُصم! کیا اس کی طرف ایک طائرانہ سی نگاہ کافی ہے جی نہیں ! منزل تک پہنچنے کے لیے زادِراہ سے زیادہ اہم چیز راستے کی بل کھاتی ہوئی پگڈنڈیوں اور درپیش پیچ و خم سے آشنائی ہوتی ہے پھر بلند حوصلہ ،مضبوط کردار ،بے باک زندگی ،خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے آخری کتاب پر یقین کامل کی یاد دہانی، اسوہ حسنہ ،کی رہنمائی سے آگے بڑھنے کا سفر ، رینگتے ہوئے،چلتے ہوئے اور پھر ذرا اور تیزی سے، یہی منزل کی نوید ہے راہ نجات ہے، بقول فیض
لو ہم نے د امن جھاڑ دیا
لو جام الٹائے دیتے ہیں

معاشرہ افراد سے تشکیل پاتا ہے جس کی بنیادی اکائی (Unit)فرد ہے جن کے رہن سہن ،طرز معاشرت، ثقافت ،فنون لطیفہ ،اخلاقی قدروں سے معاشرہ مکمل ہوتا ہے ۔جو ایک کمیونٹی میں رائج روایات کو ظاہر کرتا ہے منیز نیازی اپنے دور کا ایک خوش قسمت شاعر تھا جس کو سوال کا ’’جواب ‘‘سوال میں ہی مل گیا تھا اور یقینا وہ سوال انہوں نے اپنے آپ سے ہی کیا ہوگا اگر کسی اور سے کیا ہوتا توسوال کا جواب شاید ملنے والے جواب میں بھی نہ ملتا، بد قسمتی مگر آج کی نوجوان نسل کی ہے کہ انہیں سوال کا جواب سوال میں تو نہیں البتہ منیر نیازی کے Exceptional کیس کے علاوہ ،جواب میں بھی نہیں مل رہا ،اطمانیت کی کمی شدت سے ہے، ایک حبس بے جا کا موسم ہے جہاں چمن کا بلبل، گل سے روٹھ بیٹھا ہے ،صرف سیاستدانوں سے ہی نہیں نوجوان مختلف طبقہ فکر کے اکابرین سے بھی ناخوش ہیں ہجوم بپاہے اور رہنمائی اپنا وجود کھو بیٹھی ہے بھٹکے ہوؤں کو راستہ دکھانے والے پتہ نہیں کس جہاں کواپنا مسکن بنا بیٹھے ہیں ،آندھیوں کے تھپڑوں کا سامنا کرنے والے روشن چراغ کی لو تمتار ہی ہے اس دیئے میں تیل باقی ہے اور تیزہوا کی شدت کا مقابلہ کرنے کی قوت بھی ،نوجوان اگر اکابرین سے دورہیں تو ایک وجہ قائم اعتماد کی کمی ہو سکتی ہے یا پھر گردش دوراں کی تیزی، انسان کاکردارجو اس کا لباس (Dress)کہلاتا ہے اس کی بے باکی کو درکار مضبوط پورے ہونے یقیناسے قاصر رہے ہوں گے ۔اس کا نتیجہ یہ برآمد ہو اہے کہ آج کا نوجوان So-calledسیاستدانوں سے، رہبروں سے، رہنماؤں سے ، جمہوریت کا راگ الاپنے والوں سے دور ہوتا جا رہا ہے مگر جمہوریت سے نہیں وہ جمہوریت جس کے لباس پر کرپشن کے دھبے نہ ہوں، کردار پر میرٹ کی پامالی، اقرباء پروری اور سٹیٹس کو کاشائبہ تک نہ ہو جس کا گریباں بے انصافی کے متواتر حملوں سے چیرہ چیرہ نہ ہو چکا ہو، اس خالص جمہوریت پر نوجوان کا یقین آج بھی کامل ہے، ارباب اختیار اور نوجوان طبقہ کے درمیان فاصلہ Thresholdکی حد کو کراس کرتا جا رہا ہے کھلی فضا میں ہونے بحث و مباحثہ اورفنون لطیفہ نامی چیز بھی توجہ کا مرکز نہ رہی، طلبہ یونین صرف متعلقہ سیاسی جماعتوں کی’’ بچہ جمہورہ‘‘ بن کے رہ گئیں تعلیمی ادارے صحت مندانہ سر گرمیوں سے لبریز ماحول مہیا کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکے ،بڑے عہدوں پر براجمان لوگوں کا گاہے بگا ہے نوجوان نسل سے رابطہ رہناچاہیے تا کہ پڑھے لکھے نوجوان ان سے اور ان سے متعلق ہونیو الے کام کے بارے جانکاری حاصل کر سکیں اس طرح سسٹم میں پائی جانی والی خوبیوں ،خامیوں پر توجہ دی جا سکے، ساتھ ہی قابل تعریف کام کو سراہا جا سکے ،تنقید برائے تنقید صحت مند اور خوشحال معاشرے کی پہچان نہیں ہوتی ،تنقید میں اصلاح کا پہلو نظر آنا چاہیے، تنقید کوئی بُری چیز نہیں ۔Collective wisdom, is better than, individual,s wisdomمگر اس کی بنیاداختلاف ہے جو ہمارے معاشرے میں جرم بن کے رہ گیا ہے، کمی فکر و شعور اور آداب و تربیت میں رہی ہے جو دلوں کو روشن کرنے میں یکسر قاصر رہی ہے،ذہن کے بنددریچوں کو تہہ در تہ (Layer by Layer)تازہ آکسیجن فراہم کرنے میں ناکام رہی، سکولوں سے لے کر کالجوں اور کالجوں سے یونیورسٹیوں تک ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے، پاکستان میں ایوان بالا (Upper House)کا درجہ سینٹ آف پاکستان کو حاصل ہے جس کے ارکان کا انتخاب پانچ سال کی مدت کے لیے کیا جاتا ہے اسی طرح تعلیم و تربیت کی (Basic Unit)بنیادی اکائی ماں کی گود ہے، جہاں سے روشنی کا سفر شروع ہوتا ہے آنکھوں ا نور اور دل کا سرور اسی ماحول کی آغوش میں پرورش پاتاہے، اس میں خدا کی خدائی بھی کار فرما ہوتی ہے خالص پن سے اٹاشیریں لہجہ بھی ،نیک نیتی کی پارسائی بھی محبت کی زمزمائی بھی اس درسگاہ میں جو چیز ہے وہ خالص ہے Impurityنامی چیز کا کوئی یہاں وجود نہیں, یہ تعلق سب سے بلند اور یہ تربیت سب سے ارفع و اعلیٰ ہے جس میں ہربچہ میرٹ پر اپنا حصہ وصول کرتا ہے چاہے وہ محبت کا ہو چاہے تربیت کا ،صبر و شکر رواداری وہمدردی کی صفات بھی ماں کی گود سے سیکھنے کو ملتی ہیں یہی صفات انسان کو خدا کی پہچان کراتی ہیں آپ اس بات پر غور کریں کہ ماں کی محبت کا ،ہمیشہ خدا کی محبت سے موازانہ کیا جاتا ہے کبھی بھی دو ماؤں کی محبت کا آپس میں موازنہ نہیں کیا گیا باقی دنیا کا اصول یہ ہے کہ ہر دو برابرکے درجے کی چیزوں کو ایک( خالص پن) Qualityاور ایک جیسی (مقدار) Quantityکی بنیاد پر پیمانہ توازن میں تولہ جاتا ہے اس کی وجہ مگر یہ ہے کہ محبتوں کو مانپنے والے( پیمانہ )Scaleابھی وجود میں نہیں آئے، در آں حالیکہ اس خالص پن کو خدا ،جو رب العلمین ہے ،کی محبت سے نتھی کیا جاتا ہے جو اپنی مخلوق سے سترگناہ زیادہ پیار کرتا ہے ماں کی محبت اور خلوص سے اگلا درجہ خدا کی محبت اور خلوص کا ہے، یکتائی کا ہے، بڑھائی کا ہے، ایک محبت اور بھی ہے، شاعرانہ محبت، جس کی رمز اور ہے قافیے ردیف اور ہیں ایک درویش نے کہا تھا محبت کرنے والے کسی اور مٹی کے بنے ہوتے ہیں بقول میر
مصرعہ کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں

یہ درست کہ سینٹ آف پاکستان کو Upper Houseیعنی ایوان بالا کا درجہ حاصل ہے تو ایک یونیورسٹی تعلیم وتربیت میں’’ بالا مقام‘‘ High Rank Pointحاصل کرنے میں کیوں پیچھے رہی ہے ،اس کے لیے تعلیم و تربیت میں upper Houseکا لفظ کیوں وجود میں نہیں آیا, ایک طالب علم یونیورسٹی میں سینٹ کے دورانیے سے زیادہ وقت گزارتا ہے محنت و کوشش میں،نئے زوایوں کو سمجھنے میں مگر فارغ التحصیل طلبہ نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں پھر نوکری کو حصول کے لیے سکہ رائج الوقت سفارش اور اس کے دوسرے لوازمات کوپوراکرنا پڑتا ہے یہاں گنگا الٹی بہہ نکلی ہے جہاں تعلیم وتربیت ہونی چاہیے وہ سیاست زوروں پر ہے اور جہاں حقیقی جمہوریت و قانون سازی ہونی چاہیے وہاں ارکان کی حاضری اور سنجیدگی لمحہ فکریہ ہے ،نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ وی سی اور دوسرے بڑے انتظامی شعبوں میں تعیناتی کے لیے بھی باقاعدہ لابنگ کی جاتی ہے اور پھر کسی ’’یس مین ‘‘ کو کرسی پر براجمان کر دیا جاتا ہے جہاں اپنی مرضی سے ملازمین کو بھرتی کیا جا سکے اگر کوئی نیا تعلیمی ادارہ بنتا ہے توا س کے پیچھے محض کار فرمائی سیاستدانوں کی اپنے چہیتوں کی بھرتی ہوتی ہے اس سیاست نے تعلیمی ماحول کو اور بھی پسماندہ بنا دیا ہے ،لوڈ سپیکروں سے آنے والی مسحور کن آوازیں اپنا وقار کھو رہی ہیں، قوم کے معماروں کی کانوں میں رس گھولنے والی آوازیں بھی دم توڑ رہی ہیں کرسی پر جمے رہنے کی ہوس جائز و ناجائز کی تمیز مٹا دیتی ہے ،تعلیم جس کا دوسرا نام شعور ہے اس شعور تک پہنچنے کے لیے کون سانصاب اور کون سا ادارہ درکار ہو گا ،ہاں مگر اپنے اپنے ضمیر کا ادارہ جس کے دروازوں پر لگے ہوس اور لالچ کے تالوں کو پاش پاش کرنیکی ضرورت ہے کرپشن اور لالچ کا تعلق تعلیم سے نہیں ہوتاآزادکشمیر کی ایک یونیورسٹی کا حاضر سروس وی سی احتساب کی زد میں ہے اور بینظیر میڈیکل کالج کے طلبا نتائج کے لیے اورسسٹم کی بہتری کے لیے سراپا احتجاج ہیں آزادکشمیر میں کشمیر کونسل اور اسمبلی کے علاوہ ایک ادارہ سپریم کورٹ ہے جہاں ایک عہدہ چیف جسٹس آف آزادکشمیر کا بھی ہے ،قانون کی ایک اصطلاح سو مو ٹو ایکشن بھی موجود ہے ۔
کورے کاغذ کی سپیدی پر ترس آتا ہے
نامہ شو ق میں لکھنے کو رہا کچھ بھی نہیں
 

Usman Ghani
About the Author: Usman Ghani Read More Articles by Usman Ghani: 23 Articles with 17012 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.