منافق اور منافقت کے الفاظ ہماری روزمرہ زندگی کے لازمی
جز بن کر رہ گیے ہیں اپنی زندگی کو دوہرا میعار دے کر اس ایک جملے سے لوگوں
کو جھوٹی سچی صفائیاں دے کر خاموش کر دیا جاتا ہے کہ "یہ تو پاکستان ہے اس
میں یہی چلتا ہے " یا یہ کہ " پاکستانی ہیں بھائی ہم لوگ تو یہی کریں گے نا
" مگر اپنے سامنے والے کو یہ سہولت دینے پر ہم کبھی راضی نہیں ہوتے کہ وہ
بھی ہماری طرح پاکستانی ہے اسمیں بھی وہی خامیاں،خوبیاں ہیں جو ہم میں ہیں
-
اپنے وطن میں ہمارے انصاف کا میعار بس یہی ہے کہ " پانچ ہزاربندہ لٹکا دو "
یا " ابے دس ہزار ٹانگ دوسب ٹھیک ہوجاۓ گا " یہ کہہ کرمعاشرے کی صفائی کا
اعلان کرتے ہوئے مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ کتنا اچھا ہوان پانچ یا دس
ہزارمیں ہمارے رشوت خوروالد صاحب، سونےکی اینٹیں اکھٹی کرتےماموں جان،
سرکاری زمین پرقبضے کرتے چچا جان یا کنڈے ڈال کر بجلی چراتے پھوپھا جان
شامل ہوں -
اپنی عوام کے لیے " ڈنڈے دی قوم اے " کے گھٹیا اورتوہین آمیز جملے بولنے
والے پہلی فرصت میں "اس ملک میں کیا رکھا ہے "کا قول زریں بیان فرما کر
کینیڈین ویزہ لگوانے ایمبیسی پہنچ جائیں گے یہ سوچے بنا کہ ویزہ لگنے کی
نوید کے ساتھ آپ جس ملک میں داخل ہورہے ہیں وہاں محترم جسٹن تروڈو صاحب کے
نہ ہاتھ میں ڈنڈا ہے نہ بغل میں چھڑیجن جرنیلوں کی تعریفیں کرتے آپ نے آدھی
صدی گزاری کیا وہ آپکے آئیڈیل تھے یا جمہوری ملک کا منتخب وزیراعظم ؟
مغربی ممالک کے وزٹ ویزا لینےکےگرہوں یا شہریت لینے کی ترکیبیں ہم
پاکستانیوں کے نہ ذہن تھکتے ہیں نہ اپنی "ڈنڈے کی قوم "والے اقوال زریں یاد
آتے ہیں انکو تو بس آزاد ،جمہوری ،سیکولر ممالک میں کسی نہ کسی طرح ریہائش
اور ملازمت چاہیے اگر قسمت کی یاوری سے گوری گھاس ڈال دے تو وارے ہی نیارے
ہوجاتے ہیں پر جب اپنی بیٹی "گوری " بن کر کسی مرد کو گھاس ڈالنے کی عمر تک
پہنچتی ہے تو محترم ڈ یپ فرائی گولڈن براؤن صاحب کو اپنے برانڈڈ اسلام ،
عورت کی شرم و حیا اورباپ کی غیرت کے دورے پڑنے لگتے ہیں -
کوئی ان دو منہ والے مردوں سے پوچھے کہ بھائی جان !جس کی حسین ٹانگوں پرآپ
فدا ہوۓ تھے اب اسکی بیٹی کی ٹانگیں بھی اپنی ماں پر ہی جائیں گی آپکی دادی
پرتو نہیں جا سکتیں نا سیاسی بغض کی انتہا یہ ہے کہ اپنے ہاتھوں اپنے گھر
کے باہر کچرا پھینکتےہیں اورحکومت کا انتظارکرتے ہیں بلکہ اگر وزیراعظم
پسندیدہ سیاسی پارٹی کا نہ ہو یا آپ خود ہی "بوٹ والی پارٹی " سے عشق میں
مبتلا ہوں تو دلی مراد یہی ہوتی ہے کہ ملک کا منتخب جمہوری وزیراعظم جھاڑو
اور کچرے کی ٹوکری سر پر رکھ کر آئے اور آپکے گھر کے باہر پڑا کچرا اٹھاۓ
مگر یہی لوگ جب امریکہ، کینڈا یا یورپ پہنچ جائیں تو پانچویں کلاس کے بچے
کی طرح رٹا رٹایا سبق ایرپورٹ پر پہنچنے والے اپنے پاکستانی چاچا کےبیٹے کو
اس طرح سناتے ہیں "ا وے ! ایتھے آ تےگیا ں ا یں پر گلاں غور نال سن لے بیلٹ
بن پھلاں ، ! ایتھے جاہلاں وانگر تھوکن دی کوشش نہ کریں جرمانہ لگدا اے " (
یھاں آ تو گئے ہو لیکن یہ(باتیں غور سے سن لو اور پہلے سیٹ بیلٹ لگاؤ!!
یھاں جاہلوں کی طرح مت تھوکنا جرمانہ لگتا ہے-
یعنی انکے خیال میں پاکستان سے آنے والے انکے " گرائین" گویا اتنے ہی بے
وقوف ہیں کہ ایرپورٹ پر پہنچتے ہی جناب کے" اپناۓ" ہوۓ ملک میں تھوکنا شر و
ع کردیں گے اور ان جناب کا اپنا حال یہ ہے کہ پیدائشی وطن کے بارے میں دور
بیٹھے بھی کیڑے نکالنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں-
یعنی قاضی جی بیٹھے ہیں شکاگو میں اور دبلے ہورہے ہیں عمر کوٹ کے مکینوں کے
لیے .....کاش دبلے ہی ہوجاتے مگر نہ بھائی ! دبلے ہونے کا کوئی سین نہیں
معاملہ صرف اعتراض اٹھانے کا ہے ،تنقید کرنے کا ہے اور ہر انگلی اٹھانے
والے کی طرح محترم کی تینوں انگلیاں اپنی ہی طرف ہیں مگر یھاں دیکھ کون رہا
ہے-
ان میں اکثر وہی لوگ ہیں جو پاکستان میں خود تو اصولوں اورقوانین کی دھجیاں
اڑاتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ جگالی کرنا بھی نہیں بھولتے کہ فلاں نے اتنا
کھا لیا ، محل بنا لیا ، بچے نواب بنا لیے، ہمیں لوٹ لیا ، پاکستان کو تباہ
کر دیا وغیرہ وغیرہ
کبھی کبھی اسی جگالی سے اس قسم کے جملے برآمد ہوتے ہیں کہ آپ اندازہ نہیں
لگا پا ئیں گےیہ جناب محب وطن صاحب کو دوسروں کے کرپٹ ہونے کا غم کھاۓ جا
رہا ہے یا اپنے کرپٹ نہ ہونے کا غصہ ہے جو منہ سے جھاگ بن کر اڑ رہا ہے
ایسے "محب وطن عناصر " سے آپ بیرون ملک ملاقات کریں تو لگتا ہے کہ وہ اس
ملک کےآئین و قانون کی کتآ ب ہیں "یھاں سرگاڑی کے اندررکھتے ہیں ، پینڈوں
کی طرح شیشہ نیچے کرکے باہر مت جھانکو ، یھاں سب سے مسکرا کر ہیلو کہتے ہیں
، یھاں روڈ پرکوئی ہو نہ ہو سگنل پر رکتے ہیں، خط پوسٹ کرنا ہو یا چیک کیش
کروانا ہو یا مال سے شاپنگ لائین میں کھڑےرہو وہ بھی "سیدھے " ہوکر ، یھاں
بچوں کو ڈانٹتے نہیں، یھاں بزرگوں کے لیے را ستہ دیتے ہیں ، یہاں وہاں کچرا
نہیں پھینکو ، تھوکو مت ، بس ڈرائیور اور پوسٹ مین کی عزت کرنی ہے ،دوسروں
کی مذہبی روایت کا احترم کرنا ہے ، کسی کی سیاسی یا نسلی وابستگی پر ٹھٹھے
بازی نہیں کرنی ، خواتین کے لباس پر نظر نہیں رکھنی ، خواتین کو گھورنا
نہیں ہے ، یھاں یہ کرنا ہے یھاں وہ کرنا ہے وغیرہ وغیرہ " اور اگر کوئی
شامت کا مارا پوچھ لے کہ بھائی جی ! یہ سب کچھ آپ اپنے وطن میں کر لیتے تو
پردیس میں دوسرے ، تیسرے درجے کے شہری بننے کی بجائے آپ اپنے ملک میں ہی
عزت کی زندگی گزار رہے ہوتے تو مت پوچھیں جواب میں قاید اعظم کی بھول سے لے
کرزرداری کی مالیاتی پوزیشن تک اور لیاقت علی خان کے ہوا میں لہراتے مکے سے
شر ؤ ع کرتے ہوۓ نواز شریف کے بالوں کی ٹرانسپلانٹ تک سب سیاسی ؤ غیر سیاسی
شخصیات کے نئے پرانے"کپڑے " کس طرح گلی میں بیٹھ کر دھوے نچوڑے جاتے ہیں
ساتھ ساتھ میں گالیوں کا تڑکہ وہ بھی ایسا کرارا جیسے" لہسن کا تڑ کہ "
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں ریھایش کے دوران جتنا وقت ہم دوسروں
کے گریبانوں کو پھاڑنے میں صرف کرتے ہیں آخر ہم اتنا یا اس سے آ دھا وقت
اپنے گریبان میں کیوں نہیں جھانک لیتے ؟
جب ہم بیرون پاکستان پہنچ کر قوانین کا احترام کرتے ہیں تو اپنے ملک میں
"بھیڑ چال "کا شکار کیوں ہوجاتے ہیں ؟
جب ہم ملک سے باہر آکر اصولوں کی کشتی میں سوار ہو سکتے ہیں تو اپنی دھرتی
ماں کو کیوں بے اصولی ،بے ضابطگی اور بے پرواہی کی ٹوٹی پھوٹی کشتی بنا کر
سمندر میں غرق کرنا چاہ رہے ہیں ؟؟
کیا یہ کم منافقت ہے کہ ہم سب سے انصاف ، دیانت داری ، جمہوری رویے اور
تھذیب کی امید رکھتے ہیں مگر اپنے آپ سے نہیں ؟؟ |