“ وہ کافی دیر روتی رہی ، بہت دیر رو لینے کے بعد وہ چینج
کرنے واش روم میں چلی گئی ۔ جب وہ چینج کر کے واپس آئی تو کمرہ والی کے
خراٹوں سے گونج رہا تھا ۔
“ کیسے مزے سے سو رہا ہے “ اسنے بر بڑاتے ہوئے کہا اور ڈریسنگ کے گے کھڑی
ہو کر بے دردی سے زیور اتارنے لگی۔
والی کی ایک عادت تھی جو اس وقت حسنہ کو فائدہ دے رہی تھی ، وہ یہ تھی کہ
وہ لائٹ آف کر کے نہیں سوتا تھا جس کا فائدہ اب حسنہ کو ہو رہا تھا۔
سارا زیور اتارنے کے بعد وہ صوفہ پر آ کر بیٹھ گئی ۔ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ
کر رونے لگی جیسے ہی اسکی زرا سی آواز تیز ہوئی اسنے فورا منہ پر ہاتھ رکھ
لیا کیوں کے والی نے کروٹ لی تھی ۔
وہ اسکا پہلا جاہلانہ رویہ نہیں بھولی تھی اگر وہ اب اسکی آواز سے جاگ جاتا
تو وہ پتا نہیں اسکے ساتھ کیا سلوک کرتا۔
“ ابھی میں کچھ گھنٹے پہلے کتنا خوش تھی ۔ کیا کبھی کسی نے سوچا کچھ دیر
بعد اسکے ساتھ کیا ہونے والا ہے ؟ انسان اپنے حال میں کیسے خوش رہ لیتا ہے
جبکہ اسکو یہ تک پتا نہیں ہوتا کہ اگلا لمحہ اسکے لئی قیامت کا بھی ہو سکتا
ہے ۔“ وہ بغیر آواز کے روتے ہوئے اپنے ہاتھوں کی مہندی دیکھ کر خود سے ہی
سوال کر رہی تھی ۔
“ یا اللہ میں جانتی ہوں تو جسے خود سے قریب کرنا چاہے اسے آزمائش میں ڈال
دیتا ہے۔ میں تیار ہوں ہر قسم کی آزمائش کے لئے اے میرے رب ،،،،،،،بس والی
کو مجھ سے دور نہ کرنا ،،،،،اسے میرا ہی رہنے دینا ،،،،،بھلے وہ مجھ سے
نفرت کرے پر ہے تو میرا نہ“ وہ اوپر منہ کر کے اللہ سے ہمکلام تھی ۔ آنسوں
تیزی سے اسکے گال بھگو رہے تھے ،پر لبوں پر مسکان لئے وہ اللہ سے دل کا حال
کہہ رہی تھی ۔
وہ بچپن سے ہی ایسی تھی جب بھی کوئی بات ہوتی تھی وہ چھت پر جا کر اللہ سے
باتیں کرتی ۔ جب خوب دل ہلکا ہو جاتا تو ہلکی پہلکی ہو جاتی ۔
“ یا اللہ تو جانتا ہے نہ ؟ میں نے آج تک کسی کے ساتھ برا نہیں کیا پھر
میرے ساتھ ایسا کیوں “ اتنا کہہ کر وہ چہرہ دونوں ہاتھوں میں لے کر رونے
لگی۔ کافی دیر رو لینے کے بعد اب اسکا دل ہلکا ہو گیا تھا اسے صبر آگیا تھا
۔ وہ جانتی تھی اسے صبر کس نے دیا اسکے دل کو تسلی کس نے دی ۔
“ آزمائشیں تو نبیوں والیوں پر بھی آئی ہیں ، مٰیں تو پھر ایک معمولی انسان
ہو مجھے معاف کر دے ،،،،،میں تیار ہوں بس مجھے ٹوٹنے نہ دینا “ وہ اتنا کہہ
کر اٹھی اور ایک بار پھر واش روم میں جا کر اچھے سے منہ دھو کر سونے کے لئے
صوفے پر جا کر لیٹ گئی ۔ اور سونے کی ناکام کوشش کرنے لگی جبکہ وہ اچھے سے
جانتی تھی کہ وہ سو نہیں پائے گی ۔ کچھ اے سی کی ٹھنڈک اسکا وجود سن کئے جا
رہی تھی وہ کچھ نہیں جانتی تھی کہ کونسی چیز کہاں پڑی ہے پھر بھی وہ اپنا
دوپٹہ اوڑھ کر لیٹ گئی ۔اور کل کے دن سب کے سامنے “ سب ٹھیک ہے “ کی
ایکٹینگ کرنے کا سوچنے لگی-
دروازہ بجنے کی آواز سے اسکی آنکھ کھلی ، جانے کب اس پر نیند مہربان ہوئی
کب اسکی آنکھ لگی ۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی کچھ رات کے واقعے کا سبب بھی تھا
کہ وہ یوں ہڑبڑا اٹھی۔
“ میں تو رات دوپٹہ اوڑھ کے سوئی تھی یہ لحاف کہاں سے آیا ؟ “ حسنہ ابھی یہ
خود سے سوال کر ہی رہی تھی کہ دروازہ ایک بار پھر سے بج اٹھا۔ وہ جلدی سے
خود کو لحاف سے آزاد کرتی دروازے کی طرف لپکی تو سامنے آنٹی کھڑی نظر آئی ،
وہ جلدی سے دوسری طرف ہٹ گئی تاکہ آنٹی اندر آجائیں ۔
شازمہ اسے دیکھ کر مسکرانے لگی اور آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا کر اسکا
ماتھا چوم لیا۔ حسنہ جلدی سے چیزیں سمیٹنے لگی جو اس نے غصے سے یہاں وہاں
پھیلائی تھی ۔
“ارے بیٹا رہنے دو ملازمائیں دیکھ لیں گی ، اور یہ والی رضا کہاں ہے “
شازمہ نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔ حسنہ نے بیڈ کی طرف دیکھا تو وہاں
والی نہیں تھا اسے خود ابھی پتہ چلا کہ وہ کمرے میں اکیلی تھی ۔ اسنے وہاں
دیکھنے کی کوشش بھی نہیں کی جہاں وہ لیٹا تھا ۔ “ وہ ،،، وہ پتا نہیں آنٹی!
میں خود ابھی سو کر اٹھی ہوں “
“ چلو کوئی بات نہیں بیٹا! یہی کہیں گیا ہوگا، آجائے گا ۔ ادھر دیکھو زرا
،،، میری طرف “ شازمہ نے حسنہ کی سرخ سوجی ہوئی آنکھیں دیکھ کر کہا ۔
حسنہ کو نا چاہتے ہوئے بھی شازمہ کی طرف دیکھنا پڑا “ کیا ہوا ہے بیٹا!
،،،،“ وہ آنٹی کچھ نہیں ہوا بس رات دیر تک جاگنے کی وجہ سے ،،،بس اور کچھ
نہیں ،،،،کوئی بات نہیں “ حسنہ کے منہ میں جو آیا اسنے کہہ دیا ۔ شازمہ
معنی خیز ہنسی ہنسنے لگی ۔ تو حسنہ اپنے بنا سوچے سمجھے بولے جانے پر
شرمندہ ہو کر سر کو جھکا کر بیٹھ گئی ۔ اتنے میں والی آگیا جو جوگنگ کرنے
گیا تھا ۔۔ |