پاکستان کے خوبصورت علاقے سوات کو جہاں قدرت نے بے پناہ
خوبصورتی سے نوازا ہے وہاں اس خوبصورت جنت نظیر وادی میں کئی طرح کے
معدنیات کی کانوں نے بھی دنیا بھر میں سوات کو منفرد بنادیا ہے ، آج ہم
اپنے قارئین کو پاکستان کے سوئٹزر لینڈ سوات میں موجود سبز سونا سے مزین
زمرد کی کانوں کی سیر کرائیں گے ۔ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کے نواح میں
واقع فضاگٹ کے ساتھ ساتھ تحصیل بریکوٹ کے علاقے شموزئی اور سوات کے مشرق
میں واقع ضلع شانگلہ کے علاقے میں بھی دنیا کی مشہورزمرد کی کانیں موجود
ہیں جن سے علاقے کے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ فضا گٹ کے مقام پر
واقع زمرد کان سے نکلنے والے زمرد کو دنیا کا سب سے بہتر اور قیمتی زمرد
مانا جاتا ہے جس کے گہرے سبز رنگ کا طلسم دیکھنے والے پر سحر طاری کر دیتا
ہے۔زمرد کو عام طورپر زیورات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ لوگ اس سے بنے نگینے
کو شوق سے انگوٹھی میں جڑا کر پہنتے ہیں۔ اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے پتھروں
کو ہار کی شکل میں پرو کر بھی پہنا جاتا ہے۔زمرد سے تیار کردہ نگینے کا
استعمال انگوٹھیوں اور زیورات میں ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں دستی گھڑیوں کی
مشہور برانڈ رولیکس میں بھی زمرد لگایا جا تا تھا۔ پتھروں کے ماہرین کے
مطابق قیمت زیادہ ہونے کے باعث اب اس کا رجحان کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے
اور زیادہ تر زمرد بیرون ملک فروخت کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔
اس پتھر کی مانگ ویسے تو پوری دنیا میں ہے تاہم جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی
ایشیا کے ملکوں بالخصوص سنگاپور اور چین میں اس سے بنی ہوئی مصنوعات کوبے
حد پسند کیا جاتا ہے۔ سوات کے علاقے فضاگٹ کے مقام پر زمرد کی کان میں
سینکڑوں مزدو رروزانہ کھدائی کام کرتے ہیں۔ کان کے مالک خالد خان کے مطابق
اس کان پر حکومت کو سالانہ ایک کروڑ دو لاکھ روپے چالیس ہزار کی ادائیگی کی
جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے حکومت کی جانب سے سہولیات کی عدم
فراہمی کا شکوہ بھی کیا اور کہا کہ حکومتی غفلت اور عدم توجہی کی بناءپر
سبز سونا کے یہ کان اپنی دریافت کے دن سے لے کر تادم اسی طرح منافع بخش
ثابت نہیں ہوسکیں ہیں جس طرح ہونا چاہئے تھا۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں
نے کہا کہ سوات میں موجود فضاگٹ کے مقام پر زمرد کی کان کا کل رقبہ 182
ایکڑ ہے، جو وسیع و عریض پہاڑی علاقے میں پھیلا ہوا ہے لیکن مناسب سہولیات
نہ ملنے اور حکومتی عدم توجہی کی بناءپر اس کے صرف10 ایکڑ رقبے میں کھدائی
ہورہی ہے۔ قیمتی زمرد کی اس کان میں کئی سو میٹر تک سرنگیں بنائی گئی ہیں،
جن میں مزدور کھدائی کرتے ہیں ان کا نوں سے نکلنے والے قیمتی زمرد کو جدید
مشینری نہ ہونے کے باعث تراشنے اور اسے بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے
میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ د س ایکڑ حصے میںکھدائی کے علاوہ اتنا طویل
عرصہ گزرنے کے باﺅجود باقی کان تاحال یونہی پڑا ہوا ہے ۔ خالد خان کا کہنا
ہے کہ جدید سہولیات اور بنیادی ڈھانچے کے فقدان کے باعث حکومت کو اس کان سے
کوئی قابل ذکر منافع نہیں ملتا اور اسی طرح اس کان کو لیز پر لینے والے
ٹھیکیدار بھی مسلسل نقصان کا شکار چلے آرہے ہیں جس کی وجہ سے کوئی ان
کانوںمیں کام کرنے میںدل چسپی نہیں لے رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اکیسویں صدی
میں بھی اس کان کے اندر سرنگیں کچی ہیں‘ کھدائی روائتی طریقے سے کی جاتی ہے
جو بہت ہی مشکل کام ہے۔
ویسے تو دنیا بھر میں زمرد جیسے قیمتی پتھر کی مانگ بہت زیادہ ہے لیکن اپنے
خوبصورت اور گہرے سبز رنگ کی وجہ سے پاکستانی زمرد کو بین الاقوامی منڈیوں
میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور دنیا بھر کے جوہری اور زمرد پہننے کا شوق
رکھنے والے سوات کے زمردکو شوق سے خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔سوات میں
برآمد ہونے والا زمرد بین الاقوامی معیار کا قیمتی پتھر سمجھا جاتا ہے جو
اپنی انفرادیت، رنگ اور خوبصورتی کے لحاظ سے دنیا بھر میں شہرت کا حامل ہے۔
قیمتی پتھروں کے ماہرین کے مطابق سوات کی زمرد کان سے زیادہ تر پتھر ایک سے
لے کر پانچ قیراط تک وزن کے ہوتے ہیں، جن کی قیمت پچاس ہزار سے لے کر کئی
لاکھ تک ہوتی ہے ۔ قیمت کا دار و مدار کٹائی اور کوالٹی پر ہوتا ہے۔محکمہ
معدنیات کے مطابق حکومت بند پڑی کانوں کو جلد کھولنے پر غور کر رہی ہے اور
اس حوالے سے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو ان کانوں میں دل چسپی لینے اور
راغب کرنے کے لئے کئی اداروں سے بات چیت چل رہی ہے۔ لیکن اس کے باﺅجود یہ
بات اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ملک میں مناسب سرپرستی نہ ہونے کی وجہ
سے سوات کی عوام کو ان کانوں سے کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے اور نہ ہی ملک کو
اس سے کوئی فائدہ پہنچانے کے بارے میں کوئی غور کیا گیا ہے ۔ حد تو یہ ہے
کہ ذمہ داروں کی غفلت کے باعث 1958 میں والئی سوات کے ریاستی دور میں
دریافت ہونے والی قیمتی زمرد کی ان کانوںکو غیر منافع بخش قرار دے کر 1996
میں بند کیا گیا تھا اور 9 سال تک بند رہنے والے ان قیمتی کانوںکو بعدازاں
سال 2005 میں سوات کشیدگی کے دوران عسکریت پسندوںنے قبضہ میں لے کر بری طرح
تاراج کرڈالا۔
سوات کی اس خوبصورت قدرتی دولت کی کان میں کھدائی کرنے والی نجی کمپنی کے
مالک خالد خان کے مطابق عسکریت پسندوں کے قبضے کے دوران کان کا حلیہ بگاڑ
دیا گیا ۔ ان دنوں روزانہ تین سے چار ہزار افراد کان میں کام کرتے تھے اور
ملنے والے قیمتی پتھروں کو بیرون ملک فروخت کرتے رہے، صاف الفاظ میں عسکریت
پسندوں نے اس کان کو بے دردی سے لوٹا۔واضح رہے کہ سوات میں زمرد کانوں کی
دریافت 1958ءمیں والی سوات کے ریاستی دور میں ہوئی جسے بعد میں سرحد
ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے حوالے کر دیا گیا لیکن ناتجربہ کاری کے باعث ا نہوں
نے1996 میں اس کان کو بند کر دیا۔ عسکریت پسندی کے بعد جب سوات میں فوجی
اپریشن کے نتیجے میں امن بحال ہوا تو پندرہ سالہ بندش کے بعد زمرد کی اس
کان پر 2010ءمیں دوبارہ کھدائی کا کام شروع کردیا گیا۔ چونکہ یہ کام
انتہائی مشکل اور خطرناک ہے جسے حکومت سرپرستی کے بغیر چلانا ممکن نہیں
لیکن نامعلوم وجوہات کی بناءپر اس طرح کی کانوں پر حکومت کوئی توجہ نہیں دے
رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب ایک ٹھیکیدار اپنا پورا سرمایہ اس کان کو لیز پر
لینے کے لئے خرچ کرتا ہے تو پھر مزید وسائل نہ ہونے اور جدید سہولتوں کی
عدم دستیابی کے باعث ان سرنگوں میں پرانے اور روایتی طریقوں سے کام کرنے پر
مجبور ہوتے ہیں جو مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ہوتا ہے۔ یہی بنیادی
نکتہ ہے کہ نکلنے والی زمرد کا معیار وہ نہیں رہتا جو بین الاقوامی معیار
کے لئے درکار ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پھر اس قیمتی زمرد کی اونے پونے
داموں خرید و فروخت کی جاتی ہے۔ مناسب سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے سوات سے
برآمد ہونے والے زمرد کی مقامی سطح پر نیلامی ہوتی ہے اور بعض بیوپاری اونے
پونے داموں خرید نے والے زمرد کو بھارت اور تھائی لینڈ میں کٹائی کے بعد ان
پتھروں کو دبئی، امریکا، آسٹریلیا اور دیگر ملکوں میں فروخت کرتے ہیں۔ کان
میں کام کرنے والے ایک مزدور کے مطابق جدید سہولیات اور مشینری نہ ہونے کے
برابر ہے۔ کھدائی کے دوران برآمد ہونے والے قیمتی زمرد کی پتھروں کو جال
نما ٹرے میں ہاتھوں سے رگڑا اوردھو کر زمرد کو الگ کیا جاتا ہے اور اس عمل
کے دوران اکثر رگڑ کھانے سے قیمتی زمرد کے ٹکڑے ناکارہ ہوجاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سوات میں موجود زمرد کی کانوں کو دنیا بھر میں زمرد کی بڑی
کانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہاں سے نکلنے والے پتھروں کو ان کے سائز اور
خوبصورتی کے اعتبار سے جانچ کر الگ مقام دیا جاتا ہے اور اسی اعتبار سے ان
کی قیمت کا تعین بھی کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے سوات کی زمرد کان سے برآمد
ہونے والے پتھروں کو ملک میں کٹنگ انڈسٹری نہ ہونے کے باعث کٹائی کے لیے
مجبوراًبھارت اور تھائی لینڈ بھیجا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ طویل عرصہ تک
سوات کے قیمتی اور خوبصورت زمرد کے بارے میں جانکاری نہ ہونے کی وجہ سے اور
بھارت میں تراش خراش کا عمل مکمل ہونے پر بیرون ممالک میں لوگ سوات کی زمرد
کو بھارتی زمرد سمجھتے تھے لیکن اب لوگ جان گئے ہیں کہ یہ قیمتی
پتھرپاکستان کے علاقے سوات کی زمرد ہے۔
زمرد کے کاروبار سے وابستہ تاجروں برکت اور عبداللہ کا کہنا ہے کہ حکومت کو
چاہیے کہ وہ سوات میں مقامی سطح پر ان قیمتی پتھروں کی کٹائی کیلئے انڈسٹری
لگائے تاکہ ملنے والے پتھر ملک کے اندر ہی تیاری کے مراحل سے گزریں اس سے
یقینی طورپر دُہرے فائدے حاصل کئے جاسکتے ہیں ایک تو سوات میں مقامی سطح پر
روزگار کے مواقع پید ا ہونے سے لوگوں کی معاشی حالت میں بہتری آئے گی تو
دوسری جانب اس قیمتی پتھر کی ملکی سطح پر جدید انداز میں تراش خراش کی
سہولت حاصل ہونے سے زمرد کی تاجران کو بھارت ، تھائی لینڈ اوردیگر ممالک
میں ان پتھروںکی تراش خراش کے لئے جانے کی صعوبت سے نجات ملے گی اور جو
اخراجات ان پتھروں کو تراشنے میں دیگر ممالک کو جاتے ہیں وہ اپنے ملک میں
رہ کر یہاں کی تعمیر وترقی کے منصوبوں کے لئے بروئے کا رلائی جاسکے گی جس
سے یقینی طورپر ملکی ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی ۔ |