آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان 10 اپریل 1973ء کو
پارلیمنٹ کی جانب سے باضابطہ طور پر پاس کیا گیا، جبکہ 12 اپریل 1973 ء کو
صدر پاکستان نے آئین پاکستان کی باضابطہ منظوری دی ۔ پاکستان بھر میں جشن
یوم دستور گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی پروقار انداز میں منایا جارہا ہے
۔ المیہ یہ ہے کہ آئین پاکستان موجود ہونے کے باوجود ،ریاست پاکستان میں
قانون کا نفاذ بظاہر سب کے لئے برابر نہیں، یہاں امراء قانون سے بالاتر نظر
آتے ہیں ، سمجھ سے بالاتر ہے کہ ملک کے خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والی بڑی
بڑی مچھلیاں قانون کے آہنی شکنجے سے کیسے بچ نکلتی ہیں؟ یہ بھتہ مافیا، یہ
ٹیکس چور، یہ قبضہ مافیا، یہ کرپٹ افرادآخر کب قانون کی گرفت میں آئیں گے،
اور فوج کو کب تک ان کا تعاقب کرنا پڑیگا۔ جبکہ دستور پاکستان میں مساوی
انصاف کی فراہمی کی ضمانت دی گئی ہے،آرٹیکل 5 کے تحت ریاست سے وفاداری ہر
شہری کی بنیادی ذمہ داری ہے۔وہ جہاں بھی رہے آئین اور قانون کی اطاعت کا
پابند ہے۔ آرٹیکل 52واضع کرتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔آرٹیکل
73ڈی کے مطابق عوام کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری
ہے۔ آرٹیکل 83اے بلا تفریق جنس، رنگ و نسل عوام کی حالت بہتر بنانے کیلئے
دولت اور پیداواری ذرائع کے چند ہاتھوں میں ارتکاز اور انکی عوامی مفاد
کیلئے نقصان دہ غیر منصفانہ تقسیم سے منع کرتا ہے۔آرٹیکل 83بی کے مطابق
ریاست دستیاب وسائل میں رہ کر ہر شہری کو روزی روٹی اور مناسب تفریح کے
یکساں مواقع فراہم کرنے کی پابند ہے۔آرٹیکل 83ڈی کے مطابق ریاست شہریوں کو
بلا تفریق روٹی کپڑا اور مکان، تعلیم، طبی سہولیات جیسی بنیادی ضروریات
زندگی فراہم کرنے کی پابند ہے۔اگر قیام پاکستان کے مقاصد پر غور کیا جائے
تو دستور ساز اسمبلی سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا خطاب ہی
ہمارے لئے کافی ہے۔انہوں نے ہمیشہ اقرباء پروری ، سفارش اور رشوت جیسی
لعنتوں کا قلع قمع کرنے اور بلا تفریق انصاف کی ضرورت پر زور دیا۔
مخذوم قبیلہ کی فاطمہ بنت الاسود نے جب چوری کا ارتکاب کیا تو اسوقت چور کی
سزا ہاتھ کاٹنا مقررتھی۔ قریش کو یہ تشویش لاحق ہوئی کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ
علیہ و سلم سے کون کہے کہ اس عورت سے نرمی برتی جائے۔ حضورصلی اﷲ علیہ و
سلم سے نسبت کی بنا ء پر اسامہ بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اس مقصد کیلئے
تیار کر کے مخذومی عورت کو حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کے سامنے پیش کر دیا گیا
مگر اسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جب اس کی سفارش کی تو آپ صلی اﷲ علیہ و سلم
کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کیا تم اﷲ کی
مقرر کردہ سزاء میں سفارش کر رہے ہو ؟اسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے معذرت کر
لی۔اس موقع پر آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے کھڑے ہو کر اﷲ کی حمد و ثناء کے بعد
لوگوں سے جو خطاب فرمایا اس کا مفہوم کچھ یوں ہے۔ ’’ اے لوگو! تم سے پہلی
قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ جب کوئی بڑاآدمی جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا
اور جب کوئی معمولی شخص اسی جرم کا ارتکاب کرتا تو اسے سزا دے دی جاتی۔ قسم
ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد صلی اﷲ
علیہ و سلم بھی چوری کرتی تو میں اسکا بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا‘‘۔ حضرت
عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ایک عام آدمی ان سے خطبے کے
دوران ان کے کرتے کے بار ے میں سوال کرتا ہے اور وہ خندہ پیشانی سے جواب
دیتے ہوئے اس کی وضاحت پیش کر نے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ انکے دور
میں گورنر وں کو قانون کی خلاف ورزی کی پاداش میں سزا بھگتنا پڑی۔ حضرت علی
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خلیفہ کی حیثیت سے بیت المال کے حساب کتاب میں مشغول ہیں
اس دوران طلحہ اور زبیر کے آنے پر چراغ اسلئے بجھا دیتے ہیں کہ اس میں بیت
المال کا تیل جل رہا ہے۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا زیادہ تر زور قیام انصاف
پر نظرآتا ہے۔ حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کربلا کے میدان میں
تاریخ کی بے مثال قربانی دی مگر ایک فاسق فاجر اور ظالم حکمران کی بیت نہ
کی۔ لیکن صد افسوس پاکستان میں بڑے مگرمچھ قانون کی گرفت سے صاف بچ نکلتے
ہیں۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ اگر یہ مگر مچھ قانون سے بالا رہتے ہیں توسسٹم
کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟ اربوں روپے کی لوٹ کھسوٹ کے مقدمات ہوتے ہیں
اور پھر کئی کئی سال عدالتی کاروائی کے علاوہ میڈیا ٹرائل بھی ہوتا رہتا
ہے۔تفتیش اور پراسیکیوشن پر خطیر رقوم قومی خزانے سے صرف ہوتی ہے، مگر یہ
مگرمچھ مکھن سے بال کی طرح بچ نکلتے ہیں۔ جہاں تک عدالت کا تعلق ہے جب ثبوت
نہیں ہوگا تو عدالت کسی کو سزا نہیں دے سکتی۔ سمجھ سے بالاتر یہ ہے کہ
اسقدر کمزور مقدمات پیش کر کے عدالتوں کا قیمتی وقت ضائع کرنے ، کارروائی
پر خطیر رقوم ضائع کرنے اور قوم کو سالہا سال تک سسپنس میں مبتلا رکھنے میں
کیا مصلحت کارفرما ہوتی ہے۔ اگر ٹھوس ثبوت کے باوجود محض تیکنیکی بنیادوں
پر قومی مجرم چھوٹ جائیں تو یہ لمحہ فکریہ ہے اور ایسی صورت میں ضابطوں پر
نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ قطع نظر اسکے کہ ملک ایک دہائی سے زائد عرصہ سے
منظم دہشتگردی کیخلاف ملک حالت جنگ میں ہے اور یہ جنگ آرمی چیف جنرل قمر
جاوید باجوہ کی قیادت میں اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
نوشتہ دیواریہی ہے کہ ہمیں اپنی صفوں میں پائی جانے والی کالی بھیڑوں اور
غریب کے منہ سے نوالہ چھین کر اپنی راہ لینے والے ناقابل احتساب مگرمچھوں
کی خبر لینا ہوگی۔ ملک سے دہشت گردی کی طرح ، بلا امتیاز قانون کی فراہمی
اور کرپشن ، بدعنوانی، اقرباء پروری اور شفارش کلچر کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
بلاشبہ قانون کی بالادستی کے بغیر خوشحال پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر
نہیں ہو سکتا۔ |