اظہار رائے کی آزادی

 اظہار رائے کی آزادی سے کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان تقریر و تحریر میں آزاد ہے اور کسی بھی فکر، نظریہ، سوچ، عمل اور نظام کے بارے میں اپنا ایک خاص نقطہ نظر قائم کر سکتا ہے اور کسی بھی فکر، سوچ، نظریہ یا عمل کی حمایت کر کے اس کی ترویج کر سکتا ہے یا پھر تنقید کرنے سے اس کی اصلاح یا اس سے یکسر منحرف ہو جانے کا بھی حق رکھتا ہے۔ آزادی رائے انسان کا بنیادی اخلاقی حق ہے، جس سے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ حق شعور کو پروان چڑھا کر بہت ساری گتھیوں کو سلجھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ تحقیق کے نئے ابواب سے روشناس کرواتا ہے۔ اجتماعی شعور سے اخذ کی گئی متنوع قسم کی آراء جب باہم ملتی ہیں تو وہ اجتماعی مفاد پر متنج ہوتی ہیں۔ اختلافِ رائے کو قبول کرنے کی بنیاد یہ تسلیم کرنے میں ہے کہ لوگوں کا زاویہ نظر مختلف ہوتا ہے اور ان کی جانب سے کسی بھی تصور کے حوالے سے کی جانے والی تشریح مختلف ہو سکتی ہے۔

’’اظہارِ رائے کی آزادی‘‘ کا مفہوم تو یہ ہے کہ کسی کو بھی کھل کر اپنا نقطہ نظر بیان کرنے، سوال اٹھانے، اختلاف اور تنقید کرنے کی اجازت ہے، لیکن کسی دوسرے کی تذلیل اور کردار کشی کرنے اور دوسروں پر تہمتیں لگا کر اس کو نقصان پہنچانے کی کسی کو اجازت نہیں ہے۔ اظہار رائے کی آزادی میں تنقید کا حق بجا ہے، لیکن یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ جہاں تنقید کی حد ختم ہوتی ہے، وہاں سے ہی تذلیل کی سرحد شروع ہو جاتی ہے اور کسی کی تذلیل کرنا ہر معاشرے میں برا عمل گردانا جاتا ہے۔ کئی لوگ تنقید کرتے کرتے تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں اور نفرت انگیز مذہبی و سیاسی تقاریر کرنے، شرانگیز بیانات دینے، کسی کی عزت کو داغدار کرنے، کسی کی توہین و تحقیر اور تذلیل کرنے، کسی کے مذہب، مسلک، فرقے اور کسی کی محترم شخصیت پر انگلی اٹھانے کو رائے کی آزادی سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ آزادی رائے کے اخلاقی حق کی کھلی خلاف ورزی اور ان کی شعوری پستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

دنیا کے کسی بھی معاشرے میں رائے کے اظہار کی ایسی آزادی نہیں دی جاتی، جس سے دوسروں کے جذبات مجروح ہوں۔ ہر معاشرے نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اظہار رائے کی حدود مقرر کی ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 1966 میں پاس کی گئی ایک قرار داد (ICCPR) کے مطابق ضروری ہے کہ کوئی بھی ایسی تقریر یا تحریر جو کسی ملک میں رہنے والے کسی بھی فرد یا گروہ کی مذہبی، قومی یا نسلی مخالفت یا دل آزاری کا سبب بنے اور ان کے خلاف نفرت یا حقارت کا اظہار کرے تو اس ملک کا فرض ہے کہ اس کو روکے اور اس کے خلاف قانون سازی کرے، جبکہ متعدد یوپین ممالک میں آزادی اظہار رائے پر بہت سی پابندیاں ہیں۔ بیلجیم میں ایک قانون کے مطابق کسی کو یہ رائے دینے کی اجازت نہیں ہے کہ ہولوکاسٹ نہیں ہوا تھا۔ اگر کوئی کسی بھی بنیاد پر ہولوکاسٹ سے انکار کرنے کی جسارت کرتا ہے تو اس کے لیے قید اور جرمانے کی سزا ہے۔ کینیڈا میں بھی ہولوکاسٹ کے خلاف بات کرنے کی ممانعت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انگلینڈ، فرانس، جاپان، ہالینڈ، ناروے سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں یہ قانون موجود ہے کہ کسی گروہ، نسل، مذہب کی تضحیک یا دل آزاری پر مبنی تقریر نہیں کی جا سکتی۔ بھارت کے آئین کے مطابق بھی کوئی ایسی تحریر یا تقریر جو بھارت کی سالمیت کے خلاف ہو، اخلاق یا مذہب کے خلاف ہو، عوام میں بے چینی پھلانے کی وجہ یا کسی کی ہتک کا باعث بنتی ہو یا کسی دوست ملک کے خلاف ہو تو اس پر پابندی بھی ہے اور اس پر سزا بھی دی جا سکتی ہے، لیکن اپنے قوانین کو بھول کر مغربی ممالک پاکستان اور مسلمانوں کو آزدی اظہار رائے کے بارے میں مشورے دیتے نظر آتے ہیں۔ یورپ کے دوغلے پن کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جہاں خود اپنے شہریوں کو اظہار رائے کی مکمل آزادی نہیں ہے، وہاں آزادی رائے کے اظہار کی دھجیاں اڑاتے ہوئے فریڈم آف سپیچ کے نام پر شعائرِ اسلام کا مذاق اڑایا جاتا ہے، مقدس ہستیوں، پیغمبرِ اسلام کو معاذ اﷲ برا بھلا کہا جاتا ہے، اسلام کی ہتک اور تذلیل کی جاتی ہے، اسلامی ہیروز کو ظالم بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور مسلمانوں، حجاب، قرآن، مساجد، اسلامی تعلیمات اور اسلامی شعار کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، جسے کسی طور بھی ’’فریڈم آف سپیچ‘‘ نہیں کہا جاسکتا، بلکہ یہ ’’فریڈم آف سپیچ‘‘ کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔

دوسروں کے جذبات کو مجروح کرنے کو آزادی سمجھنے والے مغربی ممالک یہ الزام عاید کرتے ہیں کہ اسلام اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہے، لیکن حقیقت میں اسلام ہی نے سب سے پہلے انسانوں کو اظہار رائے کی آزادی دی۔ اسلام سے قبل روم و فارس میں لوگوں کو حکمرانوں کے خلاف ایک لفظ کہنے کی اجازت نہ تھی۔ اسلام نے انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر آزاد کروایا اور اعلان کیا کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور اسے آزادی سے زندگی گزارنے کا پورا حق حاصل ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے دور میں جب گورنر حضرت عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہ کے بیٹے نے ایک شخص کو کوڑے مارے تو اس وقت حضرت عمر نے حضرت عمر و بن العاص سے فرمایا تھا: ’’اے عمرو! تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا لیا، جب کہ ان کی ماؤں نے ان کو آزاد جنا تھا۔‘‘رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کو پختہ رائے سازی اور اظہار راے کے تمام تر وسائل کی تعلیم دینے میں ایک شان دار نمونہ عطا کرتے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے صحابہ رضی اﷲ عنھم کے ساتھ مشاورت، مراجعت، گفتگو اور اپنی غیر موجودگی میں اجتہاد کی ترغیب بھی دی، جو آزادی اظہار رائے کی مضبوط دلیل ہے۔
 
راے کے اظہار کی آزادی کو اسلام محض ایک اختیاری حق قرار نہیں دیتا، بلکہ یہ اس کا فرض، ذمہ داری اور امانت ہے، جسے ہر حال میں مسلمان کو ادا کرنا چاہیے۔ حدیث میں آتا ہے کہ: ’’ظالم سلطان کے سامنے حق بات کہنا افضل جہاد ہے۔‘‘ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ راے کے اظہار کی آزادی محض حق نہیں، بلکہ ذمہ داری ہے، جسے ادا کرنا ضروری ہے، چاہے اس کی ادائی میں کچھ قربانیاں بھی دینا پڑیں۔ اگر کوئی شخص حکمرانوں میں بھی کوئی برائی دیکھے تو بھی اپنی رائے کا اظہار کرے، مگر رائے کی آزادی کے ساتھ اسلام نے انسان کو رائے دینے میں کچھ حدود کا پابند بھی کیا ہے۔ سورہ حجرات میں اظہار رائے کی حدود بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان کسی کا تمسخر نہیں کرسکتا، کسی کی غیبت نہیں کرسکتا، کسی پر بہتان، الزام تراشی، یاکسی کی ذاتی زندگی کے عیب نہیں ٹٹول سکتا، حتی کہ کسی کو برے نام اور القاب سے نہیں پکار سکتا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے ہر معاملے میں انسان کو ایسے قوانین عطا کیے ہیں، جن پر عمل کیا جائے تو کسی بھی انسان کو تکلیف نہ پہنچے اور دنیا میں امن و سکون کا راج ہو۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701914 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.