دورحاضر میں کچھ ناممکن نہیں،اگر کچھ ناممکن نظر آتا ہے
تو’’حضرت انسان‘‘ کو مطمئن کرنا۔کیونکہ جب تک انسان مطمئن نہیں ہوتا تب تک
مسابقتی دوڑ میں اوّل آنے کی جستجو جاری رہے گی۔سازشیں کرنا،شکوک پیدا
کرنااورجاسوسی کرنا ایسے عناصرہیں جو ازل سے جاری ہیں اور ابد تک انسان کے
ساتھ ساتھ چلتے رہے گے۔کمپیوٹر کی پیدائش سے انسان کی چالاکیوں میں مزید
اضافہ ہوا اور آج نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ انسان کوگھر بیٹھے خلاتک رسائی
حاصل ہوچکی ہے یعنی باآسانی کئی امور بیک وقت اور کم وقت میں نبٹائے جاسکتے
ہیں اور اس قابلیت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے لیکن دلچسپ بات تو یہ ہے
انسان اپنی ہی ایجاد کی ہوئی چیز سے پریشان بھی نظر آتا ہے ۔عصر حاضر کی
مثال لیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اپنے مفاد میں کیا گیاکسی شخص یا حکومت کا
کوئی عمل اُن کے لیے لائق صد تحسین ہوتا ہے جب کہ اسی تھیوری پر جب کوئی
دوسرا شخص یا حکومت اپنے مفادات کی خاطرعمل پیرا ہو تو یہ بات کافی حَد تک
ناگوار گزرتی ہے۔ہم بات کررہے تھے کمپیوٹر کی……کمپیوٹر کے دور میں سب کچھ
ممکن ہے کیونکہ آپریٹنگ سسٹمز اتنے وسیع ہو چکے ہیں کہ خود ان کے بنانے
والے لوپ ہولز پر مکمل طور پر نظر نہیں رکھ سکتے اور یہیں سے مد مخالف کو
حساس انفارمیشن تک رسائی ملتی ہے اور جب کسی ملک یا کسی سربراہ کی کوئی
ایسی حساس نوعیت کی بات یاسیاسی سکینڈل لیک ہوتا ہے تو جہاں حکومتوں اور
سربراہوں میں سراسیمگی پھیلتی ہے وہاں ملک میں حالات انتشار کا شکار ہوتے
ہیں اور اگر کوئی انتشار جنم نہ لے تو عوام تذبذب کی کیفیت سے دوچار ہوتی
ہے۔
ایک وقت تھا جب جنگیں بہادر افواج کے سر پر لڑی جاتی تھیں۔ پہلی جنگ عظیم
میں جسمانی طاقت کی جگہ آتشی اسلحے اور توپخانے نے لے لی۔ یہ ’’ سیکنڈ
جنریشن وار‘‘ تھی۔ دوسری جنگ عظیم نے ’’ تھرڈ جنریشن وار‘‘ کو جنم دیا جس
میں آتشی اسلحے کے علاوہ بحری اور فضائی طاقت کے مربوط مظاہرے کے ساتھ
پراپیگنڈہ اور میڈیا کی جنگی اہمیت اجاگر ہوئی۔ یہ جنگیں بہر طور آمنے
سامنے لڑی جاتی تھیں اور جنگ لڑنے والے ممالک کی زمین میدان جنگ ہوتی تھی۔
اس کے بعد ’’ فورتھ جنریشن وار‘‘ کا زمانہ آیا۔ ویت نام کی جنگ سے شروع
ہونے والی اس ڈاکٹرائین کی ترقی یافتہ شکل افغانستان کی جنگ میں نظر آتی
ہے۔ اس قسم کی جنگوں میں سب سے پہلے میدان جنگ کو کسی اور ملک میں منتقل
کیا گیا۔ اسکے بعد کوشش کی گئی کہ جنگ میں عملی طور پر حصہ لینے والوں کی
اکثریت بھی اپنے ملک کی نہ ہو تاکہ حملہ آور کا کم سے کم جانی نقصان ہو۔ اس
سب کے باوجود اس قسم کی جنگ میں دو فریق آمنے سامنے ہوتے تھے۔ آج کل کی
جنگیں فورتھ جنریشن وار کی ترقی یافتہ شکل یا ’’ ففتھ جنریشن وار‘‘ کی
ابتدائی شکل میں لڑی جا رہی ہیں۔ اس میں نہ تو کوئی میدان جنگ ہوتا ہے اور
نہ اعلان جنگ اور نہ ہی پتہ چلتا ہے کہ کون در حقیقت کس پر حملہ آور ہے۔
باقاعدہ فوج کی بجائے ان جنگوں میں چھوٹے بڑے مقامی گروپوں کو لڑوایا جاتا
ہے جن کے بظاہر مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں۔ حملہ آور قوم کا ایک اہم ترین
اسلحہ ’’ پراپیگنڈہ‘‘ اور ’’ آزاد میڈیا‘‘ ہوتا ہے ، جو سیاہ کو سفید اور
سفید کو سیاہ دکھاتا ہے۔
زیر ِنظر مضمون برطانوی نیوز ایجنسی کے صحافی بیکی برینفرڈکی تیار کردہ
رپورٹ کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے،آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ
ریپبلکن پارٹی کی صدارتی اُمیدوار ہیلری کلنٹن کی لیک شدہ ای میلز میں ایسا
کیا تھااور دنیامیں کہاں کہاں انفارمیشن اور پروپیگنڈا مہم نے وار(جنگ) کی
شکل اختیار کی۔اس ضمن میں کون سے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں؟جائزہ لیتے
ہیں:
انفارمیشن وار ہے کیا؟
انفارمیشن وار دراصل مقاصد کے حصول کے لیے سادہ لوح عوام میں گمراہ کن
خبریں پھیلانا ۔اس کو ہم ڈِس انفارمیشن وار بھی کہہ سکتے ہیں۔لازمی امر ہے
کہ انفارمیشن ایسی ہوں جس سے عوام میں جعلی خبریں پھیلانے میں آسانی ہواور
ایسی خبریں پھیلانے والے عناصر باقاعدہ عصری حالات کا جائزہ لینے کے بعد
ایسی انفارمیشن پھیلاتے ہیں ‘جس پر عوام نا چاہتے ہوئے بھی یقین کر لیتے
ہیں اور اس سب کے نتیجے میں بد امنی یا خانہ جنگی کی صورتحال کا سامنا کرنا
پڑتا ہے۔اِس سب کو پھلنے پھولنے میں میڈیا کا اہم کردار ہوتا ہے،جعلی خبروں
کی ترسیل کے لیے ایسے عناصرپرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا
کو بھی استعمال کرتے ہیں اور دورِحاضر میں توسوشل میڈیا نے اس کام کو مزید
آسان اورسستابنادیا ہے۔
حساس انفارمیشن تک رسائی
بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے آغاز میں حساس انفارمیشن تک رسائی
کے ساتھ ساتھ پروپیگنڈاوغیرہ جیسی مہم نے بھی جنم لیا۔پروپیگنڈا وار کا ایک
بڑا مقبول انداز یہ ہے کہ ہر چیز اور ہر کام میں شک اور ابہام پیدا کر
دو،جب شکوک و شبہات جنم لیں گے تو سازشی تھیوری کو فروغ ملے گا،اِن شکوک و
شبہات کو میڈیا ہوا دیتا ہے اور مدمخالف اگر دشمن ہو تو وہ سازشیں بننے میں
مزید چاک وچوبند ہوجاتا ہے۔ اس بارے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ گزشتہ سال
امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والی ریپبلکن پارٹی کی
صدارتی اُمیدوار ہیلری کلنٹن کی اَپ سیٹ شکست کو ماہرین و تجزیہ
کارانتخابات سے قبل اُن کی ذاتی ای میلز کے لیک ہونے کا شاخسانہ قرار دیتے
ہیں ۔اس بارے میں انکشاف بھی ہوا کہ 3000کے قریب اِن ای میلز کو ہیک کرنے
کا سہرا روس کے سَر ہے اور حال ہی میں برطانوی نیوز ایجنسی نے ایک رپورٹ
مرتب کی‘جس میں انفارمیشن وار کے حوالے سے سیر حاصل انکشافات کیے گئے۔
گھوسٹ نیٹ نامی جاسوسی نظام
2011ء میں انفارمیشن وار فئیر مانیٹر نامی گروپ کی تحقیق کے بعد آن لائن
شائع ہونے والی ایک رپورٹ منظر عام پر آئی،جس میں انکشاف کیا گیا کہ ایک
عالمی سائبر جاسوسی نظام کی مدد سے ہیکرز نے دنیا بھر کے 103 ممالک میں
سرکاری اور نجی اداروں کی خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کی ہوئی ہے۔محققین کے
مطابق ’’گھوسٹ نیٹ‘‘ نامی یہ جاسوسی نظام بنیادی طور پر چین میں قائم ہے
اور اس کا نشانہ بنیادی طور پر ایشیائی حکومتیں رہی ہیں جبکہ اس کے ہیکرز
نے دلائی لامہ اور دیگر تبتی جلا وطن شخصیات کے کمپیوٹرز بھی کھنگالے
ہیں۔بعد میں کینیڈین گروپ اور کیمرج یونیورسٹی کے02محققین نے بھی اس بات کی
تصدیق کی ۔گروپ کے رکن گریگ والٹن کے مطابق ’’ہمارے ہاتھ ایسے ثبوت لگے ہیں
جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ تبتی کمپیوٹر نظام میں داخل ہو کر دلائی لامہ کے نجی
دفتر سے حساس معلومات چرائی گئی ہیں‘‘۔اس جاسوسی نظام کے تحت ایران، بنگلا
دیش، لٹویا، انڈونیشیا ، برونائی اور بارباڈوس کی وزارتِ خارجہ اور
پاکستان، بھارت، جنوبی کوریا، انڈونیشیا، رومانیہ، قبرص، مالٹا، تھائی
لینڈ، تائیوان، پرتگال اور جرمنی کے سفارتخانوں کے قریباً 1300کمپیوٹرز ہیک
کیے گئے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تجزیے سے یہ تو صاف ظاہر ہے کہ اس جاسوسی
نظام کا مرکز چین ہے لیکن اسے چلانے والے ہیکرز کی شناخت یا عزائم کے بارے
میں واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ان کمپیوٹرز تک رسائی کے بعد ہیکرز
نے ان میں ایسے سافٹ ویئر نصب کر دیے جن کی مدد سے نہ صرف وہ انہیں کنٹرول
کر سکتے تھے بلکہ ان پر موجود مواد بھی باہر بھیج سکتے تھے۔
ہیکنگ
یورپ میں کئی سائبر حملوں کا الزام روس سے تعلق رکھنے والے گروہوں پر لگایا
گیا ہے۔2015ء میں فرانس کے ٹی وی ’’5موند‘‘پر سائبر حملہ ہوا اور اس کے
سسٹم تقریباً تباہ کر دیے گئے۔اسی سال روس کے APT28 نامی ہیکنگ گروپ نے
جرمنی کی پارلیمان کے ایوانِ زیریں کا بڑے پیمانے پر ڈیٹا چوری کر کے افشا
کر دیا۔ اکتوبر 2016 میں بلغاریہ میں ایک سائبر حملہ ہوا جس کو اس کے صدر
نے جنوب مشرقی یورپ کا شدید ترین حملہ قرار دیا۔اس سے قبل ایسٹونیا پر DDS
حملہ ہواتھا جسے امریکی وزارتِ دفاع کے ترجمان نے 9/11 کے مترادف قرار دیا۔
تنازعات پر تحقیق کے ادارے کے سربراہ کیر جائلز کہتے ہیں کہ کسی ملک کی
حساس انفارمیشن تک رسائی کی اس جنگ میں روس کی جانب سے نئے ہتھکنڈے اختیار
کیے گئے ہیں۔جب پہلی اور دوسری چیچن جنگ میں اور جارجیا کے خلاف 2008 ء کی
جنگ میں روس کو معلوم ہوا کہ وہ آپریشنل یا سٹریٹیجک لحاظ سے عالمی رائے
عامہ اور اپنے دشمنوں کے نقطہ نظر کو تبدیل نہیں کر سکتا، اس لیے اس نے
انفارمیشن کی جنگ میں بڑی پیمانے پر تبدیلیاں کیں۔ کیر جائلز کے
مطابق،’’جارجیا کی جنگ میں اسے معلوم ہوا کہ عالمی رائے عامہ پر اثرانداز
ہونے کے لیے اور انٹرنیٹ سے صحیح طور پر فائدہ اٹھانے کے لیے بہت بڑے
پیمانے پر بھرتیوں کی ضرورت ہے تاکہ ماہرین ِلسانیات، صحافیوں اور کسی بھی
ایسے شخص کو بھرتی کیا جائے جو باہر کے ملکوں کے شہریوں سے براہِ راست بات
کر سکے۔‘‘
جعلی خبروں کی مہم
عوام کو گمراہ کرنے لیے منفی من گھڑت ایسی خبریں پھیلائی جاتی ہیں جن سے یہ
تاثرملتا ہے کہ حالات خراب ہیں اور ایسی خبریں پھیلانے والے میڈیا کا سہارا
لیتے ہیں۔جیسے امریکی انتخابات کے دوران ایسی خبریں خاص طور پر پھیلائی
گئیں، لیکن یورپی ملکوں میں بھی یہ عام ہیں۔کچھ عرصہ قبل ایک خبر شائع
ہوئی’’جرمنی میں روسی بولنے والے ہزاروں لوگوں نے جرمن چانسلر انجیلینا
میرکل کے خلاف مظاہرہ کیا‘‘لیکن بعد میں وہ خبر جھوٹی نکلی۔اب جرمنی میں
ستمبر 2017ء کے جرمن انتخابات کو روسی سائبر حملے کا خطرہ ہے۔ ان انتخابات
میں انجیلینا میرکل چوتھی بار کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔فرانس
میں بھی صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کا آغاز 17اپریل سے ہورہاہے
اوراندیشہ ہے کہ انتخابی مہم یا انتخابات کے دوران’’فیک نیوز‘‘جیسی کوئی
کارروائی نہ ہو۔اس پر فرانس کے وزیر خارجہ جین مارک نے روس کو انتباہ جاری
کیا کہ،’’ روس فرانس میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں مداخلت سے باز رہے‘‘۔
اٹلی میں ریفرنڈم سے تقریباًایک ماہقبل روس کے سرکاری ٹی وی’’رشیا ٹوڈے‘‘
نے روم کے ایک چوک پر ہونے والا جلسہ فیس بک لائیو کے ذریعے نشر کیا۔ اس
ریفرینڈم کے نتیجے میں وزیرِ اعظم میتیو رینزی کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا
پڑے۔رشیا ٹوڈے نے کہا: ’’اطالوی وزیرِ اعظم کے خلاف روم میں زبردست
احتجاج‘‘۔حالانکہ یہ جلسہ اٹلی کے وزیر ِ اعظم میتیو رینزی کے حق میں تھا۔
برطانوی رپورٹ کے مطابق جرمنی میں ایک 13 سالہ لڑکی نے دعویٰ کیا کہ اس سے
کچھ لوگوں نے نازیبا حرکات کیں۔ روسی سرکاری ٹیلی ویژن نے یہ خبر اُٹھا لی
اور اسے بار بار نشر کرتا رہا۔جرمنی میں چانسلر میرکل کے خلاف مظاہرے شروع
ہو گئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ خبر جھوٹی تھی۔یورپی یونین کو اس بات پر
اتنی تشویش ہے کہ اس نے ماہرین کا ایک یونٹ تشکیل دیا ہے جسے یہ ٹاسک سونپا
گیا ہے کہ وہ’’روس کی مسلسل ڈس انفارمیشن کی مہم‘‘ کا توڑ نکالے۔
روسی اداروں کا روّیہ
روسی ادارے امریکی انٹیلی جنس کی جانب سے روسی مداخلت کے الزامات مضحکہ خیز
اور غیرذمہ دارانہ قرار دیتے ہیں۔اُن کے مطابق یہ سب کچھ CIA کروا کر اس کا
الزام روسی ہیکروں پر دھر دیتی ہے۔ تنازعات پر تحقیق کے ادارے کے سربراہ
کیر جائلزکہتے ہیں:’’ روس کی امریکی انتخابات میں مداخلت کسی حد تک کھلم
کھلا تھی اور اس نے کئی درجن مغربی صحافیوں کو سینٹ پیٹرزبرگ کے مشہورِ
زمانہ ٹرول فارم کا دورہ بھی کروایا تھا‘‘۔یورپ میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ
روسی صدر ولادی میر پوٹن کا مقصداپنی شرائط پر عالمی رہنما بننا ہے ،روس
میں مغرب مخالف تاثر حکومت نے قائم کر رکھا ہے ۔روس چاہتا ہے کہ یورپی
یونین زیادہ نرم ہو اور اس کا جھکاؤ مغرب کی جانب کم ہو۔اس سے روس کے اثر و
رسوخ میں اضافہ ہو گا۔
٭٭٭
Box-1
فورتھ جنریشن وار کیا ہے؟
فورتھ جنریشن وار ایک نہایت خطرناک جنگی حکمت عملی ہے جس کے تحت ملک کی
افواج اور عوام میں مختلف طریقوں سے دوری پیدا کی جاتی ہے۔مرکزی حکومتوں کو
کمزور کیا جاتا ہے ،صوبائیت کو ہوا دی جاتی ہے، لسانی اور مسلکی فسادات
کروائے جاتے ہیں اور عوام میں مختلف طریقوں سے مایوسی اور ذہنی خلفشار
پھیلایا جاتا ہے۔فورتھ جنریشن وار کا سب سے زیادہ انحصار ’’ڈس انفارمیشن‘‘
پر ہوتا ہے‘ جس کے ذریعے نفرتیں پھیلائی جاتی ہیں۔فورتھ جنریشن وار کا جواب
سول حکومتیں اور میڈیا کے محب وطن عناصر دیتے ہیں۔یوگوسلاویہ، عراق، شام
اور لیبیا کا انجام فورتھ جنریشن وار کی واضح مثالیں قرار دی جاسکتی ہیں۔
جہاں عوام کو فوج کے سامنے کھڑا کر دیا گیا تھا۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل
کی اس مشترکہ فورتھ جنریشن وار کے ذریعے صوبائیت اور فرقہ پرستی کو زیادہ
سے زیادہ ہوا دی جاتی ہے۔ اپنے ہی آدمیوں کے ذریعے مسلکی اور لسانی فسادات
کروائے جاتے ہیں۔
فورتھ جنریشن وار کی جدید شکل یہ ہے کہ اس قسم کی جنگوں میں سب سے پہلے
میدان جنگ کو کسی اور ملک میں منتقل کیا گیا۔ اس کے بعد کوشش کی گئی کہ جنگ
میں عملی طور پر حصہ لینے والوں کی اکثریت بھی اپنے ملک کی نہ ہو تاکہ حملہ
آور کا کم سے کم جانی نقصان ہو۔ اس سب کے باوجود اس قسم کی جنگ میں دو فریق
آمنے سامنے ہوتے تھے۔آج کل کی جنگیں فورتھ جنریشن وار کی ترقی یافتہ شکل یا
’’ ففتھ جنریشن وار‘‘ کی ابتدائی شکل میں لڑی جا رہی ہیں۔ اس میں نہ تو
کوئی میدان جنگ ہوتا ہے اور نہ اعلان جنگ اور نہ ہی پتہ چلتا ہے کہ کون در
حقیقت کس پر حملہ آور ہے۔
پاکستان کے خلاف فورتھ جنریشن وار کے لیے بھی امریکہ ، بھارت اور اسرائیل
اتحادی ہیں ،سابق امریکی صدرباراک اوباما نے خودکہا تھا کہ وہ پاکستانی
میڈیا میں 50 ملین ڈالر سالانہ خرچ کریں گے آج تک کسی نے یہ سوال نہیں
اٹھایا کہ کس مقصد کے لیے اور کن کو یہ رقوم ادا کی جائیں گی جبکہ انڈیا کا
پاکستانی میڈیا پر اثرورسوخ دیکھا جا سکتا ہے۔پاکستان کی ساری قوم اس
امریکن فورتھ جنریشن وار کی زد میں ہے….!!یہ واحد جنگ ہے جس کا جواب آرمی
نہیں دے سکتی۔ چونکہ پاک آرمی کو امریکن ایف پاک ڈاکٹرائن کے مقابلے پر نہ
عدالتوں کی مدد حاصل ہے ،نہ سول حکومتوں کی، نہ ہی میڈیا کی اس لئے باوجود
بے شمار قربانیاں دینے کے، اس جنگ کو اب تک ختم نہیں کیا جا سکا اور اس کو
مکمل طور پر جیتا بھی نہیں جا سکتا جب تک پوری قوم مل کر اس امریکن فورتھ
جنریشن وار کا جواب نہیں دیتی۔ پاکستان میں لڑی جانے والی اس جنگ میں سول
حکومتوں سے کوئی امید نہیں اس لئے عوام میں سے ہر شخص کو خود اس جنگ میں
عملی طور پر حصہ ڈالنا ہوگا….!!
Box-2
5th جنریشن وارکی جدید شکل
ففتھ جنریشن وارایک پروپیگنڈا مہم قرار دی جاسکتی ہے،اس وار(جنگ) میں پرنٹ
و الیکٹرانک میڈیاکے ذریعے ناصرف گمراہی پھیلائی جاتی ہے بلکہ مقاصد حاصل
کرنے لیے میڈیا کو فنڈنگ بھی کی جاتی ہے،اس سے حملہ آور ملک اپنے جانی
نقصان سے بچا رہتا ہے۔جس کے عوض باقاعدہ سکرپٹڈ پروگرام اور ٹاک شوز ترتیب
دیئے جاتے ہیں۔اس کی مثال وطن عزیز’’پاکستان‘‘کی شکل میں ہمارے سامنے
ہے۔جیسے خود دہشت گردی کے شکار پاکستان کو انٹرنیشنل میڈیا میں دنیا کا سب
سے بڑا دہشت گرد دکھایا جاتا ہے۔ بات یہیں تک نہیں رکتی بلکہ ہمارے ہی کچھ
لوگ حکومت مخالف ’’لبرلزم اور انسانیت ‘‘ کے نام پرگمراہ کن تجزیے پیش کرتے
ہیں۔ اس قسم کی جنگ میں کسی ملک کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کرنے کی بجائے
اس قوم کی قومیت اور نظریے پر غیر محسوس طریقے سے حملہ کیا جاتا ہے۔
ففتھ جنریشن وارمیں پاکستان کی بات کی جائے تو اس مہم میں اسرائیل ،امریکا
اور بھارت پیش پیش ہیں۔جیوئیش کرانیکلزکی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے
پہلے وزیر اعظم’’ ڈیوڈ بین گوریون‘‘نے 1967ء میں ایک بیان جاری کیا تھا کہ
،’’ نظریے پر قائم ہونے والے ملک پاکستان کو اسرائیل اپنے لیے پہلا اور سب
سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے،اسرائیل کیلئے پاکستان عرب ممالک سے زیادہ خطرناک ہے
اور پاکستان ہی اسرائیل کا سب سے اہم ’’ ہدف‘‘ ہوگا،پاکستان کے خلاف ’’
بھارت‘‘ اسرائیل کا پہلا اور سب سے اہم ساتھی ہوگا کیونکہ ہندو اسلام اور
مسلمان سے پہلے ہی نفرت کرتا ہے‘‘۔
اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم کا پالیسی بیان ہو، یا کنڈولیزا رائس کا اسرائیل
کے دارلحکومت تل ابیب میں 2006ء میں پیش کردہ ’’ نیو مڈل ایسٹ‘‘ کا تصور جس
کے مطابق پاکستان کو آزاد بلوچستان اور گریٹر پنجاب سمیت ٹکڑوں میں تقسیم
کرنا مڈل ایسٹ کے ’’ امن‘‘ کیلئے ضروری ہے۔ یا پھر ’’ رینڈ کارپوریشن
امریکہ ‘‘ کی رپوٹ ’’سِول اینڈ ڈیموکریٹک اسلام‘‘ جس میں تفصیل سے بتایا
گیا ہے کہ کس طرح پاکستان اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو آپس میں تقسیم کر کے
اسلام کی روح کا خاتمہ کیا جانا چاہئے۔ تلخ حقیقت یہی ہے کہ اسرائیل ( اور
امریکہ) کا یہ ہر اول دستہ اور اتحادی ، یعنی بھارت ، پاکستان پر پوری شدت
سے حملہ آور ہو چکا ہے۔ اس ففتھ جنریشن وار میں بھارت کا پہلا ہتھیار ’’
دہشت گردی ‘‘ ہے۔پا کستان میں کسی بھی جگہ ہونے والی دہشت گردی ہو یا
بلوچستان میں پاکستان مخالف کارروائیاں یا کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ
ہو،ہر کارروائی کے ڈانڈے بھارت جا کر نکلتیہیں۔ بھارت کے دیگر اہم ہتھیار
ہمارے بہت سے چینلز، ’’ لبرلز‘‘ اوراین جی اوز ہیں۔ بھارت روایتی جنگوں میں
ہمارے سکول اور انڈسٹری بند نہیں کروا سکالیکن اب اپنی منصوبہ بندی تبدیل
کرتے ہوئے ہمارے سکولوں کے نصاب اور ہمارت ثقافت پر حملہ آور ہے۔
موجودہ ففتھ جنریشن جنگ میں انڈیا اور اس کے اتحادیوں کا ہدف پاکستان میں
دہشت گردی، نسلی اور لسانی فسادات کو ہوا دینے کے علاوہ عوام میں سیاسی
انتشار کے ساتھ ساتھ نسلی ، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر منافرت پھیلانا ہے۔
ہمارے خلاف چھیڑی گئی اس غیر اعلانیہ لیکن مکمل جنگ کا ’’ میدان جنگ‘‘
ہمارا ہر گھر ہے اور اس کا جواب بھی ہمیں ہر گھر سے دینا ہوگا، کیونکہ ایسی
جنگ لڑنا افواج کا کام نہیں ہے۔ موجودہ جنگ میں دشمن کو تو معلوم ہے کہ اس
نے کس قوم کو للکارا ہے لیکن ہماری قوم کہ ابھی احساس ہی نہیں ہے کہ ان پر
کس طرح کا حملہ کر دیا گیا ہے۔
Box-3
ای میلز میں انکشافات؟
روسی ہیکروں پر الزام ہے کہ انھوں نے امریکی ڈیموکریٹ پارٹی اور جرمن
پارلیمان کی ای میلز ہیک کیں۔روس پر الزام ہے کہ اس نے گذشتہ سال ڈیموکریٹ
پارٹی کی ای میلز افشا کر کے اور سوشل میڈیا کے ذریعے امریکی صدارتی
انتخابات میں مداخلت کی۔روسی ہیکرزکی ایسی کارروائی ایک طرف اورسابق امریکی
وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی ای میلز فاش ایک طرف ہیں‘ جن کا عام حالات میں
سامنے آنا ممکن نہیں تھا،ہیلری کلنٹن کی منظر عام پر آنے والی 3 ہزار ای
میلز سے معلوم ہوتا ہے کہ لیبیا میں کیا ہوا؟ مغربی ممالک نیٹو کا استعمال
کرتے ہوئے لیبیا کے رہنما معمر قذافی کا تختہ عوام کی حفاظت کی غرض سے نہیں
الٹنا چاہ رہے تھے بلکہ اس لیے الٹنا چاہتے تھے کیونکہ انہیں قذافی کے ایک
افریقی کرنسی کے اجرا کے منصوبوں کا علم ہوگیا تھا، جو مغربی ممالک کے
مرکزی بینکاری نظام کی اجارہ داری کا مقابلہ کرتا۔ہیلری کلنٹن کی ای میلز
ظاہر کرتی ہیں کہ فرانس کی قیادت میں لیبیا کے خلاف شروع کی گئی نیٹو فوجی
مہم کا ایک مقصد تو لیبیا میں تیل کی پیداوار میں بڑا حصہ حاصل کرنا تھا
اور دوسرا فرانس کے زیر اثر افریقی علاقوں میں فرانسیسی اثر و رسوخ کم کرنے
کی قذافی کی کوششوں کا خاتمہ بھی تھا۔
اپریل 2011ء میں ایک ای میل، جو اآس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن
کو غیر سرکاری مشیرسڈن بلومن تھیل نے بھیجی تھی، مغرب کی غارت گرانہ سوچ کی
حقیقی عکاسی کرتی ہے۔ اس ای میل کا موضوع ’’فرانسیسی گاہک اور قذافی کا
سونا‘‘ تھا۔ فارن پالیسی جرنل کے مطابق:یہ ای میل نشاندہی کرتی ہے کہ فرانس
کے صدر نکولا سرکوزی لیبیا پر حملہ کرتے ہوئے پانچ مقاصد تھے: لیبیا کے تیل
پر قبضہ کرنا، خطے میں فرانسیسی اثر و رسوخ کو یقینی بنانا، مقامی سطح پر
یعنی فرانس میں اپنی ساکھ بہتر بنانا، فرانس کی فوجی طاقت کا اظہار کرنا
اور فرانسیسی بولنے والے افریقی علاقوں کو قذافی کے اثر و رسوخ سے
بچانا۔اِن ای میل کا سب سے حیرت انگیز حصہ وہ ہے جس میں اُس بڑے خطرے کا
خاکہ کھینچا گیا ہے جو قذافی کے سونے اور چاندی کے ذخائر سے درپیش ہے۔ 143
ٹن سونا اور لگ بھگ اتنی ہی چاندی، جو فرانسیسی فرانک کو افریقہ کی اہم
ترین کرنسی کے طور پر پھیلنے سے روک سکتے تھے۔ہیلری کلنٹن کا مؤقف رہا ہے
کہ انھوں نے حساس معلومات کے لیے ذاتی ای میل کا استعمال نہیں کیا۔البتہ
ایف بی اے کے ڈائریکٹر کے مطابق 100 سے زیادہ حساس ای میلزServer سے ملی
ہیں۔
جب 2010ء میں بل کلنٹن کے دل کی سرجری کی گئی تو ان کی حالت کافی تشویشناک
تھی۔ ہیلری نے اپنی معاون ہما عابدین کو فروری 2010ء کو اپنے شوہرکی سرجری
کے ایک ہفتے بعد ان کے جنازے تجہیز وتکفین کا اہتمام کرنے کی ہدایت کی
تھی۔اِن ای میلز میں ایک انکشاف یہ بھی ہوا ۔رپورٹس کے مطابق ہیلری کلنٹن
کی پروٹوکول آفیسر کابریشیا مارشل نے ہیلری کی ہدایت پر ہما عابدین ہدایت
کی،اسی ای میل کی ایک نقل کلنٹن کے مشیر ڈوگ بانڈ اور ڈیموکریٹک پارٹی کی
وکیل شیریل میلز کو بھی ارسال کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کلنٹن خاندان
‘بل کلنٹن کی ممکنہ وفات کی صورت میں ان کے جنازے کی تیاری کررہا ہے۔
ڈیک:
فورتھ جنریشن وار کا سب سے زیادہ انحصار ’’ڈس انفارمیشن‘‘ پر ہوتا ہے‘ جس
کے ذریعے نفرتیں پھیلائی جاتی ہیں جب کہ5th جنریشن وارمیں پروپیگنڈاکے لیے
پرنٹ و الیکٹرانک میڈیاکے ذریعے ناصرف گمراہی پھیلائی جاتی ہے بلکہ میڈیا
کو فنڈنگ بھی کی جاتی ہے
یورپ میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ روسی صدر ولادی میر پوٹن کا مقصداپنی
شرائط پر عالمی رہنما بننا ہے ،روس میں مغرب مخالف تاثر حکومت نے قائم کر
رکھا ہے ۔روس چاہتا ہے کہ یورپی یونین زیادہ نرم ہو اور اس کا جھکاؤ مغرب
کی جانب کم ہو،اس سے روس کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو گا
رواں سال جرمن انتخابات کو روسی سائبر حملے کا خطرہ ہے۔ان انتخابات میں
انجیلینا میرکل چوتھی بار کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جب کہ
فرانس میں رواں ماہ ہونے والے صدارتی انتخابات میں اندیشہ ہے کہ انتخابات
کے دوران’’فیک نیوز‘‘جیسی کوئی کارروائی ہو
|