غیر نصابی سرگرمیاں؟

 سنتے تو یہی آئے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیوں کے بغیر تعلیمی بندوبست ہی ادھورا رہتا ہے، مگر تازہ خبر آئی ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جامعات میں غیر نصابی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کردی ہے، کہا گیا ہے کہ اگر کسی یونیورسٹی میں ایسی کوئی سرگرمی دیکھنے میں آئی تو تمام ترذمہ داری وائس چانسلر پر عائد ہوگی، اگر بہت ضروری ہوا تو رئیس الجامعہ براہِ راست نگرانی کریں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والے ہنگاموں کے بارے میں ’فیکٹ فائینڈنگ کمیٹی‘ اور حکومت پنجاب انکوائری کمیٹی کی رپورٹ تو تیار ہے، بس اس کے منظر عام پر آنے کے لئے خادمِ اعلیٰ پنجا ب کا انتظار ہے۔

یہ حکمنامہ چونکہ ہائرایجوکیشن کمیشن کی جانب سے جاری کیا گیا ہے، اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اس پر عمل درآمد کا دائرہ صرف جامعات تک ہی محدود رہے گا۔ کالجز وغیرہ غیر نصابی سرگرمیاں کر سکیں گے۔ مزید ابتدائی کلاسوں کی طرف جائیں تو وہاں خادمِ اعلیٰ پنجاب کے نام سے بہت سے ایسے پروگرام جاری رہتے ہیں، جن میں بچوں کو تقریری مقابلوں، مضمون نویسی اور اسی نوع کی دیگر سرگرمیوں میں کامیابی پر لاکھوں روپے انعامات دیئے جاتے ہیں۔ نہ جانے اب یہ پروگرام بھی جاری رہیں گے، یا ان پر پابندی لگا دی جائے گی۔ یہاں معاملہ کچھ الجھ رہا ہے، اگر ابتدائی جماعتوں میں یہ سرگرمیاں ہورہی ہیں، اور بڑی کلاسوں میں پابندی لگ جاتی ہے، تو یہ بھی ایک غیر فطری عمل ہے، آخر چھوٹوں کو وہ چیز کیوں سکھائی جائے جس پر آگے جاکر عمل نہیں ہونا، یا جو آگے اُن کے کام نہیں آئے گی۔ یوں اصولی طور پر چھوٹی کلاسوں سے ہی غیر نصابی سرگرمیوں پر پابندی لگ جانی چاہیے، تاکہ بڑی کلاسوں میں کوئی ایسا سوال ہی نہ اٹھا سکے۔ ظاہر ہے پابندی اسی کام پر لگائی جاتی ہے، جس کے مثبت نتائج کی بجائے مضراثرات سامنے آرہے ہوں۔ غیر نصابی سرگرمیوں کی بنا پر طلبا و طالبات کے ذہن تعلیم سے ہٹ جاتے ہیں، جس سے ان کی تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے۔

جامعات میں ایک غیر نصابی سرگرمی بہت عروج پر ہے، جس پر پابندی لگائے جانے کے امکانات صفر ہیں، یعنی اس وقت تمام غیر نصابی سرگرمیاں ختم کردی جائیں گی، مگر ایک لڑکا اور لڑکی یونیورسٹی کیمپس کے کسی بھی کونے، لائبریری، کینٹین، لان یا بینچ وغیرہ پر بیٹھ کر اپنی سرگرمی جاری رکھ سکیں گے۔ چونکہ یہ طے شدہ ہے کہ جامعہ کی حدود میں ایسی ملاقات یقینا اسی لئے منعقد ہوتی ہے، کہ کلاس میں پڑھائے جانے والے تمام اسباق کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے، لیکچر میں ذکر کی گئی کتابوں کا حوالہ دیکھا جائے، معاملات کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ استاد کے رویوں پر بھی غور ہو سکتا ہے، اور اپنے کلاس فیلو طلبا وطالبات کی تعلیمی دلچسپیوں پر گفتگو بھی اس سرگرمی کا حصہ ہو سکتی ہے۔ نوٹس تیار کرنے اور ان کو مخالفین اور حاسدین وغیرہ سے محفوظ رکھنا بھی ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے۔ ان ملاقاتوں میں لڑکے بھی ایک سے زیادہ ہو سکتے ہیں اور لڑکیوں کی تعداد بھی ایک سے زیادہ ہو سکتی ہے، تاکہ کلاس میں زیر بحث لائے جانے والے تعلیمی معاملات پر جس باریکی سے غور کیا جائے وہ کم ہے۔ تاہم اس سلسلے میں ایک رائے یہ پائی جاتی ہے کہ اگر یہ طلبا وطالبات گروہوں کی صورت میں ہوں گے تو وہ خاطر خواہ اور پائیدار نتائج برآمد نہیں ہو سکتے، جو ایک اور ایک کی ملاقات میں ہو سکتے ہیں۔ یہ غیر نصابی سرگرمی دیر پا ثابت ہوتی ہے، اس سے تعلق صرف کلاس فیلو کا ہی نہیں رہتا، بات خاندانوں تک پہنچ جاتی ہے، بہت سے خاندان ایک ہو جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس عظیم سماجی سرگرمی پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاتی۔

جامعات میں غیر نصابی سرگرمیوں پر پابندی کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اب یقینا نصابی سرگرمیوں پربھی دھیان دیا جاسکے گا، کیونکہ اپنے ہاں جامعات میں تمام سرگرمیاں جاری رہتی ہیں، اگر کمی پائی جاتی ہے تو وہ نصابی سرگرمیوں پر۔ نہ اساتذہ اس دلجمعی سے تیاری کر کے آتے ہیں، نہ پڑھانے کے وہ طریقے رائج ہیں، بس آئے ، ملٹی میڈیا کی مدد سے چند سلائیڈز دکھائیں، چند لفظ زبان سے بھی ادا کئے، اور چلتے بنے۔ طلبا کو کتابوں سے کوئی دلچسپی نہیں، (اور نہ ہی اساتذہ ایسی کوئی ترغیب دلاتے ہیں)۔ اساتذہ کی تیار کردہ سلائیڈز ہی سٹوڈنٹس کی امتحان کی تیاری کے کام آجاتی ہیں۔ تن آسانی کے یہی مظاہر ہیں، جن کی بنا پر نصابی معاملات ماند پڑے ہوئے ہیں۔ آنے والے وقت میں ہماری جامعات کیسے طلبا قوم کودیں گی، یہ سب کے سامنے ہے۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472288 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.