ہیلری کلنٹن نے خود اپنی کتاب میں اعراف کیا ہے کہ داعش
امریکہ نے بنائی ہے۔ جس طرحاسامہ بن لادن کو تیار کرکے پھر اِس کو دہشت
گردی کا نشان بنادیا اور یوں مسلم ممالک پر چڑھائی کرکے لاکھوں مسلمانوں کا
لہو بہادیا گیا۔ مصر، عراق، شام، افغانستان، فلسطین، لیبیاء اور کشمیر و
دیگر مقبوضہ علاقوں میں امریکہ کی آشیر باد سے ہی مسلمانوں کا قتل عام
کرواتا رہا ہے اور ہنوز امریکہ انسانیت کا سب سے بڑا قاتل ہے۔
ہمیشہ سے سُنا کرتے تھے کہ جس کی لاٹھی اُسکی بھینس۔ لیکن جب قوموں کے
متعلق تعلیم یافتہ اور مہذب ہونے کی سوچ پروان چڑھی تو شائد معصوم ذہنوں
میں یہ بات کہیں اٹک کر ر ہ گی و ہ یہ کہ ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ہونا
مہذب ہونے کی نشانی ہے۔ نبی پاک ﷺ نے عرب کے وحشیوں کو جب مہذب بنایا اُن
کی تربیت فرمائی تو یہ اُسی تربیت کا اثر تھا کہ پوری دنیا کی مسلمانوں نے
امامت فرمائی اور دنیا کو اچھی حکمرانی کے طور طریقے سکھائے۔ موجودہ دور
میں حالات و واقعات نے یہ بات ثابت کردی ہے اور ایک بات شدت کے ساتھ محسوس
کی جارہی ہے کہ امریکہ انٹرنیشنل قوانین کی پامالی کررہا ہے۔ امریکہ جو کہ
ہر معاملے میں خود کو گھسیٹتا ہے اور خود کو کو کوئی اوتار سمجھے ہوئے ہے۔
اُسے دُنیا میں موجود مسلم عوام ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔ اقوام متحدہ اور
امریکہ کا موجودہ کردار کسی طور بھی انڑنیشنل قوانین کے تحت نہیں ہے۔ اقوام
متحدہ صرف دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا فریضہ انجام دئے رہا ہے اور
اِسکا اولین کام امریکہ کی تابعدارای اور فرما برداری ہے۔ تقریباً دنیا کے
تمام ملکوں میں امریکہ کا اثر روسوخ ہے یہ اثرورسوخ پہلے معاشی اور بعد میں
پھر سیاسی بن جاتا ہے۔ اگر نرم سے نرم الفاظ میں بات کی جائے تو بھی امریکہ
اِس وقت پوری دُنیا کا دُشمن بنا بیٹھا ہے اور اِس کی سامراجیت کو لگام
دینا والا اِسکا کوئی بھی ہم پلہ ملک نہیں ہے۔روس کی شکست وریخت کے بعد تو
امریکہ کو کھلی چُھٹی ملی ہوئی ہے۔ عراق میں لاکھوں انسانوں کا قتل عام اور
ا فغانی عوام کے خون سے ہولی امریکی دہشت گردی کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں۔شام
،مصر ، ترکی کے اندر مداخلت پاکستان میں ڈرون حملے، کیا یہ سب کچھ کسی
قانون قاعدے یا اخلاقی پہلو کو پیشِ نظر رکھ کر کیا جارہاہے۔امریکہ اس وقت
سب سے بڑا دہشت گرداور بین الا قوامی قوانین کی دھجیاں اُڑا رہا ہے۔امریکی
افواج نے افغانستان کے مشرقی علاقے میں داعش کے ٹھکانے پر اپنے ذخیرے کا سب
سے بڑا غیر جوہری بم گرایا ہے۔ یہاں پنٹا گون حکام نے بتایا ہے کہ پاکستانی
سرحد سے ملحق ننگرہار کے علاقے میں داعش کی سرنگوں اور غار کو توڑنے کیلئے
گرایا جانے والے بم کا نام ’’جی بی یو۔ 43‘‘ ہے جسے ’’بموں کی ماں‘‘ بھی
کہا جاتا ہے۔ یہ غیر جوہری سب سے بڑا بم ہے جسے امریکہ نے کسی جنگ میں پہلی
مرتبہ استعمال کیا ہےْ وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری سین سپائر نے معمول کی
بریفنگ کے دوران بتایا کہ یہ بم افغانستان کے مقامی وقت کے مطابق بدھ کی
شام سات بجے گرایا گیا۔ یہ ایک بڑا، طاقتور اور انتہائی درست نشانہ لگانے
والا ہتھیار ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان سے ملحق سرحد کے قریب غاروں
میں سرنگیں کھود کر دہشت گردوں نے خفیہ پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں جنہیں وہ
افغانستان کے علاوہ پاکستان پر حملوں کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ امریکہ
داعش کے خلاف جنگ انتہائی سنجیدہ طریقے سے لڑ رہا ہے اور یہ حملہ اس کاتازہ
مظاہرہ ہے۔ پینٹا گون کا کہنا تھا کہ فی الحال یہ بتانا مشکل ہے کہ اس حملے
سے کتنے دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔ اس میں سینکڑوں افراد کی ہلاکت کا خدشہ
ظاہر کیا جا رہا ہے۔پینٹا گون کے مطا بق ا مریکہ نے افغانستان پر دنیا کا
سب سے بڑا 21ہزارپاؤنڈ وزنی نان نیوکلیئر بم (Mother Of All Bomb) گرا
ہے،جس میں دولت اسلامیہ گروپ (آئی ایس)کے ایک کمپلیکس کونشانہ
بنایاگیاہے۔افغانستان میں امریکی فورسزنے ایک بیان میں کہاہے کہ صوبہ
ننگرہارمیں GBU-43/Bمیسوآرڈیننس ائیربلاسٹ بم ضلع آشن میں ایک ’’ٹنل
کمپلیکس‘‘پرگرایاگیا،بم 9800کلوگرام وزنی ہے،یہ حملہ پاک افغان سرحدکے
نزدیکی علاقے میں شام 07:32منٹ پرکیاگیافضائیہ کے ترجمان کرنل پیٹ رائیڈرنے
کہاکہ،GBU-43/Bسب سے بڑا 21ہزارپاؤنڈ وزنی نان نیوکلیئربم ہے جو لڑاکامشن
میں داغاگیاہے،پنٹاگون کے ترجمان ایڈم سٹمپ کاکہناہے کہ بم ایم سی۔130طیارے
کے ذریعے داغاگیا،افغانستان میں امریکی فورسزسربراہ جنرل جوہن نکولسن
کاکہناتھاکہ جیساکہ آئی ایس آئی ایس خراسان کوبھاری نقصان پہنچ رہاہے،انہوں
نے بارودی سرنگوں،بینکرزاورٹنلزکااپنے دفاع کیلئے استعمال شروع کردیاہے
انہوں نے کہاکہ ان رکاوٹوں کوتوڑنے اورآئی ایس آئی ایس خراسان کے خلاف
کارروائیوں کی رفتارکوبرقراررکھنے کیلئے یہ درست اقدام ہے۔دوسری جانب وائٹ
ہاؤس کے ترجمان سین سپائسرکاکہناتھاکہ ہمیں انہیں آپریشنل خلاء دینے سے
روکناہوگاجیساکہ ہم نے کیا۔ حملے میں خیال رکھا کہ عام شہریوں کی اموات
واقع نہ ہوں۔افغانستان سے ہرحال میں داعش کوختم کرناہے۔یہ بم 2002-03ء میں
عراق پرامریکی قیادت میں چڑھائی کے عرصے کے دوران تیارکیاگیاتھا،فضائیہ کے
مطابق آخری مرتبہ 2003ء میں اس بم کاتجربہ کیاگیاتھا۔حملے میں داعش کے
جنگجوہوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکت کا بھی خدشہ ہے۔
سب سے بڑا 21ہزارپاؤنڈ وزنی نان نیوکلیئر بم گرا یا،پینٹاگون کا کہنا ہے کہ
امریکانے پہلی بار اس بم کا استعمال کیاہے اور افغان صوبے دھرافغانستان میں
نیٹومشن نے بھی حملے کی تصدیق کردی ہے۔ دریں اثنا افغانستان میں ہونے والی
دیگر کارروائیوں میں مجموعی طور پر 80افرد مارے گئے ہیں۔افغانستان پر حملہ
کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں
ملٹری آپریشن کامیاب رہا‘وہاں داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
امریکہ اِس وقت دنیا میں دہشت کا نشان بن چکا ہے۔ بھارتی حکومت نے جس طرح
ممبئی حملے خود کروائے اور اُس کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر پورے دُنیا
میں پاکستان کو خوب بدنام کیایہ سب کچھ امریکہ کی آشیر باد سے کیا گیا وہ
تو امریکی انٹیلی جنس آفیسر نے بھارتی عدالت میں حلف نامے کے ساتھ یہ بیان
جمع کروایا ہے کہ یہ سب کچھ بھارت نے خود کیا تھا۔یہ ہے بھارت اور امریکہ
کا گٹھ جوڑ ۔کشمیرکی وادی میں مسلمانوں کا قتل عام امریکہ اقوام متحدہ کی
بے حسی کا شاخسانہ ہے۔اگر ہم اِس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ امریکی قانون
شکنی کا سارا زور کس پر ہے تو صرف اور صرف وہ مسلم دُنیا ہے۔اِس حوالے سے
مسلم حکمرانوں کو اپنے اپنے ملکوں میں جمہوری اندازِ حکمرانی اپنانا ہوگا
تاکہ اُن کی عوام جو سوچتی ہے اور جو چاہتی ہے اُس کی آواز مسلم حکمرانوں
کے کانوں تک پہنچے اور وہ اپنے عوام کی ترجمانی کا فریضہ انجام دے
سکیں۔کیونکہ جس طرح سے امریکہ نے عراق کے سابق صدر صدام حسین کو اپنی دوستی
کے چنگُل میں پھانسا اور پھر عراق کی جانب سے ایران کے اوپر چڑھائی کروائی
اور ایران کو کمزور کیا بعد میں اِسی صدام کو پھانسی پہ لٹکایا اور دنیا
بھر کے میڈیا پہ لائیو دیکھایا۔پھر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور بارہ
لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا۔ امریکہ بہادر کے سامنے کلمہ حق
کہنا تو ایک طرف مسلم حکمران تو اِس کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے۔ مسلم دنیا
کو اپنے عوام کو خوشحال کرنا ہو گا اور پھر جب مسلم دنیا خود اپنی عوام کی
آشیر باد سے اس قابل ہوں کہ وہ اقوام متحدہ اور امریکہ کو یہ احساس دلائیں
کہ انٹرنیشنل قوانین پر عمل درآمد کس طرح ہوتا ہے اگر چہ مسلم دنیا کے
حکمرانوں کا راہ راست پر آنا مستقبل قریب میں دیکھائی نہیں دیتا لیکن اس کے
علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ امریکی عوام مہذب ہیں لیکن اگر وہ اتنی
مہذب،ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ہیں تو پھر ان کی عقل و دانش ان کو اس امر
کی طرف راغب کیوں نہیں کرتی کہ امریکہ بھی عالمی قوانین کا احترام کرئے
امریکی عوام کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ پوری دنیا میں امریکہ صرف
اِس لیے نفرت کا نشان ہے کہ امریکہ نے خود کو ہر طرح کے قانون سے بالا تر
سمجھ رکھا ہے۔ امریکہ کو لگام صرف اﷲ پاک ہی دے گا۔ |