جب سے خالق کائنات نے اس زمین پر اشرف المخلوقات کے عرف
سے پہچانی جانے والی انسان نامی مخلوق کواپنانائب اورخلیفہ بناکربھیجاہے تب
سے لیکرآج دن تک حضرتِ انسان کسی نہ کسی بہانے اپنے ہی ہم نسلوں کاخون
بہارہاہے اس دوران جتناخون انسان نے انسان کابہایاہے اگرکسی بھی دوسرے ذی
روح کابہایاجاتاتو اب تک اسکی نسل دنیاسے ناپیدہوچکی ہوتی کبھی ہٹلرنے
فسادکی جڑقراردیکریہودیوں کاقتل عام کیاتو کبھی عیسائیوں نے اپنے ہی لاشوں
کے کشتوں کے پشتے لگادیئے امریکہ نے ایٹم بم کاشغل فرمایاتوبشارلاسدنے اپنے
ہی عوام کوکیمیائی ہتھیاروں سے مارا دنیامیں مذہب کے نام پربھی بہت ساخون
بہایاگیامگرقبضے کی ہوس نے بھی خون کے سمندرجاری کئے بہت سے معاشرے
سالہاسال سے ایک دوسرے کاخون بہاتے رہے معاشروں سے جب عدم برداشت اٹھ جائے
،اختلاف رائے کرنے والے کوواجب القتل قراردینے کارواج پروان چڑھے تو ایسے
معاشرے اورجنگل میں کوئی فرق باقی نہیں رہتااس قسم کے معاشروں میں طاقتورجب
چاہے کمزورکوقتل کردے جب چاہے اس کاگھرجلادے یازندہ انسانوں کوآگ لگاکروحشت
وبربریت کی داستانیں رقم کردے ہمارامعاشرہ بھی کچھ اسی قسم کی صورتحال سے
دوچارنظرآرہاہے یہاں کوئی بھی دوسرے کوکافرقراردیکر قتل کردیتاہے توہین
رسالت ﷺ کے مسئلے کویہاں اپنی انااورذاتی عداوت کیلئے استعمال کیاگیااورکچھ
لوگوں نے خودہی جج ،وکیل اورجلاد بن کر سرقلم کئے اس سلسلے کاتازہ واقعہ
عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں پیش آیاجہاں صوابی زیدہ سے تعلق رکھنے
والے صحافت کے طالبعلم مشال خان کوتوہینِ مذہب کے نام پرسرِ عام قتل
کردیاگیامشال خان کے بارے میں جتنی معلومات میسر ہیں اس کے مطابق وہ ایک
سلجھاہوا،جدید دورکے تقاضوں سے باخبرصحافی، تصوف کوپسندکرنے
والااورپیغمبرانسانیت ﷺ وحضرت عمرؓ کوامت کیلئے رول ماڈل ماننے والاطالبعلم
تھا حضرت عمرؓ کومثال قراردینے والاطالبعلم توہین رسالتﷺ کامرتکب کیسے
ہوسکتاہے ؟ بہرحال اس تمام واقعے کی تحقیقات کے بعدہی جاننے کاموقع ملے
گاکہ سچ اورجھوت کیاہے؟ مگرایک تعلیم یافتہ پختون ،راسخ العقیدہ مسلمان باپ
اقبال خان کاجگرگوشہ توہین مذہب کے نام پر ان سے ہمیشہ کیلئے چھین
لیاگیااوروہ بھی اسی مذہب کے نام پر جس مذہب کووہ اپنامذہب مانتے ہیں جس کے
اکابرین کواپنے لئے رول ماڈل سمجھتے ہیں اورسب سے بڑی بات یہ کہ وہ اسی
معاشرے میں رہتے ہیں جہاں کااوڑھنابچھونااسلام ہے اسی اسلام کے نام پرہونے
والے اس قتل کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے پولیس کی تحقیقات کاتو اس
سے پہلے بھی کبھی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اوراس دفعہ بھی یہی ہونے کاامکان
نظرآرہاہے وزیراعلیٰ بھی پولیس کوبرالذمہ قراردے رہے ہیں اورمعاملہ چونکہ
گرم ہے تو انہوں نے جوڈیشل انکوائری کی بات بھی کی ہے جوکہ سیاسی بڑھک کے
سواکچھ نہیں سابقہ ریکارڈگواہ ہے کہ اس قسم کے کسی کیس کاکبھی کوئی نتیجہ
برآمد نہیں ہوااورناہی کسی کوسزاملی اگریہاں مجرم کوسزاملنے کارواج ہوتاتو
سوال ہی پیدانہیں ہوتاکہ کوئی اس طرح قانون ہاتھ میں لیکر کسی کی جان سے
کھیلے اب بھی وقت ہے اس کیس کی شفاف انکوائری کرائی جائے اگرسول ادارے اسکی
اہلیت نہیں رکھتے تو بے شک یہ کیس فوجی عدالتوں کے حوالے کیاجائے اوراس کے
ذمے داروں کوجلدازجلدسزادلائی جائے جس طالبعلم نے بھی قانون کوہاتھ میں
لیاہے چاہے وہ بڑے باپ کابیٹاہے یاکسی سیاسی تنظیم سے اس کاتعلق ہے اسے
نشان عبرت بناناضروری ہے صوبائی حکومت کو اس سلسلے میں اپنی ذمے داری
کااحساس کرناہوگامیڈیاپردعوے اور زمینی حقائق اس حکومت کی پرلے درجے کی
نااہلی پردلالت کرتے ہیں احتساب کمیشن کے نام پرجھولیاں بھرکردادسمیٹی گئی
آج احتساب کمیشن کاحال سب کے سامنے ہے ڈیڑھ سال سے اس ادارے کوسربراہ نہیں
مل رہااسی طرح صوبے کے 18میں سے 9یونیورسٹیاں سربراہوں سے محروم ہیں
50%سکولوں اورکالجوں کے پاس پرنسپل موجودنہیں نصف درجن تعلیمی بورڈزکے
چیئرمین موجودنہیں دیگرعملہ کی کمی تو رہی ایک طرف کسی ادارے کے سربراہ
کاہوناازحدضروری ہے خصوصاًتعلیمی ادارے سربراہ کے بغیرچلانے کایہ دنیامیں
انوکھاتجربہ کیاجارہاہے یہاں پشاوریونیورسٹی عرصہ درازسے بغیرسربراہ کے چلی
آرہی ہے مردان یونیورسٹی کاوائس چانسلرموجودنہیں اسی مشال خان نے قتل سے
چند دن قبل ہی ایک انٹرویومیں حکومت سے سربراہ کی تقرری کامطالبہ کیاتھاان
کاکہناتھاکہ وائس چانسلرکی غیرموجودگی کی وجہ سے بہت سے طلباکی ڈگڑیاں
یونیورسٹی کے پاس پھنسی ہوئی ہیں ڈگری پر وائس چانسلرکے دستخط نہ ہوں تواسے
ڈگری کون مانے گا؟ اگرمردان یونیورسٹی کاسربراہ موجودہوتاتو اس سے طالب علم
کے قتل کے حوالے سے بازپرس بھی ہوسکتی تھی اب سربراہ کی غیرموجودگی میں ڈی
پی او مردان تمام صورتحال کنٹرول کررہے ہیں یونیورسٹی انتظامیہ میں کوئی
ایساشخص موجودنہیں جوذمے داری کے ساتھ اس واقعے پراپنے خیالات کااظہارکرسکے
ایک ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرجس کی فورس بقول وزیراعلیٰ کے وہاں قتل ہونے کے آدھے
گھنٹے بعدپہنچی ہو وہ کتناہی قابل اورایماندارکیوں نہ ہو اسے درست صورتحال
کاادراک کرنابہت ہی مشکل ہے سربراہ کی غیرموجودگی میں تعلیمی ادارے قتل
گاہوں کاروپ دھاررہی ہیں جبکہ حکمران ہیں کہ تعلیمی انقلاب کی باتوں سے ان
کے پیٹ نہیں بھرتے جہاں یہ دلخراش واقعہ رونماہواہے وزیرتعلیم کاتعلق بھی
اسی شہرسے ہے انکی رہائشگاہ اوریونیورسٹی کے درمیان زیادہ سے زیادہ تین
کلومیٹرکافاصلہ ہوگاجب وزیرتعلیم کے اس قدرقریب اس قسم کے واقعات رونماہوتے
ہیں تو صوبے کی دیگرتعلیمی اداروں کاحال کیاہوگایہ جاننے کیلئے کسی سقراطی
عقل کی ضرورت نہیں درحقیقت موجودہ حکومت کی نااہلی سے تعلیمی ادارے قتل
گاہوں میں تبدیل ہورہی ہیں مگرحکومت کو اپنی جھوٹی اورسوشل میڈیائی
کارکردگی سے فرصت نہیں حکومت مذکورہ واقعے کوفوج کے حوالے کرے تاکہ وہ
آپریشن ردالفسادکے تحت اس واقعے کی انکوائری کرکے تعلیمی اداروں کوبھی
فسادسے پاک کرے اور صوبائی حکومت شترمرغ کی طرح ریت میں سردباکراپنی باری
گزرنے کاانتظارکرنے کی بجائے تمام تعلیمی اداروں کالجوں ،سکولوں
اوریونیورسٹیوں میں سربراہوں کاتقررعمل میں لائے اس صوبے میں اہل اورتعلیم
یافتہ افرادکی کمی نہیں حکومت ہرادارے میں اپنے بندے ٹھونسنے کی بجائے اہل
لوگوں کاتقررکرے اورتعلیمی اداروں کیلئے سربراہوں کی تقرری کامعیارسیاسی
وابستگی نہیں بلکہ اہلیت بنائے تب ہی یونیورسٹی میں طالب علم کے سفاکانہ
قتل جیسے د لخراش واقعات کاسدباب ممکن ہے ۔ |