سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر یہ خبر عام کی جارہی ہے اور
اسے رمضان المبارک کا مبارک میسج سمجھ کر عوام بھی بڑے پیمانے پر شیئرکی
جارہی ہے ۔ وہ میسج اس طرح سے ہے ۔
((مبارک ہومئی کی فلاں تاریخ کو رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہونے والا ہے
۔
حضرت محمدؐ نے ارشاد فرمایا ! جس نے سب سے پہلے کسی کو رمضان کی مبارک دی
اس پر جنت واجب ہو گئی ایک بار درود پاک پڑھ کر آگے شیئرزکریں -))
یہ میسیج لوگوں میں اس قدر شیئر کیا گیا کہ عربی بولنے والے بھی اس سے
متاثر ہوگئے اور عربی زبان میں بھی اس کا مفہوم بیان ہونے لگا ،وہ اس طرح
سے ہے ۔
((من أخبر بخبر رمضان أولا حرام عليه نار جهنم))
یعنی جس نے سب سے پہلے رمضان کی خبر دی اس پر جہنم کی آگ حرام ہوگئی ۔
اس عربی عبارت کو لوگوں نے حدیث رسول سمجھ لیا جبکہ کسی نے وہی اردو والی
بات عربی میں ترجمہ کردیا تھا یا یہ بھی ممکن ہو کہ کسی عربی بولنے والے
نےپہلے عربی زبان میں اس بات کو گھڑ کر پھیلایا ہو اور پھر اسے اردو ہندی
اور دوسری زبانوں میں ترجمہ کیا گیاہو۔بہرکیف!اتنا تو طے ہے کہ یہ میسج بہت
ہی گردش میں ہے تبھی تو کئی زبانوں میں یہ بات مشہور ہوگئی ۔
اس میسج کے متعلق میں لوگوں کو چند باتوں کی خبردینا چاہتا ہوں ۔
پہلی بات : یہ میسج جھوٹا ہے اسے کسی بے دین ملحدنے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے
اور ہمارے ایمان وعقیدے کو خراب کرنے کے لئے مسلمانوں کے درمیان شیئر
کررہاہے ۔یاد رکھئے جو کوئی نبی ﷺ کی طرف جھوٹی بات گھڑ کر منسوب کرتا ہے
اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ،نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَنْ كَذَبَ عَلَي مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ
(صحیح البخاري:1291،صحیح مسلم:933) .
ترجمہ: جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے۔
اور جو بلاتحقیق کوئی بات آنکھ بند کرکے شیئر کرتے چلے جاتے ہیں وہ بھی اس
جھوٹے کے جھوٹ میں شامل ہوجاتے ہیں ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
كفى بالمرءِ كذبًا أن يُحَدِّثَ بكلِّ ما سمِع( مقدمہ صحيح مسلم )
ترجمہ: کسی انسان کے جھوٹا اور ایک روایت کے مطابق گناہگار ہونے کیلئے اتنا
ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے) آگے بیان کر دے۔
اس لئے مسلمانوں کو سوشل میڈیا پہ آئی چیزوں کی پہلے تحقیق کرلینی چاہئے
پھر اس کے بعد فیصلہ کرنا چاہئے کہ ایا یہ خبر سچی یا جھوٹی ؟ تحقیق سے جو
بات سچی ثابت ہوجائے اسے ہی شیئر کریں اور جس کے متعلق آپ کو معلوم نہیں یا
تحقیق سے جھوٹا ہونا ثابت ہوگیا تواسے ہرگزہرگز کسی کو نہ بھیجیں ۔
دوسری بات : دین کے متعلق خوشخبری سنانے والا صرف اور صرف اللہ کے پیغمبر
ہیں اور پیغمبر ہی کسی کو ڈراسکتے ہیں ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا
وَنَذِيرًا (الاحزاب:45)
ترجمہ: اے نبی ! ہم نے آپ کو گواہی دینے والا ، بشارت دینے والا اور ڈرانے
والا بناکر بھیجا ہے ۔
اس لئے کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کوئی بات گھڑ کر اس پر خوشخبری
سنائے ۔ بہت سارے میسج میں لکھا ہوتا ہے کہ یہ میسج بیس لوگوں کو بھیجو تو
مالا مال ہوجاؤگے اور اگر نہیں بھیجا تو فقیر بن جاؤگے ۔ دوسرا فقیر ہونہ
ہوجھوٹا میسج گھڑنے والا نیکی ضائع کرکے خود فقیر وقلاش ہوگیا۔ ایسے فقیروں
کا میسج بھیج آپ بھی فقیر نہ بنیں ۔ اور آج سے یہ طے کرلیں کہ بیس آدمی ،تیس
آدمی کو بھیجنے والی ہربات جھوٹی ہے ۔
تیسری بات : جنت وجہنم اللہ کی طرف سے ہے ، نبی ﷺ صرف ہمیں خبر دینے والے
تھے جو بذریعہ وحی آپ کے پاس آتی تھی کہ فلاں جنتی ہے ، فلاں کام کرنے پر
جنت ہے ، فلاں کام کرنے والا جہنم رسید ہوگا ۔ جب نبی ﷺ کو یہ اختیار نہیں
تھا تو جو لوگ جھوٹی بات گھڑ پر جنت کی بشارت یا جہنم کی خبر دیتے ہیں کتنے
بڑے مجرم ہیں ؟ آپ ایسے مجرموں کی جھوٹی خبریں شائع کرکے اس کے بدترین جرم
میں شمولیت اختیار نہ کریں ۔
چوتھی اور آخری بات : آج کل سوشل میڈیا پہ اسلام کی غلط ترجمانی کی جارہی
ہے ، طرح طرح سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کئے جارہے ہیں ،قرآن
وحدیث کا نام لیکر ہمیں دھوکا دیا جارہاہے ، جھوٹی باتوں کو نبی ﷺ کی طرف
منسوب کرکے پھیلائی جارہی ہیں،اس لئے ہمیں بہت محتاط رہنا ہے اور اسلام کے
خلاف ہورہی غلط ترجمانیوں کا سد باب کرنا ہے ۔ ہم سدباب کرنے کے بجائے
پروپیگنڈے کو مزید ہوا دینے لگ جاتے ہیں۔ نبی ﷺ کی طرف منسوب کوئی
خبریااسلام اور قرآن وحدیث سے متعلق کوئی بھی بات بغیر تحقیق کے آگے شیئر
نہ کریں اور نہ ہی آپ کوئی ایسی بات اپنی طرف سے لکھ کر پھیلائیں جس کے
متعلق آپ کو صحیح سے معلوم نہیں ،وہی بات لکھیں جو متحقق طور پر آپ کو
معلوم ہے اور ساتھ میں مکمل حوالہ درج کریں تاکہ دوسروں کے لئے اس بات کی
تحقیق کرنا آسان رہے ۔
|