نیم سیاسی بیٹھک
امجد صدیقی
سنجیاں گلیاں
پانامہ کیس کے فیصلے کاپوری قوم کو بے صبری سے انتظار ہے۔کچھ لوگ اس فیصلے
کو لے کر بہت جزباتی ہورہے ہیں۔اور کچھ کے نزدیک اس فیصلے کے نتیجے میں
کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہونے جارہی۔ عدلیہ بھی اس کیس کے فیصلے کی اہمیت کے
پیش نظر فیصلہ سنانے کے لیے کسی مناسب وقت کے انتخاب میں ہے۔کوشش ہے کہ اس
فیصلے کے بعد بگاڑ کے خدشات کم سے کم ہوں۔کچھ لوگ اس فیصلے کو لیکر کو قوم
کو گمراہ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔جن کی بدنیتی دیکھتے ہوئے اس فیصلہ کے
صادر کرنے کے لیے مناسب وقت کا انتظار ہورہا ہے۔اس تاخیر سے بعض لوگ تلملا
رہے ہیں۔مگر ان کے پاس سوائے انتظارکرنے کے کوئی چارہ نہیں ۔لمبے انتظار کی
یہ اذیت دراصل ایسے لوگوں کے لیے ایک مکافات عمل ہے۔کل وہ اپنی جعلی
مقبولیت کے بل بوتے پر عدالتی کاروائیوں پر اثر انداز ہورہے تھے۔اپنی بے
موقع پریس کافنرنسوں کے ذریعے انہوں نے پاناما کیس کی سماعت کے دوران ماحول
خراب کیے رکھا ۔جب عدلیہ انہیں عدالتی معاملات کے حوالے سے محتاط انداز میں
تنبیہ کرتی تو یہ بالکل نظر انداز کردیتے۔اس صورت حال کو عدلیہ نے بڑے تحمل
اور بردباری سے فیس کیا۔اس طرح کی چالاکیوں پر اسے از حد صبرکرنا
پڑا۔مکافات عمل دیکھیے کہ اب ان لوگوں کی بولتی بند ہے۔وہ ناراض ہیں۔اور
طیش میں بھی ۔مگر سوائے صبر کرنے کے ان کے پا س کوئی چارہ نہیں۔ پاناما کیس
کے فیصلے سے متعلق قیاس آرائیاں جاری ہیں۔لوگ اپنے اپنے دل کا غبارنکالنے
میں مصروف ہیں۔ مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری پرویز الہی کا کہنا ہے۔کہ
ڈاکوؤں سے بچا جاسکتاہے۔مگر حکمرانوں سے بچنا مشکل ہے۔قوم پانامہ زدہ
حکمرانوں سے جان چھڑائیں۔الیکشن میں لوگوں نے ووٹ دیے ۔مگر جادوگروں نے وہ
ووٹ ن لیگ کے ڈبوں میں ڈال دیے۔اب مکمل پہرا دے کر دھاندلی کی کوشش ناکام
بنادیں گے۔آپ نے اگر ساتھ دیا تو کالا باغ ڈیم بناکر بجلی تین روپے یونٹ
دیں گے۔ہمارے دور میں دس لاکھ نوکریاں نکالی گئیں۔آج لوگ خودکشیاں کررہے
ہیں۔حکمراں عوام کو بے وقوف بنانا چھوڑ دیں۔ہم سیاست نہیں خدمت کرتے ہیں۔
چوہدری صاحب کو قدرت نے موقع دیاتھا کہ وہ ایک الگ حیثیت بنا سکیں۔نواز
شریف کی جلاوطنی کے بعد ا ن کے پاس حکومت اور اختیار دونوں تھے۔مگر اپنے
پاؤں پر کھڑے ہونے کی شاید انہوں نے ضرورت نہیں سمجھی ۔پہلے وہ مشرف کو دس
بار وردی میں صدر بنانے کی محدود سوچ میں دبے رہے۔پھر اپنی تمام عمر کی جمع
پونچی جو چوہدری ظہور الہی کی شہادت تھی۔زرداری صاحب کی ناءئب وزارت عظمی
کی نذر کردی۔اپنے جن کارناموں کا وہ بار بار ذکر کرتے رہتے ہیں۔ان کا باب
پچھلے دو الیکشنوں میں بند ہوچکا ہے۔قوم نے اپنے مینڈیٹ سے ان کے کارناموں
کی وقعت بیان کردی ہے۔جمہویت کو مفلوج کرنے کا گناہ ان کے تمام کارناموں پر
بھاری پڑگیا۔چوہدری صاحب ان دنوں ان لوگوں کے لیے معاون بنے ہوئے ہیں۔جن کا
واحد اینڈہ کسی نہ کسی طریقے سے وزیراعظم نواز شریف کوسیاسی منظر نامے سے
آؤٹ کرنا ہے۔پانامہ کیس میں بھی اس ٹولے کی تمنا گلیاں ہو جان سنجیاں ۔وچ
مرزا یار پھرے۔کی ہے۔مگران کی بدقسمتی یہ ہے کہ اب تک کی پانامہ کیس کی
سماعت میں جو ثبوت مخالفین نے پیش کیے ہیں۔ان کے بل بوتے پر گلیاں سنجیاں
ہونا مشکل ہوگا۔
پانامہ کا فیصلہ کیا ہوگا۔اس کا علم تو عدلیہ کو ہوگا۔مگرقیاس آرائیاں جاری
ہیں۔چوہدری صاحب بھی تمنا رکھتے ہیں کہ عدالت پانامہ کے چوروں کو سزا رے۔اس
مقدمے کے فریقین بھی بے چینی سے فیصلہ آنے کا انتظار کرہے ہیں۔ان کی طرف سے
اپنے اپنے حق میں فیصلہ آنے کی مختلف تاویلییں پیش کی جارہی ہیں۔ان کے پاس
ایسے کئی اقتباسات ہیں۔جو اس کیس کی سماعت کے دوران پیش آنے والے حالات و
واقعات میں سے اخذ کے گئے۔فریقین موافق مواد کھنگال کھنگال کر اپنے حق میں
فیصلہ آنے کا دعوی کررہے ہیں۔تحریک انصاف سمجھ رہی ہے کہ جس طرح سے کڑے
سوال جواب سے شریف فیملی کوگزرنا پڑا ۔بار بار لڑکھڑاہٹ ظاہر ہورہی تھی۔اس
لیے وہ اس کیس کا فیصلہ اپنے حق میں کی امید لگائے بیٹھی ہے۔دوسری طرف شریف
فیملی اس لڑکھڑاہٹ کو اہمیت نہیں دیتی۔اس کا کہنا ہے کہ قریبا تیس سال
پرانے معاملات پر تھوڑی بہت بیانی فرق بے معنی ہے۔اگر اتنے پرانے معاملات
کا سراج الحق سے بھی حساب مانگاجائے تو دو ٹوک جواب مشکل ہوجائے گا۔وہ اس
کیس کا فیصلہ اپنے حق میں آنے کا یقین کیے ہوئے ہے۔ تحریک انصاف کو عدلیہ
کی طرف سے ڈانٹ ڈپٹ کے کئی حوالے اسے یاد ہیں۔ جس طرح تحریک انصاف کے وکلاء
کی کڑی اور دقیق محنت سے پیش کردہ مواد عدلیہ نے پکوڑے باندھنے کا سامان
قراردے دیاتھا۔ عدالت نے اس تمام کاوش کو ملاحظہ کرنے کے بعد جب یہ پوچھا
تھا۔کہ ثبوت کدھر ہیں؟ تو تحریک انصاف کے وکلاء .کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں
کیا کی تصویر بن گئے تھے۔شریف فیملی کو اطمیان ہے کہ عدالت آخری دن تک
تحریک انصاف کی طرف سے کوئی مناسب ثبوت آنے کا انتظار کرتی رہی۔ عدالت کے
باہر تو بڑے ڈرامے ہوئے مگر عدلیہ جن ثبوتوں کی منتظر تھی۔پیش نہ کیے
جاسکے۔سماعت کے دوران کے حالات و واقعات دیکھنے کے بعد عام رائے یہی ہے کہ
اس کیس کا دوٹوک فیصلہ آنا شاید مشکل ہوجائے۔اگر عمومی رائے دھاندلی کیس کے
فیصلے کا ریپلے ہونے سے متعلق ہے تو ایسا بلا وجہ نہیں۔فریقین کی جانب سے
عدالت کو تشفی بخش جواب دینے میں ناکامی رہی۔اب اگر اس کیس کے فیصلے کے بعد
کسی کو سب کچھ تلٹ پلٹ ہونے کی امید ہے تو وہ خام خیالی ہی تصور کی جاسکتی
ہے۔اندازہ ہے کہ جم غفیر کی گلیاں سنجیاں ہو جانے کی حسرت پوری نہیں
ہوگی۔شیخ رشید کے لیے اس کیس میں دلچسپی اسی دن ختم ہوگئی تھی۔جس دن عدلیہ
نے شیخ صاحب کی طرف سے بار بار نواز شریف کو طلب کرنے کے جواب میں کہا کہ
ان کا اس کیس میں نام نہیں انہیں کس طرح طلب کیا جاسکتاہے۔شیٰخ صاحب نے اسی
دن گلیاں سنجیاں نہ ہونے کا ذہن بنالیاتھا۔منصوبہ سازوں کے لیے سوائے نواز
شریف کے سبھی کو سزا مل جانا تو بالکل گناہ بے لذت جیسا ہے۔ان کی بد قسمتی
کہ ایک بار پھر ان کی ناکافی پلاننگ سے گلیاں سنجیاں نہ ہوسکیں گی۔ |