غفلت کا علاج فقط بیداری ہے۔ بیداری کا تقاضا تجزیہ و
تحلیل ہے اور تجزیہ و تحلیل کا نتیجہ سمجھداری ہے، سمجھداری بھی اسے نصیب
ہوتی ہے جو تحقیق اور تجزیہ و تحلیل کے دوران غیر جانبداری کا دامن ہاتھ سے
نہ چھوڑے۔ شام میں جاری جنگ کے حوالے سے روس، ایران اور قطر کے درمیان ایک
معاہدہ ہوا، معاہدے کی رو سے پہلے مرحلے میں فوعہ اور کفریا کے علاقوں سے 5
ہزار اور دہشت گردوں کے زیر قبضہ علاقے مادایا اور زبدانی سے 2200 افراد کا
انخلا کیا جانا تھا، 15 اپریل 2017ء کو جنگ سے متاثرہ علاقوں سے انخلا کے
لئے ہزاروں افراد دہشت گردوں کے محاصرے والے علاقے راشدین میں جمع تھے، کچھ
لوگ اس علاقے سے نکلنے کے لئے بسوں پر سوار ہوچکے تھے اور کچھ ہو رہے تھے
کہ اس دوران ایک خودکش دھماکہ کرکے ایک سو چھبیس کے لگ بھگ بے گناہ لوگوں
کو شہید کر دیا گیا اور تقریباً اتنے ہی زخمی بھی ہوئے۔
مسلمانوں کے خلاف اس طرح کی دہشت گردی عرصہ دراز سے جاری ہے۔ دہشت گردی کی
تربیت دینے والے اور تربیت حاصل کرنے والے دونوں ہی چونکہ بہت زیادہ اللہ،
اللہ اور اسلام اسلام کرتے ہیں، اس لئے عام لوگ بھی انہیں پکا مسلمان اور
مجاہد ہی سمجھتے ہیں۔ ان اللہ والوں نے چن چن کر مسلمانوں کے ڈاکٹروں،
ادباء، شعراء، بیوروکریٹس، پولیس اور فوج کے جوانوں، سکول کے بچوں، حتٰی کہ
قوالوں اور نعت خوانوں کا بھی قتل عام کیا۔ انہوں نے صحابہ کرام اور اہل
بیت اطہار کے مزارات، اولیائے کرام کے آستانوں اور قائد اعظم کی ریزیڈنسی
کی بھی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ ان کی تاریخ شاہد ہے کہ عراق، شام، افغانستان،
سعودی عرب اور پاکستان سمیت جہاں ان کا بس چلا انہوں نے عام مسلمانوں کو ہی
نشانہ بنایا اور مسلمانوں کے مقدس اور محترم مقامات پر حملے کئے۔
اسلام دشمنوں نے، ان کے اللہ اللہ کے نعروں سے خوب فائدہ اٹھا یا انہیں منہ
مانگے فنڈز فراہم کئے اور ان کے نعرہ تکبیر اور انہی کی شمشیر کے ذریعے
مسلمانوں کے گلے کٹوائے۔ ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں کے بعد اب انہیں ایک
نئے انداز میں مسلمانوں کے قتل کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ نیا انداز
پہلے سے بھی زیادہ بھیانک اور خوفناک ہے، اس کی ایک مثال افغانستان کے
دارالحکومت کابل کی ملاحظہ فرمائیں، جہاں دو سال پہلے ایک ستائیس سالہ،
قرآن مجید کی حافظہ کو لوگوں کے ہجوم نے قرآن مجید کی شان میں گستاخی کا
الزام لگا کر اتنا زدوکوب کیا کہ وہ مر گئی، اس کے بعد اس کی لاش کو آگ
لگائی گئی، پولیس نے موقع پر موجود ہونے کے باوجود بے بسی کا اظہار کیا،
پھر اسے دریا میں پھینکا گیا، جہاں سے بعد میں اس کی لاش نکالی گئی، اس کے
تابوت کو خواتین نے کندھا دیا اور پھر اسے دفن کیا گیا، قانونی کارروائی
اور میڈیا کی تحقیقات نے گستاخی کے الزام کی تردید کی، تحقیقات سے یہ ثابت
ہوگیا کہ لڑکی حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ پانچ وقت کی نمازی اور نیک و
باحیا خاتون تھی اور اس پر گستاخی کا الزام بالکل جھوٹا تھا، لیکن جن کا
مقصد ہی اسلام کو بدنام کرنا تھا، انہوں نے اپنا کام کیا اور بس۔۔۔۔
اس کے ٹھیک دو سال بعد بالکل وہی کہانی مردان یونیورسٹی میں بھی دہرائی
گئی، جہاں ایک طالب علم کو نعوذ باللہ گستاخ رسول کہہ کر اتنا پیٹا گیا کہ
وہ ہلاک ہوگیا، کابل کی کہانی کی طرح پولیس یہاں بھی موجود تھی، لیکن بے
بسی کی ایکٹنگ کرتی رہی، اس کی لاش کو بھی آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔ ساتھ
ساتھ یہ افواہ بھی اڑائی گئی کہ یہ آدمی اتنا بد کردار تھا کہ اسے
یونیورسٹی نے بھی نکلنے کا حکم دیا تھا۔ اب اس طالب علم کی کونسی بدکاری،
یونیورسٹی کو پسند نہیں تھی، اس کے لئے آپ اس لنک پر موجود اس کا وہ
انٹرویو دیکھ لیں، جو اس نے اپنے قتل سے صرف دو دن پہلے دیا تھا۔
https://www.samaa.tv/urdu/pakistan/2017/04/743301/
یہ تھی اس کی بد کرداری جس کی سزا اسے دی گئی، آپ اس کا انٹرویو سنیں تو
آپ کو احساس ہو جائے گا کہ اس طرح کے آدمی پر جیب سے چرس برآمد ہونے کا
الزام تو لگ نہیں سکتا تھا، لہذا اس پر گستاخی کا الزام لگا دیا گیا۔
انٹرویو میں اس کا کہنا تھا کہ وائس چانسلر تعینات کیوں نہیں کیا جا رہا،
اس سے ہماری ڈگریاں متاثر ہو رہی ہیں اور کچھ پروفیسرز نے دو، دو اور تین
تین عہدے سنبھال رکھے ہیں، ایسا کس قانون کے تحت ہو رہا ہے، اس کے علاوہ
باقی سرکاری اداروں میں آٹھ دس ہزار پر سمیسٹر فیس بنتی ہے، یہاں پچیس ہزار
تک کیوں لی جاتی ہے۔ اس نے ان مسائل کے حل کے لئے احتجاج کا فیصلہ کیا تھا،
جس کے بعد مجمع عام نے اسے نشانِ عبرت بنا دیا۔ وہی اللہ اکبر کے نعرے جو
شام میں خودکش لگاتے ہیں اور جو کابل میں قاتلوں کے ہجوم نے لگائے، وہی
مردان کا ہجوم بھی لگا رہا تھا۔ ابھی مردان یونیورسٹی میں اللہ اکبر والوں
کے ہجوم کی گونج باقی ہی تھی کہ لیاقت میڈیکل ہیلتھ سائنسز یونیورسٹی
جامشورو میں ایم بی بی ایس سیکنڈ ایئر کی طالبہ نورین لغاری کو لاہور سے
داعش کے ساتھ ہم کاری کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ اس گرفتاری سے یہ ثابت
ہوتا ہے کہ اب داعشی فکر مدارس کے بعد یونیورسٹیوں میں بھی اپنا نیٹ ورک
قائم کر چکی ہے۔
اگر ہمارے سکیورٹی ادارے داعشی و طالبانی فکر کا مقابلہ کرنے میں مخلص ہیں
تو انہیں یہ حقیقت سامنے رکھنی ہوگی کہ کسی بھی یونیورسٹی کے اسٹاف میں جب
تک داعشی و طالبانی فکر موجود نہ ہو، اس وقت تک یونیورسٹی کے طلباء میں
داعشی سرایت نہیں کر سکتے۔ عین اس وقت جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو
پنجاب یونیورسٹی لاہور بھی نعرہ تکبیر ۔۔۔ اللہ اکبر کے نعروں سے گونج رہی
ہے۔۔۔ یعنی۔۔۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے اسٹاف میں بھی اللہ والے اپنا کام
کر رہے ہیں اور وہاں بھی کوئی مشعل گل ہونے کو ہے۔ اگر ہمارے حکام اور
عوام، تعلیمی درسگاہوں میں ان گل ہوتی ہوئی مشعلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو
پھر یاد رکھئے! غفلت کا علاج فقط بیداری ہے۔ بیداری کا تقاضا تجزیہ و تحلیل
ہے اور تجزیہ و تحلیل کا نتیجہ سمجھداری ہے، سمجھداری بھی اسے نصیب ہوتی
ہے، جو تحقیق اور تجزیہ و تحلیل کے دوران غیر جانبداری کا دامن ہاتھ سے نہ
چھوڑے۔
|