نام و نسب:
آپؓ کا نام نامی اسم گرامی معاویہ ، کنیت ابو عبد الرحمن ، والد کا نام ابو
سفیان ؓ ، دادا کا نام حرب اور والدہ کا نام ہندؓ ہے ۔ حافظ ابن حزمؒ نے
والد کی طرف سے آپؓ کا سلسلہ نسب یوں تحریر فرمایا ہے : ’’ معاویہؓ بن ابی
سفیانؓ بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی……الخ۔ ( جمہرۃ
الانساب لابن حزم)
ولادت باسعادت:
حضرت معاویہؓ کی ولادت بعثت نبویؐ سے پانچ سال قبل ۶۰۸ ء میں ہوئی ،ماں
باپ نے اُس وقت کے عرب کے دستور کے مطابق مختلف علوم و فنون سے آپؓ کو
آراستہ کیا اور آپ کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلوانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔(
الاصابہ فی تمییز الصحابہؓ : ۴۱۲/۳)
حلقہ بگوشِ اسلام:
ویسے تو حضرت معاویہ ؓصلح حدیبیہ کے بعد سنہ ۷ ہجری میں عمرۃ القضاء سے
پہلے ہی ایمان لے آئے تھے ، لیکن کچھ والدہ کے ڈر اور کچھ دیگر معقول اعذار
کی بناء پر آپ ؓ نے اپناقبولِ اسلام مخفی رکھا، پھر عین فتح مکہ کے موقع پر
اپنے والد بزرگوار حضرت ابو سفیانؓ کے ہم راہ واشگاف الفاظ میں آپؓ نے اپنے
اسلام لانے کا اعلان کیا ۔( الاصابہ فی تمییز الصحابہؓ : ۴۱۲/۳)
حسن صورت اور حسن سیرت:
حضرت معاویہ ؓ کو قدرتِ الٰہیہ نے جہاں ظاہری حسن صورت کے لحاظ سے گلابی
رنگ ، کتابی چہرہ ، سرو قد ، جاذب نظر اور پُرکشش بانکپن جیسی خوب صورت شکل
و وجاہت سے نواز رکھا تھا تو وہیں حسن سیرت کے لحاظ سے بھی آپؓ کو اپنی
خشیت و ﷲیت ، اطاعت پیمبری ، حلم و بردباری ، عفو درگزر ، نرم خوئی ، عمدگیٔ
اخلاق ، بلندیٔ کردار ، فقر و استغنا عاجزی ، انکساری ، سادگی اور ظرافت
طبع جیسی عمدہ صفات اور اعلیٰ صلاحیتوں سے بھی وافر حصہ عطا فرمارکھا تھا۔
خدمت نبوی اور کتابت وحی:
چوں کہ آنحضرتؐ کے زمانہ میں ’’کتابت وحی‘‘ ایک نازک ترین مگر عظیم ترین
کام تھا اور اس کے لئے جس احساسِ ذمہ داری ، امانت داری و دیانت داری اور
جس علم و فہم کی ضرورت تھی وہ محتاجِ بیاں نہیں اور حضرت معاویہؓ میں یہ
تمام تر باتیں بوجہ اتم موجود تھیں اس لئے حضرت معاویہؓ کے حلقہ بگوشِ
اسلام ہوجانے کے بعد حضورِ اقدسؐ کی نظر دور شناس نے آپؓ کی علمی پختگی اور
عملی شیفتگی کو فوراً بھانپ لیا اور آپؓ کو ’’ وحی‘‘ جیسے نازک مگر عظیم
کام پر مامور فرمادیا ، جسے نہایت عمدگی اور بہتر انداز میں آپؓ ادا فرماتے
رہے تاآں کہ آپؓ کا شمار کاتبین وحی کے کبار اور جلیل القدر صحابہؓ میں
ہونے لگا ۔چنانچہ علامہ ابن حزمؒ کی تحقیق کے مطابق کتابت وحی کے سلسلہ میں
آنحضرتؐ کی خدمت میں سب سے زیادہ رہنے کا شرف پہلے نمبر پر اگر حضرت زید بن
ثابتؓ کو حاصل ہے تو دوسرے نمبر پر بلا شرکت غیرے حضرت معاویہ ؓ کو حاصل ہے
۔ ( جوامع السیرۃ : ص ۲۷)
علاوہ ازیں آنحضرت ؐ نے اپنے باہر اور دور دراز سے آنے والے مہمانوں کی
خاطر مدارات اور ان کے قیام و طعام کا بند و بست اور انتظام و اہتمام حضرت
معاویہؓ کے ہی سپرد فرمارکھا تھا ۔ ( تاریخ اسلام : ۷/۲)
اور مکہ مکرمہ سے آجانے کے بعد تو حضرت معاویہؓ نے مستقل طور پر اپنے آپ کو
حضورِ اقدس ؐ کی خدمت کے لئے وقف کردیا تھا۔ ( سیدنا معاویہ بن ابی سفیانؓ
: ۳۹ ، ۴۰ )
مختلف غزوات میں شرکت:
اور آپؓ مستقل طور پر آنحضرتؐ کے ساتھ رہنے لگ گئے تھے اور تمام غزوات
بالخصوص غزوۂ حنین ، غزوۂ طائف ، غزوۂ یمامہ اور چھوٹی بڑی کئی گشتی اور
جنگی مہموں میں شرکت فرمائی۔ (سیرت ابن ہشامؒ : ۲۹۲/۲)
حضرت معاویہ ؓ آنحضرتؐ کی نظر میں:
حضرت معاویہؓ کی آنحضرت ؐ کی خدمت میں مسلسل حاضری ، کتابت وحی ، امانت
داری و دیانت داری اور دیگر صفات محمودہ سے متاثر ہوکر حضورنبی پاکؐ نے
متعدد بار کئی مواقع پر آپؓ کے حق میں دُعائیں فرمائی ۔ چنانچہ ایک جگہ
ارشاد ہے : ’’ اے اﷲ ! معاویہؓ کو سیدھا راستہ دکھانے ولا اور ہدایت یافتہ
بنادیجئے ! اور اس کے ذریعہ دوسرے لوگوں کو بھی ہدایت عطا فرمادیجئے ! ۔‘‘
(ترمذی: ۲۴۷/۲، اسد الغابہ :۳۸۶/۴، کنز العمال : ۷ /۸۷)
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے : ’’اے اﷲ! معاویہؓ کو حساب و کتاب کا علم
سکھلادیجئے ! اور اسے جہنم کے عذاب سے بچادیجئے ! ۔‘‘ الاستیعاب تحت
الاصابہ : ۳۸۱/۳ ، مجمع الزوائد : ۳۵۶/۹ ، کنز العمال : ۸۷/۷)
ایک اور جگہ ارشاد ہے : ’’اے اﷲ! معاویہؓ کا سینہ ( علم و حکمت سے) لبریز
فرمادیجئے! ۔‘‘ ( تاریخ اسلام للذہبیؒ : ۳۱۹/۲)
حضرت معاویہؓ عہد صدیقی میں:
آنحضرتؐ کی وفات کے بعد حضرت معاویہ ؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر
بیعت کرلی اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہد خلافت کے اوّل ایام ہی میں آپؓ
روایت حدیث کی طرف متوجہ ہوگئے اور کئی ایک احادیث حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت
عثمانؓ اور اپنی ہم شیرہ حضرت ام حبیبہ ؓ سے روایت کیں ، جن کی تعداد علامہ
ابن حجر ہیتمی مکیؒ کی تحقیق کے مطابق ۱۲۳ ہے ۔ ( اعلام الاسلام وغیرہ : ص
۲۲۶)
جہادِ شام کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آپؓ کے حقیقی بھائی حضرت یزید
بن ابی سفیانؓ کو امیر لشکر بناکر جب کہ آپؓ کو اس لشکر کا علم بردار بناکر
روانہ فرمایا۔ (محاضرات تاریخ الامم الاسلامیہ : ۴۷۱/۴، فتوح البلدان :
ص۴۸)
حضرت معاویہؓ عہدفاروقی میں:
عہد فاروقی میں جوعلاقے رومیوں کے قبضے میں چلے گئے تھے ، حضرت معاویہ ؓ نے
اُن کے ہاتھ سے چھین کر وہاں اسلامی شوکت و حشمت کا پھریررا لہرا دیا نیز
اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ’’قلعہ عرفہ‘‘ کو فتح کیا جس سے حضرت عمر فاروق
ؓ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور آپؓ کو اُردن کا گورنر مقرر فرمادیا ۔ (تاریخ
اُمت: ۸/۳)
عہد عثمانی میں پہلے بحری بیڑے کا قیام:
عہد عثمانی میں حضرت معاویہ ؓ نے پہلا اسلامی بحری بیڑا ایجاد کیا جو سنہ
۲۸ ہجری میں بحیرۂ روم میں اُتراچنانچہ کچھ ہی دنوں بعد یورپ و افریقہ کی
وسیع و عریض زمین پر اسلامی جھنڈا لہراتا ہوا نظر آنے لگا۔(سیدنا معاویہ بن
ابی سفیانؓ : ۴۵ ، ۴۶)
حضرت معاویہؓ عہد مرتضوی میں:
حضرت عثمانؓ کی الم ناک شہادت کے بعد حضرت علی المرتضیٰ ؓ مسلمانوں کے
چوتھے خلیفہ راشد ہوئے ، لیکن افسوس کہ آپؓ کا انتخاب ایک انتہائی پُر آشوب
اور ہنگامی دور میں ہوا اور سوئے اتفاق کہ انہی لوگوں کے ہاتھوں ہوا کہ جن
کا دامن دم عثمان کے داغ سے داغ دار تھا ، اس لئے صحابہؓ کی ایک بڑی جماعت
نے آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو دم عثمان کے قصاص کے حصول کی شرط کے ساتھ
مشروط کردیا اور قصاصِ دم عثمان کے حصول کے لئے آمادۂ بغاوت ہوگئے ۔
جنگ جمل:
یہاں تک کہ پہلے ’’جنگ جمل ‘‘ کی صورت میں مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں
باہم سخت ٹکراؤ ہوا اور آن کی آن میں فریقین کی بھاری اکثریت خاک و خون میں
لت پت ہوگئی ، اور لڑائی کی آگ ٹھنڈی ہوگئی لیکن بعد میں اگرچہ مختلف قسم
کی باہمی مصلحانہ کوششوں کی تگ و دو جاری رہی تاہم وہ کسی طرح بھی اپنے
اندر دم نہ بھرنے پائیں ،اورکچھ عرصہ تک تو یہ جنگ ٹھنڈی رہی لیکن جب اس کی
خاکستر میں دبی چنگاری مسلمانوں کی ہر قسم کی باہمی مصالحانہ کوششوں کے
باوجود بھی کسی طرح ختم نہ ہوسکی تو وہ دبی چنگاری دوبارہ بھڑک اُٹھی ۔
جنگ صفین:
اور مسلمانوں کی دو بڑی جماعتیں ایک بار پھر ایک دوسرے کے مدمقابل آگئیں
اور جنگ صفین کی صورت میں ان کا باہمی ٹکراؤ ہوا ، لیکن یہ جنگ پہلی جنگ کے
مقابلہ میں خاصی سرد رہی ، اس کی وجہ یہ ہوئی کہ فریقین میں سے بعض عاقبت
اندیش اور دُور رس نگاہ رکھنے والے حضرات نے جب یہ محسوس کیا کہ اگر
مسلمانوں کی یہ باہمی خون ریز جنگ یوں ہی باقی رہی تو مسلمانوں کی شان و
شوکت اور قوت و طاقت مکمل طور پر تباہ و برباد ہوجائے گی اور ان کا تمام
جمع شدہ شیرازہ بکھر جائے گا اس لئے انہوں نے فوراً جنگ بندی کا اعلان
کردیا ۔
اس کے بعد طرفین سے دو حکم مقرر ہوئے تاکہ مسلمانوں کی ان جنگی منفی حالات
کا رُخ کسی مثبت اور سیدھے راستہ کی طرف پھیرا جاسکے ، لیکن یہ صورت بھی
کسی طرح کارگر ثابت نہ ہوسکی اور حالات نے پہلی کی سی صورت دوبارہ اختیار
کرلی اور قریب تھا کہ مسلمانوں میں ایک تیسری جنگ بھڑک اٹھتی ، اُس وقت
حضرت معاویہ ؓ نے خود حضرت علیؓ کی طرف ایک معقول صلح نامہ لکھا کہ چوں کہ
مسلمانوں کے درمیان خون ریزی بہت زیادہ ہوچکی ہے اور باہمی اختلافات کی
اُلجھی ہوئی ڈور کا سرا کسی بھی طرح نہیں مل رہا ، اس لئے بہتر یہی ہے کہ
اب ہم بہرصورت آپس میں اس بات پر صلح کرلیں کہ شام اور مصر کے علاقے میرے
پاس رہیں گے اور حجاز و یمن اور عراق و فارس اور کرمان کے علاقے آپؓ کے پاس
رہیں گے ۔ حضرت علی ؓ نے حضرت معاویہ ؓ کی یہ معقول تجویز بسر و چشم اس کی
تمام شرائط سمیت قبول فرمالی اور دونوں فریقین اپنے گھروں میں جابیٹھے۔ (
ابن اثیر : ۳۲۴/۳)اس طرح معاہدۂ امن و صلح لکھنے کی بنیاد پڑی اور یوں رنجش
و رقابت کا دور ختم ہوکر محبت و مودت کا دور دورہ شروع ہوگیا اور مسلمان
آپس میں دوبارہ ایک بار پھرشیر و شکر ہوگئے۔
حضرت علی ؓ حضرت معاویہؓ کی نظر میں:
ایک بار کسی شخص نے حضرت معاویہؓ کے سامنے حضرت علیؓ کی شان میں کچھ گستاخی
کے الفاظ کہے تو حضرت معاویہ ؓ آپے سے باہر ہوگئے اور فرمایا کہ تو ایسے
شخص سے نفرت کرتا ہے جس کے بارے میں رسول اﷲ ؐ فرمایا کہ علیؓ میرے لئے
ایسے ہیں جیسے حضرت موسیٰ کے لئے حضرت ہارون ، الا یہ کہ میرے بعد کوئی نبی
نہیں ۔‘‘ اس کے بعد حضرت معاویہؓ نے اُس شخص کو اپنے دربار سے چلتا کیا اور
حکم جاری کیاکہ اس کا وظیفہ بند کردیا جائے۔( الاستیعاب : :۴۵۳، البدایہ
والنہایہ : ۱۳۰/۸)
حضرت معاویہؓ حضرت علیؓ کی نظر میں:ـ
حضرت علی المرتضیٰ ؓ کی رحلت کا وقت جب قریب آیا تو آپؓ نے اپنے بیٹے حضرت
حسنؓ کو اپنے پاس بلایا اور اُن کو وصیت فرمائی کہ : ’’بیٹا! حضرت معاویہؓ
کی امارت قبول کرنے سے ہرگز نفرت نہ کرنا! ورنہ باہم کشت و خون ریزی
دیکھوگے۔‘‘( البدایہ والنہایہ : ۱۳۱/۸)
حضرت حسن ؓ سے مصالحت:
چنانچہ معاہدۂ صلح کے ایک سال بعد جب حضرت علی ؓ کاانتقال ہوگیا اور آپؓ کی
جگہ آپؓ کے بیٹے حضرت حسنؓ جانشین خلافت ہوگئے تو شیعانِ علیؓ نے حضرت حسنؓ
کو حضرت معاویہؓ سے لڑنے پر آمادہ کیا اور زُور دیا تو اُس وقت حضرت حسن ؓ
کو اپنے والد گرامی حضرت علیؓ کی مذکورہ بالا وصیت یاد آگئی ، اس لئے آپؓ
نے تنگ آکر یہ فیصلہ فرمالیا کہ اب حضرت معاویہؓ سے صلح کرلینا ہی بہتر ہے
۔
حسن اتفاق دیکھئے کہ ابھی حضرت حسنؓ نے حضرت معاویہ ؓ سے صلح کرنے کا دل
میں سوچا ہی تھا کہ حضرت معاویہؓ نے آپؓ سے صلح کرنے میں پیش قدمی کرلی ،
جس کے بعد حضرت حسنؓ نے اپنی دلی رضاء و رغبت کے ساتھ منصب خلافت حضرت
معاویہؓ کو سونپ دیا اور حضرت معاویہ ؓ کو اپنا خلیفہ تسلیم فرماکر خلافت
جیسے عظیم عہدے سے سبک دوش ہوگئے۔(تاریخ اسلام: جلد اوّل ص ۵۴۴)
فتوحاتِ معاویہؓ پر ایک نظر:
سنہ ۹ ہجری میں حضرت معاویہؓ نے نے قیساریہ کو فتح کیا ۔ ۲۷ہجری میں بحری
بیڑہ لے کر قبرص کی جانب بڑھے اور تاریخ اسلام کی پہلی بحری جنگ لڑی ۔ ۲۸
ہجری میں قبرص کا عظیم الشان جزیرہ مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا ۔ ۳۲ہجری
میں آپؓ نے قسطنطنیہ کے قریبی علاقوں میں جہاد جاری رکھا ۔ ۳۳ہجری میں
افرنطہ ، ملطیہ اور رُوم کے کچھ قلعے فتح کئے ۔ ۳۵ہجری میں آپؓ کی قیادت
میں غزوۂ ذی خشب پیش آیا ۔ ۴۲ہجری میں غزوۂ سجستان پیش آیا اور سندھ کا کچھ
حصہ مسلمانوں کے زیر نگین آیا ۔ ۴۳ہجری میں سوڈان کا ملک فتح ہوا اور
سجستان کا مزید علاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا ۔ ۴۴ہجری میں افغانستان کا
مشہور شہر کابل فتح ہوا اور مسلمان ہندوستان میں قندابیل کے مقام تک پہنچ
گئے۔ ۴۵ہجری میں افریقہ پر لشکر کشی کی گئی اور ایک بڑا حصہ مسلمانوں کے
زیر نگین آیا ۔ ۴۶ہجری میں صقلیہ (سسلی) پر پہلی بار حملہ کیا گیا اور کثیر
تعداد میں مالِ غنیمت مسلمانوں کے قبضہ میں آیا ۔ ۴۷ہجری میں افریقہ کے
مزید علاقوں میں غزوات جاری رہے ۔ ۵۰ /۵۱ ہجری میں غزوۂ قسطنطنیہ پیش آیا
جہاں پہلی بار مسلمانوں نے حملہ کیا تھا ۔ ۵۴ہجری میں مسلمان نہر جیحون کو
عبور کرتے ہوئے بخارا تک پہنچے تھے ۔ اور ۵۶ہجری میں غزوۂ سمرقند پیش آیا۔(
العبر فی خبر من غبر للذہبیؒ)
وفات حسرت آیات:
سنہ ۶۰ ہجری میں جب کہ حضرت معاویہؓ اپنی عمر عزیز کی اٹھہترویں بہار سے
گزر رہے تھے تو اچانک ایک دن آپؓ کی طبیعت کچھ ناساز سی ہوگئی اور پھر آئے
دن خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی تاآں کہ دمشق کے مقام پر مؤرخہ ۲۲/ رجب
المرجب ۶۰ ھ میں اسی مرض کی حالت میں آپؓ نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا اور اس
طرح علم و حلم ، زہد و تقویٰ اورتدبر و سیاست کا یہ آفتاب جہان تاب اور
ماہتاب عالم تاب عالم دُنیا کے اُفق میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا ۔
آپؓ کی نمازِ جنازہ حضرت ضحاک بن قیسؓ نے پڑھائی اور باب الصغیر دمشق میں
آپؓکو محو استراحت کردیا گیا ۔( الاستیعاب تحت الاصابہ : ۳۷۸/۳)
اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ |