سپریم کورٹ آف پاکستان پانچ رکنی لارجر بینچ
نے4جنوری2017سے روزانہ کی بنیاد پرپانامہ کیس کی سماعت کا آغاز کیا،لارجر
بینچ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ ، جسٹس امیر ہانی مسلم،جسٹس شیخ عظمت، سعید
جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس خلجی عارف حسین شامل تھے، بینچ نے4جنوری2017سے
روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا آغاز کیا۔30دسمبر 2016کو چیف جسٹس انور ظہیر
جمالی کی ریٹائرمنٹ کے بعد31دسمبر2016کوجسٹس میاں ثاقب نثار نے چیف جسٹس کے
عہدے کا حلف اٹھایا اور پاناما کیس کی سماعت کے لیے نیا 5 رکنی بینچ تشکیل
دیا جس کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کو دی گئیپاناما کیس کے دوران
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی اس کیس میں دلچسپی سب سے زیادہ
رہی۔ وہ 35میں سے 32سماعتوں میں سپریم کورٹ میں موجود رہے اور 93گھنٹے کیس
کو دیئے۔ان کے بعد شیخ رشید کی حاضری رجسٹر میں بھرپور رہی۔ 35میں سے
31سماعتوں میں موجود رہے اور 83گھنٹے کیس کو توجہ سے سنا وزیر اعظم کے
معاون خصوصی برائے قانون ظفر اﷲ خان بھی تمام سماعتوں میں باقاعدگی سے
موجود رہے اور 77گھنٹے کیس کے ہر پہلو کا جائزہ لیتے نظرآئے جس کے بعد امیر
جماعت اسلامی سراج الحق کی دلچسپی بھی کیس میں کم نظر نہیں آئی۔ انھوں نے
35میں سے 26سماعتوں میں اپنی حاضری یقینی بنائی اور مجموعی طور پر 76گھنٹے
کا وقت عدالت میں گزارا۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے
پاناما کیس کے دوران 67گھنٹے گزارے جبکہ شاہ محمود قریشی نے مجموعی طورپر
62گھنٹے کیس پر توجہ مرکوز رکھی ۔سب سے زیادہ سوالات جسٹس عظمت سعید کی
جانب سے پوچھے گئے جنھوں نے 70اہم سوالات کئے۔ ان کے بعد بینچ کے سربراہ
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فریقین سے 55سوالات پر جوابات مانگا جن کے بعد جسٹس
اعجاز افضل نے 35 سوالات کیے۔پاناما کیس میں معاملے کی تہہ تک جانے کیلئے
معزز جج صاحبان نے درخواست گزاروں اور مدعا علیہان سے خوب سوالات کیے۔
پاناما کیس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی دلچسپی بھرپور رہی اور کیس کی
سماعت کے کئی بڑے رہنما باقاعدگی سے حاضر ہوتے رہے۔پاناما کیس کی کل
35سماعتیں ہوئیں جس میں 9 سماعتیں سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی
سربراہی میں ہوئیں۔ یونی ویژن نیوز کے مطابق ابتدا میں سماعت چیف جسٹس انور
ظہیر جمالی کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کی جس میں جسٹس اعجاز الحسن اور
جسٹس خلجی عارف حسین شامل تھے لیکن 28اکتوبر کو چیف جسٹس نے اپنی سربراہی
میں 5رکنی لارجر بینچ تشکیل دیااور اس میں جسٹس اعجاز الحسن کیعلاوہ جسٹس
آصف سعید کھوسہ ، جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس شیخ عظمت سعید کو شامل کیا
گیا ۔
طویل انتظار کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے پانامہ لیکس کا فیصلہ سناتے
ہوئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا جے آئی ٹی چھ ارکان پر
مشتمل ہو گی جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 540 صفحات پر مشتمل فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
فیصلہ جسٹس اعجاز افضل خان نے تحریر کیا ہے فیصلہ تین، دو سے کیا گیا ہے
تین ججز نے وزیراعظم کے حق میں فیصلہ دیا جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور
جسٹس گلزار احمد نے وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کی سفارش کی ہے۔ جسٹس آصف
کھوسہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ وزیراعظم سفارش کی ہے جسٹس آصف
کھوسہ نے اپنے اختلافی نوٹس میں کہا ہے کہ وزیراعظم کا موقف تسلیم نہیں کیا
جاسکتا۔وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے ۔عدالت نے قرار دیا ہے کہ رقم کی
قطر منتقلی کے حوالے سے مزید تحقیقات کی ضرورت ہے گلف سٹیل مل کیسے بنی؟
گلف سٹیل مل کیسے فروخت ہوئی؟ اس کے ذمہ جتنی رقم واجب الادا تھی وہ کہاں
سے اور کیسے ادا کی گئی؟ 90 کی دہائی کے شروع میں لندن کے فلیٹس کیسے خریدے
گئے؟ جدہ فیکٹری کیسے لگائی گئی؟ کیا قطری خط حقیقت پر مبنی ہے؟ آف شور
کمپنیوں نیلسن اور نیسکون کا اصل مالک کون ہے؟ فلیگ شپ اور دیگر کمپنیوں کی
رقم کہاں سے آئی؟ وزیراعظم نوازشریف کو ان کے بیٹے حسین نواز نے کروڑوں
روپے کے تحفے کہاں سے دیئے؟ حسن اور حسین نواز کے پاس کاروبار کے لئے اتنی
بڑی رقم کہاں سے آئی؟ عدالت نے کہا ہے کہ ان سوالات کے حوالے سے تفصیلی
انکوائری کی ضرورت ہے۔
یہ وہ سوالات ہیں جو عدالت نے جے آئی ٹی کے سامنے تحقیقات کے لیے رکھے ہیں
حسین نواز اور حسن نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گے۔ عدالت نے قرار دیا
ہے کہ اگر ضرورت ہو تو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو بھی جے آئی ٹی کے
سامنے طلب کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ وزیراعظم میاں محمد
نوازشریف نااہل نہیں ہوئے جے آئی ٹی 60 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کر کے
رپورٹ پیش کرے گی جبکہ عدالت نے قرار دیا ہے کہ جے آئی ٹی دو ہفتے بعد اپنی
رپورٹ بینچ کے سامنے پیش کرے گی جیسے ہی عدالت کافیصلہ سامنے آیا حکومت کی
فوج ظفر موج نے اسے اپنی تاریخی فتح قرار دیا ان کے لب و لہجہ میں تکبر کا
پہلو نمایاں نظر آیا سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس کے فیصلے کے بعد
پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے کہا کہ عدالت نے حکومت کے
ثبوت کو ناکافی قرار دے کر ایک کمیشن بنانے کا حکم دیا ہے اور سات دن کے
اندر اس کی تحقیقات شروع ہوں گی ملک کا وزیراعظم جوائنٹ ڈائریکٹر ایف آئی
اے کے سامنے پیش ہوں گے،جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزار نے کہا کہ وزیراعظم کو
گھر بھیج دیا جانا چاہیے جبکہ تین ججوں نے کہا کہ 60دن انتظار کرو۔ان کا
کہنا تھا کہ جو نعرے لگارہے ہیں ان کو نہیں پتاان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔
وزیراعظم اور ان کے بیٹے نے چوری کی ہے انھیں صرف 60روز کی مہلت ملی ہے اور
ساتھ والی بلڈنگ سے گھسیٹ کر نکال لیں گے۔دونوں فریقین اپنی اپنی فتح کا
جشن منا رہے ہیں سپریم کورٹ کے فیصلہ سے جو نئی صورت حال سامنے آئی ہے اس
سے ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے فیصلے کی رو سے پانچ رکنی بنچ دو حصوں میں
تقسیم ہوا دو معزز جج صاحبان جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار نے وزیر
اعظم کو نااہل قرار دینے کی سفارش کی جبکہ دوسرے تین جج صاحبان نے انہیں جے
آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کوکہایعنی یوں کہا جا سکتا ہے کہ ابھی شریف فیملی
پہ نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے - |