ذات پات کی حقیقت

موجودہ دور میں ہر کوئی ذات پات میں بٹا ہوا ہے ذات پات کی لڑائی میں وہ بھول ہی جاتا ہے کہ انسانیت کیا ہے بے شمار لوگ ایسے ہیں جو کہ اپنی ذات کو بہت اونچا سمجھتے ہیں اور اپنے حسب نسب پر فخر کرتے ہیں مسلمان ہونے پر فخر نہیں کرتے ذات پا ت کی اصل حقیقت کیا ہییہ ذات پات کا چکر کہاں سے چلا اگر غور کیا جائے تو سب ہی ایک باپ کی اولاد ہیں تو پھر ذاتوں پاتوں کا پٹوارہ کیوں کیوں آج لوگ اس دلدل میں پھنسے ہوئے نظر آتے ہیں ذات پات کی اصل حقیقت کو جاننے کیلئے ابتدائی دور کا جائزہ لینا پڑے گا جب انسان کا ابتدائی دور تھا انسان کو اس دنیا میں آئے زہادہ عرصہ نہیں ہوا تھا انسان ہے چیز کے استعمال سے ناواقف تھا اس وقت اس کی کیا ذات تھی صرف آدم کے نام سے ہی جانا جاتا تھا پھر انسان نے اپنی عقل کیا استعمال کیا شکار کھیتی باڑی اور چیزوں کا استعمال کرنا سیکھ لیا اور انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور انسان مختلف گروہوں میں تقسیم ہوگیا ایک گروہ مغرب کی طرف چلا گیا کوئی مشرق کی طر ف اسی طرح سب لوگ ساری دنیا میں پھیل گئے جس طرح آبادی بڑھتی گئی لوگوں کی ضروریات بھی بڑھتی گئی اس طرح ایک انسان سب کی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتا تھا اس لیئے ضرورت محسوس ہوئی مختلف شعبوں میں کام کرنے کیلئے کام کرنے والے انسانوں کی آج جیسے کوئی ادرہ بنایا جاتا ہے تو اس کو چلانے کیلئے اخبار میں اشتہار دیا جاتا ہے اور اس ادررہ کے ہر شعبہ کیلئے بندے درکار ہوتے ہیں اس دور میں اس طرح کا تو کوئی سلسلہ نہیں تھا کہ اشتہار دیا جا سکے اس لیئے معاشرتی ترقی کے لیئے اس وقت جس کو جو کام آسان لگا اس نے کرنا شروع کردیا کوئی لوہے کا کام کرنے لگا کوئی اور لکڑی کا کام اور کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے زمیں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا اور ان کی اکثریت زیادہ ہونے کی وجہ سے کافی انسانوں کو اپنے زیر اثر کر لیا ان لوگوں کو اپنا غلام بنا لیا اور سب کو ذاتوں میں بانٹ دیا جو لوگ حکومت کرتے تھے وہ اعلٰی ذات کہلانے لگی اور جو لوگ محنت کش تھے کھیتی باڑی کرتے تھے یا اور کوئی ہاتھ کی محنت کر کے اپنا رزق روٹی کماتے تھے یہ قوم کم تر قوم کے نام سے جانی جانے لگی زمانہ جہالت نے ان کو اس تحفہ سینوازا اگر ماضی پر غور کیا جائے تو ان لوگوں ہی کی وجہ سے دنیا میں صنعتی انقلاب آیا یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دن رات محنت کر کے معاشرہ میں رہنے والے تمام لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا سبب بنیاور ان کو ہی کمی کمیں اور نیچ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا جو کہ دنیا میں صنعتی انقلاب لانے کی وجہ بنے اور آج تک اُن پر یہ لیبل چپساں ہو چکا ہے حالانکہ اگر ماضی میں نظر ڈورائی جائے تو یہی محنت کش لوگ ہیں جن کی بدولت آج اس دُنیا میں ایک صنعتی انقالاب برپا ہیں آج دینا میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہیں ان لوگوں کی وجہ ہی سے ہوئی ہیں جن لوگوں کو اس معاشرہ نے کم تر ہونے لا لیبل چپساں کر رکھا ہے اور اونچ نیچ بھی اسی دور کی ایجاد ہے مہذب معاشرہ میں اس کا کوئی تصور نہیں ہے ذات پات اونچ نیچ سب زمانہ جہالت کی پیداوار ہے اﷲ تعالٰی نے انسانوں کی اصلاح کیلئے کم و بش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس دینا میں بھیجے ہیں اور تما م نے اپنے اپنے دور میں ان کی ہدایت کیلئے اﷲ کا پیغام ان کو پہنچایا تما م پیغمبروں کی تعلمات کا اگر مطالعہ کیا جائے تو تمام انسانوں کو اﷲ نے برابر پیدا کیا ہے اگر اس دنیا میں اونچ نیچ کا کوئی تصور ہوتا تو اﷲ پاک اپنے پیغمبروں کو جن کو سب انسانوں کا رہنما بن اکر بھیجا ہے اﷲ نے ان کو کسی بہت ہی اعلٰی گھر میں پیدا کرتا جب اﷲ نے انسانوں ایک جیسا پیدا کیا ہے تو ہم کیوں آج ذات پات کی لڑائی لڑ رہے ہیں جب انسان پیدا ہوتا ہے تو وہ صرف انسان پیدا ہوتا ہے انساں کی کوئی ذات نہیں ہے سوائے آدم کے اگر جانوروں پر بھی نظر دُورائی تو بھی گروہ کی شکل میں مل جل کر رہتے ہیں لیکن آج ہم نے خود کو ذاتوں پاتوں میں تقسیم کر کے خود کو انسانیت سے بہت دور کر لیا ہے انسان اگر اپنی پیدائش اور موت پر ہی غور کرے تو اس ذات پات کے چنگل سے نکل سکتا ہے جدید دور میں یورپ کو ایک مہذب معاشرہ جانا جاتا ہے اگر وہاں دیکھا جائے پھر بھی اس حوالے سے انسانیت کی مثالیں ملتی ہیں لیکن ہم لوگ ذات پات کی بھنور میں خود کو غرق کر رہے ہیں اﷲ نے انسان کو اشربالمخلوقات بنا کر دنیا میں بھیجا ہے اسلام سب مسلمانوں کو ایک جیسا درجہ دیتا ہے کسی کو نہ کم نہ زیادہ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے سب برابر ہیں کیونکہ جب ہم نماز کیلئے کھڑے ہوتے ہیں تو سب ایک ہی جگہ نماز پڑھتی ہیں ایک ہی صف میں سب کسی ذات پات کی تقسیم کے بغیر ایک جگہ مل کر نماز قائم کرتے ہیں اگر اسلام میں اونچ نیچ کا کوئی تصور ہوتا تو اعلٰی ذات والوں کی ایک الگ عبادت گاہ ہوتی یہ اونچ نیچ ہم انسانوں کی پیداوار ہے کوئی آج یہ نہیں کہہ سکتا ایک ایک گھٹیا ذات کا بندہ ڈاکٹر نہیں بن سکتا اگر اس کو بھی موقع دیا جائے تو وہ بھی ڈاکٹر بن سکتا ہے موجودہ میں صدی میں کافی حد تک یہ روایات دم توڑتی جا رہی ہین لیکن آج نھی قدیم خیالات اور تنگ نظر لوگ ذات پات میں قید ہیں حالانکہ کہ پمارے پیارے نبی ﷺ انسانیتِ محسن نے اپنے حجۃالودع کے موقع پر فرما دیا ہے تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پر کوئی فضلیت نہیں تو آج ہم مسلمان ذات پات میں کیوں تقسیم نظر آتے ہیں بس اس کی اصل وجہ یہی نظر آتی ہیں کہ ہم اسلام سے بہت دور ہوچکے ہیں بلکہ جب اسلام اس خطے میں آیا تو بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا لیکن اسلام پر عمل نہیں کیا اسلامی تعلیمات کو نہیں اپنایا جس کی وجہ سے ہم مسلمان ذات پات میں بٹے ہوئے نظر آتے ہیں آج اسلام پر چلنے کی ضرورت ہے اور اس ذات پات کی بھنور سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے -

azhar i iqbal
About the Author: azhar i iqbal Read More Articles by azhar i iqbal: 41 Articles with 38185 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.