مسلم پرسنل لا ءاور یکساں سول کوڈ پہ ہمارا موقف

پہلے مسلم پرسنل لا اور یکساں سول کوڈ سمجھ لیں پھر ان دونوں کی حقیقت جانتے ہیں ۔
مسلم پرسنل لا : پرسنل کا معنی شخصی،ذاتی اور لاء کا معنی ہے قانون یعنی مسلمانوں کا شخصی قانون۔ اس سے مراد ہمارے خاندانی اور عائلی زندگی کے مسائل ۔ اس کے دائرے میں نکاح،طلاق،عدت،نان ونفقہ،خلع،ظہار،ایلاء،فسخ،مہر،حق پرورش،ولایت،میراث،رضاعت، حضانت، وصیت،ہبہ،والدین،اولاد اور زوجین کے حقوق،شفعہ،وقف وغیرہ جو عائلی امور ہیں اس میں سب داخل ہیں۔اسی کو اردو میں اسلامی عائلی قانون، عربی میں احوال شخصیہ اور انگریزی میں مسلم پرسنل لاکہاجاتا ہے ۔
اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام امور کی طرف رہنمائی کی ہے ،اس نے ہمیں عائلی قانون اور پرسنل لا بھی دیا ہے ۔ہمارا یہ پرسنل لا انسانوں کا وضع کیا ہوا نہیں ہے بلکہ اللہ کا بنایا ہواقانون ہے ، ہم مسلمان، اللہ کے فطری قانون یعنی پرسنل لا کوکبھی نہیں چھوڑ سکتے یا اس میں ذرہ برابر بھی تبدیلی برداشت نہیں کرسکتے یا کوئی مسلم پرسنل لا کی جگہ یکساں سول کوڈ کی بات کرے تو قطعی اسے منظور نہیں کرسکتے ۔ اللہ کا حکم ہے : أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (الاعراف:54)
ترجمہ: یاد رکھواللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا،بڑی خوبیوں سے بھرا ہواہے اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے ۔
یکساں سول کوڈ : ہندوستانی قوانین کی دو اہم قسمیں ہیں ۔
(1) دیوان سے متعلق سول کوڈ (2) جرم کی سزا اور بعض انتظامی امور سے متعلق کریمنل کوڈ
دوسری قسم میں تمام ملک والوں کے لئے یکساں قانون ہے ،رنگ ونسل اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق نہیں رکھی گئی ہے البتہ پہلی قسم سول کوڈ جس کا تعلق معاشرتی ،تمدنی،اور معاملاتی مسائل سے ہے اس کا ایک حصہ پرسنل لا ہے ۔ اس کے تحت بعض اقلیتوں جن میں مسلمان بھی داخل ہیں اختیار ہے کہ نکاح ،طلاق ،عدت، خلع،وقف،میراث وغیرہ سے متعلق کورٹ میں اگر مقدمہ کیا گیا اور دونوں فریق مسلمان ہیں تواسلام کے مطابق فیصلہ ہوگا ۔
شروع سے ہی بھارتیہ لا کمیشن چاہتی ہے کہ ہندوستان میں ایک جیسا قانون نافذ ہویعنی کسی مذہب کے ماننے والےکاکوئی قانون نہ ہوگا،سب کے لئے نکاح ،طلاق،وراثت کا قانون ایک جیسا ہوگاخواہ وہ قانون کسی کے مذہب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
ہندوستان میں مسلمانوں نے پانچ سوسال حکومت کی اس دوران کسی ہندو کو مسلم پرسنل لا یا یکساں کوڈ کا پابند نہیں بنایا گیا بلکہ ہندو اپنے مذہب کے مطابق عمل کرتے تھے ۔اسی طرح انگریز کے ایک سو پچہترسالہ(175) نظام حکومت میں ہندوکو ہندوپرسنل لا اورمسلم کو مسلم پرسنل لا پر عمل کرنے کی آزادی رہی ۔ مگر ملک کی آزادی کے بعد مسلمانوں کے پرسنل لا میں بارہا مداخلت کی کوشش کی گئی بلکہ آزادی سے پہلے سے ہی مسلمانوں کو اپنے پرسنل لا کے متعلق کافی تشویش لاحق تھی ۔ اس تشویش کو ختم کرنے کی غرض سے 1931 میں کانگریس ورکنگ کمیٹی نے ایک قرار داد منظور کیا کہ آزاد ہندوستان میں پرسنل لا کا خصوصی تحفظ کیا جائے مگرآزادی سے لیکر آج تک مسلم پرسنل لا کو کوئی خصوصی تحفظ فراہم نہیں ہوسکا ، آئے روز مسلم پرسنل لا میں مداخلت اور یکساں سول کوڈ کی بات اٹھاکرمسلمانوں میں بے چینی پھیلائی جاتی ہے جبکہ دستورہند کے دفعہ (25) کی روشنی میں ہرمذہب والے کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے ۔
یکساں سول کوڈ اور آئین ہند : آئین ہند کے دفعہ (44) میں یوں لکھا گیا ہے کہ ریاست کوشش کرے گی کہ پورے ملک میں یکساں شہری قانون ہو۔یہی وجہ ہے کہ ابتدائے آزادی سے ہی ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی راہ ہموار کی جارہی ہے جو سراسر اسلام سے متصادم ہے اور دفعہ (25) کے مخالف بھی ۔
یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا بہانہ : کامن سول کوڈ کے نفاذ کی اصل وجہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا ہے مگر بہانے کے طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ یکساں سول کوڈ سے قومی یک جہتی پیدا ہوگی اور یورپ کی مثال کی پیش کی جاتی ہے کہ جب وہاں تمام اقوام کے لئے یکساں قانون ہوسکتا ہے تو ہندوستان میں کیوں نہیں؟
ہندوستان کثیرالمذاہب اور مختلف تہذیب وثقافت کا حامل ہے جس کی نظیرنہ یورپ میں ہے نہ افریقہ میں ۔ یہاں یکساں
سول کوڈ کی بات کرنا پاگل پنی ہوگی ۔ اس سے قومی یک جہتی نہیں فرقہ وارانہ فساد پھیلے گا جو ملک وقوم کو تباہ وبرباد کردے گا۔
یکساں سول کوڈ کے تدریجی مراحل اور مسلم پرسنل لا میں مداخلت: ملک میں شروع سے یکساں سول کوڈ کی بات گئی اس وجہ سے مسلم دشمن پارٹی اور حکومت اس قانون کو نافذکرنے کے لئے ہمیشہ راہ ہموار کرتی رہی ۔ 1950 میں جب ہندو کوڈ بل پاس کیا گیا تو اس وقت کے وزیر قانون مسٹر یائسکر نے کہا تھا کہ ہندو قوانین میں جو اصلاحات کی جارہی ہیں وہ مستقبل قریب میں ہندوستان کی تمام اقوام پر نافذ کی جائے گی ۔ 1963میں مرکزی حکومت نے مسلم پرسنل لا میں اصلاح کے لئے کمیشن بٹھایایہاں تک کہ 1972 میں متبنی کا اسلام مخالف بل پاس ہوا۔متبنی بل کی رو سے اگر کسی نےکوئی بچہ گود لیا تو اسے اصل اولاد کی حیثیت حاصل ہوگی اورمیراث میں برابرکا شریک ہوگا۔مسلمانوں نے اس کے خلاف ملک گیرآواز اٹھائی بالآخر جنتا پارٹی کی حکومت میں 1978 کو یہ بل مسترد کیا گیا۔پھرپانچ ماہ بعد کانگریس کی حکومت میں 1978 ہی کودوبارہ یہ بل پیش کیا گیا مگر منظور نہ ہوسکا۔ 1985 میں شاہ بانوکیس میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ جس مرد نے اپنی بیوی کو طلاق دیا ہے اسے عدت کے بعد بھی نان ونفقہ برداشت کرنا پڑےگا۔مسلمانوں کے جدوجہد سے ایک سال بعد 1986کو یہ قرارداد ختم ہوئی ۔
کچھ دنوں پہلے اتراکھنڈکی سائرہ بانوجسے اس کے شوہرنے بذریعہ خط تین طلاق دیاتھااس کے رد عمل میں اس نے سپریم کورٹ میں تین طلاق اور حلالہ کو ختم کرنے کی اپیل کی ہے ۔سائرہ بانو کے اس اقدام سے ملک میں ایک بار پھر یکساں سول کوڈ کی بات بڑے شدومد سے اٹھنی شروع ہوگئی ہے ۔حکومت کو ایک بار پھریکساں سول کوڈ کے نفاذ کا بہانہ مل گیا۔ عوامی سطح پر یکساں کوڈ کے متعلق کانفرنسیں ہورہیں ،کہیں پر ہندومسلمان سارے اس کے متعلق سیمنار کررہے ہیں۔ پورے ملک میں ایک بار پھر بے چینی کی لہر پھیل گئی ہے ۔
یکساں سول کوڈ کے پیچھے حکومت کا مقصد: حکومت اس قسم کا موقع تلاش کررہی ہےکہ کس طرح یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا جواز فراہم کیا جاسکے ۔یکساں سول کوڈ اسلام دشمن کوڈ ہے اسے ہم مسلمان کسی بھی قیمت پر تسلیم نہیں کریں گے جولوگ اسے نافذ کرنا چاہتے ہیں وہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں ،اس کے پیچھے ان کا مقصد مسلمانوں کو اپنے دین سے دور کرناہے، کفروالحاد کو مسلمانوں میں داخل کرنا ہے تاکہ مسلمان اپنا ایمان واسلام کھوبیٹھے، ان میں اور ہندوقوم میں کوئی فرق نہ رہ جائے ۔گویا یکساں سول کوڈ مسلمانوں کو ہندو بنانے کی ایک گہری شازش ہے ۔مسلمانوں کی بڑھتی آبادی سے کفار کو خطرہ لاحق ہے اس لئے وہ کبھی ہمارے اوپر زبردستی فیملی پلاننگ تھوپنا چاہتے ہیں تو کبھی فرقہ پرستی کو ہوادے کرمسلمانوں کا قتل عام کرنا چاہتے ہیں جیسے گجرات میں کیا۔ آج ہندوتو کاایجنڈا مسلمانوں کو ہندو بنانے کا ہے ۔وی ایچ پی اوربجرنگ دل کا دعوی ہے کہ 2020 تک ہم سارے مسلمانوں کو ہندو بنادیں گے ۔ بی جے پی جو ان جیسے تمام متشدد ہندو تنظیموں کی سرپرستی کرہی ہے وہ بھی ہندوتوکے اس مقصد کی برآوری کے لئے اپنے ایجنڈے میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ رکھا ہے ۔ اور جب سے یہ حکومت برسرے اقتدار ہوئی ہے اسی وقت سے مسلم پرسنل لا میں مداخلت اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی پوری کوشش کررہی ہے ۔گجرات ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت کو باقاعدہ حکم دے دیا ہےکہ وہ یکساں سول کوڈ نافذ کرے ۔
یکساں سول کوڈ کی خرابیاں : ہندوستان مختلف اقوام وملل کا مجموعہ ہے ، اس ملک میں ہندو، مسلم،سکھ،یہودی، عیسائی،شیعہ ،قادیانی،بودھ،جین،پارسی سیکڑوں قومیں رہتی ہیں پھر ان قوموں میں بھی کئی کئی فرقے ہیں،ان سب قوموں اور فرقوں کا مذہبی طورطریقہ اور عائلی ومعاشرتی قانون الگ الگ ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جیساعائلی قانون ان ساری قوموں پر تھوپ دیا جائے ۔ نہ ہی اس کا امکان ہے اور نہ ہی یہ اقوام یکساں خاندانی قانون چاہے گی ۔ اور اگر بالجبرنافذ بھی کردیا گیا تو ملک کی یک جہتی پارہ پارہ ہوکر رہ جائے گی ، قوموں کے درمیان اختلاف وانتشار پھیلے گا،فرقہ پرستی کو ہوا ملے گی اور قتل وغارت گری کا بازارگرم ہوجائے گاکیونکہ یکساں سول کوڈ مذہب کے خلاف ہے ، یکساں سول کوڈ آئین ہندکے خلاف ہے، یکساں سول کوڈ ملک کی یک جہتی اور سالمیت کے خلاف ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مذہب کا لڑکا دوسرے مذہب کی لڑکی سے شادی کرلیتا ہے تو پورے سماج میں تناؤ پیدا ہوجاتا ہے ،قتل وخون تک نوبت پہنچ جاتی ہے ۔ہندوستان مختلف قوم، مختلف تہذیب،مختلف زبان اور مختلف رنگ ونسل کا گہوارہ ہے یہی اس کا حسن ہے ۔یکساں سول کوڈ اس حسن کے خاتمہ کا نام ہے ۔یکساں سول کوڈ کے متعلق میری یہ حتمی رائے ہے کہ وہ کوڈ ہندوانہ ہوگاجیساکہ 1950 میں اس وقت کے وزیرقانون مسٹر یائسکرنے کہا تھا کہ آج جو اصلاحات ہندو قوانین میں کی جارہی ہیں وہ عنقریب ہندوستان کے تمام لوگوں پر نافذ کیا جائے گا۔ اس کی رو سے ہمیں صبح صبح اللہ کا نام لینے کی بجائے وندے ماترم کا مشرکانہ ترانہ گانا پڑے گا، سوریہ نمسکار کرنا ہوگا، گائے ، زمین ،سورج ،چاند،ستارے ساری چیزوں کو معبود ماننا پڑے گااور ان کی بھکتی کرنی پڑے گی ، اسپیشل میریج ایکٹ،انڈین سیکشین ایکٹ کے ماتحت کوئی کسی بھی مذہب میں بلاروک ٹوک شادی کرسکتا ہے پھراسلامی نکاح، طلاق،خلع، عدت،مہر،نان ونفقہ وغیرہ کا کوئی اسلامی تصور نہیں رہ جائے گا۔ لے پالک اصل اولاد مانی جائے گی ،میراث میں حصہ دارہوگا۔ ہم جنسی کا فروغ ہوگا۔اسلامی حجاب،عورتوں کے حقوق، مردوعورت کے درمیان فرق ساری چیزیں بے معنی ہوکررہ جائیں گی ۔ہمارے مذہبی ادارے، مقدس مقامات سب کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔
اس لئے مسلمان ہونے کے ناطے کبھی بھی ہم یکساں سول کوڈ کو قبول نہیں کرسکتے ،اسے قبول کرکے ہم مسلمان ہی نہیں رہ سکتے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (النساء:65)
ترجمہ: نہیں! تیرے رب کی قسم لوگ بالکل مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ آپ کو اپنے درمیان کے جھگڑوں میں فیصل تسلیم نہ کرلیں۔ پھر جو آپ فیصلہ کریں اس کے بارے اپنے دل میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور اسے دل وجان سے تسلیم کرلیں۔
اللہ کا فرمان ہے :
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ (آل عمران:85)
ترجمہ:جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے اس کا دین قبول نہ کیا جائے گااور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔
اللہ کا فرمان ہے :
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ (الحشر:7)
ترجمہ: اور جو آپ ﷺ دیں اسے لے لو اور جس چیز سے منع فرمائیں اس سے باز رہو۔
سر کٹادیں گے مگر جس قانون سے اللہ کی نافرمانی ہوتی ہے اس کے آگے سر نہیں جھکائیں گے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لا طاعةَ في معصيةِ اللهِ, إنما الطاعةُ في المعروفِ.(صحيح مسلم: 1840)
ترجمہ: اللہ کی معصیت میں کسی قسم کی اطاعت قبول نہیں کی جائے ، اطاعت تو صرف بھلائی والی بات میں ہے ۔
حکومت ہند کو چاہئے کہ ملک میں ترقی کام کرے اور جن چیزوں سے ملک کھوکھلا ہورہاہے ان کا سد باب کرے ۔ آج پورے
ملک میں اسقاط حمل ، زنا، رشوت، قتل، گھوٹالہ، ناانصافی، ظلم ، تشدد،بھوک مری، بے روزگاری، غریبی ، خودکشی،اور فرقہ
پرستی عام ہے ۔ حکومت کو ان چیزوں کی اصلاح کرنی ہے ۔
اس وقت ملک میں کم از کم 12 کروڑ افراد بے روزگار ہیں ، جرائم کا 70 فیصد حصہ بے روزگاری کی وجہ سے ہے ۔
بھارت میں ہر 1 گھنٹے بعد ایک عورت جہیز کی وجہ سے ماری جاتی ہے یا مرجاتی ہے۔
ماں کے پیٹ میں ہر7 سکنڈ میں ایک بچے کا قتل ہوتا ہے،بعض رپورٹ میں ہے بھارت میں ہر روز 2000 بچیوں کا قتل کیا جا رہا ہے۔
ایک سروے کے مطابق ہر 15 منٹ پہ ایک زنا ہوتا ہے، اور ہمارا مہان ملک ان دس بڑے ملکوں میں سے ایک ہےجہاں زنا کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
ہندوستان کی سوا ارب کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد تقریباصرف چودہ فیصد ہے لیکن ایک تازہ سرکاری رپورٹ کے مطابق ملک میں بھیک مانگنے والا ہر چوتھا شخص مسلمان ہے۔ اسی طرح مسلمانوں پر اس قدر ظلم ہے کہ بغیرثبوت سالوں جیل میں بند کرتے ہیں پھر رہاکرتے ہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق ہر چوتھا مسلمان جیل میں بندہے۔
ہندوستان میں ہر 8 گھنٹے میں ایک کسان خودکشی کرنے پر مجبورہے ۔
حکومت ان جیسے مسائل کو حل کرے نہ کہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ کرکے ہندوستانی کرائم میں مزید اضافہ کرے ۔ ہم مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آئین ہند کے تحت ہمیں جو حقوق وختیارات ملے ہیں ان میں کسی کو تصرف نہ کرنے دیں اور نہ ہی ہم کسی طور پر یکساں سول کوڈ منظور کریں گے ۔

Maqubool Ahmad
About the Author: Maqubool Ahmad Read More Articles by Maqubool Ahmad: 315 Articles with 311623 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.