کوڑے دان ، سڑک کے کنارے ، گندگی کے ڈھیر ،اشیائے خوردنی
کی بربادی کا مظہر ہیں۔گلی کے نکڑ، چوراہے چیخ چیخ کر حقائق بتاتے ہیں
،تعفن اور بدبو کے ڈھیر کو اگر پل بھر ہمت و بہادری کا مظاہرہ کرکے دیکھ
لیا جائے تو پتہ چلتا ہے یہ گندگی ،یہ تعفن ،یہ بدبو کسی شئے رذیل و قبیح
کی نہیں ہے بلکہ اس عطیۂ قدرت کی ہے جس کے ذرات شکم میں پہنچنے کے بعد
آنکھیں کھلتی ہیں، طاقت و قوت کا احساس ہوتا ہے ،خون میں حدت و روانی آتی
ہے ،شریانیں کھل جاتی ہیں ،انسانی جسم قابل عمل ہوتا ہے ،چلنا پھرنا
ضروریات زندگی کی تکمیل کرنا ،ہوش و حواس کاقائم رکھنا اسی پر موقوف ہے ،یہ
سارا سسٹم غذائی نظام سے وابستہ ہے ،اگر یہ نظام درہم برہم ہوجائے ،تو
انسان سستی و کاہلی کا مرکز بن جاتا ہے ،اعضاء جسمانی نقاہت کا شکار ہوجاتے
ہیں ،آنکھیں دھنس جاتی ہیں، گال پچک جاتے ہیں ،فکر و احساس کی طاقت کمزور
پڑ جاتی ہے ،قدم اٹھانا بہت دور کی بات، پلک اٹھانا بھی معرکہ سر کرنے کے
برابر ہوتا ہے ، بھوک سے لاچار افراد کو بسا اوقات بادہ خوار سمجھ لیاجاتا
ہے اور درد و کرب کو قہقہوں کی نذر کردیا جاتا ہے ۔تاریخ کے صفحات اس نوعیت
کے واقعات اپنے دامن میں بکثرت رکھتے ہیں ،حالانکہ کائنات کا ہر ذی شعور
فرد اس شخص کے چہرے کو دیکھ کر پہچان سکتا ہے کہ یہ غذا سے محروم ہے ،بھوک
کی شدت سے دوچارہے یا غذا کو ہضم کرنے پر اس سے فائدہ اٹھانے پر قدرت نہیں
رکھتا ،یہ رزق کی طاقت ہے ،قلت رزق نے قوموں اور ملکوں کی تقدیر پر سیاہی
پوت دی ۔یمن، صومالیہ، مراکش، ایران تاریخ کے دریا میں غوطہ زن ہوجائیے اور
رزق کی کمی کے ہولناک مناظر کا دیدار کیجئے، عبرت حاصل کیجئے۔1970میں بنگال
رزق کی قلت کا شکار ہوا ،تہائی سے زیادہ آبادی موت کے سمندر میں غرق ہوگئی
،بندیل کھنڈ کے بہت سے علاقے زمینوں کے بنجر ہونے کی وجہ سے بھوک مری کا
شکارہوتے ہیں اور قلت رزق ان کی سانسوں کی راہ میں دیوار بن کر حائل ہوجاتی
ہے۔ صومالیہ 60لاکھ لوگ قلت رزق کی وجہ سے بھوک مری کی چپیٹ میں آئے، شام
میں بہت سے مقامات جہاں لوگوں کو روٹی میسر نہیں آتی ،نان شبینہ تو دور کی
بات ہے ،پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے روٹی کا نوالہ میسر نہیں آیا، غذا کا ایک
ذرہ بھی ان کے حلق سے نیچے نہیں اترا،حالانکہ بھوک کی شدت انسان کو چوری
ڈاکہ زنی اور سماجی خرابیوں میں ملوث کرتی ہے اور انسان بھوک مٹانے کے لئے
ہر راہ سے گذرنے کے لئے تیار رہتا ہے ،تاریخ کے چہرے پر ایسے واقعات بھی
درج ہیں جہاں انسان نے بھوک مٹانے کے لئے انسان کو بھی نہیں بخشا اور پیٹ
کی آگ میں جل کر اس شئے کو غذا بنانے پر مجبور ہوا جسے وہ محترم و معزز اور
لائق اکرام سمجھتا ہے۔ چنانچہ 1972میں دھرتی ایسے واقعہ کی شاہد بنی جس کا
تصور بھی ذہن و دماغ کے لئے المناک ہے۔مارٹن نامی پائیلٹ نے کھانا میسر نہ
آنے اور اپنے دو ساتھیوں کے مرنے کے بعد زندگی کی رفتار مدھم ہوتی دیکھ
اپنے ساتھیوں کے گوشت کو کھانا شروع کردیا تھاحالانکہ وہ بھی انسان تھا،
تعلیم یافتہ تھا ،جذبات واحساسات ،دھڑکتا ہوا دل ،غور و فکر کرنے والا دماغ
سب کچھ اس کے پاس تھا ،مگر بھوک کی شدت نے سارے احساسات کو مغلوب کردیا
،جذبات کو برفیلا اور دل کو سل بنا دیا ،یہ قلت رزق کی کار فرمائی ہے ،دنیا
کے منظر نامہ پر نگاہ ڈالئے تو دل بے چین ہواٹھتا ہے ،انسان بھیڑیا نظر آنے
لگتا ہے ،تصور کیجئے تو آپ بھی کلیجہ منھ میں محسوس کریں گے ،اس عالم آب
وگل میں ہر آن ایک شخص بھوک کی وجہ سے دم توڑ رہا ہے ،ہر گھنٹہ دنیا میں
چار ہزار افراد بھوک کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور ہر گذرنے
والا لمحہ پانچ بچوں کی جان لے کر جاتا ہے ،یہ اس خوبصورت دنیا کا بھیانک
روپ ہے جو انسان کی حیوانیت اور وحشت سے پردہ اٹھاتا ہے اور ظاہر کرتا ہے
،کتنا بھیانک ہے ،یہ انسان جس کے چہرے پر چاند چمکتا ہے اور دل میں ساون کی
ہولناک رات جلوہ فگن رہتی ہے ،آپ شاید یہ خیال کریں کہ انسان کو کوسنے کہ
کیا معنی ہیں اس پر لعن طعن کرنے کا مقصد کیا ہے ،تو منظرنامہ دیکھئے
،نوشتۂ دیوار پڑھئے اور سمجھنے کی کوشش کیجئے ،خدا کی سرزمین اپنے سینہ کو
چیر کر اتنا غلہ پیدا کرتی ہے کہ 14چودہ بلین افراد اپنا پیٹ بھر سکتے ہیں
،مگر کائنات کے سینہ پر بسنے والے 7.3بلین افراد بھی اپنا پیٹ نہیں بھر
پاتے ۔احمد فراز نے درست کہا ہے ،
بندگی ہم نے چھوڑدی ہے فراز
کیا کریں لوگ جب خدا ہوجائیں
انسان خدائی کے زعم میں شان وشوکت کے نشہ میں تکبر کے سرور میں ،انا کا محل
تعمیر کرنے کی خاطر بڑپن کا جھوٹا خواب دل میں بسائے کھانے کو بے دریغ ضائع
کرتا ہے اور قتل آدمیت کا قصوروار بنتا ہے ،شادیاں دیکھ لیجئے، انواع
واقسام کے کھانے بنائے جاتے ہیں ،سو لوگوں کے لئے دوسو کا کھانا بنایا جانا
،رزق کی بے حرمتی کی جاتی ہے ،روٹیاں پاؤں میں کچلی جاتی ہیں، حرمت رزق
پامال ہوتی ہے اور ہمارے قلب پر اثر تک نہیں پڑتا ، بھوک سے تڑپنے والے
افراد کا خیال تک ہمارے ذہن میں نہیں آتا ،اپنی خوشی میں ایسے کھوتے ہیں کہ
کائنات کی سب سے عظیم شئے ضائع کردیتے ہیں اور لاکھوں افراد کی بددعا کے
مستحق بنتے ہیں ،بہت سے لوگوں کو تو اس حال میں بھی دیکھا گیا ،پلیٹیں جوں
کی توں پھینک کر چلے آتے ہیں اور ڈٹ کر کہتے ہیں ،میاں پیٹ بھر گیا تو کیا
کرتا ؟اگر یہ شخص ایک وقت بھوک سے تڑپا ہوتا تو شاید یہ جواب اس کی زبان پر
جاری نہیں ہوسکتا تھا ،اسے احساس نہیں بھوک کیا ہوتی ہے ؟روٹی کی قیمت کیا
ہوتی ،ان ہوس پرستوں کو اس دولت عظمی کی قدر نہیں ہے ،یہی حال اونچی
عمارتوں میں رہنے والے افراد کا ہے ،ہر وقت سینکڑوں قسم کے کھانے دستیاب
ہوتے ہیں ،سب میں منھ مارا اور کتوں کی خواک بنا ڈالا اور بغیر سوچ و فکر
ضیاع رزق کے جرم کے مرتکب ہوگئے ،کاش وہ انسانیت کی ضرورت کو محسوس کرسکتے
،کاش وہ آدمیت کا درد سمجھ پاتے ،کاش ہم میں سے ہر شخص اس ضرورت کو سمجھ لے
اور رزق کا محافظ بن جائے ،اگر ہر ہندوستانی ایک ایک لقمے کا محافظ بن جائے
،کمر کس لے عملی طور پر دعویدار ہوجائے کہ میں روزانہ ایک لقمہ کی حفاظت
کروںگا تو ہم ہندوستانی ایک وقت میں ایک ارب28کروڑ لقمے بچائے جا سکتے ہیں
،جس بہت سے مفلسوں کے پیٹ بھرے جا سکتے ہیں ،انہیں زندگی کا تحفہ دیا
جاسکتا ہے ،ان کی ڈوبتی سانسوں کو ابھارا جاسکتا ہے ،ان کی مرتی آرزؤوں
میں جان پیدا کی جاتی ہے، ان کے خوف زدہ ذہنوں کو مامون کیا جا سکتا ہے
،انہیں زندگی جینے کی ہمت و حوصلہ عنایت کیا جا سکتا ہے ،ہم میں ہر ایک کو
کمربستہ ہوجانا چاہئے اور عہد کرلینا چاہے ،کہ اب بھوک کی وجہ سے کوئی
تکلیف نہیں اٹھائے گا ،کوئی مردہ انسانوں کا گوشت کھانے پر مجبور نہیں ہوگا
،کوئی راہزنی اور چوری کی جانب پیٹ بھرنے کے لئے قدم نہیں بڑھائے گا ،کوئی
جرم انسانیت کا شکار نہیں ہوگا ،یقینا ہم میں سے ہر ایک شخص شام و ایران،
صومالیہ، روہنگنیا کھانا پہنچانے کی استطاعت نہیں رکھتا ،مگر اپنا پڑوس،
اپنا قرب و جوار ،اپنا گاؤں اپنا شہر یہ تو ہم سے دور نہیں ہیں ،ان تک تو
ہماری رسائی بآسانی ہو سکتی ہے ،یہی ہماری منزل ہے ،ان تک پہنچئے ،کھانا
پہنچائیے ،بھوک کے خلاف جنگ لڑئیے ،کمر کس لیجئے ،اگر آپ نے یہ عمل کرلیا
،تو آپ انسانیت کے لئے یقینا کار آمد ثابت ہوںگے اور محافظ آدمیت قرار
پائیں گے ،سماج کا ایک ناسور آپ کے مجاہدہ سے ختم ہوجائے گا۔ |