انسان کی زندگی میں ہر گزرنے والا لمحہ قیمتی ہوتا ہے۔
مختصر سی زندگی لے کر انسان اس دنیا میں آیا ہے مگر وہ نہ جانے اس بات کو
کیوں نہیں سمجھتا۔ روزانہ کتنے لوگوں کو مرتا دیکھ کر بھی اس کے ذہن میں یہ
خیال نہیں آتا کہ میری زندگی کا بھی کوئ پتہ نہیں، آج ہے تو کل نہیں۔ نہ
جانے کب میری زندگی کا دیا بجھ جاۓ۔ موت انسان کی زندگی کی ایک بہت بڑی
حقیقت ہے اور زندگی کی آخری سیڑھی ہے۔ انسان اپنی زندگی میں اور کوئ سیڑھی
چڑھے نہ چڑھے مگر اس آخری سیڑھی پر چاہتے نہ چاہتے ہوۓ بھی ہر کسی نے چڑھنا
ہی چڑھنا ہے۔ زندگی کے سفر کا اختتام اسی پر ہوتا ہے۔ ہر انسان کا یہی
انجام ہے۔ نہ کبھی کوئ اس سے بچ پایا تھا، نہ بچ پایا ہے اور نہ ہی بچ پاۓ
گا۔ اتنی بڑی حقیقت کو پھر بھی انسان جٹھلاتا رہتا ہے اور اندر سے یہی
سمجھتا رہتا ہے کہ شاید اس نے مرنا ہی نہیں اور مرنا بھی ہے تو وہ وقت ابھی
بہت دور ہے۔ وہ زندگی اور عمر کے ہر حصہ میں داخل ہو کر بھی یہی سمجھتا
رہتا ہے کہ اس کے پاس ابھی بہت وقت ہے اور اپنی خواہشات کی تکمیل اور تسکین
میں لگا رہتا ہے۔ اس کا ہر ایک گزرنے والا پل دوسروں سے مقابلہ بازی اور اس
دوڑ میں سب سے آگے نکلنے کے لۓ گزرتا ہے۔ وہ ایک پل کے لۓ بھی نہیں سوچتا
کہ میں یہ جو کچھ بھی جمع کر رہاہوں کس کے لۓ کر رہا ہوں؟ کیا یہ سب میرے
مرنے پر میرے ساتھ جاۓ گا؟ کیا اس بنک بیلنس، کاروں اور کوٹھیوں میں، میں
زندگی گزاروں گا؟
بس رک کر صرف ایک پل سوچنے کی ضرورت ہے۔ سب کچھ یہیں رہ جانا ہے۔ پھر چاہے
اسے حق دار کھائیں یا گدھ نوچ کھائیں۔ ایک لمحہ کے لۓ رک کر سوچیں تو سہی
کہ آپ مرنے سے پہلے کس کس کے پیٹ بھرنے کا انتظام کرنے کے لۓ خود کو نچوڑ
رہے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ اپنی ذات کی بے جا خواہشات کی تسکین کے لۓ کر رہے
ہیں؟ یا پھر اولادوں کے لۓ، یا پھر گدھوں کے نوچ کھانے کے لۓ کر رہے ہیں؟
سوچیں کہ آپ کیوں خود کو اتنا بے تحاشہ گھسیٹ رہے ہیں؟ کیوں مقابلہ بازی کی
دوڑ لگائ ہوئ ہے؟ مختصر سی اس زندگی میں مختصر سی خواہشات کیوں نہیں؟ اپنے
ذہن کو صرف ایک پل کے لۓ جھٹکا دے کر سوچیں۔ کیا پتا آپ کے لۓ یہی ایک پل
وہ پل ہو جاۓ جو لوگوں کی زندگیان بدل کر رکھ دیتا ہے۔ بڑی سے بڑی سوچ کو
تبدیل ہونے میں بس ایک پل ہی لگتا ہے۔ کیا پتہ اس ایک پل کی سوچ آپ کے دل و
دماغ کو ایسا جٹھکا دے جو آپ کو یکسر تبدیل کر دے اور آپ خود کو پہنچانے
والی اس مسلسل تکلیف سے باہر نکلیں جو آپ خود تو محسوس نہیں کرتے مگر آپ کی
روح اندر ہی اندر ضرور گھائل ہوتی جاتی ہے۔ اس کا اندازہ ہمیں تب ہوتا ہے
جب عمر اور بیماریاں ہمیں بلکل معذور کر دیتی ہیں اور ہم دوسروں کے محتاج
ہو جاتے ہیں۔ تب پتہ چلتا ہے کہ یہ میں نے کیا کیا۔ کیوں میں نے خود کو اس
قابل نہیں چھوڑا کہ آج بڑھاپے اور بیماری کی حالت کا مقابلہ کر سکتا۔ مگر
یہ سوچ بھی کسی کسیکو ہی آتی ہے۔ انسان پیسے سے زندگی کے اس خلا کو بھرنے
کی کوشش کرتا ہے مگر حقیقتاً ایسا ہوتا نہیں ہے۔ ساری عمر آپ ایسے لوگوں کے
لۓ دن رات محنت کرتے اور پیسہ کماتے ہیں جن کو قطعی اس کی قدر نہین ہوتی
مگر جو آپ کی اس محنت کی کمائ کا سب سے زیادہ حق دار ہوتا ہے اور جس کی وجہ
سے آپ اس مقام تک پہنچے ہوۓ ہوتے ہیں، آپ انھیں نظر انداز کر دیتے ہین۔
والدین کے علاوہ آپ کے کچھ ایسے پیارے رشتے بھی ہوتے ہیں جن سے آپ بے پناہ
پیار کرتے ہیں اور اپنی طرف سے پورا خیال کر رہے ہوتے ہیں۔ بلکہ جب آپ اپنے
ذہن سے سوچتے ہین تو لگتا ہے کہ شاید زیادہ ہی خیال کر رہے ہیں اور اس پر
یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ ہم جن کا خیال رکھ رہے ہیں انھیں ہمیشہ ہمارا شکر
گزار رہنا چاہیۓ۔ کسی حد تک تو یہ بات ٹھیک ہے مگر خیال رکھ کر شکرگزاری کی
توقع رکھنا غلط ہے۔
ایک پل کے لۓ اپنے پیارے رشتوں ہیں سے کسی ایک کو، موت کی شکل میں اپنی
زندگی سے نکال کر دیکھیں اور پھر اس کے مرنے کے دکھ کو ہٹا کر سوچیں کہ کیا
آپ کا دل اس بات پر مطمئن ہے کہ آپ نے اس رشتہ کے ساتھ پوری وفا کی ہے اور
آپ کو اس قسم کی کوئ تکلیف نہیں کہ کاش میں اس کے لۓ یہ کرتا یا وہ کرتا۔
ہم وہ لوگ ہیں جو مرنے کے بعد انسان کی قدر کرتے ہیں اور پچھتاوے کے آنسو
بہاتے ہیں۔ مرنے والا بے چارہ جب زندہ ہوتا تو کبھی آپ کے پیار و توجہ کو
تو کبھی آپ کے وقت کو ترستا رہتا ہے۔ بعض اوقات تو ایسا ہوتا کے ہم یہ بھی
سوچتے ہیں کہ کاش وہ دوبارہ دنیا میں آجاۓ تو ہم اس کا بہت خیال رکھیں گے۔
پر اب پچھتاۓ کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ مرنے والا واپس نہیں آتا۔ ہم
زندگی کو تو ہر وقت ذہن میں رکھتے ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ ہم
موت کو بھی یاد رکھیں۔ اپنی بھی اور دوسروں کی بھی۔ تا کہ ہمیں کسی اپنے کی
موت پر کم از کم اتنا دکھ اور افسوس تو نہ ہو جس میں کاش آۓ۔ یہی سمجھیں کہ
خدا نے آپ کے پیاروں کو دوبارہ زندگی بخشی ہے۔ مرنے کے بعد اگر وہ دوبارہ
زندہ ہوتے تو آپ جس طرح اس وقت ان کا خیال کرتے، یہی سمجھ کر آج خیال کر
لیں کیوں کہ گیا وقت کبھی ہاتھ نہیں آتا۔ اچھی سوچ اور اچھے عمل کا خیال جب
بھی آ جاۓ، اچھا ہی ہوتا ہے۔ یہ کبھی نہ سوچیں کہ اب تو بہت دیر ہوچکی ہے
کیوں کہ صبح کا بھولا شام کو گھر آ جاۓ تا اسے بھولا نہیں کہتے۔ اپنی زندگی
میں خود کو بس دو پل ضرور دیں۔ ایک پل موت کی حقیقت جاننے کے لۓ اور دوسرا
پل یہ سوچنے کے لۓ کہ اپنے پیاروں کی موت کے بعد، آپ کے ذہن میں وہ دکھ اور
افسوس نہ آۓ جس میں کاش آتا ہو۔
|