عشق مجازی سے عشق حقیقی تک کا سفر

اللہ بہترین ساتھی ہے۔

وہ شاعری کو پڑتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔۔۔۔۔بار بار شعر دماغ سے اترتا اور دل کی تہہ میں سما جاتا۔

تذکروں سے پرے تھی ذات اس کی
زبان کی دہلیز پر میری آخر کیوں نہیں آیا

سب کچھ ہی مقدر بنا کنول ؔمیرے لیے
چاہ تھی جس کی وہی حصہ میں نہیں آیا

وہ سوچ رہی تھی ۔ اسے پتہ کیوں نہیں چلا کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ ایسے کیسے ممکن ہے کہ انسان کو اپنی چاہت اور اپنی ہی محبت کے بارے میں پتہ نہ چلے۔سارے فیصلے ہو چکے تھے ۔ بس پانچ دن بعد اس کی مہندی تھی۔ اسے اچانک سے محسوس ہوا کہ وہ بھی محبت کرتی تھی۔ ایسی محبت جس کے لیے سب کچھ لٹایا جا سکتا تھا ،مگر اس نے ایک نظر کرنی گوارا نہیں کی ۔ اس نے ایسا کیوں کیا ؟فقط سماج کے ڈر سے ۔نہیں ۔شاہد اپنے غرور پر قائم رہنے کے لیے ۔ وہ کہہ جو چکی تھی کہ اسے محبت ہو ہی نہیں سکتی ۔ پھر یہ کیا تھا۔ جب اسے کسی اور سے منسوب کر دیا گیا تو اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ تو کسی اور سے منسوب ہونا چاہتی تھی۔ وہ اپنے جذبات پر خود پریشان تھی۔ رات کے تین بج چکے تھے ۔وہ ہمیشہ سب سے پہلے سو جاتی تھی ۔ کیسے اس کی نیند اُڑ گئی تھی ۔وہ خود نہیں جانتی تھی۔ اس کے آنسو اس کا چہرہ بھگو رہے تھے ،اس کی سسکیاں اس کےپورے وجود کو لرزنے پر مجبور کر رہی تھی ۔ اب بہت دیر ہو چکی تھی۔اُس نے اپنے چہرے کو دوپٹہ سے صاف کیا اور وضو کر کے آئی ۔مگر اس کے دل نےرب کی دہلیز پر جانے سے انکار کر دیا۔ اس نے اپنی ڈائری لی اوروہ باقی کے شعر دوبارہ پڑھنے لگی۔

نہیں آیا تو کیا کہ درد ملاتا ہے مجھےرب سے
محبت نہیں آئی جہاں، وہاں رب بھی نہیں آیا

غم نہ کر تو کہ عشق حقیقت سے ملاتا ہے
جانا سب نے ہے تو کیا غم کون نہیں آیا۔

خواہ ہزاروں لوگ ہوں ،آپ کے ارد گرد ۔ہجوم جمع کر لینے سے اندر کی تنہائی کم نہیں ہوتی ۔ تنہائی کو بانٹنے کے لیے ایسی ذات چاہیے جو خود تنہا ہو ۔ وہ رب ہی ہے۔ اس نے دل کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ زندگی کتنی ہو گی۔ حد سے بڑھی تو سو سال ۔ وقت کسی کی نہیں سنتا مگر اس کے بنانے والے کی۔ کیوں نہ اس کے بنانے والے سے دوستی کر لی جائے۔

کوئی انسان کسی انسان کو خواہ کتنا ہی چاہ لے۔ کیسے ہی اس کو سمجھنے کے دعوے کر لے ۔سچ تو یہ ہے کہ انسان دوسرے انسان کی ظاہری قربت کے سوا کچھ بھی نہیں پا سکتا۔ ظاہری قربت بھی ،بے چینیوں کے سوا کچھ بھی نہیں دیتی۔ محبوب سے بچھڑجانے کا خوف۔ اس کے ناراض ہونے کا دھڑکا ہر وقت دل کو لگا ہی رہتا ہے۔یہ ایسے ہی ہے کہ انسان انگارے ہاتھوں میں رکھ کر بیٹھا رہے۔ کیسی بے بسی ہے کہ باوجود اس کے کہ جلن ہوتی ہے،جلنے والا انگارے پھینکنے کو تیار نہیں ہوتا۔انسان کو پتہ ہے انسان سے اسے بے چینی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ لیکن پھر بھی ہر انسان اپنے سے انسان کو چاہتا ہے۔ جو خود مجبور محض ہے۔اس چاہت میں اپنی ذات کی نفی کر دیتا ہے ۔ حاصل ایسی صورت میں لا حا صل ہی رہتا ہے۔ ہزاروں گلدستے تھما دینے سے کوئی آپ کو پھول نہیں دے سکتا۔ یہ رب ہے جس نے پتیوں میں خوشبو سمو دی۔جو آپ کی ذات میں خوشبو کی طرح سما سکتا ہے۔ عشق مجازی دل کی زمین کو ذرخیز کرنے کے لیے بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ عشق حقیقی کا بیچ اسی دل میں اُگتا ہے جہاں عشق مجازی نے دل کی زمین کو ذرخیز کر دیا ہو۔ جن لوگوں کو عشق مجازی سے آشنائی نہیں ہوتی وہ کبھی عشق حقیقی تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔

میں نے دیر تلک تجھے سوچاتو پایا فقط اتنا
تیری طرح تیری یاد بھی پردہ نشیں نکلی

حال دل سنایا تو کیسی دی رب نے تسلی
فقط اسی کی ذات ہم پر قابل یقین نکلی

ایسا لگا ہم کو چل پڑا ہے وہ سنگ اب کہ
عجیب کیفیت میں سجدہ سے جبیں نکلی

جب اپنا آپ سونپ دیا جاتا ہے ، تو ہر بےچینی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ جب سمجھ لیا جاتا ہے کہ انسان مٹی کی ایسی مورت ہے جس میں روح ڈالی جا چکی ،تاکہ نکالی جا سکے۔ پھر کسی سے یا خود سے اس قدر عشق کیسا ۔عشق کی تو وہ ذات مستحق ہے ۔ جس نے مٹی کی مورت میں روح ڈال دی۔ جس نے ایسا دل بنایا ،جو کسی کی محبت میں سسکتا ہو۔ کسی کی قربت کے لیے تڑپتا ہو۔رب سے اگر کسی کو مانگ بھی لیا جائے تو ،اس کے مل جانے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔عشق مجازی صدا کی بے چینی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔یہ وہ قطرہ ہے ۔جس میں قوس قزح بنتی ہے۔جب یہ حقیقت سے مل جاتا ہے ،تو دلوں کو سکون آجاتا ہے۔ اس نے اپنے ہاتھ نماز پر بیٹھے ہوئے دُعا کے لیے اُٹھائے ۔اگرچہ اس کی زبان خاموش تھی ۔لیکن دل میں انکھیں بند کر کے وہ فقط اپنے رب کا تصور کر رہی تھی۔ جس نے اسے جان دی۔ دل دیا ۔دل میں چنگاری دی ۔جو اسے جلا رہی تھی۔ جلتی ہوئی اس روشنی میں قوس قزح کے سارے رنگ تھے۔ اس کے دل میں موجود قطرہ شاہد اب سمندر بننا چاہتا ہے۔ اس کے دل کی دھڑکنوں میں شور سا ہو رہا تھا۔پھر جب اللہ کا نام وجود سے بلند ہوا تو سب غائب تھا۔اس کے اندر ٹھہراو کے ساتھ ہلکی اور پرلطف آواز باقی رہ گئی۔ اے اللہ میں حاضر ہوں ۔ اے اللہ میں حاضر ہوں ۔ مجھے تیرے سوا کچھ بھی نہیں چاہیے۔کچھ بھی نہیں ۔ اس کے وجود میں مکمل خاموشی تھی۔ ایک سکون کی کیفیت۔ اس نے خود کو خانہ کعبہ کے باہر سجدہ کی حالت میں پایا۔
فقط جنون نے کیسے مسافت مٹا دی ساری
سوچا کنولؔ اس کو جو،تواپنے پاس اسے پایا
 

kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 281069 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More