خوشی ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے ، اس کا گھر تین
کمروں پر مشتعمل ہے ،جو اس کے لیے سمٹ کر ایک کمرے اور چھت تک محدود ہو گیا
۔ اس کی وجہ اس کے گھر کا ماحول ہے۔ خوشی عموماً اپنے ابو کے کمرے میں جانے
سے گریز کرتی ہے ،جہاں دو چارپائیوں کو دیواروں کے ساتھ آمنے سامنے رکھا
گیا ہے، ایک ٹیپائی پر ایک کونے میں چارپائی کو اگے کر کے چھوٹا سا ٹی وی
رکھا ہے ، جس کو چلانے کی اجاذت گھر میں کسی کو نہیں ہے۔ صابر جو خوشی کے
ابو ہیں، وہی اس کو چلاتے اور دیکھتے ہیں ۔ٹی وی کے ایک دروازے کے سامنے
چار کرسیاں رکھی ہوئی ہیں ،جن کے آگے کمرے میں کچھ نہیں ،جب کوئی گھر میں
مہمان آتا ہے ،تو انہی کرسیوں کے آگے ایک ٹیپائی رکھ دی جاتی ہے ۔ تاکہ
اسے چائے دی جا سکے۔خوشی کو اس کمرے میں جانے سے بھی خوف آتا ہے۔ وہ چھت
کی سیڑھی کی طرف جاتے ہوئے اس کمرے کی طرف دیکھتی بھی نہیں ،جو اس کے اورر
چھت کی سیڑھیوں کے درمیان میں ۔اس کے ابو کا کمرہ ہے ، وہ اسے ٹی وی والا
کمرہ کہتی ہے ، مراد اس کمرے میں بیٹھا گولیل کے لیے چھوٹے چھوٹے وی بنا
رہا ہے ۔ وہ ایک لوہے کی چوڑی کو موڑکر بار بار اسے دائیں اور بائیں گما تا
ہے اور پر لوہےکی چوڑی کچھ مزاہمت کے بعد ٹوٹ جاتی ہے،وہ اس چھوٹے سے چوڑی
کے ٹکڑے کو وی شکل میں موڑ دیتا ہے،وہ ان وی کے ٹکڑوں سے اپنی بہنوں
اورپڑوس میں موجودکبوتروں کےپنجرے کو نشانہ بنا کر لطف اندوز ہوتا ہے ،وہ
خوشی سے تین سال چھوٹا ہے ،ایک اچھے پرائیویٹ سکول میں پڑھتا ہے۔ خوشی کو
وہ ذرا پسند نہیں کیونکہ وہ ابو کااور سارے گھر والوں کی انکھ کا تارہ ہے۔
مراد نیلم ،نائلہ اور خوشی سے چھوٹا ہے۔دوسراکمرہ دادی اور مراد کا ہے ،
دادی جب بھی آتی ہیں ،اپنے چھوٹے بیٹےاور بہو سے لڑ کر تو وہ یہاں ماہ دو
ماہ رکتی ہیں کبھی کبھی، چھ چھ ماہ ان کا یہاں رہنا ہوتا ہے ، ان کا نام
رخمت جان ہے ، جو پرانے خیالات کی بوڑھی عورت ہیں ،جن کے نزدیک عورت کا کام
بس اپنے شوہر کی خدمت کرنا اور بچے پیدا کرنا ہے،انہیں خوشی کا پڑھنا ایک
انکھ نہیں بہاتا۔ آج کل کمرے میں صرف مراد ہی ہوتا ہے ۔وہ خوشی کے چچا کے
پاس گئیں ہیں۔ خوشی کو بھی ان کا یہاں آنا پسند نہیں لیکن وہ اپنے کام سے
کام رکھنے کی عادی ہے ۔ اس کے کمرے میں اس کے ساتھ اس کی دونوں بہنیں نیلم
اور نائلہ اور اس کی امی صبا ہوتیں ہے ،کمرے کی ایک طرف کافی بڑی الماری
رکھی ہے ، جس پر شیشہ لگا ہے۔ خوشی اکثر غم اور خوشی میں شیشے کے آگے آ
کر گھڑی ہو جاتی ہے ،کافی دیر خود سے باتیں کرتی ہے مگر یہ گفتگو اس کی
انکھوں اور دل کے درمیان ہی ہوتی ہے، کمرے میں تین چار پائیاں ہیں ، خوشی
نیلم کے ساتھ ہی سوتی ہے۔ نائلہ سے خوشی کی ذیادہ نہیں بنتی،جبکہ نیلم اپنے
نرم مزاج کی وجہ سے اسے بہت پسند ہے۔نیلم ساتویں پاس ہے ۔آٹھویں میں اس نے
تعلم کو خیر آبادکہہ دیا تھا۔ سارے گھر کا کام اسی کی زمہ داری ہے ،جبکہ
نائلہ شروع سے نالائق تھی اس نے پانچویں میں ہی سکول چھوڑ دیا ۔ صبا جو
خوشی کی امی ہیں ، ان کی دلی خواہش ہے کہ خوشی تعلیم جاری رکھے۔صبا کے
نزدیک دس جماعتیں بہت ذیادہ ہوتیں ہیں ،وہ سمجھتی ہے علم کی حد بس یہی ہے۔
خوشی کو اپنی ماں کی خواہش کا خیال ہے ،وہ ہر صورت میں اپنی ماں کی خواہش
پوری کرنا چاہتی ہے ۔ اس کی زندگی کا واحد مقصد تعلیم کا حصول ہے۔ مگر اس
کے دل میں ایک خوف بھی ہے ،کہ کہیں کچھ ایسا نہ ہو جائے کہ اس کے ابو اس کو
سکول چھڑا دیں۔اس کی وجہ اس کا لڑکوں کے ساتھ پڑھنا ہے۔ ان گھر کے پاس جو
واحد گورنمنٹ سکول ہے۔ وہ کو ایجو کیشن پر مبنی ہے ،کیونکہ لوگ اکثر اس
علاقے میں لڑکیوں کو سکول بھیجتے ہی نہیں ،لوگوں کے نزدیک لڑکیوں کا سکول
جانا ضروری نہیں بلکہ قرآن کی تعلیم اور گھر داری سیکھنا ہی سب کچھ
ہے۔نیلم باورچی خانے میں بیٹھی ہے ،شام کا کھانا بنا رہی ہے، نائلہ نے خوشی
کو آواز دی ،وہ بھی آ کر کھانا کھا لے۔
خوشی : مجھے کیوں بلا لیا ،ابھی روٹی تو بنی ہی نہیں۔
نائلہ :کچھ نہیں ہوتا جو تھوڑی دیر کتاب نہیں اُٹھائے گی تو۔(منہ بناتے
ہوئے)
خوشی : بہت کچھ ہو گا ۔
نیلم: تو پہلے کھا لے اور چلی جا۔
صبانیلم تجھے بتاوں میں وہ فاخرہ کیا کہہ کر گئی ہے تیری سہیلی سارہ کے
بارے میں۔(صبا باورچی خانے میں داخل ہوئی )
نیلم : کیا کہہ کر گئی ہے ۔ آنٹی فاخرہ کا کام ہی دوسروں کی خبریں دینا
ہے۔ کیا ہو ا سارہ کو ، کافی دن ہو گئے ، آئی ہی نہیں۔
(نیلم نے سالن ڈال کر خوشی کو دیا ،اور تجسس سے صبا سے پوچھا ، جو چولہے کے
پاس ایک چوکی پر آکر بیٹھ گئی اور نیلم کو بتانے لگی ،جبکہ نائلہ اور خوشی
اپنی اپنی چوکی پر بیٹھ کر روٹی کھارہی تھیں)
صبا: گھر سے بھاگ گئی ہے ، کسی لڑکے کا چکر تھا۔
نیلم: کیسا چکر،اس نے مجھ سے تو کبھی کسی لڑکے کا ذکر تک نہیں کیا،مجھے تو
یقین نہیں آتا۔
صبا: ساری زندگی کا داغ لگا لیا چولی میں، پتہ نہیں کس لڑکےکے ساتھ منہ
کالا کر رہی ہو گی۔
صبانے منہ بھسوڑتے ہوئے ، ناک چڑھاتے ہوئے افسردگی سے کہا۔
خوشی: امی یہ منہ کالا کیسے ہوتا ہے؟کالا رنگ لگانے سے تو ٹھیک ہے ،منہ
کالا ہو سکتا ہے،یہ لڑکے کے ساتھ منہ کالا کرنے کاکیا مطلب۔
نیلم :چپ کیا کر ،خوشی تو بھی نا۔
اس نے ہنستے ہوئے خوشی کو کونی ماری۔جو اس کی دائیں طرف بیٹھی تھی۔
نائلہ :کیوں تو نے بھی کروانا ہے؟
صبا: بکو مت ،جو منہ میں آتا ہے کہتی ہو ۔
خوشی : بتاو نا امی۔
صبا: چپ کر۔ جا، اپنا سبق پڑھ۔
(خوشی کی روٹی ختم ہو ئی، وہ منہ بنا کر کچن سے چلی گئی۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شیزاد ،شیزاد مموریل ہوسپٹل کے مالک ہیں ،غریبوں کے لیے اپنے دل میں
بہت ہمدردی رکھتے ہیں ۔ مدحت جو ان کی والدہ ہیں ،جوانی میں بیوہ ہو گئی
تھیں۔ ڈاکٹر شیزاد ان کی اکلوتی اولاد ہیں۔ ڈاکٹر شیزاد اور عنابیہ کی شادی
لو اور ارینج طریقے کی شادی کا امتزاج ہے۔ عنابیہ کو مشہور ہونے کا بہت شوق
تھا ۔ڈاکٹر شیزاد اسے کسی چیز سے منع نہیں کرتے ،اس نے اینکرئنگ کا پروفیشن
اپنایا ۔ وہ ایک مشہور چینل میں ایک سماجی برائیوں کو بے نقاب کرنے والے
ایک پروگرام میں کام کرتی ہے ۔ پروگرام کا نام ہی بے نقاب ہے۔
اس کےدو بچے ہیں ۔ شایان اور آفان ۔ ان کی ایک بیٹی غزل تھی جو ان کی پہلی
اولادتھی سوا دوسال کی عمر میں اس کی ڈائریا سے موت ہو گئ تھی۔ڈاکٹر شیزاد
کو ابھی بھی اس کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ انہیں شروع سے خواہش تھی کہ
ان کی بیٹی ہو ۔اللہ نے بیٹی دے کر لے لی۔ دو بیٹوں کے باوجود انہیں بیٹی
کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی ہے۔ عنابیہ مذید بچے پیدا کرنے کے حق میں نہیں تھی
۔ اس کا خیال تھا کہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں، دو بچے بہت ہوتے ہیں ۔ڈاکٹر شیزاد
اس کی ہر جائز خواہش کا احترام کرتے ہیں ۔ سارے صبح کا ناشتہ ڈائینگ ٹیبل
پر مل کر کرتے ہیں ۔شایان آٹھویں جبکہ آفان پانچویں کلاس میں پڑھتا ہے ۔
سغرہ گھر کی ملازمہ ہے ۔اس کا باپ چوکیدار اور بھائی اسی گھر میں مالی کا
کام کرتا ہے ۔سغرہ سارا دن اسی گھر میں کام کرتی ہے ۔وہ سرویٹ کواٹر میں تب
سے رہ رہی ہے، جب پانچ سال کی تھی۔ڈاکٹر شیزاد نے اس کے باپ کو بہت کہا کہ
وہ اُسے تعلیم دلائے مگر اس نے کہا کہ میرے بچے پڑھنا ہی نہیں چاہتے۔ صاحب
،میں کیا کروں ۔سغرہ صرف پانچویں پاس ہے ۔اس کا بھائی احمدساتویں فیل ہے۔ان
کی ماں چار سال پہلے تیز بخار کا بہانہ بننے سے مر گئی تھی۔ موت بس انسان
کو لے جانے کے طریقے ڈھونڈ لیتی ہے۔ سغرہ گھر کے فرد کی طرح ہی ہے۔ سب اسے
بہت پیار سے بلاتے ہیں ۔ وہ بھی خوشی خوشی سب کا کام کرتی ہے۔صبح کے ناشتہ
سے لے کر رات کے کھانے تک وہ یہاں ہی ہوتی ہے۔ وہ لوگ اکثر انپے کواٹر میں
چولہا جلاتے ہی نہیں بلکہ بنگلہ کے لان میں کھا ناکھا لیتے ہیں ۔ منظور جو
سغرہ کا باپ ہے۔ ڈاکٹر شیزاد کی ہر کسی سے تعریف بیان کرتا ہے۔ وہ ہیں بھی
تعریف کے لائق۔ان کےہاں جو ڈرائیور تھا وہ کام چھوڑ کر چلا گیا ہے ۔ آج کل
ڈاکٹر شیزاد خود ہی ڈرائیو کرتے ہیں ۔
(ناشتہ کی ٹیبل پر سب بیٹھے ہیں۔اپنے کپ میں چائےڈالتے ہوئے، ڈاکٹر شیزاد
نے عنابیہ کی طرف دیکھا )
ڈاکٹر شیزاد: تم آج بہت پہلے سے جاگ رہی ہو، کیا بات ہے؟
عنابیہ: ہاں ،وہ مجھے کچھ سوالوں کو تیار کرنا تھا، آج شو کے لیے ۔وہ بچہ
تھا نا، اظہر اُس کے بارے میں بتایا تھا ۔میں نے آپ کو۔
(اپنے بچوں کی طرف دیکھتے ہوئے عنابیہ نے نظروں سے اشارتاً بات کرتے ہوئے
کہا)۔
ڈاکٹر شیزاد:ہاں تم نے بتایا تھا ۔ اس بچے کے ماں ،باپ مان گئے ،مجھے حیرت
ہے۔
عنابیہ:حیرت کیسی اپنے ساتھ ہونے والی ذیادتی پر خاموش نہیں بیٹھنا چاہیے۔
معاشرہ کو اب بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔
ڈاکڑ شیزاد :اچھا، ایسے کہاں بیدار ہوتا ہے معاشرہ ،آئی ڈونٹ تھینک
سو۔(سنجیدگی سے)
عنابیہ:کم سے کم اس بچے میں کونفیڈینس تو آئے گا۔ کوئی تو ہے اس کے لیے
آواز اُٹھانےوالا۔ اگر قرآن پڑھانے والے اس طرح کی حرکت کریں گئے تو
والدین پھر اعتبار کس پر کر سکتے ہیں،اپنے بچوں کے معاملہ میں۔ آج مہنہک
ہو گیا ہے ،اس بات کو اب کسی قابل ہوا ہے وہ بچہ ،اظہر بات کرنے
کے۔(افسردگی کے ساتھ)۔
ڈاکڑ شیزاد :مجھے لگتا ہے یہ درست نہیں ،اس بچے کے ساتھ تو کم سے کم نہیں۔
ٹی وی پر آنے کے بعد اس کے متعلق جو لوگ نہیں جانتے وہ بھی جان جائیں گئے
کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شایان : کیا ہوا ہے اظہر کو ماما؟
عنابیہ : کچھ نہیں ،آپ ناشتہ کریں اور جلدی نکلیں ،سکول کی بس چلی نہ
جائے۔بیٹا آفان آپ بھی جلدی سے فینش کریں اپنا دودھ کا گلاس۔
(دونوں بچے اب کھانے کی ٹیبل سے اُٹھ چکے ہیں اور اپنی سکول بس کے لیے نکل
چکے ہیں)
ڈاکٹر شیزاد:تم یہ تو دیکھو، جس چیز کے بارے میں تم اپنے بچوں کے سامنے بات
نہیں کرنا چاہ رہی ہو ،شو پردنیاکے سامنے ایک بچے سے اسی بارے میں سوال
کرنے جا رہی ہو۔ سوچو وہ کیسا محسوس کرئے گا،جب تم اس سے سوال پوچھو گی۔
عنابیہ : کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ،یہ میرا کام ہے ۔ مجھے سماجی مسائل کے
موضوع پر ہی پروگرام کرنے ہوتے ہیں۔ یہ میں طے نہیں کرتی کہ کرنا کیا ہے
،میں تو وہی کرتی ہوں جو مجھے کہا جاتا ہے ،ہاں سوال کچھ میں اپنی مرضی سے
بنا سکتی ہوں۔ سوالوں کا موضوع نہیں بدل سکتی۔
ڈاکٹر شیزاد:مجھے لگتا ہے کہ اس قسم کے لوگوں کو عوامی سطح پر سزا دینی
چاہیے ۔نہ کہ بچوں کو ،جن کے ساتھ ذیادتی ہوتی ہے ۔ اُن سے سوال جواب کر کے
اُنہیں پریشان کیا جائے۔ اس قاری کی تصویرسامنے لانی چاہیے نہ کہ بچہ کی
،ہم سانپ نکل جانے کے بعد لکیرپیٹنے کے عادی ہیں۔(افسردگی کے ساتھ)۔
مدحت:شیزادٹھیک کہہ رہا ہے۔ جب تک ہر کوئی سماج کو درست کرنے کی کوشش نہیں
کرئے گا ،سماج گندے سے گندا ،بد سے بدتر ہوتا جائے گا۔ عنابیہ تمہیں بولنا
چاہیے تھا ،کہ اس بچے کا ا نڑویو سماج کی بھلائی کے لیے ہے یا پروگرام
اورچینل کی مشہوری کے لیے؟وہ لوگ جن کے دل پہلے ہی کالے ہیں ۔یہ پروگرام
دیکھ کر ان کے دل میں آئے گا جب ایک قاری ایک حافظ قرآن ایسا کر سکتا ہے
تو ہم تو خطا کے پتلے ہیں۔
شیزاد: امی اگر قاری کو سامنے نہیں لائیں گئے تو لوگوں کو شعور کیسے آئے
گا کہ وہ محتاط رہیں۔ میرا پوائیٹ آف ویو ،یہ نہیں ہے۔ میں تو یہ کہنا چاہ
رہا ہوں کہ ایک بچہ کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔وہ کچھ دیر خاموش ہی رہے
مگر ان کی سوچیں دماغ میں محو گفتگو تھیں۔عجب سماج ہے ہمارا، لوگ زخم کو
مرہم لگانے کا دعویٰ کرتے ہیں اورکھرچ کھرچ کر سسکیوں کو سنتے ہیں ،پھر
ویڈیو بناتے ہیں تاکہ یو ٹیوب پر اپ لوڈ کرسکیں اور دیکھں کیا رسپونس آتا
ہے۔ لعنت ہے ایسے میڈیا پر۔
عنابیہ: چلیں چھوڑیں، گٹر کے پاس کھڑے ہوں تو بدبو کے سوا کچھ نہیں
نکلتا،بہتر یہ ہی ہے کہ ہم گٹر کے قریب سے جلدی جلدی گزر جائیں۔
شیراز:مگرگٹرکو بھی صاف کروانا پڑھتا ہے ۔ناک بند کرنے سے گٹر صاف نہیں ہو
گا ، مسلہ یہ ہے کہ ہم گند پھیلانے والے کو نہیں پکڑتے بلکہ ہم جہاں گند ہے
اس جگہ کو کوستے رہتے ہیں اور گند کا نظارہ کرنے کو مسلہ کو حل سمجھتے ہیں
۔ (طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ۔)۔اچھا اب میں بھی نکلوں گا۔کلینک کے لیے۔
عنابیہ:اوکے اللہ حافظ
ڈاکٹر شیزاد کو دروازے تک چھوڑ کر عنابیہ واپس ٹیبل پر لوٹ آتی ہے۔
مدحت:تمہیں غور کرنا چاہیے ،شیزاد کی باتوں پر ،بات کرنی چاہیے۔ وہ قاری تو
پکڑا نہیں گیا ۔اِن سے، بے چارے بچہ کو پکڑ لیا ہے۔ (افسردگی اور نفرت کے
ملے جلے جذبات اُن کے چہرے پر تھے)
عنابیہ :جی امی ،بات کروں گی۔ لیکن اب ساری تیاری ہو چکی ہے ،شو تو کرنا ہی
پڑے گا۔(نوکرانی کو آواز دیتے ہوئے )،سغرہ برتن سمیٹ لینا ذرا اور دن میں
آج مٹر، آلو بنانے ہیں ،کباب بھی تل لینا جو میں نے رات کو بنا کر فریز
کیے تھے ،مجھے آنے میں دیر ہوگئی تو کھانا دے دینا سب کو
سغرہ: جی اچھا۔ باجی سب کر لوں گی، آپ جائیں۔
عنابیہ :کمرے سے تیار ہو کر آتی ہے۔ (مدحت ابھی تک ٹیبل پر بیٹھی ہیں
)۔اچھا امی میں بھی نکلوں گی اب۔ اللہ حافظ
مدحت : اچھا بیٹا اللہ حافظ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیق جانویذی کا بی ۔اے کا آخری پیپر ختم ہو چکا ہے ۔وہ اخبار میں کام
کےایڈ دیکھتا رہتا ہے ۔ اس کی تعلیم ابھی اتنی نہیں کہ کوئی اچھی نوکری مل
سکے ۔ اس کے ابو کی چار سال پہلے ایک ایکسیڈینٹ کے چھ ماہ بعد موت ہو گئی
تھی۔ تب سے ان کے مالی حالات نے ایسی کروٹ لی کہ سنبھل نہیں پائے ۔ اس کی
امی ایک پرائیویٹ کالج میں پڑھاتی ہیں ۔ کالج کے مالک اس کے ابو کے بہت
اچھے دوست تھے ۔ جانویذی صاحب کی وفات کے بعد مہناز کو مجبوراً کوئی کام
کرنا ہی تھا ۔انہوں نے جب سرور صاحب کی بیوی سے بات کی تو سرور صاحب نے
فوراً انہیں اپنے کالج میں نوکری دے دی۔ مگر تین بچوں کے اخراجات اس نوکری
سے پورے کرنا آسان نہیں تھا ۔ وہ ٹیویشن پڑھاتی ۔ لوگوں کے کپڑے سلائی
کرتی ۔ کڑھائی کرنے والوں کو موتی لگا کر دینے کا کام بھی کرتیں تھیں ۔ شفق
،رفیق سے چھوٹی اور تھرڈ ایر میں پڑھتی ہے وہ اپنی امی کی پریشانیوں سے
آگا ہ ہے وہ ہر طرح سے اپنی امی کی مدد کرتی ہے۔ ربیعہ ابھی چھوٹی ہے ۔ وہ
نویں کلاس میں ہے ۔ سب کی لاڈلی ہے۔ رفیق بھی ٹیویشن پڑھاتا ہے۔میٹرک کے
بعد اس نے الیکٹریشن کا کام بھی سیکھا تھا ۔ جب بھی اسے الیکٹریشن کا کام
مل جائے وہ کر لیتا ہے۔ اسے کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے ۔وہ رات دیر تک
پڑھائی کرتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ وہ ایک دن کامیاب انسان بنے گا۔اس کی ماں
کو بھی اس سے بہت امیدیں ہیں ۔ شفق کا رشتہ اس کے ماموں فرحان اور ممانی
سحریش کے بیٹے فیصل سے طے ہے۔ وہ اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔ مہناز وہاں
فون کرتی رہتی ہے ۔ اپنی ماں سے وہ کافی عرصے سے نہیں ملی جو فرحان کے ساتھ
ہی رہتیں ہیں ۔ مہناز کے دوسرے بھائی یو ۔کے میں ہوتے ہیں ۔ ان سے مہناز کی
کوئی بات جیت نہیں ہوتی ۔ وہ رفیق کے والد کی وفات پر ہی آئے تھے ۔اس کے
بعد ابھی تک ان کا پاکستان آنا نہیں ہوا تھا۔ رفیق کی نانی کے کہنے پر
انہوں نے مدد کے طور پر بمشکل پچاس ہزار روپے اپنی بہن کو دیئے تھے ۔مہناز
کو بہت دُکھ ہوا تھا۔اس نے اپنے بھائی کو کوئی گلہ نہ کیا تھا۔ اسے اپنے
بھائی ہر حال میں اچھے لگتے تھے۔
مہناز : بل دیکھتے ہوئے ، پتہ نہیں اس بار بل اتنا ذیادہ کیوں آیا ہے۔ ہم
کون سا گیزل چلاتے ہیں ۔
مہنازنے عینک اُتار کر رکھی اور شفق کی طرف دیکھا جو چاول چن رہی تھی۔ اس
نے بھی اپنی امی کی بات سن کر ان کی طرف دیکھا۔ رفیق نے کتاب میز پر رکھ دی
،اور بل اُٹھا کر دیکھنے لگا ،جو سات سو روپے تھا ۔
رفیق : امی کوئی بات نہیں مجھےدیں ،میں جمع کروادوں گا۔
مہناز : اچھا ،وہ اندر میرا پرس پڑا ہے ،پیسے لے لو۔
رفیق : نہیں امی ، میرے پاس پیسے ہیں۔
مہناز: کہاں سے آئے ؟تمہارے پاس پیسے؟
رفیق : امی وہ احمد چاچا کی ٹیکسی لے کر چلائی تھی تو ۔ ٹیوشن بھی تو دیتا
ہوں نا ،چار بچوں کو گھر جا کر ، اس طرح جو پیسے بنتے ہیں ،کافی جمع ہو
جاتے ہیں ۔ آپ کو اگر ضرورت ہوں تو بتانا ،میں لیب ٹاپ کے لیے جمع کر رہا
ہوں۔
(رفیق نے اپنی ماں کو تفصیل دی تو وہ کچھ سوچ میں پڑ گئی)
رفیق : کیا ہوا امی؟
مہناز:سوچ رہی ہوں ،تمہارے ابو زندہ ہوتے تو ،زندگی بہت مختلف ہوتی۔
رفیق: سچ کہہ رہی ہیں۔ابو کے جانے کے بعد سب بدل گیا۔ (اس نے ایک آہ بھری)
شفق:امی آپ کو اس بات پر شکر ادا کرنا چاہیے کہ رفیق بھائی جیسا بیٹا ملا
ہے ،آپ کو ۔
ربیعہ: بھائی ،امی تو مجھے پیسے نہیں دے رہیں ،میرا فن فیئر ہے ۔ مجھے نیا
ڈریس چاہیے ،ابھی آپ امی سے کہہ رہے تھے، کہ آپ کے پاس پیسے ہیں ،مجھے
دیں نا پلیز۔
رفیق : کیوں نہیں ، میری چھوٹی سی بہن کو کیوں نہیں دوں گا۔
شفق: رفیق تم نے بگاڑ دیا ہے، اسے ۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی ،نیا سوٹ
چاہیے۔ایسے نہیں ہو سکتا ،فن فیئر ۔سکول نہ ہو گیا فیشن شو ہو گیا؟
رفیق: کوئی بات نہیں ،شوق ہوتا ہے۔
رفیق اُٹھ کر اپنےکمرے میں چلا گیا اور اپنے پیسوں میں سے اس نے ہزار کا
نوٹ لا کر ربیعہ کو دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مریم:تجھے پتہ ہے خوشی ، وہ سارہ گھر سے بھاگ گئی
خوشی:ہاں پتہ ہے ،امی بتا رہی تھی ،نیلم کو ،نیلم کی سہیلی تھی۔ گھر میں
آتی تھی ہمارے۔
مریم:سنا ہے چکر تھا اس کا۔ پتہ نہیں یہ لڑکیاں چکر کیسے چلا لیتی ہیں۔
تمہیں پتہ ہے سدرہ کو بھی کوئی لڑکا سکول تک چھوڑنے آتا ہے۔
خوشی:ہنستے ہوئے ،پتہ کروانے کی ضرورت کیا ہے؟کیسی باتیں کرنے لگی ہے تو ۔
محلے کی عورتوں جیسی۔آج ریاضی کے ٹیسٹ کے نمبر آنے ہیں،ابھی آتی ہی ہوں
گی۔ میڈم ثوبیہ۔مجھے تو ڈر ہے کہ وہ وقاص ذیادہ نمبر نہ لے لے۔ مجھ سے،
توکیا کہتی ہو، کس کے نمبر ذیادہ ہوں گئے میرے یا اس کے ، پچھلی دفعہ اس کا
صرف ایک نمبر ہی کم تھا۔
مریم:اللہ کرئے تیرےہی ذیادہ آئیں تو میرے پاس ہونے کی دُعا کر۔
مریم اور خوشی کے پاس آتے ہوئے سدرہ نے مسکراتے ہوئے اسلام علیکم کہا اور
بات کرنے لگی۔
سدرہ:کیسی ہو خوشی۔
خوشی : ٹھیک ہوں۔
سدرہ : وہ خوشی وقاص تمہاری فزکس کی کاپی مانگ رہا تھا، اسے کچھ سوال
دیکھنے ہیں۔
خوشی : اس کا اپنا منہ نہیں ہے۔
سدرہ : وہ اس نے کہا کہ میں کہوں ۔مجھے چاہیے ، لیکن میں نے سوچا تم سے
چھوٹ بول کر کاپی لینا ٹھیک نہیں ،اس لیے بتا دیا۔
خوشی : تمہیں ضرورت ہوتی تو دے دیتی ، اُسے نہیں دوں گی۔ مجھے سارے لڑکے
کمینے لگتے ہیں۔
سدرہ : کیوں، لڑکے بھی اچھے ہوتے ہیں۔
خوشی: میں نے تو نہیں دیکھے اچھے لڑکے۔(مسکراتے ہوئے)
سدرہ : وقاص تمہارے بارے میں کہتا ہے کہ تم بہت اچھی ہو اور لائق بھی۔
خوشی : اس میں غلط کیا ہے ، میں ہوں اچھی اور لائق
سدرہ: کاپی دے دو نا اسے ۔ میری خاطر۔
خوشی : کتنی دیر میں واپس کرو گی۔
سدرہ : وہ گھر لے جانے کا کہہ رہا تھا ۔ کل واپس کرے گا۔
خوشی : نہیں ، گھر کے لیے تو کبھی نہیں دوں گی۔ سکول میں بریک میں کام کرئے
اور واپس کرئے ۔
(کلاس میں ٹیچر آتی ہے۔اسلام علیکم کہنے کے بعد ، کلاس کو بیٹھنے کو کہا)
ٹیچر: ۔اْج بھی ٹیسٹ میں سب سے ذیادہ نمبر خوشی کے ہی ہیں۔(چہرے پر مسکراہٹ
کے ساتھ)
مریم: قسمت ہے تیری تو ہر استانی کی ہی چہیتی ہے ،پوری کلاس جلتی ہے تجھ
سے،سارے لڑکے بھی۔
خوشی: چپ کر ،میڈم ہماری طرف ہی دیکھ رہی ہیں۔
ٹیچر:یہاں آو خوشی ،میرے پاس، ذرا کلاس کو دیکھو میں ابھی ایک منٹ میں
آتی ہوں۔
خوشی :فوراًتیز تیز قدموں کے ساتھ ، ٹیچر کے پاس پہنچ جاتی ہے۔(اس کے چہرے
پر فخر اور خوشی کے ملے چلے جذبات ہیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ڈاکٹر شیزاد ٹی وی لاونچ میں اپنی بیوی عنابیہ کے ساتھ بیٹھےٹی وی دیکھ
رہے ہیں ، رات کے ساڑھے گیارہ ہونے والے ہیں، پروگرام بے نقاب کی رپیٹ ایپی
سوڈ آنے والی ہے۔اپنی بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے، ان کی انکھوں میں سنجیدگی
بھری ہے)
ڈاکٹرشیزاد: ہو گیا تم لوگوں کا کام، ایڈ تو بہت ملے ہوں گئے ،تم لوگوں کو۔
عنابیہ: ہاں تو لوگ جو دیکھنا چاہتے ہیں ،میڈیا وہی دیکھاتا ہے نا، چینل کو
چلانا بھی تو ہوتا ہے۔ اچھی ریٹینگ مطلب ذیادہ کمرشل،ہرطرف آگے بڑھنے کی
مارا ماری ہے، کیا کریں۔(کچھ شرمندگی کے ساتھ)
ڈاکٹرشیزاد :اچھا اب اگلا ایپی سوڈ ،کس کو بے نقاب کرئے گا۔
عنابیہ: ایک لڑکی ہے ، جو گھر سے کچھ عرصہ پہلے بھاگی تھی تاکہ اپنی مرضی
سے شادی کر سکے ۔ اس لڑکے نے دوسرے شہر لے جا کر بیچ دیا ، وہ دوسرا شہر یہ
ہمارا کراچی ہے۔( چائے کا کپ تھماتے ہوئے)
ڈاکٹرشیزاد : بے چاری(افسوس کے ساتھ)
عنابیہ: بے چاری نہیں ۔بے وقوف، جو لڑکیاں ماں ِباپ کی عزت نہیں رکھ سکتی
،ان کے ساتھ پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔
ڈاکٹرشیزاد:تم ملی ہو اس لڑکی سے؟
عنابیہ: ہاں ، تقریبا بیس اکیس سال کی ہے اور ایک بچہ بھی ہے،اس کا،جس کے
باپ کا اُسے خود نہیں پتہ کون ہے۔شوٹ سے پہلے لازمی تھا ،اس کی سٹوری
جاننا،اس لیے ملی تھی۔
ڈاکٹرشیزاد:کتنے سال کا ہے،اس کا بچہ؟
عنابیہ:کوئی تین ساڑھے تین سال کا۔
ڈاکٹرشیزاد:تم سمجھتی ہو کہ ایک سولہ ،سترہ سال کی بچی اس قابل ہوتی ہےکہ
عزت ،بے عزتی اور سماج کے قوانین کو سمجھ سکے۔
عنابیہ:مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ کوئی لڑکی کسی لڑکے کی محبت میں اتنی
اندھی کیسے ہو سکتی ہے کہ ماں ،باپ دیگر گھر والے اُسے نظر ہی نہیں آتے۔
ڈاکٹرشیزاد:ایسے بچے جو ماں، باپ کی محبت سے محروم ہوتے ہیں ۔ وہ باہر محبت
کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں ،دھوکا کھا تے ہیں، باقی کا جیون اس دھوکے
کا غم کھاتے ہیں۔مجھے تو ہمارے سماج میں پھیلتی ہوئی بے حسی دیکھ کر افسوس
ہوتا ہے ،کیسا ظالم معاشرہ ہے ہمارا۔یہ اسلامی معاشرہ نہیں یہ نفسانی
معاشرہ ہے ۔ جہاں نفس کی حکومت ہے۔خود غرض نفس کی،جو طاقت ور ہے وہی طے
کرتا ہے کہ کمزور کی قیمت کیا ہے۔قیمت ہے بھی یا کوئی قیمت نہیں۔
عنابیہ:آپ کا مطلب ہے کہ اس لڑکی کا کوئی قصور نہیں؟
ڈاکٹرشیزاد:ایک آہ بھرتے ہوئے ، اس کا قصورہے ۔لاعلمی شاہد، (ڈاکڑ شیزاد
نے چاہے کا کب میز پر رکھا)۔
عنابیہ:مجھے تو اس بچے پر ترس آ رہا تھا جو اس کی گود میں تھا۔
ڈاکٹرشیزاد : ماں پر ترس نہیں آیا۔ کیوں ؟حیرت ہے۔
عنابیہ:میرے خیال میں وہ اپنی غلطی کی سزا بھگت رہی ہے، پر اس کا بچہ۔وہ
بےچارہ مفت میں۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹرشیزاد:کبھی کبھی غلطی کی نہیں جاتی ۔ہو جاتی ہے ، حالات وہ کچھ کروا
جاتے ہیں کہ انسان دیکھتا رہ جاتا ہے، ساری عمر سوچتا رہ جاتا ہے ، کاش
ایسے نہ ہوتا ،کاش میں ایسے نہ کرتا ، اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں اچھا ماحول
میسر آیا۔ میرے ابا کے نہ ہونے کے باوجود امی نے ہر طرح سے میرا خیال
رکھا۔تم بچوں پر بھی دھیان رکھا کرو۔
عنابیہ: ہاں ،لیکن میرے بچے ایسے نہیں ہیں ،جیسے آج کل کے بچے ۔
ڈاکڑ شیزاد: ہر ماں کو اپنے بچوں پر اعتماد ہوتا ہے لیکن اندھا اعتماد نہیں
ہونا چاہیے ، بچوں پر نظر رکھنی لازمی ہے ، کچھ عمر کے تقاضے بھی ہوتے ہیں
جو غلطی پر اکساتے ہیں۔ تم سمجھ سکتی ہو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔
عنابیہ ۔ اچھا ، وہ میں نے آپ کوڈرائیور کا کہا تھا، اگر ہو گا تو آسانی
ہو جائے گی۔آپ نے کچھ کیا ؟
ڈاکٹر شیزاد: ہاں ہاں وہ میں نے ایڈ دیا ہے ، کل کچھ لوگ آتے ہیں تو
انٹرویو لیتے ہیں ،جو بہتر لگے رکھ لیتے ہیں ۔
عنابیہ: یہ اچھا ہے۔ ( چائے کے کپ اُٹھاتے ہوئے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیق:امی دُعا کریں مجھے یہ کام مل جائے ،صبح سے شام تک کا کام ہے ،؛پھر
رات کا وقت ہو گا میرے پاس پڑھائی کے لیے۔
رفیق کی امی:کیا ضرورت ہے تمہیں ڈرائیو لگنے کی۔ ہو تو جاتا ہے کچھ نا کچھ۔
پڑھائی پر دھیان کیوں نہیں دیتے سارا،پہلے ہی ٹیوشن لیتے ہو ،اب ڈرائیو
ربھی بننا چاہ رہے ہو ،کیا کیا کرو گئے تم۔
رفیق:امی ،مجھے ایک لیب ٹاپ چاہیے۔ بی اے کا رذلٹ آنے میں ابھی کافی ٹائم
ہے۔ آپ بھی تو نوکری کرتی ہیں ،گھر میں بھی پڑھاتی ہیں ۔نہیں تھکتی ، تو
میں بھی تو آپ کا بیٹا ہوں ، اگر کام کروں گا ۔تو اچھا ہی ہو گا نا۔بس
نوکری دینے والے کو میں چھوٹا نہ لگوں(۔ رفیق نے ہنستے ہوئے خود کو آئینہ
میں دیکھا۔ کاش موچھیں رکھی ہوتی۔۔۔ہوںوہ خود سے بات کر رہا تھا)
ربیعہ:بھائی تم نوکری کے لیے انٹرویو دینے جا رہے ہو یا اپنا رشتہ کروانے؟
شفق:کیسی باتیں کر رہی ہو، ربی ۔وہ پہلے ہی نروس ہو رہا ہے اور تم۔۔۔۔
ربعہہ:میں تو بس بھائی کو چھیڑ رہی تھی۔
شفق:تم رہنے دو نا(ربعہ کو گھورتے ہوئے) ۔تم خود پر بروسہ رکھو،اللہ نے چاہ
تو تمہیں ضرور نوکری مل جائے گی آج۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(خوشی صحن میں بیٹھی پڑھ رہی ہے۔خوشی کی نظر مراد کی پتنگ پر پڑتی ہے ۔جو
وہ چھت پر اُڑا رہا ہے، وہ کتاب ہاتھ میں اُٹھائے ،اُڑتی پتنگ کو دیکھ رہی
ہے ،جو دو چھٹکے کھانے کے بعد آسمان پر اُونچی ہی اُونچی اُڑتی جا رہی ہے۔
صبا: خوشی اب نظر نیچی بھی کر لے ،گردن میں بل آجائے گا تیری۔
خوشی کی امی نے ہنستے ہوئے کہااور کمرے میں چلی گئی ۔خوشی رنگین پتنگ کو
ہوا میں اُڑتے دیکھ رہی تھی۔ مراد کے ہاتھ میں جس کی ڈور تھی۔ خوشی سے نہ
رہا گیا۔وہ کتاب کو چارپائی پر رکھ کر ،چھت پر چلی گئی۔
مراد:خوشی تو یہاں کیا کر رہی ہے، میری ڈور پر پیر نہیں رکھنا اچھا۔
اس نے پتنگ کو آسمان میں جھومتے دیکھااورپھر دھیرے سےکہا۔
خوشی :مراد پتنگ اُڑانا مشکل ہے کیا؟
مراد:نہیں تو، تو نے اُڑانی ہے؟آ پکڑ۔
(ہچکچاتے ہوئے اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر خوشی مراد کے پاس آ ئی)
عاطف:ارے لڑکیاں کہاں پتنگ اُڑاتی ہیں۔
ضیا:خوشی یہ لڑکوں کا کام ہے ،تو جا کچھ اور کر۔
خوشی:تم اپنے گھر جاو، تم سے کس نے مشورہ لیا ہے ۔میں کیا کروں اور کیا نہ
کروں۔(خوشی نے قدرے غصے سے عاطف اور ضیا کو دیکھا ،جو اس کے بھائی مراد کے
بلانے پر ان کے گھر کی چھت پر ہی پتنگ اُڑانے آئے تھے)
مراد: خوشی اس کے بدلے تو مجھے پھر سکول کا سارا کام لکھ کر دیے گی ٹھیک ہے
نا۔
خوشی : مسکراتے ہوئے ہاں ،تو مجھے پتنگ اُڑانا سکھا دے تو ،لکھ دوں گی کام
تجھے۔
صابرگھر میں داخل ہوا تو اس کی پہلی نظر مراد پر ہی پڑھی ،جو خوشی کے پیچھے
کھڑا ہو کر خوشی کو پتنگ اُڑانے کےطریقے سمجھا رہا تھا۔ خوشی بھی خوشی سے
کبھی پتنگ کو کھینچ کر اونچا کر لیتی تو کبھی ڈھیل دے کر اوپر ہی اوپر اُڑا
کر خوش ہو رہی تھی ،صابر کی آواز نے مراد اور خوشی دونوں کو ہی چونکا
دیا۔صابر نے غصے سے خوشی کا نام لیا۔
صابر: خوشی نیچے آ۔
(خوشی نے ڈر کے مارے ہاتھ سے ڈور چھوڑ دی) ۔
مراد (چلایا)خوشی ،اوے میری گڈی۔
صابر :خوشی نیچے آ۔
خوشی : نے جیسے ہی سیڑھی اُتری ۔ ابھی تین سیڑھیاں رہتی ہی تھیں کہ صابر نے
بازو سے پکڑ کر خوشی کو نیچےگرا دیا۔
خوشی:ابو وہ ۔وہ
صابر :نے اپنا جوتا اُتارا۔بغیر دیکھے کہ خوشی کو کہاں لگ رہی ہے مارنا
شروع کیا،خوف سے اس کا پیشاب نکل گیا اور وہ خود کو خود میں سمیٹنے لگی۔
صابر: خبیث ،بے غیرت لڑکی ،اب لڑکوں کے ساتھ چھت پر پتنگیں اُڑائے گی ۔
(مارتے مارتے تھک کر اپنا جوتا پھینکا ،پہن کر کمرے کی طرف بڑھ گیا)
(خوشی کافی دیر تک سیڑھیوں کے پاس بیٹھ کر روتی رہی ،عاطف اور ضیا پاو ں
دبا کر نیچے اُترے)
عاطف:میں نے تو پہلے ہی منع کیا تھا ،خوشی کو ۔بے چاری۔
ضیا: اچھا ہوا ، سمجھ آ گئی ہو گی ۔ اِسے ،لڑکی ہے تو لڑکی بن کر رہے۔
خواہ مخواہ کا خود کو بڑی چیز سمجھتی ہے۔
(خوشی کو ان کی باتیں صاف سنائی دے رہی تھی ، بلکہ اس کے زخموں پر نمک کا
کام کر رہی تھی)
صبا:نے خوشی کو وہاں سے پکڑ کر اُٹھنے کو بولا اور اندر لے گئی۔تجھے کیا
ضرورت تھی پتنگ اُڑانے کی۔تجھے پتہ ہے نا تیرے ابو کو پسند نہیں۔
خوشی: اُنہیں پسند کیا ہے؟
روتے ہوئے اس نے اپنا منہ اوپر اُٹھایا ،جس پر دو جگہ نیل پڑھے تھے ،اس کے
مکھن جیسے سفید چہرے پر بہت بُرے لگ رہے تھے۔ اپنی نیلی نیلی آنکھوں کو
صاف کرتے ہوئے اس نے اپنی ماں کو دیکھا ،اس کا سفید چہرہ سرخ ہو
چکاتھا۔صبانے افسردگی سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹرشیزاد:تمہارے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہے ۔
رفیق: جی جی ،میرے پاس ہے وہ۔ میں ٹیکسی بھی چلاتا رہا ہوں۔دوسروں کی کرایہ
پر لے کر۔
عنابیہ:تمہاری تعلیم کیا ہے؟
رفیق ۔ جی میں نے بی اے کا امتحان دیا ہے ،بس ابھی فارغ ہوں۔
عنابیہ: تو جب رذلٹ آ جائے گا تو ،جاب چھوڑ دو گئے۔
رفیق : جی ،شاہد ابھی سوچا نہیں ۔
ڈاکٹرشیزاد: نوکری کرنے کی وجہ کیا ہے؟
رفیق: میرے والد حیات نہیں ہیں ،امی ایک پرائیوٹ کالج میں پڑھاتی ہیں۔ میں
ان کی مدد کرنا چاہ رہا ہوں۔ اپنی مدد بھی۔
ڈاکٹرشیزاد : تم پڑھائی نہیں چھوڑنا۔ میں تمہیں جاب دے دیتا ہوں۔
عنابیہ: مگر یہ مجھے میچور نہیں لگ رہا ۔
ڈاکٹرشیزاد: مجھے یہ ذمہ دار لگ رہا ہے۔
رفیق: سر میں آپ کو شکایت کا کوئی موقع نہیں دوں گا۔
ڈاکٹرشیزاد : بچوں کے لیے ،تمہارے لیے آسانی ہو جائے گی۔(عنابیہ کی طرف
دیکھتے ہوئے۔ڈاکٹر شیزاد نے کہا۔پھر رفیق کی طرف دیکھ کر بولے)کیا نام
بتایا تھا تم نے؟
رفیق:جی رفیق جانویزی ۔
۔۔۔۔۔۔۔
خوشی: آپ جاو نا امی، مجھے کچھ نہیں کھانا۔(چارپائی پر اوندھی لیٹی ہے)
صبا:میری بچی،تھوڑا سا کھانا تو کھا لے، کس نے کہا تھا تجھے ،چھت پر جانے
کا ، اچھی بات نہیں ہوتی نا لڑکیوں کا پتنگیں اُڑانا۔ عزت ،بے عزتی بھی
کوئی چیز ہوتی ہے۔
خوشی:بے عزتی، مراد بھی تو ہمارے دوپٹوں سے کھیلتا ہے، مراد کچھ بھی کرئے
،ابو ،اسے تو کچھ نہیں کہتے۔(خوشی کوضیا اور عاطف کا خود پر ہنسنا یاد
آیا)
صبا:کیسے سمجھاوں تجھے ، وہ لڑکا ہے میری بیٹی ، تو لڑکی ہے۔ (صبا کو اس کی
ساس نے آواز دی،تو وہ خوشی کو چھوڑ کر اپنی ساس کی بات سننے چلی گئی)
صبا:جی اماں ۔
رخمت جان: مجھے ذرا چاہ لا دے تو،سر درد کر رہا ہے۔
صبا: جی۔
(اپنی ساس کو چائے دینے کے بعد صبا اپنی بیٹی کے پاس لوٹ آئی )
واپس آنے پر صبا نے دیکھا کہ خوشی سو چکی ہے ،وہ اس کو پیار سے بوسا دیتی
ہے۔صبا کو خوشی کے بھوکا سونے کا بہت افسوس ہوتا ہے ،وہ اس کے سنہری بالوں
میں انگلیاں پھیرتے ہوئے،وہ وقت یاد کرنے لگتی ہے جب خوشی اس کے پیٹ میں
تھی ۔ وہ منظر اس کی انکھوں میں گھومنے لگتا ہے۔جب وہ درد اُٹھنے پر گھر سے
نکلنے لگی تو اس کی بس ایک ہی دُعاتھی کہ اللہ پاک اسے بیٹا دے۔ وہ یہ دعا
اپنے شوہر اور ساس کی خوشی کے لیے بار بار مانگ رہی تھی، مگر رب کو کچھ اور
ہی منظور تھا،سوچتے ہوئے اس کی انکھوں سے آنسو بہنے لگے، تکلیف دہ لمحوں
کی یاد بھی ،انہی لمحوں کی سی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ وہ مسلسل خوشی کے چہرے پر
نظریں ٹکائے، اپنے ماضی کی بھول بھلیوں میں کھوئی ہوئی تھی۔
اس کے شوہر کو کبھی بھی بیٹی نہیں چاہیے تھی۔پہلی بیٹی نیلم کی پیدائش پر
اس نے منہ بنا کر کہا تھا۔ کوئی بات نہیں دوسرا تو بیٹا ہی ہو گا۔ اس نے
بیٹی کو نہ ہی چوما ۔ نہ ہی کوئی خوشی کا اظہار کیا۔ اس کی ساس نے بھی بچی
کو دیکھ کر کوئی خوشی کا اظہار نہیں کیا ۔پھر خوشی تو اس کی تیسری بیٹی تھی
،تین سال کی عمر تک ،صابر نے نظر بھر کر اسے دیکھا بھی نہیں تھا ۔وہ اکثر
غصے میں صبا کو دھمکی دیتا کہ اگر اس نے بیٹا پیدا نہیں کیا تو وہ اسے طلاق
دے کر بیٹوں کے ساتھ گھر سے رخصت کر دے گا۔ خوشی جب تین سال کی تھی تو مراد
پیدا ہوا ۔ جب مراد پیدا ہو اتو صابر کا دل کچھ نرم ہو گیا تھا ، وہ بچیوں
کو بھی نظر بھر کر دیکھ لیتا اور بات کر لیتا ،مراد کی پیدائش سے پہلے تو
صبا کو روز ہی لڑکیوں کو جننے کے طعنے سننے پڑتے ۔اپنی بیٹی کے چہرے پر
نیلے نیلے نشان دیکھ کر ،صبا کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ۔ اس نے اپنے
آنسووں کو خوشی پر گرِنے سے روک لیا۔ وہ سوچ رہی تھی۔کیا ہی ستم ظریفی ہے
کہ ہم جنس جہاں اپنی جنس سے پیار کرتا ہے ،مرد کو مرد ذات پسند ہوتی ہے
عورت کیوں عورت کو پسند نہیں کرتی،آخر وجہ کیا ہے کہ، دادی کو بھی پوتا
چائیے حالانکہ وہ خود عورت ہے ،وہ بھی کسی کی بیٹی تھی ،مگر اپنے بیٹے کو
سمجھانے کی بجائے،اس کے افسردہ ہونے کو حق بجانب قرار دیتی ہے۔ہمارے نبیﷺ
کی بھی تو چار ، بیٹیاں تھیں ،اگر بیٹا ایسا ہی افضل مخلوق ہوتا تو رب اپنے
نبی کو ضرور بیٹا ہی دیتا ، مگر یہ نہ تو کوئی سوچتا ہے ،نہ ہی کوئی سننے
کو تیار ہوتا ہے۔ بس ہم مسلمان ہیں۔مسلمان ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیلم: امی ،خوشی تو سو گئی ، آپ کیا سوچوں میں گم ہو، آو کچھ کھا لو۔
(صبا کی سوچوں کا دھارا توڑتے ہوئے)
صبا: مجھے بھوک نہیں ہے۔ کاش تم لوگوں میں سے کوئی مجھے بتا دیتا کہ خوشی
پتنگ اُڑا رہی ہے۔ تو اِسے مار نہ کھانا پڑتی۔ بے چاری،میری خوشی۔
نیلم: امی، چھوڑو نا ،اب رو نہیں، چلو نا کچھ کھا لو۔
صبا:تو، سمجھایا کر ،نا اِسے ۔بلکل بدھو ہے، پڑھائی میں لائق ہونا اور بات
ہے سمجھ بوجھ دوسری چیز ہے، کسی چیزکا ہوش نہیں ہوتا ،اس لڑکی کو ،نائلہ
اور تیری فکر نہیں ہے مجھے۔تم لوگ اچھا ، بُرا سمجھتی ہو۔پر یہ ۔صبا نے
روتے ہوئے اپنی ناک صاف کی۔
نیلم: امی سیکھ جائے گی نا۔مجھے کل کہہ رہی تھی کہ وہ آگے بھی کسی اچھے
کالج میں داخلہ لے گی۔میں نے اسے کچھ نہیں کہا۔
صبا: پتہ نہیں کیا کیا کھچڑیاں پکاتی رہتی ہے یہ لڑکی۔ اس کا باپ
تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس طرح میں اِسے پڑھا رہی ہوں، میں ہی جانتی ہوں۔لڑکوں کے ساتھ
پڑھ رہی ہے۔ تیرے ابو تو چاہتے ہیں کہ اس کو سکول سے ہٹا لوں ۔میں نے منت
سماجت سے منایا ہے ،میری کوئی بیٹی تو دس کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شیزاد: شایان ذور سے مارو نا یار، آفان ذیادہ اچھا کھیلتا
ہے۔بیڈمینٹن کا میچ دیکھتے ہوے)
شایان: آج میرا دل ہی نہیں چاہ رہا ڈیڈی ،سو ۔اس لیے۔
آفان: ہاں جب بھائی ہار رہا ہوتا ہے تو ایسے ہی بولتا ہے ڈیڈی ۔ ہی اِذ سو
کلیور
عنابیہ:آئی لو مائی فیملی ،انہیں کھیلتے دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔
ڈاکڑ شیزاد : مجھے بھی لیکن کوئی کمی ہے۔
عنابیہ : نے ڈاکٹرشیزاد کی طرف سوالیہ نگاہ ڈالی ، آپ نے کچھ کہا؟
ڈاکٹرشیزاد: ہاں ،کاش ہماری بیٹی آج ہوتی تو ،مجھے اس کی کمی محسوس ہوتی
ہے۔
عنابیہ: ہاں ،مگر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ، اس نے ہمیں غزل لینے کے بعد
دو ،دو بیٹے بھی تو عطا کیے ۔
ڈاکٹرشیزاد: بیٹیوں کی بات ہی اور ہوتی ہے۔ کاش ہماری بیٹی بھی ہوتی۔
عنابیہ : مسکراتے ہوئے ،اب یہ نہیں ہو سکتا جناب ، اب جو ہے اسی پر اکتفا
کیجیے۔
ڈاکٹڑشیزاد : ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
عنابیہ: آ دمی کو ایک بچہ پیدا کرنا پڑے،تو وہ دوسرے کی خواہش تک نہ
کرئے۔پوری دنیا میں اعلان کرواتا پھرے، کہ بچہ ایک ہی بہت ہوتا ہے ،خواہ وہ
لڑکا ہو یا لڑکی۔
ڈاکڑ شیزاد : ذور سے ہنستے ہوئے ۔ یہ تو ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(خوشی اپنے کمرے میں ایک چھوٹے سے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھ رہی ہے ، سکول
جانے کے لیے تیار کھڑی ہے۔ اس کے چہرے پر غم اور غصہ صاف دیکھائی دیتے ہیں)
۔
صبا: آ ۔کچن میں کچھ کھا لے۔ رات کو بھی کچھ نہیں کھایا تو نے۔
خوشی:مروں گئی نہیں۔ اگر نہیں کھاوں گی۔ لڑکیاں نہیں مرتیں۔(اس نے اپنی
آنکھوں میں آنسو سمیٹتے ہوئے کہا)۔
صبا: کیسی باتیں کرتی ہے؟ آ۔
خوشی :امی ، پتنگ اُڑانے سے کیا بُرا ہوتا ہے؟
صبا : بہت بُرا ہوتا ہے، مذاق اُڑاتے ہیں دیکھنے والے۔اب تو بڑی ہو رہی ہے
، بچہ۔ لڑکوں سے دور رہتے ہیں۔ سانپ ہوتا ہے مرد ،اپنی سکی ماں کا متر نہیں
ہوتا، جب موقع ملتا ہے ڈس لیتا ہے۔ تو لڑکوں کے ساتھ پڑھ رہی ہے ،روز تیرا
باپ مجھے کہتا ہے کہ تجھے ہٹا دوں سکول سے ، پہلے ہی نیلم اور نائلہ سکول
چھوڑ کر گھر بیٹھ گئی ہیں ،کم سے کم تو ،تو دس کر لے ۔
خوشی: اگر مرد سانپ ہوتا ہے تو امی آپ کیوں سانپ کے گھر رہ رہی ہو ،سانپ
کو پال رہی ہو؟
صبا: ایک تو کیا کروں میں تیرا ، تیری سمجھ میں کوئی چیز آتی ہی نہیں ،باپ
،بھائی، شوہر حفاظت کرتے ہیں عورت کی ۔ میں ان کی بات نہیں کر رہی تھی۔
خوشی:حفاظت۔ (خوشی کی انکھوں سے آنسو بہنے لگے)جو ابو نے کل ضیا اور عاطف
کے سامنے میری کی ہے ، ہمیشہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپ کی کرتے ہیں۔
صبا: اب تو غلط کرئے یا میں غلط کروں تو ان کافرض ہے نا۔ کہ وہ ہمیں
روکیں۔حق ہے ان کا۔
خوشی : کیا حق ہے ؟مارنا۔ مراد کو تو وہ کبھی نہیں مارتے۔ یہ حق کس نے
اُنہیں دیا ہے ،امی؟
صبا: اللہ نے، اللہ نے دیا ہے۔ اللہ نے مرد کو افضل بنایا ہے۔ وہ اپنے پیسے
خرچ کرتا ہے نا ۔عورت پر۔
خوشی : ابھی تو آپ نے کہا ،مرد سانپ ہوتا ہے، ڈس لیتا ہے۔ اب آپ کہہ رہی
ہیں کہ اللہ نے مرد کو افضل بنایا ہے؟مجھے تو پتا نہیں چل رہا آپ کہنا کیا
چاہ رہی ہیں۔
صبا: الجھتے ہوئے، میں یہ کہنا چاہ رہی ہوں ،کہ کسی غیر محرم سے بات جیت
کرنا، غلط ہے ، محرم افضل مرد ہوتا ہے اور غیر محرم سانپ ہوتا ہے ۔ اس سے
بچنا چاہیے ۔ اب تو ،یہ تو جانتی ہے نا ، کہ محرم کون ہوتا ہے۔
خوشی: آپ کا مطلب ہے کسی کے محرم ہمارے لیے سانپ ہیں ،ہمارے محرم کسی کے
لیے سانپ ہیں ، یعنی مرد سارے ہیں ،سانپ ہی۔ افضل پھر کیسے ہوئے؟
صبا: دیر ہو جائے گی تجھے سکول سے،آ۔ نیلم نے روٹی بنائی ہے کھا اور سکول
جا۔
(صبا نےجان چھڑانے کے لے خوشی کو کہا اور کچن سے باہر نکل گئی ۔وہ بڑبڑا
رہی تھی ، ایسا ہی کرتی ہے یہ لڑکی ،سوال پر سوال ،اسے کیسے سمجھاوں ،ہر
بات کو موڑ دیتی ہے ،پتہ نہیں کہاں سے نکال لاتی ہے یہ ایسے ایسے سوال )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانش ،شفق کا پروسی اور مالک مکان گلزاری صاحب کا اکلوتا بیٹا ہے۔وہ شپ پر
کام کرتے ہیں ۔سال کے تین ماہ ہی مشکل سے گھر آتے ہیں۔دانش اور اس کی امی
ہی گھر میں ہوتے ہیں۔ دانش شفق کو پسند کرتا ہے ۔شروع شروع میں کرایہ دار
کے طور پر جب وہ اس گھر میں آئے تو وہ ان کے گھر ٹیوشن پڑھنے آتا تھا ۔
اس کی رفیق سے دوستی تھی ۔وہ اس کا ہم عمر بھی تھا۔ تعلیمی ادارے مختلف
ہونے کی وجہ سے ٹیوشن ختم کرنے کے بعد ان کی بات جیت اور ملاقاتیں کم ہو
گئی تھیں ۔ وہ خوش شکل اچھے مزاج کا لڑکا تھا ۔ شفق اور اس میں کیسے دوستی
ہو گئی۔ خود شفق کی سمجھ سے بھی باہر تھا ۔ وہ اسے پسند کرنے لگی تھی۔ ان
کے چھت آپس میں جڑے تھے۔ صرف ایک چھوٹی سی دیوار تھی ،جس کو آسانی سے
پھلانگا جا سکتا تھا۔ شفق اور دانش کافی عرصہ سے بات جیت کرتے ۔ دانش اکثر
اسے تحفے بھی دیتا ،وہ کچھ دیر انکار کے بعد لے لیتی ۔ وہ ہمیشہ اپنی محبت
کا اظہار کرتا ۔ شفق اکثر خاموش رہتی ۔ ۔ اتنے سالوں کی اس شناسائی کے بعد
اب وہ اسے کہنے لگی تھی کہ وہ اس کے لیے اپنی امی سے بات کرئے ۔ دانش کو
اپنی ماں سے بات کرتے ہوئے ہچکچاہٹ ہوتی ۔ وہ جب بھی بات کرنے کی کوشش کرتا
تو چپ کر جاتا ۔ شاہد وہ ابھی خود کو شادی کے لیے تیار نہیں سمجھ رہا تھا۔
اس کا خیال تھا کہ کچھ سال اور گزر جائیں ۔وہ کچھ بن جائے تو اپنی ماں سے
بات کرئے گا ۔ اس کا بی اے کا امتحان بھی رفیق کی طرح ختم ہو چکا تھا۔وہ
آج کل فارغ تھا۔
دانش: کیسی ہو ؟( دیوار کے قریب آتے ہوئے)۔
شفق: ٹھیک ہوں، تم نظر نہیں آتے آج کل۔بہت مصروف ہو گئے ہو ۔
دانش: دیوار پھلانگ کر شفق کی چھت پرآتے ہوئے۔تم انتظار کرتی ہو میرا۔
شفق : نہیں ،مجھے کوئی اور کام نہیں ہے کیا۔ واپس جاو ۔کسی نے دیکھ لیا تو۔
دانش : تو کیا؟ محبت کرنے والے ڈرتے تھوڑی ہی ہیں۔
شفق: کس فلم کا ڈائیلاگ ہے یہ؟مسکراتے ہوئے۔
دانش:جو فلم میری اور تمہاری بن رہی ہے اس کا۔
شفق:میرے ماموں کے لڑکے سے رشتہ طے ہوا ہے میرا ۔ اس کا کیا ہو گا۔
دانش:نہ کہا کرو مجھ سے ایسے،(غصہ کرتے ہوئے)۔
شفق: تم رشتہ تو بھیجتے نہیں ،دانی ،جاو بس اب ربی آگئی تو ، امی کو بتا
دے گی۔(اپنے گھر کی سیڑھیوں کو دیکھتے ہوئے)
دانش: رات کو آنا ، تھوڑی دیر کے لیے۔
شفق : کیوں؟
دانش:تمہیں راجہ گدھ کی سٹوری سناوں گا ۔ختم ہو گیا ہے میرا ناول۔
شفق:سنانے کی ضرورت نہیں میں خود پڑھ لوں گی ۔ اپنی لائبریری سے لے کے۔
دانش:تمہارے لیے چوڑیاں لی ہیں، میں نے۔ سرخ
شفق: مجھے نہیں ضرورت ،تم سے جو کہتی ہوں۔وہ تو کرتے نہیں تم، میں نہیں
آوں گی۔
دانش: اچھا دیکھیں گئے( دیوار پھلانگ کر اپنے گھر جاتے ہوئے ،ہنستے ہوئے)
(شفق ۔اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے۔ وہ تار پر کپرے پھیلا چکی ہے ،ٹپ اُٹھا کر
نیچے اُتر آتی ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشی اپنے گھر سے سکول جاتے ہوئے ،خالی میدان کے قریب سے گزری جہاں ایک
سائیڈ پر اینٹیں پڑی تھیں دوسری سائیڈ پر گھاس کافی اونچی تھی، تیسری طرف
مٹی کافی اونچی تھی اور ایک چھوٹا ٹیلہ محسوس ہوتا تھا جب کہ چوتھی طرف
لوگوں نے گندہ پھینک پھینک کر ایک ڈھیر سا لگا دیا تھا ،یوں لگتا تھا کہ
میدان چار حصوں میں بٹا ہوا ہے۔وہ روز اسی راستے سے گزرتی تھی، اس کے دماغ
میں اپنے ابو کو لے کر بہت سی باتیں چل رہی ہیں ، اسے اپنے ابو پر غصہ آ
رہا تھا ،وہ سمجھتی تھی کہ اس کی غلطی اس قدر بڑی نہ تھی کہ اسے اس طرح
مارا جاتا ، اچانک میدان میں اس کی نظر کوڑے کے ڈھیر پر پڑی ۔جہاں ایک بچہ
ننگے پیر ،کھلے بٹن والی پھٹی ہوئی قمیض پہنے ،ایک بڑے سے تھیلے کے ساتھ
جھکا ہو اکچھ چن رہا ہوتا ہے ،اس کی نفرت ہوا ہو گئی۔ وہ سوچنے لگی، اللہ
کا شکر ہے ۔میں اس بچے کی جگہ نہیں ہوں ۔ہمشہب میرے دل میں ہوتا ہے کہ کاش
میں لڑکا ہوتی ،یہ بھی لڑکا ہے مگر،اسکے نیچے کے ہونٹ نے اوپر کے ہونٹ کو
اور اوپر دھکیل دیا اور اوپر کے ہونٹ کی جگہ لے لی ،اس نے افسوس سے ایک آہ
بھری۔ وہ اپنے سے چھوٹے اس بچے کے سر کی طرف دیکھنے لگی، جو مٹی سےبھراہو
تھا، بال بکھرے ہوئے تھے ۔پتہ نہیں اللہ تعالی لوگوں کو پیدا کیوں کرتا ہے
،اگر انہیں کوڑے کے ڈھیر پر چھوڑنا ہوتا ہے تو، اس کے دل میں آیا۔ایک
پرانا سیب بچے کو مل جاتا ہے ۔وہ سیب کو گھما کر یکھتا ہے۔ جس کے ایک حصے
پر کاٹنے کانشان ہے ،کسی نے شاہد چکھنے کے بعد ذائقہ پسند نہ آنے کی وجہ
سے پھینک دیا ۔
اس لڑکے کے چہرے پر خوشی نمودار ہوتی ہے ،وہ سیب کو اپنی گندی قمیص کے دامن
سے صاف کرتا ہے اور پھر کچھ دیر رگڑنے کے بعد کھانے لگتا ہے،خوشی افسردگی
سے وہاں سے آگےبڑھ جاتی ہے۔ خوشی سکول کے پاس پہنچی تو اس کی سوچوں کا
محور وہ بچہ تھا جو کوڑے کے ڈھیر سے سیب کھا رہاتھا ،خوشی خود کو بلکل بھول
چکی تھی ،وہ اپنے لیے نہیں بلکہ اس بچے کے لیے اداس تھی۔وہ لڑکے اور لڑکی
کے تضاد کو اس لمحے بھول چکی تھی ۔وہ گلیوں سے نکل کر سڑک پر داخل ہوتی ہے
،جہاں لوگ اپنے کام پر جانے کی جلدی میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش
کر رہے ہیں۔ایک بہت اچھی گاڑی میں ایک عورت کالا چشمہ لگائے ، گاڑی چلاتے
ہوئے اس کے پاس سے گزر جاتی ہے۔گاڑی اسے اپنے دماغ میں چلتی ہوئی محسوس
ہوتی ہے۔یہ عورت تھی ۔ کبھی لڑکی ہو گی نا۔میں بھی گاڑی چلانا چاہتی ہوں۔
پتہ نہیں خواب پیدا کیوں ہوتے ہیں ،جب پورے نہیں ہو سکتے؟اسے اپنے خیالات
میں بار بار گاڑی چلتی ہوئی نظر آرہی تھی۔جس کو چلانے والا کوئی مرد نہیں
تھا بلکہ ایک عورت تھی۔وہ اپنے پرگندہ ذہین کے ساتھ سکول میں داخل ہوتی ہے
، سکول کے صحن میں ہی اسے مریم کا سامنا ہو جاتا ہے۔اُسے دیکھ کر اس کے
سارے خیالات ایسے غائب ہو جاتے ہیں ،جیسے سورج نکل آنے پر بادل آسمان سے
کہیں دور چلے جائیں۔ اسے اپنے چہرے پر نیل کے نشان،مریم کی نظر میں اُترتے
محسوس ہوتے ہیں ،وہ کچھ شرمندگی سی محسوس کرتی ہے،اپنے ناخن کو دانت سے
کاٹنے لگتی ہے۔دونوں ساتھ ساتھ چلتی کلاس میں آجاتیں ہیں ۔ مریم اس کے
چہرے کو دیکھتی ہے ۔ ہمدری سے پوچھتی ہے۔
مریم : کیا ہوا ،تجھے تیرےابو نے مارا ہےکیا؟
خوشی: تجھے کس نے بتایا۔
مریم: سدرہ کہہ رہی تھی ، تونے پتنگ اُڑائی تھی تو۔۔۔۔
خوشی : ہاں تو؟(غصے سے بلیک بورڈ کی طرف دیکھتے ہوئے)
وقاص : اسلام علیکم ، خوشی ، وہ مجھے تم سے بات کرنی تھی دو منٹ کے لیے
بلیک بورڈ کے پاس چلو۔
خوشی : کیوں ، مجھے کوئی بات نہیں کرنی تم سے۔
وقاص : بس ایک منٹ ۔
خوشی: تمہیں سنائی نہیں دیا ۔کیا کہا ہے میں نے ۔
وقاص : اچھا ۔( منہ بناتے ہوئے)
مریم: مجھے لگتا ہے ،تو اچھی لگتی ہے ،اِسے۔
خوشی: اچھی ، وہ مجھ سے آگے نکلنا چاہتا ہے ۔ اس لیے جاننا چاہتا ہے کہ
میں کیسے اس سے ذیادہ نمبر لیتی ہوں۔ اچھی تو میں اپنے باپ کو نہیں لگتی ،
کسی اور کو کیا لگو ں گی ۔
مریم:تیری طرف ہی دیکھ رہا ہے ابھی بھی۔
خوشی :دفع کر ،تو نہ دیکھ، دیکھو تو ۔پتہ چلتا ہے نا کوئی دیکھ رہا ہے یا
نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(سیڑھی کی طرف جاتے ہوئے،شفق نے کمرے کی طرف دیکھا)
مہناز:شفق چھت پر کیوں جا رہی ہو؟
شفق:وہ امی میری کتابیں اوپر پڑی ہیں ،شام کو یاد ہی نہیں رہا ،ابھی لے کر
آتی ہوں۔
ربیعہ : آپی رُکو ۔ میں بھی آتی ہوں ،اندھرا ہے نا۔
شفق : میں فوراً آ جاوں گی تم دیکھو ٹی ۔ وی ، میرے پاس بیٹری ہے۔
(چھت پر جاتے ہی شفق نے بیٹری آن کی)
دانش: میں یہاں ہوں۔
شفق:تم رات کو نہ بلایا کرو ، مجھے جھوٹ بولنا پڑتا ہے ،تمہاری وجہ سے۔
(سیڑھی کی طرف بیٹری کی لائیٹ کرتے ہوئے) |