دنیا کے تمام مسلمہ قوانین و آئین میں معاشرے کے ہر فرد
کو بلاتفریق و تقسیم کے فی نفسہ بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے کہ
وہ نقل و حمل ، کاروبار و تجارت اور لین دین ،تعلیم و صحت اور باعزت و سعید
زندگی بسر کرنے کا واضح طور پر استحقاق رکھتا ہے اور اس بات کو اقوام متحدہ
کے آئین میں بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ ہر فر بشر اپنے جائز حقوق کے حصول
کیلئے پر امن جدوجہد کا بھی حق رکھتاہے۔آج سے چودہ سوسال قبل بعثت محمدیؐ
کے ساتھ جو انسانی حقوق کا چارٹر تشکیل دیا گیا وہ بے مثل و مثال ہے کہ
پہلی اسلامی اسٹیٹ میں مسلم و غیر مسلم، کالے اور گورے ،عربی و عجمی سبھی
کو بلاکسی تفریق و تقسیم کے حقوق ترجیحی بنیادوں پر فراہم کئے گئے یہی وجہ
ہے کہ سیدنا اسامہ بن زید کے سفارش پر جو کہ ایکسردار قبیلہ کی چور خاتون
کے حق میں تھی کو نبی اکرمؐ نے نا صرف مسترد کیا بلکہ اس پر خفگی و ناراضگی
کا بھی اظہار فرمایا کہ آپ سے ماسبق اقوام پر اﷲ تعالیٰ کا قہر صرف اس وجہ
سے نازل ہوا کہ وہ جرائم کے ارتکاب کرنے والے غریب و کمزور کو سزا دیتے تھے
اور طاقتور و رؤساء اور سردار و سرمایہ دار کو چور راستہ سے رعائت فراہم
کرتے تھے بخدا فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری جیسے اجتماعی جرم کا ارتکاب کرتی
تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔
جب ہم یہ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ پاکستان مدینہ طیبہ کے بعد خالص اسلام
نظریہ پر وجود میں آنے والی پہلی ریاست ہے تو بدیہی امر ہے کہ یہاں پر شعبہ
ہائے زندگی کے تمام مراحل میں اہلیان پاکستان و ملت اسلامیہ کو تمام جائز
بنیادی حقوق فراہم کئے جانے چاہئیں نہ کہ بجٹ کا نصف سے زائد یا اس سے بھی
زیادہ صرف سفید پوش علاقوں کی تعمیر و ترقی میں خرچ کردیا جائے جبکہ ایک ہی
ملک کے شہری دوسرے مقام پر سہولیات و ترقیوں کا منہ تکتے رہ جائیں اور سسک
سسک کر جان بلب ہو کر قبر کی پاتال میں جا اتریں۔بد قسمتی ہے یا سوئے اتفاق
کہ پاکستان کے طول و عرض کے دور دراز علاقے تو درکنا ر کہ بلوچستان ،جنوبی
پنجاب و فاٹا و دیگر پسماندہ علاقے تو محروم ہیں ہی اور ایوان اقتدار میں
موجود سرمایہ دار و جاگیر دار طبقہ کو خستہ حالت عوام کی فلاح و بہبود کی
بہتری کیلئے چنداں محنت و جدوجہد کی فرصت نہیں بس انتخابات میں انویسٹمنٹ
کرکے ایوان تک رسائی حاصل کرکے باقی عرصہ عوام کو زمانہ جاہلیت کی طرح عبید
و غلام بناکر رکھا جاتاہے کہ ان کی جائز و ضروری حاجات کی تکمیل کیلئے لمحہ
بھر میں فکر و تدبر کو توہین سمجھا جاتاہے۔
جنوبی پنجاب کے پسماندہ اضلاع ڈیرہ غازی خان، راجن پور، رحیم یار خان، مظفر
گڑھ، لیہ ،بلوچستان من حیث المجموع اور خیبرپختونخواہ کے متعدد علاقے و
فاٹا کمسپرسی کی حالت کا شکوہ زبانوں پر سجائے ہوئے ہیں کہ ان کی دھائی
کوئی سردار و سرمایہ دار اور وڈیرا سننے کو تیار نہیں کہ پانی گندے جوہڑ سے
پیا جاتاہے، تعلیم و صحت کی سہولت سے محروم ہیں ،روزگار کے حصول میں
سرگرداں ہیں ، گلیاں و سڑکیں اورراستے بوسیدہ حال ہیں کہ بارشوں کے ایام
میں پیدل چلنا دشوار ہوجاتاہے ۔طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ ملک کے وفاقی
دارالحکومت اسلام آباد کے ملحقہ علاقوں میں بھی اسی طرح کا طوفان بدتمیزی
رائج ہے کہ ایک طرف اسلام آباد کو پاکستان کا پہلا کلین سٹی قرار دیا
جاتاہے تو دوسری جانب جابجا گندی کے ڈھیر اور جوہڑ دعوؤں کی قلعی کھولتے
نظر آتے ہیں ،تجاوزات کے خاتمے کے بلند و بانگ میئر اسلام آباد کی طرف سے
دعوئے کئے جاتے ہیں تو جی ٹی روڈ پشاور و فتح جنگ روڈ پر تجاوزات کی بھر
مار چیئرمین سی ڈی اے کے دعوؤں کو کھوکھلا ثابت کررہے ہیں۔ترنول و گردونواح
کی چار یوسیز45,46,47, 48جھنگی سیداں، ترنول، بڈھانہ اور سرائے خرپوزہ میں
جابجا گندگی کے ڈھیر 26نمبر چنگی میں موجود پیدل راہ گیروں کا انڈر گراؤنڈ
راستہ منشیات فروشوں اور فضلہ پھینکنے والوں کا مرکز و مسکن بنا ہوا ہے ،
علاقہ کی گلیاں ناپختہ ہونے کی وجہ سے نمازیوں اور سکول و کالج کے طلبہ و
طالبات کیلئے اذیت کا باعث ہیں ،ترنول میں ریلوئے اسٹیشن انتظامیہ کی بے
بسی و بے رخی کا رونا روتاہے کہ نہ تو مسافروں کیلئے انتظار گاہ ، نہ ہی
واش روم بلکہ پٹڑی کے ساتھ دونوں اطراف میں موجود ہسپتالوں کے سامنے گندگی
کا راج ڈینگی و ملیریا جیسے خطرناگ بیماریوں کو دعوت دیتے نظر آرہے ہیں اس
کے ساتھ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی کارکردگی بھی کچھ کم نہیں کہ جی ٹی روڈ
کے ارد گرد اور فتح جنگ روڈ پر ریڑھی بانوں کے ماہانہ بھتہ وصولی کی
بنیادپر تجاوزات قائم ہیں جس کے نتیجہ میں آئے روز خوفناک و جان لیوا
حادثات پیش آتے ہیں مگر اصحاب اختیار کے کانوں پر اجڑنے والے گھرو ں کے
نوحہ و ماتم کی صدا نہیں پہنچتی۔گذشہ ہفتے ترنول چوک میں سکول سے چھٹی کرکے
آنے والا بچہ پید ل روڈ کراس کرتے ہوئے ٹانگیں گنوابیٹھا کہ پورے مین جی ٹی
روڈ پر باوجود تیز ترین ٹریفک کے پید راہ گیروں کیلئے اورہیڈ برج اور انڈر
پاس ناپید ہے اور دوسری جانب پورے جی ٹی روڈ پر جو کہ اترائی چڑھائی پر
مشتمل ہے پر ٹریفک کو کنٹرول کرنے کیلئے سپیڈ بریکر غیر موجود ہیں کہ ہر
ہفتہ المناک سانحہ رونما ہوتاہے گذشتہ ہفتے دوبچے ایک تیز رفتار ٹریلر کی
زد میں آگئے۔ جی ٹی روڈ پشاور کے حساس ہونے کے باوجود سالہا سال سے لگے
لائیٹ پول کو تاحال نہ بحال کیا گیا کہ رات کی تاریکی میں جان لیوا حادثہ و
سانحہ پیش آسکتاہے۔
ترنول و گردو نواح میں بنیادی مرکز صحت غیر موجود ہے جس کی وجہ سے پرائیویٹ
ہسپتالوں جن میں عطائی و جعلی ڈاکٹروں کی اکثریت ہے کی چاندنی کا بازار سر
گرم ہے ۔پانی کی بدترین قلت کا سامنا ہے جھنگی سیداں کے رہائشیوں کو جس کے
بغیر انسان کی زندگی کا بسر ہونا عبث ہے۔اس کے ساتھ ہوشربا بجلی کی
لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بھی تھمنے کا نام نہیں لیتا ۔جبکہ متحیر کن امر ہے کہ
ترنول کے علاقہ کے تمام یوسیز کے منتخب نمائندؤں کا تعلق حکمران جماعت سے
ہے ۔ملک رضوان، حاجی گلفراز، غضنفر خان و حفیظ الرحمن ٹیپو اور ڈپٹی میئر
اعظم خان نا صرف حکمران جماعت سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ سرگر م و سرکردہ ذمہ
داران بھی ہیں،ان کے علاوہ پی ٹی آئی کے سرگرم ذمہ دار ایم این اے اسد عمر
کا یہ حلقہ بھی ہے، مگر اس سب کے باوجود گذشتہ پونے دوسال سے اختیارات کی
نچلی سطح پر منتقلی کیفوائد سے ترنول اور اس کے گردو نواح کے علاقے مستفید
نہ ہوسکے ۔ضرور اس امر کی ہے کہ ترنول کو بلوچستان و جنوبی پنجاب یا ملک کے
بعید علاقوں کی طرح عنصر غیر فعال بنانے اور ترقیاتی فنڈز سے محروم رکھنے
کی بجائے اسلام آباد کو ماڈل سٹی ثابت کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ترنول و
گردونواح کے باسیوں کے تمام جائز اور بنیادی مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل
کئے جائیں۔
|