صاف پانی اور نکاسی

صاف پانی نہ ہونے اور نکاسی آب کا نظام نہ ہونے سے پیدا ہونے والی آلودگی سے پاکستان میں ہر سال 52 ہزار بچے ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوں سے جاں بحق ہوتے ہیں۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی جولائی 2017ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں پانی کا بحران تیزی سے بڑھ رہا ہے اقوامِ متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق ہرانسان روزانہ دو سے چار لیٹر پانی پیتا ہے جس میں خوراک میں موجود پانی بھی شامل ہے ۔پاکستان دنیا کے ان سترہ ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قِلت کا شکار ہیں۔

جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے پانچ ہزارچھ سوکیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر ایک ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اورسنہ 2025 تک آٹھ سو کیوبک میٹر رہ جائے گا۔خوراک کا دارومدار بھی پانی پر ہی ہوتاہے اس لیے پانی کے مزید ذخائر بنانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ سنہ 1976 کے بعد سے پانی کا کوئی اہم ذخیرہ تعمیر نہیں ہوا۔پاکستان کی 84 فیصد آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں یہ انکشاف سینیٹ میں پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق تحقیقاتی کونسل برائے آبی وسائل پاکستان کی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین کا کہنا ہے کہ ملک میں پانی کی سپلائی کرنے والے 72 فیصد منصوبے فعال ہیں اور ان میں سے 84 فیصد منصوبوں سے فراہم ہونے والا پانے پینے کے قابل نہیں۔پاکستان کونسل برائے تحقیقات آبی وسائل کے سروے کے مطابق پاکستان میں پینے کا پانی صرف 22 فیصد ہی صاف ہے ، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی صور ت حال تسلی بخش نہیں ۔

اس سروے کے مطابق راول پنڈی، اسلام آباد، پشاور، لاہور، کراچی، ملتان، کوئٹہ، حیدر آباد، سکھر اور گوجرانوالہ سمیت 24 شہروں کا پانی 80 فیصد آلودہ ہے ، جس میں جراثیم کا تناسب 69 فیصد ہے ، جنوبی پنجاب اور سندھ کے پانی میں سنکھیا کی مقدار 15 ف صد، زیر زمین حاصل پانی میں نائٹریٹ کی مقدار 93 فیصدا ور بلوچستان کے پانی میں فلورائیڈ کی مقدار 8 فیصد ہے ۔سکھر کی 15لاکھ آبادی کا فضلہ براہ راست بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے دریائے سندھ میں ڈالا جارہا ہے جس میں انڈسٹریل ویسٹ بھی شامل ہے شکارپور کے بگاری کینال ، لاڑکانہ کے رائس کینال میں شہر کا تمام گٹروں کا پانی ڈالا جارہا جوکہ بعد میں لوگوں کو پینے کے لیے بھی فراہم کیا جاتا ہے دادو میں ایم این وی ڈرین میں بھی قریب کے شہروں کا فضلہ اور گندہ پانی براہراست چھوڑا جارہا ہے جس سے منچھر جھیل تباہ ہوچکی ہے حیدرآباد شہر کا سارا فضلہ اور انڈسٹریل ویسٹ بھی پھلیلی میں ڈالا جاتا ہے ۔ شہر کراچی میں سمندرکو خراب کیا جارہا ہے ……اسی کے باعث ھیپاٹائٹس ٹی بی کینسر اور دیگر خطرناک بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں ، اور اس کے ساتھ ساتھ قدرتی حسن رکھنے والی جھیلیں جن میں منچھر حمل جوکہ اس پانی کی وجہ سے تباہ ہوچکی ہین اب وہی پانی کینجھر میں چھوڑا جارہا ہے جوکہ جلد کینجھر کو بھی تباہ کردے گا کینجھر سے پینے کا پانی کراچی کو مہیا کیا جاتا ہے پاکستان میں پانی کی مقدار میں کمی کے علاوہ اس کا معیار بھی انتہائی پست ہے اور عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق پاکستان کی صرف 15 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی ملتا ہے ۔ اس وقت معیشت کا ڈیڑھ فیصد پانی ہسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پرخرچ ہو رہا ہے ۔پاکستانی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے جہاز رانی و بندرگاہوں نے بھی حالیہ دنوں میں انکشاف کیا ہے کہ کراچی کے سمندر میں یومیہ پچاس کروڑ گیلن آلودہ پانی گرنے سے نہ صرف آبی حیات تباہ ہو رہی ہے بلکہ اس کے مضر اثرا ت سے انسان بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے حوالے سے سینیٹر تاج حیدر نے بتایا کہ حکومت سند ھ نے سیوریج کے پانی کو صاف کرنے کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے جبکہ دو پلانٹ کام کر رہے ہیں۔

پانی میں مناسب مقدار میں کلورین ملانے اور اسے استعمال کے قابل بنانے کے لیے ڈاکٹر ٰ کے مطابق مزید اقدامات کی ضرورت ہے ، ’’ہمارے پاس جو ذرائع موجود ہیں، ان سے مکمل طور پر استفادہ نہیں کیا جا رہا۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں نہ صرف استعمال کیا جائے بلکہ شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے لحاظ سے نئے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ اور فلٹریشن پلانٹ بھی لگائے جائیں۔‘‘

ایبٹ آباد شہر کی مین سپلائی لائنوں کو تقریباً ایک صدی ہونے والی ہے ۔ پہلی گریوٹی فلو سکیم انگریز دور میں ایبٹ آباد کے لئے لگائی گئی جو کالا پانی سے ترتیب دی گئی تھی جس کا ایبٹ آباد میں گورا قبرستان میں ٹینک ایم ای ایس کے زیراستعمال ہے جس سے پہلے پورے شہر کو پانی کی سپلائی ملتی تھی۔ایبٹ آباد شہر کے شہری علاقوں میں اکثر پانی کا بحران رہتا ہے ۔ اور ساتھ ساتھ پائپ لائنوں کی ٹوٹ پھوٹ کے باعث ایبٹ آباد شہر میں آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ ان میں کہال اربن، کنج، ملکپورہ، شیخ البانڑی، کریم پورہ، مین بازار سمیت دیگر درجنوں رہائشی مقامات پر آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں ایبٹ آباد شہر میں پینے کے صاف پانی کی سکیم بھی انگریز دور حکومت میں آئی جبکہ دوسری بڑی سکیم بھی جاپان کے تعاون سے مکمل ہوئی جس کو حاصل کرنے کے لئے مختلف ادوار میں عوامی نمائندوں نے بھرپور کردار ادا کیا جس کا کریڈٹ ان تمام کو جاتا ہے گریویٹی فلو سکیم‘میں پائی جانے والی خرابیاں دور کی جائیں ۔جس کی حفاظت اور افادیت بڑھانے کے لئے وہ ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کریں پاکستان کا شئر ایسے مئلک میں ہوتا ہے جہاں صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب پر مجموعی قومی آمدنی کا انتہائی کم حصہ خرچ کیا جاتا ہے ۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان مئلک میں سرفہرست ہے ، جہاں پانی کا بحران تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 525727 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.