لبیک الّلّھم لبیک کا ورد کرتے
ہوئے قافلے دنیا کے کونے کونے سے ایک حرم ،ایک قبلے کی طرف کھینچے چلے آتے
ہیں۔ دن بدن حجاج کرام کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ تقریبا ً ایک لاکھ صحابہ
کرام ؓ نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حجتہ الوداع ادا کیا اور آج پندرہ سو سال بعد
یہ تعداد35 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے ۔ ایام حج میں حرمین شریفین کے اردگرد
ہر جانب سر ہی سر نظر آتے ہیں۔انسانوں کا ایک سیلاب ،سمندر کی جھاگ کے
برابر انسان،اور یہ سب وہ انسان ہیں جو اللہ و رسول ﷺ کی محبت میں عبادت
وریاضت کے ذریعے اللہ کو راضی کرنے کے لیے کرتے ہیں اور آتش دو زخ سے بچنے
اور جنت کے حصول کی تڑپ و خواہش لیے آتے ہیں (ایک محدود تعداد کے علا وہ جو
کچھ دنیوی مقاصد سے بھی آتی ہوگی )۔گویا سب نیکی کے طلب گار ہیں ۔ رب کی
رضا جوئی ہی انکا مقصد ہے ۔پھر کیا وجہ ہے کہ اتنے کثیر تعداد میں نیک
لوگوں کی موجودگی کے باوجود امت مسلمہ ابتلا و آزمائش میں مبتلا ہے؟ امت پر
ذلت ونقبت طاری ہے ۔مسلمان دنیا بھر میں مظلوم اور معتوب ہیں ۔؟یہ سوالات
ہر ذی شعور حاجی کو پریشان کرتے ہیں ۔کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس حج سے
مسلمان کوئی ایسی تربیت لے کر جائیں ،ایسا عالمگیر پیغام لے کر جائیں، ایسا
مشترک لائحہ عمل لے کر جائیں کہ امت کی سر بلندی کے لیے دنیا بھر میں بیک
وقت محنت شروع ہو جائے۔!
یہ درست ہے کہ اسلام میں ہر عمل کا اصل مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہے ،ہر
عبادت اللہ کا حق ہے ۔اسکی عظمت، حاکمیت،خلّاقیت اور اسکی ربوبیت کا تقاضا
ہے یعنی کہ انسان اس کے آگے نماز میں سر بسجود بھی ہو،اس کے خاطر روزے کی
مشقیں بھی برداشت کرے اور مال بھی اس کی رضا جوئی کے لیے ہی خرچ کرے،
سفرِحج کا اصل مقصد بھی اسکی رضا کا حصول اور اسکا حق عبادت ادا کرنا ہی
ہے۔ ”واتموالحج والعمرة ﷲ “لیکن اسلام کی تمام عبادات ایک نظام تربیت کا
حصہ ہیں اور ہر عبادت کے پس پردہ بے شمار تربیتی مقاصد پوشیدہ ہیں ۔ حج ایک
ایسی جامع تربیت گاہ ہے کہ اگر حجاج کی اکثریت اس تربیت گاہ سے پورے شعور
کے ساتھ گزر جائے تو شاید امت کی محکومیت چند سالوں میں غلبہ اسلام سے بدل
جائے لیکن بد نصیبی سے اس وقت عبادات ،عادات بن چکی ہیں ،جسم باقی ہے، رو ح
نکل چکی ہے یا روح ہے تو جزوی اور بیمار حالت میں ۔ وا ضح رہے یہ مضمون
کوئی علمی موشگافی نہیں نہ عالمانہ بحث ہے۔ یہ ایک تذکیر ہے اور ان
جانفروشوں کی نذر ہے جو اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کے غلبے کے لیے کوشاں
ہیں اور امت مسلمہ کی سر بلندی کے لیے جدوجہد جن کی زندگی کا مشن ہے۔
حج کا اولین سبق ۔للہیت
”واتموا الحج و العمرة ﷲ ۔ “ اور حج اور عمرہ اللہ کی خو شنودی کے لیے پورا
کرو ۔ (البقرہ :196 (
”وللہ علی الناس حج البیت من ا ستطاع الیہ سبیلا ط و من کفر فان اللہ غنی
عن العلمین ہ“
”لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ
اس کا حج کرے اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہو
جانا چاہیے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے “ (سورة آل عمران : 97 )
حج اور عمرہ اللہ کے لیے، اخلاص کے ساتھ مطلوب ہے۔ سفر حج کا مقصد سیر و
سیاحت نہیں، ریا اور دکھاوا نہیں، تجارت نہیں صرف اللہ وحدہ لا شریک کی
عبادت، اسکی رضا جوئی ہے۔ گویا اخلاص نیت پہلا تقاضا اور للہیت پہلا سبق
ہے۔ کوئی عبادت ،کوئی نیک عمل اس وقت تک قبول نہیں ہوتا جب تک اس کے اندر
خالص اللہ کی رضا مقصود نہ ہو ،تمام عبادات بے روح ہیں اگر ان میں رجوع الی
اللہ کی تڑپ نہیں ہے اور انسانی زندگی کی تمام نیکیاں اس وقت تک نتیجہ خیز
نہیں ہو سکتیں جب تک انکی تہہ میں” اللہ کے لیے “کا جذبہ نہیں ہوگا ۔
”للہیت“ اور ’اللہ کے لیے ‘ وہ جذبہ ہے جو ہر نیک عمل کو نفسانی خواہش
،ذاتی مفاد اور ریا و نمائش سے پاک کر تا ہے۔ جو تکمیل ایمان کی نشانی ہے
۔پیارے نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق
”من احب للّٰہ وابغض للّٰہ و اعطی للّٰہ و منع للّٰہ فقد استکمل الاےمان “
(ابو داؤد، ترمذی)
”جس نے اﷲ کے لیے محبت رکھی، اﷲ کے لیے دشمنی کی، اﷲ کے لیے دیا اور اﷲ کے
لیے روکا تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا۔“
اور حج کا پہلا اور ابتدائی سبق بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کا ہر ہر عمل صرف
اور صرف اللہ کے لیے خالص ہو جائے ،انکا سفر ،انکی محبت ،انکا مال خرچ کرنا
،انکی زندگیوں اور معاملا ت کا رخ سب کا سب اللہ کی طرف ہو ،اللہ کے لیے ہو
۔کوئی طاغوت ،کوئی طا غوتی طاقت انکا مقصود نہ ہو ۔دنیا ان کا مطلوب و
مقصود نہ ہو ۔ اللہ نے فرمایا ” قل ان صلا تی و نسکی و محیای و مماتی للہ
رب العلمین“۔ ”کہو! میری نماز میرے تمام مراسمِ عبودیت میرا جینا اور میرا
مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے ۔“(سورة الانعام: 162)
اس کلمہ پر مثالی عمل حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے کر کے دکھایا وہ حضرت
ابراہیم علیہ السلام جن کی پیروی میں آج حج کی عبادت ادا کی جاتی ہے ۔
ابراہیم خلیل اللہ جنہیں ” ابراہیم حنیف “ کے نام سے اللہ تعالیٰ خود یاد
کرتا ہے ۔جنہوں نے خاندان ،قبیلہ ،وطن ،جاہ و دولت ،دنیا کی محبتیں ،اولاد
ہر چیز اللہ پر قربان کر دی ۔بت پرستوں کے گھر پیدا ہوئے اور ہر طرح کے شرک
سے پاک رہے ۔ایک اللہ کی خاطر انہوں نے پورے نظام سے بغاوت کی ،مصائب کے
پہاڑ عبور کیے ہر طرح کی آسائشوں اور مادیت پرستی کو لات مار کر اللہ کی
راہ میں ہجرت کی ۔اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے اپنی زندگی اور آل
اولاد کو وقف کیا۔گویا جس وقت جو قربانی اللہ نے مانگی، اقامت دین کی
جدوجہد نے مانگی بغیر کسی حیل و حجت کے پیش کر دی ۔جو حکم اللہ نے دیا اس
پر بلا چوں و چراں سرِ تسلیم خم کر دیا۔اور اللہ نے انکی تعر یف اس طرح
فرمائی کہ
اذ قال لہُ ربہ ُ اسلم لا قال اسلمت لرب العالمین ۔
” اس کا حال یہ تھا کہ جب اس کے رب نے اس سے کہا ’مسلم ہو جاﺅ ‘ تو اس نے
فورا ً کہا ۔میں مالکِ کائنات کا مسلم ہو گیا ۔“(سورة البقرہ: 130 )
حتیٰ کہ اللہ نے ان کی سخت ترین آزمائش کا فیصلہ کیا کہ اپنی بڑھاپے کی
اولاد کو بھی اللہ کی محبت میں قربانی کے لیے پیش کر دیں اور وہ ابراہیم
حنیف علیہ السلام اس آزمائش میں بھی پورے اترے ۔یہ تصویر تھی مکمل ’للہیت ‘
کی ،مکمل سپردگی کی ۔کیا عشق تھا ،کیا محبت تھی ،کیا ایمان کامل تھا اور
کتنے سچے جذبے تھے اور انہی کی بدولت وہ پوری دنیا کے پیشوا اور امام قرار
دیے گئے۔ انکی امامت یعنی دنیا بھر کے لیے انکی صلب سے انبیاء کا سلسلہ چلا
۔انکی جدو جہد ،انکا اخلا ص ،ا نکی قر بانی اللہ کو اتنی پسند آئی کہ اللہ
نے اس کو قیا مت تک کے لیے دہرا نے کا حکم دے دیا اور اِسی کا نام حج قرار
دیا ۔اس حج کا مر کز خانہ کعبہ قرار پا یا ۔جس کا انتخا ب خو د اللہ تعا
لیٰ نے کیا ۔یہ وہ مقام ہے جہاں ابرا ہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر
،اللہ کی محبت پر دنیا کی سب سے قیمتی متا ع ،اولا د اور اس کی محبت بھی قر
بان کر دینے کا مظاہرہ کیا ۔گو یا اتنی بڑی قر با نی اور اللہ کی محبت کا
اتنا بڑا ثبوت جس جگہ پیش کیا گیا اِسی کو اللہ نے دنیا والوں کے لیے’ مر
کز ‘ قرار دے دیا ۔اِسی کو بیت اللہ کا مقام قرار دے دیا اسی کو مقام امن
اور حر م بنا دیا ۔
یہ مر کز محض محبت کا مر کز ہی نہیں بلکہ اس عا لمگیر تحر یک کا مر کز بھی
بنا جس کی ابتداء حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نے کی اور جس کی تکمیل حضرت
محمد ﷺ نے کی ۔گو یا اللہ سے محبت ،ا للہ کے لیے محبت کا ثبوت اس در جے کی
محنت اور قر با نی سے مشرو ط ہے ،جس کے نتیجے میں اللہ کا دین غا لب آجائے
اور امت کا بھٹکا ہوا آہو پھر سے سوئے حر م آجائے ۔کا ش امت حج کے اس
ابتدائی سبق کو سمجھ لے اور حکمرانوں اور عوام کا قبلہ امر یکہ اور اس کے
حوا ریوں کے بجائے وہ حقیقی قبلہ بن جائے جس کی طرف سفر کا قصد ہر سال لا
کھوں افراد کر تے ہیں اور یہ افراد یہ عہد کر کے لو ٹیں کہ” اللہ با قی زند
گی کے تمام اعمال کا منبع و مقصود بھی تو ہی رہے گا“ لیکن ابھی شاید
مسلمانوں میں اسی جذ بے کی سب سے زیادہ کمی ہے۔اسی لیے نہ دلوں کے جڑ نے کی
وہ کیفیت ہے کہ بنیان مر صو ص بن سکیں ،نہ اللہ کی طرف سے وہ نصرت ہے کہ
100 ،دو سو پر ہی غا لب آسکیں ۔نہ قر با نی کا وہ جذبہ ہے نہ محبت کا ،جو
اس راہ میں کا میا بی کی اولین ضرورت ہے ۔
اس لیے حجاج کرام ۔! ذرا حج پر جانے سے قبل اپنی زند گی کے تمام معا ملات
پر ایک نظر ضرور ڈال لیں ۔کیا کیا اللہ کے لیے خا لص ہے اور کہاں کہاں کوئی
اور مقا صد در آئے ہیں ۔کیا اسوہ ءابر ا ہیمی نظر میں ہے ؟ کیا سنت ِ امام
الا نبیاءکی پیروی کا جذبہ دل میں مو جزن ہے ؟پھر سفر حج کی تیاری میں ایک
اور ہی لذت ہو گی ، ایک شو ق ہی نہ ہو گا ، ایک محبوب مقصد بھی ہم سفر ہو
گا اور زند گی بھر کے لیے اخلا ص نیت بھی ہم رکاب ہو گا ۔
۲۔زادِراہ :۔ تقوی
نیت کے بعد سفر حج کی تیاری شروع ہو گئی ۔سفر طو یل ہے ،پُر مشقت ہے ،کئی
دنوں کے لیے خر چہ ،کھا نا ،لبا س ،بستر ،چٹا ئیاں ہر چیز مطلوب ہے ۔تمام
جسمانی ضرور یات کی فہر ست بنتی ہے۔جو انسا نی ضرورت ہیں ،(اس کے بغیر
گزارہ نہیں )لیکن حج تو انو کھا سفر ہے یہ تو اللہ کی طرف جا نے والا سفر
ہے ۔اللہ خو د ہی بتا تا ہے اس کے لیے کیا زادِراہ لو ۔
و تز ود و ا فان خیر الزادِ التقوٰی ز واتقون یٰٓا ولی الالباب ہ (سور ة
البقر ہ : 197 )
”سفر حج کے لیے زادِراہ ساتھ لے لواور بہتر ین زادِراہ تقویٰ ہے ۔ پس اے ہو
شمندو ! میری نا فر مانی سے بچو ۔“
اس آیت پر غور فر مائیے حج کا سا مان ِسفر تقویٰ ہے یعنی اللہ کی نا فر
مانی سے بچنے کا عزم، اللہ کا وہ خوف جو سفر و حضر ، تنہا ئی و محفل ہر جگہ
گناہ سے ر و ک دے ۔
حج وہ عبادت ہے جس میں انسان کا وا سطہ عام طور پر چا لیس دن ،دوسر ے انسا
نوں کے جم غفیر سے رہتا ہے اور با ہمی معا ملات میں اگر اللہ کا خوف اور
صبر کا جذبہ نہ ہو تو لڑا ئی جھگڑا اور فساد بر پا ہو سکتا ہے ۔قر آن کر یم
میں جہاں کہیں بھی با ہمی معا ملات سے متعلق بیان آیا ہے وہاں تقویٰ کی تا
کید ضرور آئی ہے ۔ مثلا ً سورة بقرہ میں جہاں عا ئلی قوا نین کا ذکر آتا ہے
تقر یبا ً ہر آیت کا اختتام ’تقویٰ ‘ کی تاکید پر ہو تا ہے ۔سورة النسا ءجس
میں ورا ثت نکاح و دیگر قوا نین بیان کیے گئے ہیں اس کا آغا ز ہی تقویٰ کی
تا کید سے ہو تا ہے ۔آج کی انسا نیت ، عدم بر دا شت کی وجہ سے جس فساد ،معا
شر تی انتشار اور بڑ ھتے ہوئے گھر یلو اور معا شر تی لڑا ئی جھگڑوں سے دو
چار ہے اسکی بڑی وجہ خشیتِ الہی کا اٹھ جا نا ہے ۔اگر ہر انسان اپنے اپنے
مقا م پر اللہ سے ڈر کر دوسروں سے معا ملہ کر نے والا ہو تو گھر اور معا
شرہ دو نوں انتشار سے بچ کر ، اتحاد اور امن کی راہ پر آسکتے ہیں ۔”تقویٰ “
اسلامی قو انین کی قوت نا فذہ ہے اور ”احسان“ اسلامی معا شرے کا حسن ہے اس
لیے حج جیسی اجتماعی عبادت میں بہتر ین زادِ راہ تقویٰ کو قرار دیا اس لیے
بھی کہ حج کا حسن اس میں ہے کہ فلا رفث ولا فسوق ولا جدال فی الحج یعنی
دوران حج فسق و نا فر مانی اور با ہمی جنگ و جدل اور لڑا ئی جھگڑے سے بچنے
کے لیے ’تقویٰ ‘ کا ہو نا ضروری ہے ۔
: وتزودوا فان خیر الزاد التقوٰی۔ زادِراہ لے لو اور بہتر ین زادِراہ تقویٰ
ہے ۔اب یہ تقویٰ کہاں سے ملے گا ؟ اسکی دکان کو نسی ہے ؟ خشیت الہیٰ کہاں
سے ملتی ہے ؟ اللہ فر ماتا ہے ۔”انما یخشی اللہ من عبادہ العلمآء۔“علم ر
کھنے والے اللہ سے ڈرتے ہیں ۔لہذا تقویٰ کا حصول علم سے ممکن ہے ۔اسے ہم حج
کی علمی تیاری بھی کہہ سکتے ہیں ۔حج سے قبل با لکل ایسے ہی تیاری کر نا ہم
پر فر ض ہے جیسے دوسری ضروریات کی تیاری ہم کر تے ہیں ۔قرآن ،حدیث لٹر یچر
سے حج کی تفصیلا ت جا ننا ۔تمام مطلوب جزئیات کا علم حا صل کر نا اس کے
ساتھ ساتھ وہاں پیش آنے والے تمام ایسے معا ملات جنکی وجہ سے کوئی گناہ
،شہوانی فعل یا باہم جھگڑے کی نو بت آسکتی ہے اس کو جا ننا ۔اس لیے کہ حج
ایسی عبادت ہے جو روز روز ممکن نہیں زند گی میں ایک دو مر تبہ موقع ملتا ہے
(سوائے اہل ثر وت کے ) چنا نچہ یہ معلوم کر نا ضروری ہے کہ تمام افعالِ حج
میں تقویٰ کا مقام کیا ہو گا ۔سفر حج کے آغا ز سے لے کر طوافِ وداع اور
حاضری مدینہ منورہ تک !اس مقصد کے لیے حج پر جانے سے کئی ماہ قبل یہ تیاری
شروع ہو جانی چاہیے ۔ قرآن و حدیث کے ان منتخب حصوں کا مطا لعہ جو حصولِ
تقویٰ میں معاون ہوں ،نمازوں میں خشوع (جو یوں بھی ہر وقت مطلوب ہے ) کے
لیے سنجیدہ عملی کو شش کر نا ، قر آن کے کچھ حصے یاد کر نے کی کو شش کر نا
کیو نکہ دوران حج ’ذکر‘ کی تا کید بار بار کی گئی ہے ۔ حج کی عبادت کی
اہمیت ،للہیت اور اللہ کے در پر حا ضری کا استخصار یعنی اس کو اپنے اوپر
طاری کر کے ایک کیفیت اپنے اندر پیداکر نے کی کو شش کر نا تا کہ صحیح معنوں
میں اس حاضری کو محسوس کر کے وہ جذبہ بیدار کیا جا سکے جو وہاں مطلوب ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو جاننا بہت ضروری ہے کہ عبا دات میں تقویٰ کیا ہے
۔لباس میں تقویٰ کیا ہے (خصوصا ً خواتین کے لیے ) معاملات میں تقویٰ کیا ہے
؟ مسجد میں حا ضری اور مسجد کے آداب میں تقویٰ کیا ہے ؟ نبی کر یم ﷺ کے رو
ضہ مبار ک اور آپﷺ کے در پر حا ضری میں تقویٰ کے تقا ضے کیا ہیں ؟ یہ بہت
ضروری ہے کیو نکہ اللہ جو بہت کر یم ہے اس نے حج کے احکامات میں بار بار
تقویٰ کی تعلیم دی ہے بعض مقا مات پر بڑی سخت آیات ہیں مثلا
” واتقوا اللہ واعلموا ان اللہ شدید العقاب ۔“ (سورة البقرہ: 196 )۔
” اللہ کے ان احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خو ب جان لو کہ اللہ سخت سزا
دینے والا ہے“
” واذکروا اﷲ فی اےام معد و دات ط۔۔۔۔۔۔ لمن اتقٰی ط واتقوا اللہ واعلموا
انکم الیہ تحشرون“۔ ” ےہ گنتی کے چند دن ہےں ، ان کو اﷲ کی ےاد مےں بسر
کرو، ۔۔۔۔۔۔۔۔بشر طیکہ یہ دن اس نے تقویٰ کے ساتھ بسر کیے ہو ں ۔ اور اﷲ کی
نا فر مانی سے بچو اور خوب جان ر کھو کہ ایک رو ز اس کے حضور میں تمھاری
پیشی ہو نے والی ہے ۔“ (سورة البقرہ : 203 )
لہٰذا اللہ کے غضب سے بچنے کے لیے حج پر جانے سے قبل ذہنی اور علمی تیاری
ضروری ہے ۔ لیکن اگر سارے منا سک حج ادا کر لیے ۔نہ دل کی کیفیت بد لی ،نہ
خشیت الہیٰ پیدا ہوئی ،نہ حج سے آکر افعال بد لے (نہ تو بہ و انا بت کی
کیفیت پیدا ہوئی ) تو گو یا صرف جسمانی حج کیا ۔عملاً کوئی تر بیت حا صل نہ
کی ۔ پھر یہ عبادت نہیں بلکہ عا دت کی تکمیل ہے ۔اور ایسے حجاج بھی نظر آتے
ہیں جو ہر سال حج کر تے ہیں لیکن نہ حرام ذرائع آمدن چھوڑتے ہیں نہ دیگر
قبیح افعال ۔نہ عورتیں حج سے آکر لباس و عادات میں تبد یلی کر تی ہیں ، نہ
زند گی کے معاملات میں ! لہذا یہ صرف بد نی حج ہے یہ عبادت کی بجائے عادت
ہے عملا ً تو اس تر بیت گاہ سے کچھ بھی سیکھ کر نہ نکلے ۔نا لا ئق طا
لبعلموں کی طرح بس کلاس میں حا ضری لگوائی سبق نہ دل سے پڑھا نہ سیکھا !
سفر حج شوق و صبر ساتھ ساتھ :۔
سفر حج وہ مبار ک سفر ہے جس کا آغا ز بہت شوق اور محبت سے ہو تا ہے ۔آنکھوں
میں بیت اللہ اور حرم نبوی ﷺ کے دیدار کی پیاس ،دل میں شوقِ ملا قات کا
ولولہ اور عمر بھر کے گناہ معاف کرانے کی تڑپ موجزن ہو تی ہے ۔لیکن یہ سفر
پُر مشقت سفر ہے ۔اس لیے حج کا ثواب بھی اسی وقت شروع ہو جا تا ہے جب حا جی
اپنے گھر سے سفر کا آغا ز کر تا ہے ۔ پیارے نبی ﷺ کے فر مان کے مطا بق
”حضرت ابو ہر یرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا ،” جو شخص حج
یا عمرہ یا جہاد کے ارادے سے نکلے اور اسے راستے میں ہی مو ت آجائے تو اللہ
تعالیٰ اسے غا زی ،حا جی یا عمرہ کر نے والے کا ثواب عطا فر ما تا ہے “
(مشکوة المصابیح ،کتاب المنا سک ،الفصل الثا لث)
حاجی کیمپ سے لے کر واپسی پر جدہ ایر پورٹ تک پورا سفر ایک طویل انتظار اور
تھکن سے بھر پور ہوتا ہے اور یہ بھی حج کے تر بیتی پہلو کا ایک جز ہے۔ صبر
و بر داشت کی تر بیت کا آغا ز گھر سے نکلتے ہی ہو جا تا ہے گھنٹوں
قطاروںمیں لگنا ،بسوں میں بیٹھے رہنا ،سردی ہو یا گر می ،بھو ک پیا س
برداشت کر نا ،یہ سب اللہ تعالیٰ کی منشا ءہے ۔اب تو بلکہ سفر بھی آسان ہیں
اور حج کے سفر کا دورا نیہ بھی کم ہے آج سے صرف ستر اسّی سال قبل بھی حج
اتنا آسان نہ تھا ،ہمارے بزرگ حج پر جا تے اور چھ ما ہ بعد لو ٹتے
تھے۔سعودیہ تک بحری جہازوں سے سفر اور مکہ اور مد ینہ کے درمیان اونٹوں پر
اور پیدل سفر ہو تا تھا اور یہ سب حج کا جز تھا ۔اللہ تعالیٰ دانستہ اپنے
پیارے بندوں اور مہمانوں کو ایک مشقت سے گزارتا ہے ان کے اندر کچھ خصوصیات
پیدا کر نا چا ہتا ہے جو کسی بڑے کام کے لیے مطلوب ہیں ۔ اولین صفت للہیت
،پھر تقویٰ اور اس کے بعد شوق ملا قات اور صبر ساتھ ساتھ ۔ (جاری ہے ) |